کوٹ رادھا کشن میں مسیحی میاں بیوی کا بہیمانہ قتل: اصلاح کے لیے کریڈٹ لائن ضروری ہے – عمار کاظمی
posted by SK | November 6, 2014 | In Featured, Original Articles, Urdu Articlesکلارک آباد ہمارے گاوں کے قریب ہی ہے اور یہ پورا قصبہ مسیحی آبادی پر مشتمل ہے۔ میری نظر میں مسلمانوں کے تمام مسالک میں ایک دوسرے سے مختلف خامیاں اور خوبیاں ہیں۔ جس مسلک کی جہالت کے نتیجہ میں کلارک آباد کے مسیحی میاں بیوی جلاءے گءے اسی کے حوالے سے بات کرنی چاہیے۔ تمام مسلمانوں کو اس کی لپیٹ میں لینا منساب نہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ توہین کا قانون کس مکتب فکر کے لوگوں کے نذدیک زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا تکفیر کے بہانے کون زیادہ قتل و غارت کرتا ہے۔ تبرا یا توہین اپنے اثرات کے حوالے سے کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں۔ بعض شیعہ تبرا کرتے ہیں مگر وہ لوگ جو تبرا کا بہانہ بنا کر شیعہ کو قتل کرتے ہیں وہ تکفیری فتوی سے بریلوی اور دیگر اقلیتوں کا قتل بھی کرتے ہیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں نواءے وقت اور ڈان اخبار کی تحقیقاتی رپورٹس بہت ہی کمزور ہیں۔ ان میں ان مساجد کے مکتب فکر یا فرقے کا ذکر نہیں کیا گیا کہ جن سے اعلانات ہوتے رہے۔ تاہم میاں بیوی کو کمرے میں قید کرنے والے بھٹہ مالک کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ گجر برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ کلارک آباد کے ارد گرد کی گجر آبادی کی اکثریت یا اہلحدیث ہے یا دیوبند مکتب فکر سے منسلک ہے۔ تاہم مساجد کے اعلانات اس ضمن میں زیادہ اہم ہیں۔ لہذا جن مسالک کی مساجد سے یہ اعلانات ہوتے رہے ان کا نام بھی منظر عام پر آنا چاہیے اور انھیں اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیے۔ حملہ آوروں کی تعداد پندرہ سے اٹھارہ سو کے قریب بتاءی جا رہی ہے۔ لہذا کوءی بھی مسلک اتنی بڑی تعداد میں حملہ آور ہونے والوں سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کر سکتا۔ کہیں تعلیمات میں کچھ کوتاہی ہے تو اس کا اعتراف اور ازالہ کیا جاءے ورنہ ذمہ داری قبول کی جاءے۔ کسی ایک گروہ کی کوتاہی کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو اس کا قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ خود کُش دھماکے اور گردن زنی کوءی کرتا ہے اور بدنامی مشترکہ طور پر تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے جبکہ انہی کے ہاتھوں دیگر مسلمانوں کا قتل عام بھی جاری و ساری ہے۔ سر قلم کر کے وڈیوز اپلوڈ دیوبند طالبان اور داعش والے کرتے ہیں مگر روشک خیال حضرات رگڑا تمام مسلمانوں کو لگا دیتے ہیں۔ جس کا جو گناہ ہو اسی کے کھاتے میں ڈلنا چاہیے۔ اگر ہم واقعی اپنے معاشرے میں سدھار چاہتے ہیں تو ہمیں گوروں کی مرتب کردہ کتابی صحافت کی اخلاقیات سے نکل کر مکمل حقیقت بیان کرنا ہوگی۔ اصلاح کے لیے کریڈٹ لاءن ضروری ہے۔ کریڈٹ لاءن ہوگی تو لوگ اپنی ذمہ داری بھی محسوس کریں گے۔ ورنہ ہر کوءی ہر بار کی طرح خالی مذمت سے کام چلا لے گا۔
I do not buy this argument. Why don’t Shiites and Barelvis/Sufis start a movement for annulment of the blasphemy laws? The truth is Barelvis also have a very extremist view regarding blasphemy which is very close to Takfiri inclinations of Deobandis. Bralvis openly celebrated the killing of Salman Taseer. As for Shiites, they unfortunately remain a persecuted minority in Pakistan, which is often unable unable to speak for itself.
Frankly, the view being propounded overhere is more of an apology on part of seemingly moderate schools within Islam.
Ammar Kazmi:
یہ وسطی پنجاب کا علاقہ ہے اور یہاں کے گاوں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ آبادی والے ہیں۔ یہاں ایک اوسظ گاوں کی آبادی پندرہ سے بیس ہزار تک ہو سکتی ہے۔ لہذا تین گاوں سے ایک مسلک کے پندرہ سو دوہزار لوگوں کا اکٹھا ہونا کوءی معیوب بات نہیں ہوگی۔ جن مساجد سے یہ اعلانات ہوءے ان کے امام 302 کے مقدمے میں گرفتار ہونے چاہیءں۔ تاہم یہ کن مسالک کی مساجد تھیں اس کی نشاندہی بھی اب اس لیے ضروری ہوگءی ہے کہ بہت سے جراءم کو اجتماعی قبر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ نشاندہی ہوگی تو لوگ اپنا محاسبہ کریں گے ورنہ تو ٹی وی پر بیٹھ کر تمام مسلاک کے علما خود کو اور اپنے مسالک کے لوگوں کو امن کا پیغمبر ثابت کرتے رہتے ہیں
Muawiya Marxists and blaspehmous Shias – by Riaz Al-Malik Hajjaji – See more at: https://lubp.net/archives/326646
کوٹ رادھا کشن (تحقیقاتی رپورٹ: احسان شوکت سے) کوٹ رادھا کشن کے نواحی گائوں میں مسیحی جوڑے کو مبینہ طور پر مذہبی اوراق کی بے حرمتی کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کانشانہ بنانے کے بعد بھٹے میں ڈالنے کے واقعہ میںقانون نافذ کرنیوالے اداروں کی نااہلی اور ناکامی کے علاوہ بعض انسانیت سوز پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ نوائے وقت کی تحقیقات کے مطابق چک نمبر 59 کے نزدیکی علاقہ کلارکہ آباد کے رہائشی ناظر مسیح کے 6 میں سے 3 بیٹے اپنے اہل خانہ کے ساتھ یوسف گجر کے اینٹوں کے بھٹے پر گزشتہ 18 سال سے کام کرتے اور وہیں ملحقہ کچے مکانوں میں رہائش پذیر تھے۔ منگل کو ناظر مسیح کا انتقال ہوگیا۔ دو روز قبل پیر کی دوپہر ناظر کے بیٹے تین بچوں کے باپ 27 سالہ شہزاد مسیح اور 24 سالہ شمع نے اسکے کمرے کی صفائی کی۔ کمرے سے نکلنے والے کاغذات اور دیگر سامان پرانے کپڑے گھر سے باہر لاکر نکڑ پر واقع ’’روڑی‘‘ گندگی کے ڈھیر پر لاکر نذر آتش کردیئے۔ ناظر تعویذ دھاگے وغیرہ کا بھی کام کیا کرتا تھا۔ مبینہ طور پر نذر آتش کئے جانیوالے ان کاغذات میں مقدس کاغذات بھی شامل تھے جس پر بھٹہ منشی افضل، مالک یوسف گجر کا بھتیجا شکیل (جو وہیں کام کرتا تھا) اس نے اور ایک ملازم رمضان نے شہزاد مسیح اور اسکی بیوی کو گالی گلوچ کیا اور یوسف گجر کو شکایت کی۔ اس دوران منشی افضل اور شکیل وغیرہ نے مقامی لوگوں کو بھی انکے خلاف اکسایا جس کے بعد یوسف گجر نے دونوں میاں بیوی کو زبردستی گھر سے اٹھایا۔ انہیں کہا کہ وہ ایڈوانس میں لیا گیا 5 لاکھ روپے واپس کریں اوریہاں سے فرار ہوجائیں۔ شہزاد وغیرہ نے یوسف گجر سے ایک لاکھ 90 ہزار روپے لے رکھے تھے باقی پیسے اسکے دوسرے بھائیوں نے لئے تھے۔ شہزاد نے کہا کہ فی الوقت وہ رقم ادا نہیں کرسکتا جس پر یوسف نے دونوں میاں بیوی کوبھٹے کے ساتھ واقع ایک کمرے میں قید کردیا اور کہا رقم نہ دینے تک وہ یہاں بند رہیں گے۔ منگل کی صبح سویرے یہ خبر علاقے میں پھیل گئی کہ دونوں میاں بیوی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی جس کے بعد مقامی 5 گائوں چک 60، بھیل، روسہ بھیل، نواں پنڈ اور ہٹریاں کی مساجد میں اعلانات کرکے لوگوں کو اشتعال دلایا گیا۔ اس کے بعد 15 سو سے 18 سو تک مشتعل لوگ بھٹہ پر آگئے۔ انہوں نے بھٹہ مالک کو دونوں میاں بیوی حوالے کرنے کیلئے کہا مگر مالک نے انہیں دینے سے انکار کردیا۔ اس دوران مقامی لوگوں نے 15 پر کال کرکے پولیس بھی بلالی مگر وہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ مشتعل ہجوم لکڑی کے بالوں اور سرکنڈوں سے بنی کمرے کی چھت پھاڑ کر اندرداخل ہوا، باہر سے دروازہ بھی توڑا۔ دونوں میاں بیوی کو باہر نکالا جس کے بعد مشتعل ہجوم نے شہزاد اور شمع کو خوب تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہیں ڈنڈوں، اینٹوں، مکوں اور ٹھڈوں سے نشانہ بنایا۔ انکے دونوں ہاتھ رسیوں سے باندھ کر ٹریکٹر کے پیچھے باندھ دیا۔ اسی دوران انکے بچے 6 سالہ بیٹا سلمان، 4 سالہ بیٹی سونیا اور ڈیڑھ سالہ بیٹی پونم بلک بلک کر روتے رہے۔ شیرخوار بچی پونم رات سے ہی ماں کا دودھ نہ ملنے پر بلک بلک کر رو رہی تھی، سلمان اور سونیا ماما پاپا پکار رہے تھے۔ اس دوران شہزاد کے دوبھائی شہباز اور سلیم لوگوں کے خوف سے اپنے اہل خانہ سمیت فرار ہوگئے تھے جبکہ بے چارہ اقبال ایک کمرے میں چھپ گیا۔ اس دوران 6 پولیس اہلکار موقع پر پہنچے جنہیں ہجوم نے دھکے دیئے اور مزاحمت کی جس پر پولیس اہلکار بھی خاموش تماشائی بن گئے۔ مشتعل ہجوم نے میاں بیوی کے کپڑے پھاڑ کر انہیں برہنہ کیا۔ ٹریکٹر کے پیچھے باندھ کر انہیں گھسیٹتے ہوئے دوچکر لگوائے۔ تشدد سے شہزاد نیم مردہ حالت میں تھا جبکہ اسکی بیوی شمع شدید زخمی تھی۔ ہجوم نے پہلے شہزاد کو جب اسکے سانس باقی تھے اینٹیں پکانے والے بھٹے کے اوپر سے اینٹیں اٹھا کر دہکتی آگ پر پھینکا۔ ہجوم نے اس پر رضائی ڈال دی اور اس پر اینٹیں اٹھاکر لانے والی لوہے کی ریڑھی پھینک دی جس سے شہزاد دب گیا اور جھلس کر کوئلہ بن گیا۔ اسکی بیوی چار ماہ کی حاملہ شمع شدید زخمی حالت میں کراہتی رہی۔ ہجوم نے اس عورت کو بھی نہ بخشا اور اسے بھی اس وقت شوہر کے ساتھ بھٹی میں لٹا دیا جبکہ اسکے بھی ابھی سانس باقی تھے۔ پولیس کی بھاری نفری بھی موقع پر پہنچی مگر اس وقت تک لوگ گھروں کو واپس جاچکے تھے۔
Blasphemy law, terrorism and Deobandi atheists – Abdul Nishapuri
————————————————————-
Deobandi atheists, as expected, are bashing all Muslims for acts of violence by Deobandi and Salafi Wahhabi bigots and a few ordinary Sunnis brainwashed by such hate ideologies. By bashing all Muslims and all religions, Deobandi atheists and secular sectarians are actually placing the perpetrators of violence (Deobandis, Wahhabis) in the same basket along with the their victims (Shias, Sunni Sufis, Barelvis, Ahmadis, Christians etc).
Shaheed Salmaan Taseer said that the blasphemy law must be amended to stop its misuse. However, terrorism is an issue much wider than law.
Deobandi fanatics who killed a Shia Muslim in Gujrat and Christian couple in Kot Radha Kishan actually violated the blasphemy law. #Fact
The Deobandi and Wahhabi Salafi hate ideology has brainwashed some ordinary Sunni Muslims too converting them into violent bigots.
Blasphemy law is a tiny issue. It is the Deobandi and Wahhabi ideology which is responsible for these acts of violence in the name of Islam.