عاشور، اجتماعی شعور، دیومالائیت، الحادی فرقہ پرستی اور وہابی دیوبندی خالصیت
نوٹ : یہ آرٹیکل عامر حسینی نے اپنے بلاگ پر لکھا، جسے ہم شکریہ کے ساتھ شایع کررہے ہیں
ابھی کل کی بات ہے کہ میں محرم کی مناسبت سے اپنی کچھ یادوں کو ترتیب دے کر ایک رپورتاژ لکھنے کا ارادہ باندھ رہا تھا کہ مجھے پاکستانی ملحد ایکٹوسٹ علامہ ایاز نظامی کا ایک ٹویٹ پڑھنے کو ملا جس میں انھوں نے عزاداری اور ماتم کو ایک وحشیانہ اور تہذیب سے عاری فعل قرار دے ڈالا – اس کے علاوہ ایک بہت ہی معلوماتی گروپ ہے فری تھنکررز جہاں پر تاریخ میں مذھبی روایات، الہامی کتب اور دیگر مقدس کتابوں کے متن پر بحث کی جاتی ہے اور اکثر اوقات مذھب سے ٹریٹمنٹ خاصی معاندانہ بھی ہوجاتی ہے، اب ایسے لگ رہا ہے جیسے ایک جنگ مذھب کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے – اس گروپ میں زیادہ تر لوگ اسلام کو ترک کرکے الحاد کی جانب آئے ہیں تو اسلام اور اس کے مختلف مکاتب فکر ہی زیادہ تر اس معاندانہ مہم کی زد میں آتے ہیں
سوشل میڈیا پر ایک صاحب علامہ ایاز نظامی کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک مدرسے میں بقول ان کے پڑھتے رہے اور وہیں سے وہ آخرکار ملحد ہوگئے، ان کی تحریریں جب میں نے پڑھنا شروع کیں تو مجھے ایسے لگا جیسے میں علامہ تمنا عمادی، مولانا اسد، غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر داؤد اور محمود عباسی اور ان کے شاگردوں کی مجلس میں آگیا ہوں اور مجھے فری تھنکر گروپ اس فکر کی لہر کو ازسر نو زندگی بخشنے والا لگا جوکہ ہمارے ہاں کبھی کالج، یونیورسٹی کے اندر عقلیت پسندوں کی شکل میں سامنے آیا تھا اور یہ رجحان مصر سے چلا تھا جہاں پر طہ حسین ، ڈاکٹر امین مصری سمیت ایک بہت بڑا مکتبہ فکر ایسا سامنے آیا تھا جس نے پہلے تو حدیث ، تاریخ اور مسلم تاریخ کے اکثر کرداروں اور واقعات کو غیر مستند، فرضی قصّے کہانیاں کہہ کر رد کردیا تھا اور پھر ان میں سے کچھ اس سے بھی آگے گئے اور انھوں نے خود قرآن کے متن کو بھی دیگر کتابوں سے ماخوذ قرار دے ڈالا تھا
مسلم متداول تاریخ اور کتب حدیث کی صحت بارے مستشرقین نے بھی خاصے تشکیک بھرے مواد کو پھیلایا اور ان کا بھی اثر اس عقلیت پسند گروپ پر پڑا – پاکستان کے اندر اس مہم سے سب سے زیادہ دیوبندی اور وہابی پس منظر رکھنے والے لوگ متاثر ہوئے اور انھوں نے اس فکر کو باقاعدہ منضبط کرنا شروع کیا – دیوبند میں مولوی عبداللہ چکڑالوی، مولوی حسین بھچرواں، مولوی غلام اللہ خان بانی جامعہ تعلیمات قرآن راولپنڈی، تمنّا عمادی، محمود عباسی سمیت بہت سارے لوگ اسی فکری لہر سے وابستہ تھے
ایک اور بات جو اس نام نہاد عقلیت پسند گروپ میں مشترکہ ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے جہاں تصوف سے جڑے کلچر کو اور اس سے پیدا ہونے والے تنوع کو عجمی قرار دیکر مسترد کیا، وہیں ان کی جانب سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، اور دیگر آئمہ اہل بیت کی جانب بھی سخت معاندت دیکھنے کو ملی اور ان کے ہاں بنو امیہ کو ترجیح دینے کا رجحان بھی طاقتور نظر آیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں معرکہ کربلا کو جھٹلانے، یزید کی حمائت کرنے، اس کے لیے جواز تلاش کرنے کا رجحان بھی بہت طاقتور نظر آیا
میں ایسے مارکسسٹوں سے بھی ملا جوکہ قرون وسطی کی مسلم تاریخ میں علی اور معاویہ کی لڑائی کو قبائلی جمہوریت بمقابلہ ملوکیت کے تناظر میں دیکھتے اور یہ ثابت کرتے کہ پیداواری قوتوں کی ترقی کی وجہ سے قـبائلی جمہوری نظام مسلم دنیا میں چل نہیں سکتا تھا اور اس کی جگہ ملوکیت نے لی جو اس سے زیادہ ترقی پسند تھا اور وہ بنو امیہ والوں کو زیادہ ترقی پسند قرار دیتے اور علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو ایک رجعتی اور ازکار رفتہ نظام کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے والا قرار دیتے اور آپ کی سیاست کو ناکام سیاست بھی کہتے تھے
اس لیے مجھے اس وقت بھی حیرانی نہ ہوئی جب ایک مرتبہ پھر محمود عباسی کی کربلا کے قصّے کو جھوٹ قرار دینے والی تحقیق کو پھر سے زندہ کیا گیا، یہ کتاب جنرل ضیاء الحق کے دور میں شایع ہوئی اور پھر جب اس پر شدید احتجاج ہو تو اس پر پابندی لگ گئی ،محمود عباسی جو کہ کٹر دیوبندی اور مماتی دیوبندی گروپ کہلاتے تھے جوکہ برزخی حیات کے قآئل نہ تھے نے واقعہ کربلا کو سرے سے جھوٹ قرار دیا، انھوں نے تین دن بھوکے ، پیاسے رہنے کو ماننے سے انکار کردیا اور یہ بھی کہا کہ حسین اصل میں عراق آئے ہی نہیں تھے اور محمود عباسی سے جتنے بھی لوگ ملے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ محمود عباسی کو نہ صرف حسین سے چڑ تھی بلکہ پوری آل ابی طالب سے اسے کوئي اللہ واسطے کا بیر تھا اگر اس کے بیر اور دشمنی کی کہانی کا احوال پڑھنا ہو تو مولانا صائم چشتی کی کتاب ” ایمان ابی طالب ” کی دو جلدیں پڑھنا کافی ہوں گی
پاکستان میں سن ستر اور اسی کی دھائی میں محمود عباسی، تمنّا عمادی اور مولوی طاہر کی تحریروں نے ایک اودھم مچا رکھا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت المعروف بریلویوں کو بھی میدان میں اترنا پڑا اور یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا، وہ وہابی و دیوبندی جو تاریخ اسلام کے ہر اس واقعے اور قصّہ کو رد کئے جانے پر بہت خوش تھے جس سے بنو امیہ پر زد آتی تھی جب معاملہ صحاح ستّہ اور نفس حدیث تک جاپہنچا تو پھر ان کو ہوش آنے لگا اور ان سے اظہار برآت بھی کرنے کی فکر پڑی ، یہ معاملہ یہاں میرا موضوع نہیں ہے کیونکہ اس زمانے کے اندر اس موضوع پر بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں اور دوبارہ غائب ہوگئیں
آج پھر ایسی کوششیں ہورہی ہیں اور الحاد کے نام پر ایسی کوششیں کرنے والوں کی جانب سے بظاہر تو یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں کسی مذھب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، نہ ہی وہ کسی فرقے کے اثبات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور میں یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ کہتے بھی ٹھیک ہیں لیکن مسئلہ ان کے لاشعور میں جاگزیں اس نفرت اور اس نفی کی شدت کا ہے جو وہ کبھی عقلیت پسندی اور اصول درائت کے نام پر شیعت، تصوف اور تاریخ اسلام سے ابھرنے والے کلچر کو ایرانی ، مجوسی اور نہ جانے کیا کیا بنیاد دیکر روا رکھتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کہ وہ ملحد ہوگئے اور مذھب کی اساس کے انکاری ہیں لیکن وہ مڈل ایسٹ، جنوبی ایشیا میں کلچر، تہذیب کے سوال کو سیکولر انداز سے لینے اور ہمارے ہاں محرم ، عید میلاد النبی ، شب برآت ، عرس ، میلے ٹھیلے اور ان سے جڑی رسموں ، رواجوں اور کلچرل رنگا رنگی کو اس طرح سے لینے کو تیار نظر نہیں آتے جیسے وہ دیوالی کو لیتے ہیں، کرسمس کو لیتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ دیوبندی تکفیری عزاداری کو فرقہ پرستانہ بنیادوں پر بند کرانا چاہتا ہے اور سابقہ دیوبندی موجودہ ملحد، عاشور کے جلوس کو چاردیواری میں قید کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو ایاز نظامی اور ان کے جیسے اور بہت سارے لوگ جو ملحد، سیکولر، لبرل یا مارکسسٹ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان چیزوں کو وحشیانہ ، تہذیب سے عاری معاشی ترقی میں رکاوٹ قرار دیکر ان کو چاردیواری میں قید کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن مجھے ان کی یہ تنقید بربنائے عقلیت پرستی ، الحادیت کی بجائے ان کے لاشعور میں بیٹھی نفرت پر مبنی لگتی ہے جو انھوں نے شعیت ، بریلویت اور صوفی اسلام وغیرہ کو اسلام میں ایک اجنبی، ایرانی ، عجمی سازش قرار دینے والے دنوں میں گزارا اور اس کا آظہار ایسے ہی وہ اب الحادیت ، سیکولر ازم اور روشن خیالی کے نام پر کرتے ہیں
پاک و ہند کے عظیم اور بڑے روشن خیال اشتراکی، لبرل، ترقی پسندوں کا یہ وتیرہ کبھی نہیں رہا ہے – سب کو معلوم ہے کہ فیض احمد فیض ، صفدر میر ، دادا فیروز الدین منصور، کامریڈ احسان اللہی قربان یہ لاہور میں ایام محرم میں حویلی نثار لاہور آیا کرتے تھے اور جبکہ نویں اور دسویں محرم کے جلوسوں میں شریک بھی ہوتے تھے ، ان سے جب اس حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اسے کلچرل معاملہ قرار دیتے تھے اور یہی حال سجاد ظہیر، سبط حسن ، مظفر علی، احمد علی، آپا رشید جہاں، علی سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، دادا امیر حیدر ، کامریڈ ڈانگے وغیرہ کا تھا اور آج بھی سی پی آئی مارکسسٹ اور سی پی آئی ، سماج واد پارٹی وغیرہ کے کامریڈ عید ، عاشور ، شب برآت ، دیوالی اور دیگر تہواروں ، عرس خواجہ اجیمر جشتی ، خاجہ نظام الدین اولیاء وغیرہ میں شرکت کرتے ہیں اور اسے ہندوستانی کلچر کی سیکولر بنیادوں کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں اور انھوں نے کبھی کوئی سیکولر وہابیانہ ، پیورٹن تحریک ان سب کے خاتمے کے لیے نہیں چلائی اور نہ ہی کبھی عقلی ، سائنسی اور مذھبی بنیادوں سے ان کلچرل ریتوں اور معاشرے میں پائی جانے والی مائتھولوجی کو رفیوٹ یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور کلچر کی طرف ایس طرح سے اپروچ کرنا ایک اور طرح کی بنیاد پرستی ہے اور اس کا فری تھنکنگ ، آزاد خیالی سے رشتہ کم اور اپنے لاشعور میں بیٹھی نفرت کا اظہار زیادہ ہے
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جیسے مغرب میں وہابی دیوبندی فاشزم کے ردعمل میں اسلامو فوبیا سامنے آیا ہے ، ایسے ہی ہمارے ہاں بھی شیعہ فوبیا بہت پایا جاتا ہے اور شیعہ فوب صرف مذھب پرستوں میں ہی نہیں پائے جاتے یہ ملحدوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہ اینٹی مائتھولوجیکل عقلیت پسندی کے راستے سے اپنے شیعہ فوبیا کا اظہار کرتے ہیں
مجھے کلچرل لہروں کے سفر میں محرم کی وہ راتیں یاد ہیں جب حویلی نثار میں اہل تشیع کم اور اہل سنت کے نوجوان مرد و عورتیں زیادہ نظر آتی تھیں اور کراچی میں بھی یہی معاملہ تھا اور آج بھی اگرچہ پہلے سے ذرا کم یہ سلسلہ جاری ہے اور ایک مائتھولوجیکل لہر اپنے کلچر میں رواں دواں نظر آتی تھی جس کا اثر اب پاکستان میں مسلسل پھیلنے والے شیعہ و تصوف فوبیا کی وجہ سے کم ہوتا نظر آتا ہے
میں اس حوالے سے خاصا پریشان تھا اور اس دوران یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اس حوالے سے جب بھی کوئی بات کرنے کی کوشش ہو تو ایسے بہت سے لوگ آن لائن موجود ہیں جو فوری طور پر آپ کو فرقہ پرست ، رجعتی اور نہ جانے کیا کچھ کہنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں
پاکستان میں شیعہ نسل کشی ، شیعہ فوبیا ، صوفی سنّیوں اور تصوف سے ابھرنے والے کلچرل مقامات پر حملے ایک حقیقت ہیں لیکن ایسے ٹھگ موجود ہیں جو ایک طرف تو اسے دو فرقوں کی باہمی جنگ بناکر پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ ان حملوں کے زمہ دار دیوبندی وہابی تنظیموں کے لیے جواز ڈھونڈتے ہوئے فرضی طور پر شیعہ اور صوفی سنّی یا بریلوی ملیشیاؤں کا وجود پاکستان میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، میں ردعمل میں شیعہ کے اندر یا صوفی سنیوں میں انفرادی طور پر غیر منظم تشدد اور دھشت کے اظہار اور مظاہرے کا انکار پاکستان میں نہیں کرتا لیکن اس انفرادی اور انتہائی شاز و نادر و انتہائی غیر منظم اطءار دھشت و انتہا پسندی کو اگر وہابی دیوبندی تکفیری فسطائی منظم دھشت گردی اور نسل کشی کرنے کے فعل کے برابر ٹھہرایا جائے تو یہ سوائے شیعہ فوبیا کے شکار ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
خیر یہ سب تو چلتا ہی رہے گا ، واقعہ کربلا اور شہادت حسین یہ سب ایک مائتھولوجی کے طور پر جنوبی ایشیا ، مڈل ایسٹ کے معاشروں اور سماج کا حصّہ بن گئے ہیں اور یہ جو محرم ، عاشور کے بارے میں ہمارے معاشرے کی اکثریت دیومالائی انداز میں سوچتی اور عمل کرتی ہے تو یہ دیومالائی طرز فکر مائتھولوجیکل تھنکنگ صرف ہم سے ہی خاص نہیں ہے بلکہ یہ ایرانیوں اور عربوں دونوں کے بارے میں سچ ہے
میں اس بارے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے میرے ایک لبنان سے تعلق رکھنے والے دوست راحیل دنداش نے اپنا ایک مضمون بھیجا جوکہ عراق کے معروف ماہر تاریخ و آثار قدیمہ خزعل الماجدی کے عرب دیومالائیت کے بارے میں تھا اور یہ میل مجھے اس وقت ملی جب میں محرم، عاشور، واقعہ کربلا اور خانوادہ اہل بیت کے بارے میں مسلمانوں ، ہندؤں ، عیسائیوں اور یہاں تک کہ کسی مذھب کے نہ ماننے والوں کے اندر پائی جانے والی دیومالائی رومانویت اور عقیدت بارے سوچ رہا تھا
مجھے خیال آیا کہ مین جب طالب علم تھا اور مارکسی اسٹڈی اسکول لیا کرتا تھا تو ہمارے چند سنئیر کامریڈ کہتے تھے کہ شیعہ خدا کا انکاری ہوجائے ، مذھب ترک بھی کردے اور کمیونسٹ ہوجائے لیکن وہ علی و خانوادہ اہل بیت کا انکاری نہیں ہوتا ، اس اعتبار سے رہتا شیعہ ہی ہے – یہ بات ظاہر ہے ازراہ مذاق کہی جاتی تھی اور جب میں نے اس بات کی گہرائی میں جاکر سوچا اور میرے سامنے فیض احمد فیض ، سجاد ظہیر ، کیفی اعظمی ، سبط حسن سمیت کئی ایک ترقی پسندوں کے معمولات سامنے آئے اور عاشور و محرم کی رسومات، مجالس سے ان کا شغف دیکھا اور میرے سامنے اپنے گھر میں کئی ایک پکّے کمیونسٹوں کی مثالیں تھیں جو سرخ سویرا طلوع ہوتے دیکھنے کے خواہش مند تھے، شیعہ ملّاؤں سے اور ایرانی آیت اللہ سے اتنے ہی بیزار تھے جتنے وہ دوسرے مذھبی ملّاؤں، پادریوں ، پنڈتوں سے بے زار تھے لیکن عاشور ان کی زندگی میں ایک اہم کلچرل ، ثقافتی ، تہذیبی سرگرمی کا درجہ رکھتا تھا اور علی ، ابو زر ، عمار یاسر ، سلمان فارسی ، حسن ، حسین وغیرہ ان کے ہاں مزاحمت ، بغاوت ، سچائی ، صداقت ، انقلاب کے استعارے تھے اور ظالموں کے خلاف قیام و مقاومت کا روشن چہرہ تھے اور ان کے ہاں یہ کسی فرقے اور کسی مذھب کو سچا اور حقیقی ثابت کرنے کا معاملہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی منصوص من اللہ کی ولایت کو ثابت کرنے کا معاملہ تھا بلکہ اس کی دو جہتیں تھیں کہ ایک جہت ثقافتی و تہذیبی دیومالائی اور دوسری اس کی استعاراتی ، تشبہاتی حثیت تھی اور پہلی حثیت میں ان کو یہ کٹھ ملائیت اور پیورٹن ازم جسے ہم وہابیت کہہ سکتے ہیں اور اسے ہم مذھبی پیشوائیت یعنی تھیوکریسی بھی کہہ سکتے ہیں کے خلاف ایک مضبوط میڈیم لگتی تھی جوکہ یہ ہے بھی اور دوسری حثیت میں یہ ان کو استحصال ، ظلم ، جبر ، کے نوآبادیاتی ، سرمایہ دارانہ ، سامراجی ضابطوں کے خلاف مدد دینے والے استعارے اور تشبیات لگتی تھیں اور انھوں نے اس سے کام بھی لیا
راحیل دنداش کی میل نے مجھے ڈاکٹر علی شریعتی کی عاشور ، محرم ، علی ، حسین کے ساتھ ٹریمنٹ اور برتاؤ یاد کرایا اور ان کا لیکچر علی ایک دیومالائی سچ میرے سامنے آگیا اور مجھے ایسے لگنے لگا کہ جیسے میں تہران یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ان دو لاکھ ایرانی طلباء و ظالبات کے ساتھ موجود ہوں جن کے سامنے عاشور کے ایام میں شریعتی نے یہ لیکچر دیا تھا اور پھر یہی لیکچر شہادت علی کے موقعہ پر شریعتی نے جامعہ حسینیہ ارشاد میں دیا تھا اور دونوں جگہوں پر مجھے ایرانی کمیونسٹ پارٹی یعنی تودے پارٹی سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد بھی نظر آرہی ہے اور ان دنوں تودے پارٹی کا طلباء ونگ تہران یونیورسٹی کے کمیپس پر چھایا ہوا تھا اور ان کا عاشور کے بارے میں برتاؤ ، شعور ، رویہ یقینا وہ نہیں تھا جو آیت اللہ خمینی ، مرتضی مطہری ، بہشتی کے ماننے والوں کا تھا لیکن دونوں عاشور کو ایک رجعت پرست ، تہذیب سے عاری اور وحشیانہ شئے خیال ہرگز نہیں کرتے تھے
خزعل ماجدی کے حوالے سے لکھے آرٹیکل میں راحیل نداش نے بات یہاں سے شروع کی ہے کہ عرب سماج میں دیومالائی طرز پر سوچنا ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے
اور اس کے خیال میں یہ بات صرف عرب سماج کے بارے میں ہی درست نہیں ہے بلکہ یہ پوری مسلم دنیا کے سماجوں کے بارے مین درست ہے – بلکہ وہ کہتا ہے کہ پوری دنیا مین لوگوں کی اکثریت کا شعور اور بیداری کا انحصار مائتھولوجی پر ہے اور اس کی وجہ و سبب کو کئی طریقوں سے واضح کیا جاسکتا ہے -اور وہ اس حوالے سے خزعل الماجدی عراقی ماہر تاریخ کے خیالات پیش کرتا ہے ، جس نے بہت تحقیق اور عالمانہ انداز میں یہ ثابت کیا ہے کہ دیومالائیت کا عربوں کے اجتماعی شعور میں بہت ہی اہم کردار ہے
خزعل ماجدی کہتا ہے کہ دیوملائیت کلچر اور تہذیب کے دھاروں کی جان ہوتی ہے اور دیومالائی کہانیاں ، ان سے ابھرنے والی رسومات اور خیالات کسی بھی سماج کی ثقافتی بنت کاری میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس کے خيال میں جب کسی مذھب کے نام پر کوئی پیورٹن تحریک جس میں وہ وہابیت ، سلفیت کی مثال دیتا ہے جب اس دیومالائی کہانیوں اور اس سے جنم لینے والی رسومات اور طور تحریکوں کو اس مذھب سے اور اسی بنیاد پر اس سماج کے کلچر ، تہذیب سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر تباہی ، بربادی سامنے آتی ہے اور اس طرح سے کسی طرح کی سچائی سامنے آنے کی بجائے ایک اور طرح کی دیومالائیت ، مائتھولوجیکل وے آف تھنکنگ سامنے آجااتا ہے اور وہ طرز فکر خزعل الماجدی کی ںظر میں آج عرب معاشروں کی تباہی کا باعث بنا ہوا ہے
خزعل الماجدی کا کہنا ہے کہ عرب معاشرے سلفی وہابی تحریک کی شکل میں آج بھی قرون وسطی کے ایک نئی دیومالائیت کے ساتھ رہنے کی کوشش کررہے ہیں جو ان سماجوں کی جدیدیت کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ بن چکی ہے اور یہ ترقی نہ کرنے اور سائنسی سوچ سے ہم آہنگ نہ ہونے کا اظہار بھی ہے
ماجدی کہتا ہے کہ اس طرح کی سلفیت کی سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ قرون وسطی سے ایسے مائتھ اور لیجنڈ ماضی کے اندھیری غاروں سے نکال کر لاتی ہے اور ان کو اجتماعی شعور کا حصّہ بناتی ہے کہ وہ سب کے سب استعاراتی شکل میں ایسے نعروں اور تمثیلوں میں دھل جاتے ہیں جن سے دھشت گردی کو ایندھن ملتا ہے ، تصادم ظہور پذیر ہوتا ہے ، خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اکثر یہ استعاراتی عمل خدا کے نام پر اور مقدس علامتوں کے زریعے کیا جاتا ہے
خزعل الماجدی کہتا ہے کہ سلفیت عرب معاشروں کی ثقافتی روح میں رواں دواں مائیتھولوجی اور اس سے ابھرنے والی رسوم اور طریقوں کو شرک ، بدعت قرار دیکر ان کی جگہ جو مقدس علامتیں مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے ان علامتوں نے پھر کار بم ، مذھبی وہابی دیوبندی دھشت گرد گروپوں ، اکثر خیراتی اداروں، نعروں، علامتوں، بینرز اور شہادت فی سبیل اللہ کے نعرے ہی ان نئی دیومالائیت کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور خزعل یہ بھی کہتا ہے کہ مائتھولوجی کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنانےکا رجحان توحیدی مذاہب میں پایا جاتا ہے اور پیورٹن جیسے ہمارے سلفی ہیں وہ اس کو بالکل ہی ختم کرنے کے درپے ہیں ہوتے ہیں اور مدنیت یعنی شہری زندگی کی چکاچوند کو وہ واپس بدویانہ دور میں لیجانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کے بطن سے انارکی جنم لیتی ہے – کلچر کو خشک ملائیت اور اس کی انتہائی شکل وہابیت دیوبندیت اور اس سے جنم لینے والی تکفیریت سے جن خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی بدترین شکلیں مڈل ایسٹ میں نظر آرہی ہیں
http://aamirfiction.blogspot.com/2014/10/blog-post_29.html
بہت خوب میرے ذاتی مذہبی خیالات سے متصادم باتیں موجود ہیں لیکن بہت خوبصورت تحریر ہے اور جاندار بھی