دیوبندی ازم، اصلاح پسندی، اشتراکیت اور سیکولر فرقہ پرست – عامر حسینی

n00041598-r-b-006

دیوبندی ازم، اصلاح پسندی، اشتراکیت اور سیکولر فرقہ پرست -ایل یو بی پاک ڈاٹ کام پر ایک انگریزی آرٹیکل مندرجہ بالا عنوان سے سارہ خان نے پوسٹ کیا ہے اور یہ آرٹیکل اصل میں ایک سیکولر مارکسی نوجوان کی منتشر الخیالی اور اس کی جانب سے پاکستان میں دیوبندی وہابی فاشزم پر مبنی دھشت گردی بارے خیالات اور اس دوران دارالعلوم دیوبند اور اس سے وابستہ کچھ فکری ، سیاسی اور جہادی تحریکوں کی غلط طور پر سامراج دشمنی کے ڈھنڈورے پیٹنے اور اس سے اختلاف رکھنے والوں کو ایرانی یا امریکی ایجنٹ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل پر میرے کمنٹس کو جوڑ کر اکٹھا کیا گیا ہے اور بہت حد تک انصاف بھی کردیا گیا ہے – لیکن نیچے نوٹس میں ایک نکتہ ایسا ہے جو میں سمجھتا ہوں کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور میں اس کو ٹھیک خیال نہیں کرتا

Deobandi ideologues like Obaidullah Sindhi adopted the posture of Marxism but never really ditched/abandoned the bigotry, hatred and violence against Sunni Barelvis, Sufis and Shias needs a separate post altogether

https://lubpak.com/archives/325396

میرے خیال میں عبید اللہ سندھی نے اپنی کسی بھی تحریر میں خود کو کبھی مارکسسٹ نہیں کہا اور نہ ایسا اظہار کیا – بلکہ عبیداللہ سندھی، مارکسزم کی نظری بنیاد تاريخی جدلیاتی مادیت پرستی کے مخالف تھے اور ان کا فلسفہ اشتراک عینی، مثالیت پسند اور تھیالوجیکل بنیادوں کا حامل تھا اور انہوں نے اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں مارکسزم کی جتنی بھی سماجی دریافتیں تھیں ان کو اپناتے ہوئے سند قرآن اور حدیث اور شاہ ولی اللہ کی تحریروں کے مطالب کو ان کے مطابق کرنے کی سعی کی تھی – عبیداللہ سندھی نے کبھی بھی سنّی بریلوی ، صوفی اور شیعہ کے بارے میں کوئی تعصب اور نفرت یا تکفیر پر مبنی جملہ تحریر نہیں کیا بلکہ ان کی تفسیر قرآن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ وحدت ادیان کے تصور کے قآئل ہوگئے تھے، جیسے ابوالکلام آزاد ہوئے تھے اور صوفیانہ اعتبار سے وہ چشتیوں کی صلح کلیت ، اور وحدت الوجودی مشرب کے قآئل نظر آنے لگے تھے

یہی وجہ ہے کہ عبید الله سندھی اور دارالعلوم دیوبند سے ان کے فاصلے بھی بہت بڑھ گئے تھے اور ان کا کبھی جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار سے بھی اشتراک نہیں ہوسکا تھا – یہ ضرور ہے کہ انھوں نے کبھی شاہ اسماعیل ، سید احمد بریلوی اور دارالعلوم دیوبند کے دیگر شارحین کی فرقہ پرستانہ اصلاح پسندی پر کبھی تردیدی قلم نہیں اٹھایا – البتہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انھوں نے شاہ ولی اللہ ، شاہ اسماعیل اور سید احمد کو دوبارہ سے خود اپنے خیالات کے مطابق تشکیل دیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں فکر شاہ ولی اللہ ہمیں وہابیانہ یا دیوبندیانہ نظر نہیں آتی جو وہابی و دیوبندی مولویوں کے ہاں ہمیں نظر آتی تھی

پاکستان کے اندر سعودی فنڈنگ ، کالے دھن کی کمائی سے دیوبندی اور وہابی مدرسوں کا ایک جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے جبکہ اس جال کو پاکستانی ریاست کے اداروں سے بھی مدد ملتی رہی ہے اور خود پاکستان کے ریاستی اداروں کے اندر ایک بہت منظم نام نہاد جہادی لابی ہے جو دیوبندی وہابی مدرسوں کے اس جال کی پشتیبان ہے اور سلفی وہابی و دیوبندی فرقہ پرستانہ ان مدرسوں کے زریعے سے پاکستان کے پورے سماج کی بنت کاری کے اندر یہ زھر پوری طرح سے پھیل گیا ہے

سنّی مسلمانوں کی اکثریت اس سلفی وہابی دیوبندی فرقہ پرستانہ پروپیگنڈے کے زیر اثر خود اپنے مکتبہ فکر کی صوفیانہ سنّی جڑوں کو بھول چکی ہے اور وہ صوفیانہ جڑوں کو خلاف سنّیت خیال کرنے لگی ہے – عام سنّی عوام کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ صوفی سنّی صلح کل فکر اور نفرت انگیز ، بے رحم اور عدم برداشت پر مبنی دیوبندی ازم و سلفیت کے درمیان امتیاز نہیں کرسکتے اور اس وجہ سے ہم بعض صوفی سنّیت کے نام لیوا مدارس اور اکثر جدید تعلیمی اداروں میں صوفی سنّیت بریلوی ، شیعہ ، احمدی ، عیسائی ، بہودی وغیرہ کے خلاف سخت متشدد اور سلفی دیوبندی آئیڈیالوجی کے زیر اثر ابھرنے والے خیالات کو غالب دیکھتے ہیں

اس طرح کی فرقہ پرستانہ عدم برداشت اور پرتشدد رویہ صرف اسلام پسندوں میں ہی دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے بلکہ یہ رجحان تو ہمیں الحاد پرستوں یہاں تک کہ شیعہ دوست دکھائی دینے بعض سیکولر ، بائیں بازو اور اشتراکی دوستوں میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے

ایسے سیکولر دوست جن میں تو بعض ایسے ہیں جوکہ پاکستان کے اندر شیعہ ، صوفی سنّی ، کی نسل کشی کے ایشو کو سنّی – شیعہ اور سعودی – ایران مساوات معکوس کے ساتھ دیکھنے کی سعی کرتے ہیں اور اسی معکوس مساوات کے تحت دوسروں کو بھی پاکستان کے اندر مذھبی بنیادوں پر ہونے والی دھشت گردی کی نوعیت اور اس کی جڑوں کو بیان کرنے پر اصرار کرتے ہیں – اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ پاکستان میں جب شیعہ اور صوفی نسل کشی پر بات کرنے لگتے ہیں تو وہ اس عمل کی وضاحت کے لیے عراق ، شام وغیرہ کی مثال لیکر آتے ہیں اور مڈل ایسٹ کی علاقائی سیاست کی حرکیات کو پاکستانی ریاست کے اندر مذھبی دھشت گردی کی حرکیات بتلانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں آپ کو شیعہ ، صوفی سنّی ، عیسائی ، یہودی ، احمدی ، ہندؤ اور وہ سب مذھبی یا نسلی گروہ جو دھشت گردی کے سب سے بڑے متاثرین ہیں کسی منظم عسکری جتھے اور دھشت گردی کے نیٹ ورک کے ساتھ کہیں بھی مجتمع نظر نہیں آئیں گے کہ جن کے مظالم اور خون آشامی سے تنگ دیوبندی وہابی سلفیوں نے بھی پاکستان کے اندر ردعمل کے طور پر منظم عسکری جتھہ بندی کرلی اور انھوں نے ٹی ٹی پی ، لشکر جھنگوی ، جیش محمد ، حرکۃ الانصار ، حرکۃ المجاہدین ، لشکر طیبہ وغیرہ بنالی ہو اور پاکستان کے اندر ماضی میں نہ تو کوئی نوری المالکی رہا ہے ، نہ ہی کوئی بشارالاسد جس کا نام لیکر یہ کہا جاسکتا ہو کہ اس کے مظالم اور جبر سے تنگ آکر دیوبندی ، وہابی نوجوانوں نے بندوق اٹھائی ہو اور کبھی پاکستان کے اندر نہ تو ایرانی شیعہ ملیشیا کا وجود دیکھنے کو ملا اور نہ ہی یہاں کبھی لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ نے پاکستانی شاخ کا اعلان کیا جن کے مقابلے پر سنّی ملیشیا ہی سامنے آگئی ہو اور پاکستان کے اندر کبھی بھی امریکی یا کسی اور ملک کی فوجیں براہ راست داخل نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کبھی صوفی سنّیوں اور شیعہ یا عیسائیوں نے کوئی ملیشیا بنائی ہو یا یہآں عراق طرز پر کوئی شیعہ اکثریت پر مبنی اتحادی حکومت بنی ہو کہ جس کے ردعمل میں سامراج مخالف مزاحمت اور جنگ کا آغاز کیا جاسکتا

پاکستان کے اندر مارکسزم کے ساتھ وابستہ اشتراکی دانشوروں کا یہ المیہ رہا ہے کہ ان میں سے اکثر اپنے ملک کا مارکسی تناظر کسی یوروپی یا کسی مڈل ایسٹ – شمالی افریقہ کے تناظر کی چربہ سازی میں بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس چربہ سازی کے دوران ان کی اپنی بعض مذھبی اور نسلی تعصبات بھی اس میں شامل کردئے جاتے ہیں اور اسی ہی بدترین چربہ سازی کا مظاہرہ ہم نے ان خام اشتراکی دانشوروں میں بھی خوب ملاحظہ کیا جو عراق ، افغانستان پر امریکی حملوں اور وہاں پر ابھرنے والی مزاحمتی تحریکوں کے حوالے سے مغرب اور مڈل ایسٹ میں ہونے والی مارکسی نظریہ سازی کی بنیاد پر اپنے خیالات کو ترتیب و تشکیل دینے کی کوشش کررہے تھے
پاکستانی نژاد برطانوی بائیں بازو کا دانشور ڈاکٹر طارق علی اس کی ایک واضح مثال ہے جوکہ پاکستان کے اندر دیوبندی -وہابی تکفیری فاشزم کی مارکسی تشریح اسی عینک سے کرنے کی طرف مائل نظر آتا ہے ،جس عینک کے ساتھ وہ عراق اور شام کے اندر سول وار اور پھر اس میں علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے کود پڑنے سے جنم لینے والی شیعہ – سنّی لڑائی اور اس کے بطن سے جنم لینے والی داعش کو دیکھتا ہے

پاکستان کے اندر دیوبندی وہابی فسطائی دھشت گردی کو سعودی – ایران اور شیعہ – سنّی تضاد کے چوکھٹے میں رکھکر دیکھنے یا دیوبندی وہابی فسطائی دھشت گردی کو مارکسی سامراجیت مخالفت قرار دینے یا سمجھنے کی کوشش ایک ایسی حرکت ہے جو شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی کوشش کرنے والوں کو دیوبندی وہابی فسطائی دھشت گردوں کا عذر خواہ یا ان کی جنگ کا جواز فراہم کرنے کا باعث بن جاتی ہے بلکہ یہ قتل ہونے والے شیعہ اور صوفی سنّیوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں ، احمدیوں اور ہندؤں کی مذھبی بنیادوں پر ہونے والی پراسیکیوشن کا زریعہ بھی ثابت ہوتی ہے

دیوبندی ازم سے اپنے نظریاتی رشتہ جوڑنے والے تحریک طالبان پاکستان اور اس کے جملہ گروپ ہوں یا کہ لشکر جھنگوی ہو یا اور اور دوسری عسکریت پسند تنظیمیں ہوں ان کی دھشت گردی ، انتہا پسندی اور ان کی فرقہ پرستانہ لڑائی کو سامراجیت مخالف ، امریکہ مخالف قرار دیتے ہوئے ایسا تاثر دینا کہ وہ ترقی پسند ہیں ایک ایسا جرم ہے جو کئی ایک نام نہاد مارکسی کررہے ہیں اور جب ان کی اس فاش غلطی کی طرف توجہ دلائی جائے اور پاکستان کے اندر فاشسٹ مذھبی دھشت گردی کی نظریاتی بنیاد اور ساخت کے رشتوں کو دیوبندی ازم ، وہابی سلفیت سے جوڑا جائے تو ایسے مارکسی فوری طور پر آپ پر شیعہ یا بریلوی فرقہ پرستی کا الزام لگانا شروع کردیتے ہیں اور اس سے دو قدم آگے جاکر آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ پاکستان میں مذھبی بنیادوں پر ہونے والی فاشسٹ دھشت گردی کو ایران اور سعودی عرب کی لڑآئی سے نتھی کردیں اور اسے امریکی سازش قرار دیں اور وہ دیوبندی ازم اور دارالعلوم دیوبند کے وکیل صفائی بنکر بھی سامنے آجاتے ہیں

آپ کو ایک لمبا لیکچر یہ دیا جاتا ہے کہ جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی تاریخ سامراج مخالفت اور سرمایہ داری ، نوآبادیاتی نظام کے خلاف جنگ سے بھری پڑی ہے اور اس دوران وہ چند شخصیات کے نام بہت شدومد کے ساتھ گنوانا شروع کرتے ہیں اور ان کو ایک طرح سے وہ اپنے تئیں مارکسزم اور لینن ازم کے عظیم شارح بالواسطہ قرار دے دیتے ہیں ،ان کی اس ساری اضطرابی گفتگو اور باتوں کا اگر آپ گہرائی میں جاکر تجزیہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کا وہ آپ سے صرف یہ مطالبہ کررہے ہوں گے کہ آپ آج کی دیوبندی -وہابی تنظیموں کی فکری اور نظریاتی جڑیں نہ تو دارالعلوم دیوبند میں تلاش کریں ، نہ ہی اس کی جڑیں آپ نجد میں جنم لینے والے محمد بن عبدالوہاب کی کھڑی ہوئی تحریک وہابیت میں تلاش کریں ، اور ان کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ سپاہ صحابہ کی شیعہ مخالف ، اور طالبان جیسے گروپوں کی شیعہ ، صوفی سنّی ، عیسائی ، احمدی ، ہندؤ مخالف خیالات کی جڑیں شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی اور اس سے زرا آگے جاکر شاہ عبدالعزیز ، شاہ اسحاق وغیرہ کے قائم کردہ مدارس اور ان کی پھیلائی جانے والی فکر کے اندر تلاش نہ کریں

ایسے سیکولر ، مارکسی اور سیکولر قوم پرست دانش وروں کے اندر ایسے دانشور بھی پائے جاتے ہیں جو پاکستان ، ہندوستان اور افغانستان کے اندر جہادیوں کی فکری جڑوں کے دارالعلوم دیوبند کے اندر اور شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل اور شاہ عبدالعزیز کے شاگرد سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد اور اس سے پھوٹنے والی جہادی تحریک میں تلاش کرنے کو فرقہ پرستی قرار دیتے ہیں اور اس کی فکری شناخت پر پردہ ڈالنے کے دوران آپ سے صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ پاکستان کے تمام جہادیوں کو پنجابی نسل قرار دیں اور اسے محض پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ ، ماضی میں امریکی سی آئی اے اور سعودی عرب کی فنڈنگ کا نتیجہ قرار دیں اور دیوبندی ازم سے اس کی رشتہ داری کی تلاش کو نظر انداز کردیں اور اس کی جغرافیائی حدود بارے تحقیق کرتے ہوئے اسے احمد شاہ ابدالی تک لیکر نہ جائیں اور اگر تھوڑا سا مزید آپ اس سارے معاملے کو کریدیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کوشش پھر اس فرقہ پرست جہادی تحریک کے رشتے اور ناطے دیوبندی ازم تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ ثبوت مل گیا کہ موجودہ جہادی اور فرقہ پرست اینٹی شیعہ و صوفی سنّی تحریکوں اور تنظیموں کی فکری جڑیں تاریخی طور پر دارالعلوم دیوبند کے بڑے بڑے ناموں سے اور شاہ ولی اللہ کے کچھ بیٹوں اورپوتوں اور شاگردوں سے جاکر مل جاتی ہیں تو پھر اپنے بہت سے سورماؤں اور ھیروز کے بارے میں بنائے گئے بہت سےکلیشے اور بہت سے خيالات سے دست بردار ہونا پڑے گا اور جو ظاہر سی بات ہے ہمارے ان قوم پرست سیکولرز اور بعض قوم پرست مارکسیوں کو کسی بھی لحاظ سے قبول نہیں ہے

پاکستان کے اندر کچھ مارکسسٹ ایسے رہے ہیں اور آج بھی ہیں جو الحاد اور اشتراکیت کو گلے لگانے سے پہلے وہابی یا دیوبندی مذھبی سیاست سے وابستہ تھے یا دیوبندی وہابی دانشور تھے اور وہ جاگیرداری ، قبیلہ پرستی ، سرمایہ داری کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے راستے پر دارالعلوم دیوبند کے یا شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل کی تحریک سے متاثر کسی مفکر یا دانشور کی فکر سے متاثر ہوکر آئے اور پھر انھوں نے الحاد کو اختیار کرلیا اور وہ ہمیں اعلانیہ کہیں کہیں خود کو ڈاکٹر علی شریعتی جیسے انقلابی اسلامی اشتراکیت پسند شیعہ مفکرین کے خوشہ چین کہتے بھی نظر آتے ہیں اور ایسے سیکولر ، اشتراکیوں یا ملحدوں کے ساتھ معاملہ یہ کہ وہ دارالعلوم دیوبند یا شاہ ولی اللہ کے نام پر کھڑی ہونے والی برصغیر کے اندر مذھبی اصلاح پسند تحریک کو مارکسی یا ترقی پسند معنوں میں ایک نوآبادیاتی مخالف تحریک ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور وہ اپنے تئیں دارالعلوم دیوبند کے اثر میں پیدا ہونے والی انگریز مخالف تحریکوں کو فرقہ پرستی ، رجعت پرستی اور جدیدیت مخالف ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ آج کی جو اسلامی دیوبندی رجعت پرست ، اصلاح پسند تحریکیں ہیں ان کا برصغیر کے اندر ماضی کی اصلاح پسند دیوبندی تحریکوں سے رشتہ نہیں بنتا ہے

مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے دیوبندی یا اہلحدیث پس منظر سے آنے والے یہ سیکولر یا الحاد پرست اور اشتراکی اتنے بھی ایماندار دانشورانہ طور پر نہیں ہیں جتنے اس موضوع پر مجھے بعض مغربی صحافی دانشور نظر آتے ہیں ، جیسے رابرٹ فسک ، پیٹرک کوک برن ، کارلوٹا گیل ، کرسٹنین فرئیر یا اشتراکی دانشور گلبرٹ آشکار ، ایڈم ہانیہ وغیرہ ہیں ، وہ کم از کم سنّی جہادیوں اور شدت پسندوں کی جب اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کے ساتھ وہابی حوالہ جب مڈل ایسٹ کی بات آئے اور دیوبندی حوالہ ضرور دیتے ہیں جب جنوبی ایشیا خاص طور پر پاکستان ، افغانستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی بات ہو جبکہ ان کے پاس ابھی وہ مواد اور معلومات نہیں ہیں جو دیوبندی ازم کے بارے میں ہمارے مقامی دانشوروں کے پاس ہیں

پاکستان بننے سے پہلے دار العلوم دیوبند اور دیوبند کے قیام سے پہلے شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد اور دیگر تحریکوں کا جائزہ لینے کی کوشش جن سیکولر اور اشتراکی دانشوروں نے کی ان میں ایک عبداللہ ملک بھی تھے اور ان تحریکوں کا جائزہ کچھ نیشنلسٹ دانشوروں نے بھی لینے کی کوشش کی جن کا تعلق یا تو کانگریس سے تھا یا مجلس احرار سے تھا یا جمعیت العلمائے ہند سے تھا یا ان کا تعلق خدائی خدمت گار تحریک سے تھا یا سندھ میں عبید اللہ سندھی وغیرہ کی تحریک سے رہا تھا -عبداللہ ملک اگرچہ کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ کمیونسٹ ہونے سے پہلے کٹّر وہابی رہے تھے اور داؤد غزنوی ، احمد علی لاہوری ، شاہ اسماعیل ، سید احمد بریلوی وغیرہ کے ان پر سخت اثرات تھے اور مجلس احرار کے بھی ان پر گہرے اثرات تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جب ” پنجاب کی سیاسی تحریکوں ” پر ایک کتاب مرتب کی اور اس دوران انھوں نے احرار ، خلافت ، ہجرت و موالات کی تحریکوں کا جائزہ لیا تو لاشعوری طور پر نہ جانے کیوں وہ ان تحریکوں کی رجعتی پرستی ، فرقہ پرستی ، انتہا پسندی اور دیگر چيزوں کا جائزہ لیتے وقت ان کی فکری بنیادوں پر وہ بات نہ کرسکے جوکہ ہمیں ایک اور معروف انقلابی مارکسی ترقی پسند دانشور سبط حسن کی تحریروں میں بہت وضاحت کے ساتھ نظر آتی ہے اور وہ دارالعلوم دیوبند ، فرنگی محل وغیرہ کے زیر اثر اٹھنے والی تحریکوں کو صاف ، صاف رجعت پرست ، بنیاد پرست ،انتہا پسند ، فرقہ پرست اور جدیدیت مخالف قرار دیتے ہیں اور فکری اعتبار سے سماجی اثرات کی بنیاد پر وہ سرسید کی جددیت کو ان تحریکوں پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں

شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کی اصلاح پسند تحریک اور اس سے جنم لینے والی تحریک جہاد مجموعی طور پر انگریز سامراج کے خلاف جنگ اور لڑائی پر مبنی تو تھی ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے زمانے میں انگریزوں کے ایک بڑے حریف رنجیت سنگھ کے وارثوں کے پنجاب جس میں شمال مغربی سرحدی علاقے بھی شامل تھے کے قبضے کے خلاف تھی اور یہ قبضہ سکھوں نے ان علاقوں میں پنجابی اور پختون اشراف و سردار و مذھبی اشرافیہ کے تعاون سے ہی برقرار رکھا ہوا تھا اور ان علاقوں میں ایک ایسا کلچر رائج تھا جو صدیوں کے تعامل سے بنا تھا جس کو صوفیانہ کلچر ، یا بھگت کلچر کہا جاسکتا تھا اور اس کی بنیاد فرقہ پرستانہ نہیں تھی تو شاہ اسماعیل و سید احمد بریلوی کی جو اصلاح پسند تحریک تھی اس کی کلامی اور فکری بنیاد اسی مشترکہ کلچر کے خلاف استوار ہوئی تھی اور اس میں شروع ہی سے سخت شیعہ و صوفی سنّی مخالف خیالات و رجحانات موجود تھے اور یہی وجہ ہے کہ 1857ء کے بعد سے لیکر دارالعلوم دیوبند کے قیام 1866ء تک اس تحریک کے زیر اثر اگر انگریز مخالف کوئی تحریک سامنے بھی آئی جسے سامراج مخالف کہا جائے تو وہ فرقہ پرستانہ سوچ سے خالی نہیں تھی اور اس میں وہابیت بہت زیادہ داخل تھی اور خود بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی سے لیکر مفتی ہند اسیر مالٹا محمود حسن تک جو انگریز سامراج کے خلاف جو تحریک سامنے آئی جسے ہم تحریک ریشمی رومال کے نام سے جانتے ہیں تو اس پر بھی شیعہ و تصوف مخالف نظریات بہت غالب تھے اور یہ تحریک بنیادی طور پر عثمانی ترک خلافت کے زیر اثر شروع ہوئی تھی ، کیونکہ مفتی محمود حسن کے ترک عثمانی خلیفہ سے بہت اچھے تعلقات تھے اور وہ برٹش بلاک کی بجائے ترکوں کی وجہ سے جرمن بلاک کے قریب نظر آتے تھے اور دارالعلوم دیوبند کا انگریز کے خلاف معاندانہ رویہ جو رفتہ رفتہ استوار ہوا تو وہ انگریز مخالفت سے زیادہ جدیدیت مخالف اور سخت فرقہ وارانہ شیعہ ، صوفی سنّیوں کے باب میں تھا اور یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے زیر اثر اتر پردیش ، بہار اور بنگال میں اور پھر پنجاب کے اندر ہمیں شیعہ ، صوفی سنّی ، کرسچن ، احمدی مخالفت اور فرقہ پرستانہ اظہار سیاسی شکل میں خوب نظر آیا اور اگر دارالعلوم دیوبند اور اس سے منسلک دیگر مدارس سے اٹھنے والی تحریکوں کو جائزہ لیں تو آپ کو سپاہ صحابہ تحریک مدح صحابہ کا تسلسل نظر آئے گی اور اس سے پہلے ان تحریکوں کا تسلسل نظر آئے گی جن کے تحت برصغیر میں ایام عاشور کے جلوسوں اور میلاد النبی کے جلوسوں کو روکنے کی کوشش کی جاتی رہی اور عاشور و میلاد کے دن لڑائی جھگڑے بھی وقوع پذیر ہوتے رہے

مجھے ایسے آثار ملتے ہیں کہ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے دھلی اور پھر دیوبند کے مذھبی مدارس سے جو سیاسی اصلاح پسندی پر مبنی تحریکیں شروع ہوئیں ان کی بنیاد خود مسلمانوں میں شیعہ اور صوفی سنّی مسلمانوں کو خارج کرنے سے ہ؛ شروع ہوتی تھی اور یہ شاہ اسماعیل و سید احمد کی تحریک کا بھی خاصا تھا جو دھلی سے شاہ عبدالعزیز کے مدرسے سے شروع ہوئی اور تحریک ریشمی رومال کا خاصا بھی تھا جو دارالعلوم دیوبند سے شروع ہوئی اور پھر جمعیت العلمائے ہند ، مجلس احرار اور وہاں سے چلتے چلتے آج کی دیوبندی وہابی ،سلفی سیاست اور جہاد کے ساتھ اس کا تعلق ملتا نظر آتا تھا اور اگر یہاں کسی نے زرا زیادہ روشن خیال اور شمار پسند ہونے کی روش اختیار کرنا چاہی جیسے عبید اللہ سندھی تھے جن کی کایا کلپ افغانستان سے آگے جاکر سویت یونین میں ہوئی ان کو دارالعلوم دیوبند میں رہنا اور اس سے الحاق شدہ کسی مدرسے میں یہ سب کچھ بیان کرنا ناممکن ہوگیا اور یہی وجہ ہے عبداللہ سندھی کو دارالعلوم دیوبند سے نکلنا پڑا اور دیوبند کی فکر اور عقیدوں کا مستند شارح بھی ماننے سے انکار کردیا گیا اور بہت جلد وہ تنہا بی پڑگئے اور آج ان کے بہت سے نام لیوا ان کو دیوبندی فرقہ پرستی اور رجعت پسندی کے ساتھ زبردست نتھی کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہيں

جمعیت علمائے ہند ، مجلس احرار سمیت دیوبندی سیاسی نیشنلسٹ جس قدر متحمل ہندؤں کے بارے میں تھے ، اس کا عشر عشیر بھی وہ صوفی سنّی ، شیعہ اور دیگر مسلم فرقوں کے بارے میں نہیں تھے اور ان میں آخر میں اشرف علی تھانوی و شبیر احمد عثمانی کی شکل میں جو دو قومی نظریہ کا حامی ٹولہ بنا وہ بھی کٹر شیعہ و صوفی سنّی مخالف تھا اور اس نے پاکستان کی تحریک کے دوران ہی اس پر قبضہ کرنے کی کوششیں تیز کردی تھیں اور یہ یہ ویسے ہی پاکستانی ریاست کے نظریاتی شارح بن بیٹھے ، جیسے جماعت اسلامی اور سید مودودی بن بیٹھے تھے

جو مارکسسٹ ڈاکٹر علی شریعتی کا چیلہ بھی خود کو ظاہر کریں اور دوسری طرف وہ دارالعلوم دیوبند کی رجعت پرستانہ اور فرقہ پرستانہ سامراج مخالف تحریک اور روش کی تنگ نظری کو واضح نہ کریں اور ان کے بطن سے آج کی معاصر تحریک جہاد کے ظہور کو تسلیم کرنے سے انکار کریں تو وہ مجھےشعوری یا لاشعوری طور پر اپنے سابقہ دیوبندیانہ یا وہابیانہ پس محبت میں گرفتار نظر آتے ہیں

سعودی وزیر

db

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Zahra Yufi
    -
  3. Zahra Yufi
    -
  4. shia aur sunni
    -