عنوان تھا کہ روداد چمن – از عمار کاظمی

images

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم نے عقل و دانش سمیت سب کچھ مستعار لیا ہوا ہے۔ جو ترقی یافتہ معاشرے کریں گے وہ ہم بھی کریں گے۔ یہ لازم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سزاے موت کا قانون ختم ہوگا تو ہم بھی اسے ختم کرنے کی بات شروع کردیں گے۔ وہ لوگ سزاے موت کا قانون بہال کریں گے تو ہم اس کے حق میں دلیلیں دینا شروع کر دیں گے۔ مغرب کن راستوں پر چل کر یہاں تک پہنچا اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں مگر ہم نے اپنے زمینی حقائق دیکھے بغیر وہاں تک جست لگانی ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں سزاے موت کا قانون واپس لانے پر بحث ہو رہی ہے۔ 

دہشت گردی کے مقابل نیے قوانین متعارف کرواے جا رہے ہیں جو کسی طور بھی انسانی حقوق کی مروجہ تعریف سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کتابی باتیں ہر وقت درست ثابت نہیں ہوتیں کہ زندگی میں کبھی کچھ یکسر مختلف اور نیا بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ ارتقا کا عمل کبھی رکتا نہیں ہے۔ انسان اپنے کیے ہوے فیصلوں پر کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی ان پر نظر ثانی کر کے پھر وہیں لوٹ جاتا ہے جہاں سے غلطی کی ابتدا ہوی تھی۔ انسانی معاشرے تاریخ اور گردو پیش کے حالات و واقعات دونوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں۔

مولویوں سے تو پہلے بھی محبت نہیں تھی مگر اب عاصمہ جہانگیر اور طاہرہ عبداللہ جیسی حقیقت سے دور سوچیں بھی کافی تکلیف دہ محسوس ہوتی ہیں۔ ایک طرف ملا نے معاشرے کو عربوں اور ایرانیوں کے پیچھے لگا کر معاشرے کی ذہنی نشونما روک رکھی ہے اور دوسری طرف فنڈڈ این جی اوز کی تماشہ دانش نے ہمیں مغرب کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا ہے۔ عورتوں کے حقوق پر بات کرنے والی خواتین ہماری کم و بیش اسی فیصد معاشرت اور معاشرتی مسائل-


سے ناواقف ہیں۔ کسی نے “patriarchy society ” ہے اور کسی نے “matriarchal society”۔ مگر دیکھنے اور مشاہدہ کرنے یا اپنے مشاہدہ پر یقین کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ ان سے “male chauvinism” جیسے الفاظ بہت سننے کو ملتے ہیں مگر ایک عورت کس طرح مرد کی بینڈ بجاتی ہے اس کا انھیں کچھ پتا نہیں۔

اور یہی کافی نہیں ہوتا خواتین کی حقوق کی ان براے نام علمبرداروں کی تمام تر جنگ محض نوجوان خواتین تک محدود ہوتی ہے۔ ساس اور سسرال نے سلنڈر پھاڑ کر بہو کو مار دیا۔ کتنی بیویاں اپنے شوہروں اور ساس کی جانیں لے لیتی ہیں اس بھی انھیں کچھ غرض نہیں۔ مجال ہے کبھی ان کے منہ سے کسی ماں یا کسی عمر رسیدہ عورت کے حقوق کی بات سننے کو مل جاے۔ خیر اس پر بھی کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ ابھی تو جو کہنا چاہ رہا تھا باتوں باتوں میں اس سے دور نکل رہا ہوں مگر کہنا صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ادھاری اور اعتماد سے عاری دانش کے نتائج کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان عرب، ایرانی مذہبی غلام سوچوں سے لے کر مغرب کی غیر متعلقہ روشن خیالی تک ہر سوچ سے اکتا گیا ہوں۔ پاکستان کے معروضی حالات میں ہمیں دہشت گردی کے مجرموں کے لیے نہ صرف دہشت گردی میں سزا یافتہ ملزمان کی سزاوں پر فوری عملدرآمدکی ضرورت ہے بلکہ سر عام پھانسی کی سزا کے لیے قانون سازی بھی کرنی چاہیے۔

جب معاشرے کو اس طرح کی شدت پسندی کا سامنہ ہو کہ اگر کسی کو قتل کیا تو جنت ملے گی تو ایسی صورت میں ان لوگوں کو نشان عبرت بنایا جانا ضروری ہے۔ سزاے موت کے قانون کے خلاف ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ یہ انسانی حقوق کی توہین ہے۔ لیکن جو اسی سال کی سزا عافیہ صدیقی کو دی گیی وہ کیا انسانی حقوق کی توہین نہیں ہے۔ کسی انسان کو اسی سال تک ایسے حالات میں زندہ رکھنا کیا انسانیت کی توہین نہیں ہے؟

ویسے بھی اس طرح کی سزاوں کا نفاذ صرف مخصوص حالات اور جراءم کے لیے کیا جا سکتا ہے اور جب معاشرہ بہتری کی طرف جانے لگے تو اسے ختم بھی کیا جا سکتاہے۔ اگر کسی مغرب ذدہ ذہن کو معاشرے کو سمجھنے کا موقع ملے تو وہ کسی بھی عام تکفیری سے پوچھ کر دیکھ لیں کے وہ خود کش حملوں کو کیسے دیکھتا ہے تو اسے اس کی اندھی تقلید سے بہتر جواب مل جاءے گا۔ یہاں کفر کا فتوی لوگ جیبوں میں لیے پھرتے ہیں۔ اور بعض لوگوں کے مطابق کافر کا قتل بھی ثواب کا کام ہے۔ ایسے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے چوراہوں پر پھانسیاں دینا ہی شاید واحد حل ثابت ہوگا۔ باقی سجن عمران ریاض نے مرزا اطہر بیگ کا ایک ناول تحفے میں دیا تھا۔ ناول کافی موٹا تھا تو پڑھنے کا سوچتا ہی رہ گیا اور عنوان کے علاوہ پڑھ نہیں سکا۔ مگر اب سوچتا ہوں شاید اس کا عنوان ہی اسے سمجھنے کے لیے کافی تھا “غلام باغ”۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Hassan
    -
  2. Hassan
    -
  3. Hassan
    -
  4. Hassan
    -
  5. Hassan
    -
  6. Hassan
    -
  7. Hassan
    -