سلیم صافی صاحب، پشتون ولی کی قدیم روایات کو دیوبندی تکفیریت اور تشدد کا ناپاک لبادہ نہ پہنائیں – خالد نورانی
خدائے بزرگ و برتر کی ذات بہت بے نیاز اور وہ بہترین حکمت والی ہے اور اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایک جگہ منافقین کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے خفیہ داؤ کھیلا اللہ نے بھی اپنی تدبیر کی اور بے شک اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے
آج میں نے اللہ پاک کی جانب سے دشمنوں کا داؤ خود ان پر پلٹ دینے کا کرشمہ دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ پاکستان کی تکفیری دیوبندی اسٹبلشمنٹ کا صحافی کے روپ میں بیٹھا ہوا ایک مہرہ سلیم صافی خود ہی اپنے داؤ کا شکار ہوا ہے اور اس نے بظاہر انتہائی جذباتیت کے عالم میں روزنامہ جنگ میں لکھے ہوۓ اپنے ایک کالم میں اپنے دیوبندی تکفیری اسٹبشمنٹ کا مہرہ ہونے کا اعتراف کرڈالا ہے
http://jang.com.pk/jang/sep2014-daily/09-09-2014/col2.htm
میں نےسابقہ مضامین میں بہت تفصیل سے یہ بتایا تھا کہ آخر سلیم صافی، احمد لدھیانوی، ملاّ فضل الرحمن ڈیزل، نجم سیٹھی، جاوید چودھری اور دیگر کیوں “لندن پلان ” سازش کا شور کیوں مچارہے ہیں اور بتایا تھا کہ اس کا مقصد پاکستان میں تکفیری ایجنڈے اور اس کے تحت ہونے والی دھشت گردی و سنی صوفی و شیعہ نسل کشی سے عوام کی ںظریں ہٹانا ہے اور تکفیری ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے اسٹبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے سابقہ و موجودہ وردی ، بے وردی نوکر شاہی ، جوڈیشری ، پریس اور سیاسی جماعتوں میں موجود ٹولے کو تحفظ دینا مقصود ہے
سلیم صافی پاکستان کا وہ صحافی ہے جو دیوبندی تکفیری دھشت گردی کے جواز اور اس کے پیچھے کارفرما شیعہ، سنّی صوفی مخالف وہابی و دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی کو مسجع و مقفع بنانے والوں میں سے ایک ہے اور اگر آپ اس کی تحریروں کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنی تحریروں اور ٹاک شوز کے زریعے سے پاکستان میں تکفیری اسٹبلشمنٹ اور تکفیری سیاست و عسکریت پسندی کے لیے قبولیت کی فضا ہموار کرتا رہا ہے
میں نے جب اس حوالے سے جب سلیم صافی کے پروفائل کی تلاش شروع کی تو مجھے معلوم ہو کہ سلیم صافی جو سید مودودی کی ریڈیکل پولیٹکل اسلامی تعلمیات سے متاثر ہوکر “عالمی جہادی آئیڈیالوجی ” سے وابستہ ہوا تھا تو بتدریج وہ دیوبندی مکتبہ فکر سے اٹھنے والے فتنہ تکفیر کی حقیقی تجسیم بننے والی تحریک طالبان کا فکری قائل ہوا اور پھر وہ اس تحریک کے مختلف مظاہر کی انٹیلکچوئل سطح پر مثبت تعبیرات کرنے میں مشغول ہوگیا اور اس کی انھی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر پاکستان کے پریس پر اپنی مضبوط گرفت رکھنے والی تکفیری اسٹبلشمنٹ نے اسے مین سٹریم میڈیا میں اہم مقام دلوایا اور وہ بتدریج وہاں سے ترقی کرتا ہوا جیوجنگ کروپ تک پہنچ گیا
یہ مشرف دورکے اواخر کی بات ہے جب پاکستان میں دیوبندی تکفیری اسٹبلشمنٹ پر اس کا سب سے گولڈن پیریڈ آیا کہ ایک طرف تو پاکستان کی فوج کا سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اسی اسٹبلشمنٹ سے تعلق رکھتا تھا تو دوسری طرف ملک کی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس افتخار چودھری (رانا ثنا الله کا کزن) ان کے ساتھ شیر وشکر تھا اور اس پر جیوجنگ گروپ کا پورا صحافتی ٹولہ اور دوسرے کئی میڈیا گروپوں کے صحافی، اینکر، تجزیہ نگار تکفیری اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دے رہے تھے اور ان سب کا سیاسی چہرہ نواز شریف تھا – جب جنرل کیانی ، چیف جسٹس افتخار چودھری ، الیکشن کمیشن ، آراوز اور نجم سیٹھی ایںڈ کمپنی پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو الیکشن میں کامیابی دلا ڈالی تو ان کا خیال تھا کہ اب وہ ریاست کے تین ستونوں کو اپنے مکمل کنٹرول میں لیکر تکفیری ایجنڈے کو پوری طرح سے بروئے کار لے آئیں گے لیکن شومئی قسمت ایسا ہو نہ سکا ایک نئے چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف کے معتدل سنّی بریلوی مذھبی بیک گراؤنڈ نے معاملہ خراب کردیا جبکہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی تکفیری پرتوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی نیشنلسٹ پرتوں نے اینٹی تکفیری لائن اختیار کرلی اور سیاسی طور پر جیسے جیسے دھاندلی کا سارا ڈرامی ایکسپوز ہونا شروع ویسے ویسے عمران خان کی تحریک زور پکڑتی گئی جس کو ڈاکٹر طاہر القادری کے معتدل سنی شیعہ اتحاد سے بھی تقویت ملی
سیاسی سطح پر نواز شریف کے دیوبندی سیاسی جماعتوں اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں سے اتحاد، سرپرستی اور نوازنے کے عمل نے شیعہ اور صوفی سنيوں کی سیاسی طور پر باشعور پرتوں کو بھی تکفیری آئیڈیالوجی کے سیاسی چہرے کے خلاف سیاسی تحریک کو ابھارنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس تناظر میں مجلس وحدت المسلمین اور سنّی اتحاد کونسل کا اتحاد سامنے آیا – ڈاکٹر طاہر القادری جن کی جانب سے موجودہ سیاسی، عدالتی ، انتظامی قانونی ڈھانچوں کی بوسیدگی پر شدید تنقید ایک عرصے سے جاری تھی اور وہ نظریاتی طور پر تکفیریت کے سخت مخآلف تھے جب میدان میں اترے تو مجلس وحد ت المسلمین اور سنّی اتحاد کونسل کو وہ اپنے اینٹی تکفیری ایجنڈے کے حامی لگے اور پنجاب میں نواز شریف کی حریف سیاسی جماعتوں جن میں مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف نمایاں تھیں کو بھی اس میں اپنے لیے امکانات نظر آئے
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے سٹیٹس کو کی صفوں میں جو ہلچل مچائی اور جس سیاسی تحریک کا آغاز آزادی و انقلاب مارچ اور پھر مسلسل جاری رہنے والے دھرنے سے کیا ہے اس نے جہاں پاکستانی سیاست میں اشراف و مراعات یافتہ طبقے کی قبضہ گیری اور متوسظ و غریب طبقات کی عدم موجودگی کے ایشو کو بنیادی حثیت دی وہیں پر جہاں تکفیری دیوبندی اسٹبلشمنٹ کی طاقت کی سب سے بڑی علامت سعودی حمایت یافتہ نواز شریف کے لیے بھی خطرات پیدا کرڈالے اور تکفیری اسٹبلشمنٹ کے نظریہ ساز صحافی (سلیم صافی و دیگر) اب تک انھی خطرات کوٹالنے کے لیے خطرات پیدا کرنے والوں کے خلاف پروپیگنڈا مختلف جمہوریت نواز نعروں اور بیانیوں سے کرتے آرہے تھے
سلیم صافی تکفیری دیوبندی لابی کے ان حامیوں میں شامل ہے جس نے اپنے قلم کو سنّی بریلویوں اور شیعہ کے خلاف بنے بنائے مفروضوں کو عین حقیقت ثابت کرنے کی سعی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
اس سمت نواز شریف کیمپ کے ہر آدمی کی یہ کوشش رہی کہ وہ اس تکفیری لابی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ جمہوریت کے دشمنوں اور مغرب و امریکہ میں بیٹھے اسلامو فوبیا کے شکار گروپوں سے پیسے لیکر پاکستان میں دیوبندی اور وہابیوں کے خلاف سول وار لڑنے کی سازش کررہے ہیں اور سنی صوفی اسلام کو امریکیوں کی سازش ثابت کردیا جائے
سلیم صافی اینڈ کمپنی کی اس کوشش کا لگتا ہے خاطر خواہ نتیجہ نکلا نہیں ہے تبھی سلیم صافی نے اپنے اوپر بڑا اعتدال پسند دیوبندی ہونے کا جو نقاب تھا اسے اتار پھینکا ہے اگرچہ اب بھی اپنی دیوبندی تکفیری انتہا پسندی کو اس نے پشتون اور قبائیلت کے پردے میں چھپا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے یہ تمام تر جذباتیت ایک جعل سازی ہے اور اس کا قبائیلت اور پشتون سماج میں پختون ولی کی روایت میں پناہ لینا بھی ایک ڈرامہ ہے – پشتون ولی کی روشن پسندی کی جڑیں سنی صوفی اور شیعہ اسلام میں پیوست ہیں اور گزشتہ ایک صدی میں درآمد کی جانے والی دیوبندی اور سلفی تکفیریت سے پشتون روایت کا کوئی تعلق نہیں
جنگ میں اپنے تازہ کالم (نو ستمبر) “آخر حد ہوتی ہے” میں سلیم صافی نے یہ اعتراف تو کرہی ڈالا کہ انھوں نےنام نہاد جہادیوں کے ساتھ افغان جنگ میں پہاڑوں میں بسیرا بھی کیا لیکن وہ لکھتے ہیں کہ پھر ان کو چند اہل علم کی صحبت میسر آگئی اور وہ دنیائے صحافت کی جانب آگئے – یہ تفہیم فریب کاری کی زبردست مثال ہے ، اصل میں تکفیری لابی نے سلیم صافی کی قلمی اور صحافتی صلاحیتوں کا ادراک کرڈالا تھا اور ان کو ” تکفیری دھشت گردی ” کا فٹ سولجر بنانے کی بجآئے اس دھشت گردی کی سافٹ امیجنگ کرنے والے جہادی صحافتی بریگیڈ کا حصّہ بناڈالا تھا
سلیم صافی نے اپنی جائے پیدائش “مردان ” کا زکر کرتے ہوئے اپنے قبائلی ہونے کا زکر بڑے فخر سے کرتے ہوئے یہ بتایا کہ وہ بھی بیت اللہ محسود ، مولوی فقیر محمد ، عمر خالد خراسانی کی طرح ایک قبائلی ہے اور اس کی رگوں میں بھی وہی پختون قبائلی خون دوڑ رہا ہے جو احسان اللہ احسان جیسے لوگوں میں دوڑ رہا ہے – کیسے سلیم صافی نے اپنے قبائلی اور پختون ہونے کے لیے اپنے قبائلی اور پختون سماج کے ان بدترین ، وحشی اور دیوبندی تکفیری نظریات پر ایمان لانے والے دھشت گردوں کی مثال دی اور بالواسطہ طور پر پختون اور قبائلی سماج کی بنیادوں کو دیوبندی ، تکفیری ، دھشت گردانہ اور امن دشمن قرار دے ڈالا ، کیونکہ اس موقعہ پر سلیم صافی کو نہ تو خوش حال خان خٹک یاد آیا ، نہ ہی اسے رحمان بابا کی یاد آئی اور اسے غنی خان بھی یاد نہ آیا جن کو ہم پختون اور قبائلی ثقافت اور اس کی اقدار کے معمار کہہ سکتے ہیں
سلیم صافی نے اپنے اسی کالم کے آخر میں پرویز رشید سینٹر کو کچھ درخواست کرنے کا زکر کیا ہے جس میں اس نے طالبان کی دھشت گردی کو “سول نافرمانی ” سے تعبیر کیا ہے – یعنی دیوبندی تکفیریوں نے ہزاروں کی تعداد میں جن سنی صوفی، شیعہ اور لبرل پشتونوں اور غیر پشتونوں کو قتل کیا لیکن سلیم صافی کے بقول یہ سول نا فرمانی ہے سلیم صافی نے پشتون روایت اور پشتونوں کے خون کی توہین کی ہے اور پشتون ولی کو دیوبندیت کا ناپاک لبادہ پہنانے کی کوشش کی ہے
دنیا بھر میں جب کبھی کسی حکومت کے خلاف کوئی سیاسی تحریک چلتی ہے تو تحریک چلانے والے گروہ بعض اوقات اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر اور ان کے حامی میڈیا پر پتھراؤ بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات مشتعل ہجوم توڑ پھوڑ بھی کردیتا ہے اور کبھی کبھی یہ حکومت میں موجود سیاسی جماعت خود بھی کرا ڈالتی ہے اور نواز حکومت تو اپنے گلو بٹوں کے حوالے سے بہت بدنام ہوچکی ہے لیکن میں نے دنیا میں کسی صحافی اور تجزیہ نگار کو اس توڑ پھوڑ ، پتھراؤ کو گوریلا وار ، خود کش بم دھماکوں ، صاف صاف شیعہ نسل کشی ، صوفی سنّی کشی ، مسیحیوں اور ہندوؤں پر حملے کرنے پر مبنی دھشت گردی کے مماثل قرار دینے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی نے جس طرح کی دھشت گردی ، فساد ، قتل و غارت گری دیوبندی تکفیری تنظیموں نے کی اس کو “سول نافرمانی قرار دیا
جیو ٹی وی کے خلاف احتجاج کرنے والے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو وہ ننگی دھمکی دے رہے ہیں کہ ان کے بس میں ہے کہ جیو کے دفتر کی چھت پر چڑھ کر مظاہرین کو بندوق کی گولیوں سے بھون دیں اور وہ اپنے خاندان اور قبیلے والوں کو تحریک انصاف کے لیڈرز اور ان کی آنے والی نسلوں کے خلاف تشدد پر اکسا بھی رہے ہیں – اپنے کالم میں سلیم صافی نے شاہ محمود قریشی پر پھبتی کسی ہے کہ شاہ محمود گدی نشین اور جہانگیر ترین کو سرمایہ دار کہہ کر مخاطب کیا ہے اور ان کو دھمکی دی ہے کہ اس کے قبیلے والے ، عزیز و اقارب ان کو نہیں چھوڑیں گے اگر اسے کچھ ہوا یا اس کی عزت پر کسی نے ہاتھ ڈالا – سلیم صافی کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان کو کسی سرمایہ دار سے یا کسی جاگیردار سے کوئی مسئلہ ہے بلکہ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کا سنّی بریلوی ہونا اسے برداشت نہیں ہورہا ورنہ وہ خود تو شکیل الرحمان جیسے بدعنوان ، کرپٹ دیوبندی میڈیا مالک کا ملازم ہے اور نواز شریف کے دستر خوان پر بیٹھ کر ھڈیاں چوستا ہے، اسے کبھی ہاشوانی، میاں منشا جیسے سرمایہ داروں سے تو مسئلہ نہیں ہوا – اسے ہم بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اہل سنت بریلوی نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھی، اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا اور اس کو پاگل خانے یا جیل کے سپرد کیا جائے گے
یہ سب تو سلیم صافی کی زبان سے سن رہا ہوں لیکن ایک اعتبار سے یہ اچھا ہوا کہ کم از کم اس کالم کو پڑھنے کے بعد لوگوں کو سلیم صافی کی اصلیت بارے کوئی شبہ بھی ہوگا تو وہ دور ہوگیا ہوگآ
ویسے ہمارے وہ پختون صحافی اور دانشور جو پختون قوم کا جوہر “امن پسندی ” بتلاتے تھکتے نہیں ہیں اور اپنے سماج کے بڑے لوگوں کی مثال میں رحمان بابا ، حمزہ شنیواری ، غنی خان ، خوشخال خان خٹک اور باچا خان کو پیش کرتے ہیں ذرا نوٹس تو لیں کہ سلیم صافی نے ان سب کو ایک طرف رکھ کر بیت اللہ محسود ، حکیم اللہ ، مولوی فقیر محمد ، احسان اللہ احسان ، خالد خراسانی ، قاری شکیل ، قاری حسین محسود کو یاد کیا ہے – یہ وہ سب لوگ ہیں جو انسانی سروں سے فٹبال کھیلتے اور انسانوں کو زبح کرنے میں یک گونہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور کم سن ، کم عمر بچوں کے اجسام کو بم بناکر انسانوں کی بستی میں تباہی مچانے بھیج دیتے ہیں اور سلیم صافی نے ان کو پختون اور اصل قبائلی قرار دیا ہے جو میں سمجھتا پختون معاشرے کو ایک اور زبردست چوٹ پہنچانے کے مترادف ہے جس پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہوگآ
The writer of this blog seems to fabricate an incoherent story which is against the obvious facts. On one side he says that initially Saleem Safi was influenced by Maudoodi’s thought. How can such a person become takfiri? He has included Najam Sethi in the list of Taliban sympathisers which is against the facts. As a liberal fascist he was always at the forefront in advocating military operation against Taliban. Another obvious fact is that Sharif family itself belongs to Barelvi school of thought. Then how could they conspire the followers of their own school of thought? I think the real ideological fight is between Islamism and secularism. Within religious circle those who are plagued with sectarian thinking, present in every school of thought, are playing un the hand of secularists against the Islamists who are striving for a combined Islamic stance against the imperialist forces and local secularists.
The article is very true as saleem safi in many of his article’s published in daily jang has ridiculed sunni berellvi and shia sect and in fact he has gone to such levels and stated that the religious beliefs if both sunni berellvi and shia are nit islamic and also stated that the religious practices of both sunni berellvi and shia be stopped in pakistan.For further information the pagan ISIS and pagan al nusra has also adopted there ideology from muadudi (and for importance the literature of mudaudi has been banned in many countries such as bangla desh , Syria , and many african countries) .It is important for people to understand that saleem safi is a journalist who is foot soldier of pagan taliban and he is like a poisonous tree biund to infrct the whole jungle with the help of pagan saudi regimes.
yar kalum likna sa pehla kisi ustad sa poch leta ha ma chawel marna luga ho muja btao meri ya chawel teek ha gdhaaaaaaaaaaaaa
indoor running track at Harvard. This first Shox prototype was used to find the optimal spring rate, but it clumsy and heavy metal frame did nothing to improve performance. 1986 The third attempt at Shox produced a simpler, more attractive cushioning system utilizing a closed leaf shaped spring, but still disappointed in durability, comfort, and stability. http://www.loginkbk.com 1987 The next generation of Shox prototype attempted to solve the problem of durability and stability by replacing the closed leaf spring with a hinged ca