جعلی باغی جاوید ہاشمی کی تعریف میں مگن آصف زرداری اور بلاول کے خلاف پیپلز پارٹی کے جیالوں کی بغاوت – عمار کاظمی

1

جناب بلاول اور آصف زرداری صاحبان، آپ کو جنرل ضیاء کے ایل ایف او کا حلف بردار دوسروں کا داغی نظر آتا ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے وہ باغی نظر نہیں آتے جن کے کردار پر کبھی آمریتوں کا کوئی دھبہ نہیں لگا ۔ یہ تو تحریک انصاف کی ناتجربہ کار قیادت کی بھول تھی جو وہ جماعت اسلامی کی کوکھ سے جنم لینے والے داغی کو باغی سمجھ بیٹھے۔ مگر ہم اس کی بنیاد تک جھانک سکتے ہیں۔ دراصل پیپلز پارٹی مخالف، جمہوریت بانجھ ذہنوں کی مثال کھسروں کے گھر آدھا لڑکا پیدا ہونے والی ہے جو انھوں نے چوم چوم کر مار دیا تھا۔ جاوید ہاشمی بھی دائیں بازو کی سیاست میں وہی بچہ تھا اور ہے۔ ورنہ پیپلز پارٹی کے ہزاروں لاکھوں جیالے جاوید ہاشمی سے زیادہ جمہوریت اور حریت پسند ہیں، جاوید ہاشمی سے زیادہ جمہوریت شناس اور غریب دوست ہیں۔

مگر جناب آصف زرداری، جناب بلاول، تمھیں ان غریبوں کا سچ کیوں نظر آئے گا؟ تمھیں بھٹو کے ان سپاہیوں کی وفاداریاں کیوں یاد آئیں گی؟ تم تو ان کو اپنا زرخرید سمجھتے ہو تمھیں وہ جمہوریت کے گولڈ میڈلسٹ کیوں نظر آئیں گے؟ یہ داغی اگر باغی ہے تو یہ مجرم والا باغی ہے۔ یہ باغی کہاں ہے؟ یہ تو محض تکفیری نواز اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف جیسے سرمایہ داروں کے پلانٹڈ سلیپنگ سیلز ہیں جو وقت آنے پر، ضرورت پڑنے پر ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ اور تحریک انصاف والوں سے بھی معذرت کے ساتھ تحریک انصاف میں اور بھی بہت سے سلیپنگ سیلز موجود ہیں کسی بھی وقت سر اٹھا سکتے ہیں۔ باقی جاوید ہاشمی حریت پسند کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ حریت پسند لوگوں کو مشکل میں نہیں چھوڑتے، یہ تو اپنے غریب کارکنوں کو بیچ منجدھار چھوڑ کر چلا گیا جب ان پر تکفیری اسٹیبلشمنٹ نے ریاستی بربریت کی انتہا کر دی تھی اور اس کے اپنے قائد عمران خان کے کنٹینر پر آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کو گولیاں برسائی جا رہیں تھیں، ایسے ہوتے ہیں جمہوریت اور انصاف کی راہ میں جدوجہد کرنے والے جو اپنی پارٹی کے کارکنوں کو سڑکوں اور ہسپتالوں میں سسکتا چھوڑ کر پارلیمنٹ لاج میں جا کر سو گئے اور اگلے دن اپنی ہی پارٹی کے خلاف ایک دھواں دار پریس کانفرنس کر ڈالی- یہ بغاوت نہیں، بزدلی ہے، قیادت نہیں، اپنے کارکنوں کے لہو سے غداری ہے ۔ جاوید ہاشمی نے جمہوریت کے لیے نہیں سرمایہ دار کے اقتدار کے لیے بغاوت کی ہے۔ اور اس کی بغاوت کے ساتھ ہی بکےہوۓ قلموں سے، جن میں دیوبندی تکفیری لابی اور کمرشل لبرلز دونوں شامل ہیں، یہ تجزیہ نگاری شروع ہو چکی ہے کہ جاوید ہاشمی کے جانے سے تحریک انصاف کا دھرنا کمزور پڑ گیا ہے، اس کے الزامات کے ساتھ عمران کی عوامی مقبولیت میں کمی آ گئی ہے وغیرہ

2122marvi45

میری نظر میں کمرشل لبرلز، نام نہاد لیفٹ اور دائیں بازو کی دیوبندی لابی کے یہ تمام تجزیے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں جس کا مقصد عمران خان کی کردار کشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دیکھنا صرف اتنا ہے کہ تحریک انصاف کی نا تجربہ کار کچے ذہنوں کی حامل یوتھ اس پراپیگنڈا مہم سے کس قدر متاثر ہوتی ہے۔ جہاں تک میری ذاتی رائے ہے میرے خیال میں نوجوان نسل اس سے متاثر نہیں ہوگی۔ سب ہی دیکھ رہے ہیں کہ جاوید ہاشمی عمران خان کو اس کے مشکل وقت میں چھوڑ کر گیا ہے اور عمران اپنی مقبولیت کے جس عروج پر پہنچ چکا ہے اور جس طرح سٹیٹس کو کی تمام قوتیں جن میں نواز لیگ کے علاوہ زرداری پارٹی، اسفندیار پارٹی، فضلو پارٹی اور اچکزئی جیسے حضرت شامل ہیں، اس کے بعد اس جعلی باغی داغی کا اسے مشکل وقت میں چھوڑ کر جانا بے معنی ہی ثابت ہوگا بلکہ عین ممکن ہے کہ اس سے اُسے نوجوان نسل کی مزید ہمدردیاں مل جاءیں۔ میری نظر میں عرمان خان بڑا لیڈر تو پہلے ہی بن چکا تھا مگر اس دھرنے کی کامیابی یا ناکامی کے بعد وہ اور بھی بڑا لیڈر بن کر ابھرے گا۔ وہ غیر متاثر کن انداز اور الفاظ میں درست کہہ رہا ہے کہ نواز شریف اس سے ڈر گئے ہیں۔ نہیں نواز نہیں پاکستان کی تمام روایتی سیاسی جماعتیں اس وقت اس سے خوف ذدہ سٹیٹس کو کے تحفظ میں متحد نظر آ رہی ہیں

تاہم ایک بات ضرور ہے کہ عمران خان کا واستہ انتہائی شاطر اور چالاک ذہنوں سے ہے۔ اور اگر وہ ان کی باتوں میں آ کر کہیں چوک کر گیا تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ باقی خان صاحب کو جاوید ہاشمی کے جانے کی کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس نے عمران خان سے ہی نہیں دھرنے میں بیٹھی نوجوان نسال سے بھی غداری کی ہے

یاد رکھیے کہ یہ وہی جاوید ہاشمی ہے جس نے ابھی ایک سال قبل تکفیری و جہادی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے حافظ سعید کو سفیر امن قرار دیا اور حافظ سعید و جماعت الدعوہ کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کو رد کیا – آج یہی ہاشمی نواز شریف کے ساتھ کھڑے تکفیری ملاؤں لدھیانوی، طاہر اشرفی، فضل الرحمن، مفتی نعیم کو دیکھ کر مچل گیا اور عمران خان کے خلاف تکفیری اتحاد کو مضبوط کرنے میں شامل ہوگیا

سوشل میڈیا پر شیری رحمان، نجم سیٹھی اور حسین حقانی جیسے حضرت سے تربیت یافتہ بلاول ایک بہادر آدمی ہاشمی کے نعرے بلند کر رہا ہے کیا کبھی بلاول نے پی پی پی کو صفوں میں موجود غیرتمند جیالے باغیوں کی بھی تحسین کی جو کراچی سے کوئٹہ تک صرف سنی بریلوی اور شیعہ ہونے کی وجہ سے اپنے لہو کی قربانی دے رہے ہیں اور تکفیری اورنگزیب فاروقی لابی اور رمضان مینگل لابی کے خلاف پیپلز پارٹی کی حکومت اور سابقہ حکومت کی خاموشی کا رونا رو رہے ہیں.

پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے کارکنوں کو روبوٹ سمجھ رکھا ہے۔ جب چاہیں کارکنوں کو ان کے برسوں پرانے نظریاتی دشمنوں سے دوستی کرنے کو کہہ دیں اور جب چاہیں کسی جیالے کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر غدار کہہ کر باہر نکال دیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ آج کل جس طرح پیپلز پارٹی پنجاب کا کارکن نواز کی چاکری پر مامور ہے کل شاید اس کی واپسی ان کے آواز دینے پر بھی ممکن نہ ہو۔

یہ نئی نسل کا زمانہ ہے۔ اوراس نسل کا جھکاو کس طرف ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔آج ایک گھر کے چار افراد کے مختلف احکامات قبول نہیں کر سکتے۔ بدلی ہوئی دنیا کو دیکھیں، سوچوں میں تبدیلی کو حقیقت پسندانہ انداز میں محسوس کریں، پرانے زمانے اور پرانی سوچوں سے نکلیں۔ جب خلا پر ہو جاتے ہیں تو پھر دوبارہ جگہ نہیں ملتی۔ ایمانداری سے سوچیں کہ کیا محض ٹویٹر یا زرداری صاحب کی جوڑ توڑ سے آج کے دور میں یہ جماعت مقبول جماعت رہ سکتی ہے یا نہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی دائیں اور بائیں کے درمیان ایک خواجہ سرا سیاسی جماعت محسوس ہوتی ہے۔ آج نہ یہ لبرل رہی ہے اور نا یہ کبھی بنیاد پرست مذہبی جماعت بن سکے گی۔ اور اگر خورشید شاہ جیسے تکفیری قوتوں کے چاپلوسوں کی وجہاگر پیپلز پارٹی کبھی دائیں بازو کی جماعت بن بھی گئی تو آپ کا کیا خیال ہے کہ مذہبی جماعتوں یا دائیں بازو کی جماعتوں کا روایتی ووٹر اپنی پرانی وابستگی چھوڑ کر اسے ووٹ دے دے گا؟ وہ تو شاید نہیں دے گا مگر ان کا روایتی ووٹر ان سے ضرور پیچھے ہٹ چکا ہے اور اس طرز سیاست کی وجہ سے مزید لوگ ہر روز پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ حقیقت پسند بنیے، غلطیوں کی نشاندھی کریں اوور سیاسی جمہوری قیادت کو اسنان ہی سمجھیں کہ اس کے سوا اپنی اس جماعت کو زندہ رکھنے کا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

اور آپ جناب محترم آصف زرداری صاحب کس کے غدار کو گولڈ میڈل دے رہے ہو؟ ان کی تاریخ کو سنہری حروف میں لکھنے کی بات کر رہے ہو؟ پھر ان کی تاریخ سنہری حروف میں کون لکھے گا جو خود اپنی تاریخ اپنے خون سے لکھ گئے؟ آپ کی اس سوچ اور ناکام مفاہمت کی سیاست سے کچھ بعید نہیں کہ کل کو آپ اعجاز الحق کو بھی میڈل سے نواز دیں۔ آپ سرمایہ داروں نے فقیر جالب کی نظمیں اپنے مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے پڑھیں مگر آپ کو اسلام آباد دھرنے کے شرکاء میں بیٹھے جالب کے بچے نظر نہیں آتے۔ انقلاب کے آج یہ سرمایہ دار فوج کانام لے کر جمہوریت بچا رہے ہیں اور فوج جمہور کے سامنے جمہوریت کے تحفظ کا بہانہ کر رہی ہے۔ یہ دو نمبر وکلاء تحریک کے بعد برائے نام آزاد مگر جانبدار نئی آمریت کی شکل کی عدلیہ بھی آپ کے اسی سٹیٹس کو کا حصہ ہے۔ تحریک انصاف والے کچھ بھی سوچتے کہتے رہیں مگر ہم ان تینوں کے باغی ہیں۔ یہ تینوں سٹیٹس کو کے محافظ ہیں۔ اور آج اگر ہماری مائیں، بہنیں سڑکوں پر، گھاس پر اٹھارہ انیس دن سے سو رہی ہیں تو ہم آپ کی سرمایہ دار قیادت کی بجائے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ بھلے اُسامہ بن لادن کا انٹرویو کرنے والے طالبان کے حمایتی حامد میر کو صدارتی ایوارڈ سے نوازو، شہباز بھٹی کو قتل کروانے والے طاہر اشرفی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر بناؤ، اور ہماری پیپلز پارٹی کے شہیدوں، پاکستان کے غریبوں اور جمہوریت کی خاطر قربانیوں کو یکسر مسترد کردو ہم حریت پسندی نھیں چھوڑیں گے

اب یہ سرمایہ دار اور غریب کی جنگ بن چکی ہے۔ اگر آپ سرمایہ دار اکٹھے ہو تو جان لو پاکستان کے غریب عوام بھی جاگ رہے ہیں، متحد ہو رہے ہیں، طاہر القادری اور عمران خان، تم اپنے پیروں کی مٹی نہ چھوڑنا۔ ہم ہر گزرتے دن کی ساتھ تمھیں سہارا دیتے رہیں گے۔ پھر سے غریبوں کی اُمنگوں کا سودا مت کرنا۔ صبر کرنا پیروں کی مٹی نہ چھوڑنا۔ ہم اپنی جماعتیں اور سیاسی نظریات چھوڑے بغیر تمھارا ساتھ دیں گے۔ خود کو تنہا محسوس نہ کرنا۔ جوں جوں وقت گزرے گا اور یہ سرمایہ دار، جاگیر دار، وڈیرے، سردار غربا کے خلاف اتحاد میں متحد ہونگے ویسے ہی پاکستان کے غریب عوام ان کی اصلیت سمجھتے جاءیں گے۔ پھر کہتا ہوں۔ خود کو تنہا محسوس نہ کرنا ہم بھی پہنچ رہے ہیں۔ ہم بھی آ رہے ہیں۔ اپنے نعروں اور امیدوں کے ساتھ، حقیقی جمہوریت کے دیرینہ خوابوں کے ساتھ، ہم آ رہے ہیں۔

72

3

4

5

6

 

9

10

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Sarah Khan
    -
  5. Sarah Khan
    -
  6. Muoi Mcwells
    -