پاکستان میں سنی صوفی نسل کشی میں سعودی حمایت یافتہ نواز شہباز حکومت کا کردار – از محمد بن ابی ابکر
اس ہفتے وزیر اعلی شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے پاکستان عوامی تحریک کے پر امن سنی صوفی بریلوی کارکنوں کے خلاف ایک مرتبہ پھر زبردست ریاستی طاقت کا استعمال کیا اور انسانی حقوق کی پامالی میں پھر سبقت لے گئی
پنجاب حکومت نے طاہر القادری کے خلاف لاہور کے تین تھانوں میں اشتعال پھیلانے ،تشدد پر اکسانے اور ریاست کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے الزامات کے تحت انسداد دھشت گردی ایکٹ سمیت بہت سی دفعات کے اندر مقدمات درج کرلئے اور طاہر القادری اور ان کے کارکنوں کو دھشت گرد قرار دے دیا گیا جبکہ ایک مقدمہ تھانہ نصیر آباد میں ان پر ایک پولیس اہلکار کے قتل ،پولیس مقابلے کے الزام کے تحت درج کیا گیا ہے جس میں ان پرقتل اور دہشت گردی سمیت متعدد دفعات لگائی گئی ہیں
سعودی نواز مسلم لیگ نوں کی نواز شہباز حکومت کی ریاستی دہشتگردی میں اب تک بائیس سے زیادہ سنی صوفی شہید، تین ہزار سے زائد زخمی جبکہ 7 ہزار کارکن گرفتار کئے جاچکے ہیں جبکہ پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے
پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے گھروں میں مردانہ پولیس داخل ہوئی ،عورتوں پر تشدد کیا گیا ، گھروں کی چیزوں کو توڑ پھوڑ دیا گیا اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا- اہل سنت بریلوی صوفی کی پنجاب بھر میں مساجد کے باہر جمعہ کے دن پولیس کی بھاری نفری تعنیات کی گئی جس نے نماز جمعہ پڑھ کر آنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا – گرفتار ہونے والوں میں ڈاکٹر طاہر القادری کے قریبی رفقا اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کے بھائی بھی شامل ہیں
پنجاب حکومت نے پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے آج یوم شہداء منانے کے اعلان پر تحریک منہاج القرآن مرکزی سیکرٹریٹ اور اس کے دیگر اداروں کی جانب آنے والے تمام راستے بھاری کنٹینر لگاکر بند کئے اور تین دن تک پورے ماڈل ٹاؤن کو سیل رکھا ،کسی کو بھی وہاں آنے یا وہاں سے جانے کی اجازت نہ ملی اور عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنوں بشمول مرد،خواتین اور بچوں کا پانی اور خوراک بند کردیا گیا اور یہ ایک طرح سے پاکستانی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اسرائیلی حربہ استعمال کیا جو وہ غزہ ،رام اللہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کی ناکہ بندی کرنے کے لیے استعمال کرنے میں بدنام ہے
پنجاب حکومت نے یہ سب مظالم اور ریاستی جبر حکومت اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کے نام پر اٹھائے اور اس نے یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ جیسے پاکستان عوامی تحریک کوئی دھشت گرد تنظیم ہے اور یہ پنجاب کے سات شہروں میں تباہی و بربادی پھیلانے کی کوشش کررہی تھی
پنجاب کے وزیر داخلہ رانا مشہود دیوبندی نے قذافی گراؤنڈ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران یا الزام لگایا کہ ان کو انٹیلی جنس اداروں سے یہ رپورٹ ملی تھی کہ پاکستان عوامی تحریک پنجاب کے سات بڑے شہروں میں دھشت گردی کا منصوبہ بنارہی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ طاہر القادری جیسے بدمعاش اور دھشت گرد کا مقدد جیل کی سلاخیں ہیں
اسی دوران دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مولوی طاہر اشرفی جوکہ پاکستان علماء کونسل کے صدر ہیں جوکہ اصل میں کالعدم دیوبندی تکفیری دھشت گرد جماعت انجمن سپاہ صحابہ کے مولوی کارکنوں اور رہنماؤں کی دوسری پناہ گاہ ہے اور تحریک طالبان پاکستان ،القائدہ سمیت عالمی وہابی دیوبندی تکفیری دھشت گرد نیٹ ورک کی حامی تنظیم ہے نے ایک پریس کانفرنس کی جس کے دوران مولوی طاہر اشرفی نے طاہر القادری اور اس کے حامیوں کو فسادی قرار دیا اور ان کو فی الفور گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا اس سے قبل سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو دھشت گرد ،ان کا دماغ درست کرنے کے لیے ان کو جیل کی ہوا کھیلانے اور ان کو بدعتیوں کا امام قرار دیا تھا
پنجاب حکومت جس کی قیادت شباز شریف کے پاس ہے ابھی تک دو وزیر قانون لیکر آئی اور دونوں وزیروں کا تعلق سپاہ صحابہ پاکستان دیوبندی تکفیری تںظیم سے رہا ہے اور دونوں نے اہل سنت بریلوی کے خلاف انتہائی نفرت انگیز زبان کا استعمال کیا ہے
شہباز شریف اور موجودہ آئی جی پنجاب ،رانا ثناءاللہ اور چوہدری نثار علی خاں وہ مرکزی شخصیات ہیں جنھوں نے دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت کے ساتھ سیاسی ڈیل کی اور سات نشستوں پر ایڈجسمنٹ پنجاب میں ہوئی اور ای ایڈجسٹمنٹ یہ تھی کہ مسلم لیگ نواز اہل سنت والجماعت کو پنجاب کے اندر سات قومی اسمبلی کی نشستیں دے گی جن پر اہل سنت والجاعت کی خواہش کے مطابق شیر کے نشان پر ان کے لوگ الیکشن لڑیں گے جس میں گجرات سے چودھری عابد گجر بھی شامل تھا جبکہ ایک سازش کے تحت اور اہل سنت والجماعت کے ساتھ اپنی کھلی وابستگی چھپانے کے لیے بظاہر شیخ وقاص اکرم کو پہلے ٹکٹ دیا گیا پھر ایچ ای سی سے اس کو ناہل قرار دلوایا گیا جب اس کا والد اس سیٹ پر آیا اور ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ جیت گیا تو اسے ٹربیونل سے ناہل قرار دلوادیا گیا اگرچہ سپریم کورٹ نے بعد میں لدھیانوی کی کامیابی کا نوٹیفیکشن منسوخ کردیا تھا لیکن مسلم لیگ نواز نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح سے محمد احمد لدھیانوی کو قومی اسمبلی میں لیکر آیا جائے
پنجاب حکومت کی اہل سنت صوفی بریلوی اور شیعہ کمیونٹی کے خلاف دیوبندی مسلک کے انتہا پسندوں اور دھشت گردوں کو مسلسل استعمال کررہی ہے اور اس کا سلسلہ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی اور 2008ء میں شہباز شریف کے دوبارہ چیف منسٹر پنجاب بن جانے سے شروع ہوا تھا
فیصل آباد ڈویژن میں اہل سنت بریلوی کے خلاف پاکستان علماء کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور سپاہ صحابہ پاکستان کی سپریم کونسل کے چئیرمین مرحوم ضیاء القاسمی کے بیٹے زاہد القاسمی نے کاروائياں شروع کیں ،اہل سنت بریلوی کے مدارس کے لیے وقف زمینوں ،کئی ایک مدرسوں اور کئی ایک مختص زمینوں پر قبضے کی کوششیں کی گئیں جبکہ میلاد النبی کے جلوسوں پر پتھراؤ اور فائرنگ کے واقعات بھی تواتر سے سامنے آنے لگے اور یہ سب سابق صوبائی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے حکم پر اور شہباز شریف کی مرضی سے کیا جارہا تھا
یہ سلسلہ فیصل آباد ڈویژن تک محدود نہ رہا بلکہ لاہور ڈویژن اور لاہور شہر کے اندر بہت سی مساجد اور مدرسوں پر زبردستی دیوبندی تنظیم اہل سنت والجماعت اور پاکستان علماء کونسل کے لوگوں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی جب اہل سنت بریلوی کی جانب سے پولیس اور انتظامیہ سے رجوع کیا گیا تو بجائے قبضہ گیروں کو گرفتار کرنے اور اصل انتظامیہ کو قبضہ دلوانے کے وہاں پر تالے لگائے گئے اور سنی صوفی مساجد و مدارس کو سیل کردیا گیا – 2008ء کے بعد صوبہ خیبر پختون خوا کے بعد پنجاب کے اندر صوفیائے کرام کے مزارات اور ان کے عرس مبارک کے انعقاد کے مواقع پر ریوبندی دھشت گرد تنظیموں نے حملے کرنا شروع کردیے – 2009ء میں پنڈی-اسلام آباد ميں حضرت بری امام سرکار کے مزار پر خوفناک حملہ ہوا اور جس سے درجنون افراد ہلاک اور زخمی ہوئے اور اسی طرح سے جہلم کے قریب ایک مزار کو نشانہ بنایا گیا اور حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اور پاکحتن میں حضرت فرید الدین گنج شکر کے مزار کو نشانہ بنایا گیا
جبکہ ان واقعات کی آڑ لیکر پنجاب حکومت نے پنجاب بھر کے مزارات کو بند کرنے اور کئی ایک مزارات پر عرس کا انعقاد بند کرنے کی کوشش کی جس میں حضرت امام بری سرکار کا مزار اب تک بند ہے جبکہ حضرت شاہ حسین کا سالانہ عرس قیلہ چراغاں کو بھی سرکاری طور پر بند کیا گیا اور خواجہ فرید آف مٹھن کوٹ کے مزار کو بھی کافی عرصہ بند رکھا گیا جس پر اس وقت سنّی اتحاد کونسل کے بانی چئیرمین صاحبزادہ فضل کریم نے پنجاب حکومت اور مسلم لیگ نواز کی جانبداری اور دیوبندی انتہا پسند دھشت گردوں سے الائنس پر احتجاج کا فیصلہ کیا اور اپنی راہیں نواز شریف سے الگ کرلیں
اسی دوران معروف سنّی صوفی عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو بھکر کے دیوبندی مدرسے سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش بمبار نے خود کو اڑا کر شہید کرڈالا اور آج تک ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے قتل کے اصل منصوبہ ساز گرفتار نہیں گئے جاسکے بلکہ ڈاکٹر نعمی شہید کی برسی پر مدعو شہباز شریف نے خطاب کے دوران طالبان سے درخواست کی کہ وہ پنجاب پر حملے نہ کریں اور ان کے وزیر قانون رانا ثنا الله دیوبندی نے طالبان کو اپنا بھائی قرار دیا
یہ سب پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کی اہل سنت صوفی بریلوی سے دشمنی اور دیوبندی تکفیری دھشت گرد تنظیموں سے دوستی اور پنجاب میں اہل سنت بریلوی کی پراسیکوشن اور ان پر حملوں میں پنجاب حکومت کی شرکت اور مدد و تعاون کا الزام بے بنیاد اور بے سبب نہیں ہے
ڈاکٹر طاہر القادری نے جمعہ کی شب جو پریس کانفرنس کی اس میں دوران خطاب انھوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے دھشت گردوں کی حمائت ،ان سے رابطے اور ان کی حفاظت کرنے کے الزام کو دوھرایا
پنجاب حکومت نے آج تک سپاہ صحابہ (نام نہاد اہلسنت والجماعت) کے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں احمد لدھیانوی، غلام رسول شاہ، الیاس گھمن و دیگر اور ان کی کور سیاسی مذھبی تنظیموں کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں کیا اور نہ ہی ان کے فورتھ شیڈول میں شامل مولویوں کو پنجاب سمیت پورے ملک میں آزادی کے ساتھ مذھبی منافرت پھیلانے، شیعہ ، سنّی، مسیحی، ہندو اور سیکولر لبرل لوگوں کے خلاف لوگوں کو تشدد اور دھشت گردی پر اکسانے پر کوئی ایکشن نہیں لیا
صرف مئی اور جون کے دو مہینوں میں کالعدم دیوبندی تکفیری تنظیم اہل سنت والجماعت نے جنوبی پنجاب کے اندر دو سے زیادہ مقامات اور شہروں میں اینٹی سنّی بریلوی و اینٹی شیعہ جلسے کئے اور وہاں جو تقریریں ہوئیں ان میں القائدہ ،ٹی ٹی پی کے نامور دھشت گردوں کو مجاہد اسلام کہا گیا اور ان سب جلسوں کی تفصیل وفاقی و صوبائی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وفاق اور پنجاب کو ارسال کیں لیکن اس پر بھی حکومت کو اپنی رٹ اور ریاست کو اپنی عملداری کے چیلنج ہونے کا احساس نہ ہوا
پنجاب حکومت کے سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے اعتراف کیا تھا کہ پورے پنجاب میں لشکر جھنگوی کے 150 سے زائد ٹھکانے ان کے علم میں ہیں لیکن آج تک ان ٹھکانوں کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہوا یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ کوئٹہ کی مظلوم شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف علمدار روڑ پر جو خوفنا حملہ منی ٹرک کے زریعے کیا گیا تھا اس میں استعمال ہونے والا کیمیکل اکبری منڈی لاہور سے کارگو کیا گیا تھا نواز شریف اور شہباز شریف کا طالبان اور سپاہ صحابہ کے دیوبندی اور وہابی عسکریت پسندوں کی طرف جھکاؤ اور اہل سنت صوفی بریلوی کی طرف معاندانہ رویہ سعودی فیکٹر کی وجہ سے بھی ہے
ہم اس بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف اصل میں کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان سمیت دیوبندی تکفیری دھشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کا سیاسی چہرہ ہیں اور وہ اپنی بادشاہت ایک طرف تو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف وہ اسے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی طاقت سے بھی برقرار رکھنے کے درپے ہیں اور وہ ڈاکٹر طاہر القادری ،حامد رضا سمیت ایسے سنّی بریلوی رہنماء جو ان کے اصل چہرے سے واقف ہوکر ان کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں کی سزا اہل سنت صوفی بریلوی کی عوام کو دے رہے ہیں
دیوبندی مکتبہ فکر جس کی اس وقت تکفیری ،غیر تکفیری تمام سیاسی اور مذھبی تبلیغی قیادت نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ کھڑی ہے سنٹر رائٹ بریلوی سیاسی تنظیموں اور ان کے حامیوں کو تہہ تیغ کرنے کی کوششوں میں ہاتھ بٹارہے ہیں اور یہ تکفیری و غیر تکفیری دیوبندی سیاسی و مذھبی لیڈرشپ پہلے سے ہی شیعہ کمیونٹی کے خلاف چلنے والی دھشت گرد مہم کی حمائت کرتی ہے یا اس پر خاموش رہ کر انھیں کھل کر کھیلنے کا موقعہ دیتی ہے
ہمارے لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور حامد رضا جیسے سنّی صوفی رہنماؤں کے خلاف دھشت گرد ، جمہوریت مخالف ، انتہا پسند ، پرو اسٹبلشمنٹ ہونے کا جو پروپیگنڈا دیوبندی لابی کی جانب سے کیا جارہا ہے اس کے پیچھے اصل میں ان لیڈروں اور ان کی تنظیموں کی جانب سے مقامی اور عالمی وہابی دیوبندی دھشت گرد نیٹ ورک اور اس کے حامیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے خلاف جدوجہد کرنا ہے
جبکہ اس کام میں بہت سے نواز یافتہ لبرل ،لیفٹ ، سیکولر جمہوریت پسند دانشور ، سیاسی کارکن ،صحافی بھی تیزی سے بے نقاب ہوئے ہیں جو طالبان ، اہل سنت والجماعت ، لشکر جھنگوی وغیرہ کی دیوبندی شناخت پر تو منہ میں گھونگیاں ڈال کر بیٹھے رہتے ہیں لیکن طاہر القادری اور ان کے حامیوں کی مزاحمت اور ریاستی دھشت گردی کے سامنے ڈٹ جانے کو بریلوی دھشت گرد چہرہ قرار دینے میں کوئی شرم اور عار محسوس نہیں کرتے
میڈیا پر حسب دستور سلیم صافی دیوبندی ، حامد میر دیوبندی (لبرل۔۔۔۔اس پر ہنسنا منع ہے) اور کئی ایک نواز شریف کے سکوں اور دیگر نواشات کے بوجھ تلے دبے قلم فروش لبرل صحافی ڈاکٹر طاہر القادری ،حامد رضا ، راجہ ناصر عباس جعفری سمیت کئی ایک سنی بریلوی اور شیعہ مذھبی سیاسی رہنماؤں پر زبردست حملے کرنے میں مصروف ہیں
ان کی جانب سے ڈنڈوں ،پتھروں اور ہاتھوں کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں کا پولیس کی ناکہ بندی کو توڑنا ،ان کی گولیوں ،آنسو گیس کی شیلنگ اور زبردست لاٹھی چارج کا مقابلہ کرنا اس قدر بڑی دھشت گردی ہے کہ بس طاہر القادری اور ان کے حامیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا جائز اور 22 لاشیں گرانا بھی جائز ہے
جبکہ یہ سب دیوبندی ، لبرل صحافی ،تجزیہ نگار ، سیاسی ليڈر کل تک پاکستان کے 60 ہزار سنی صوفی، شیعہ، مسیحی و دیگر شہریوں کو بے دردی سے شہید کرنے والوں ، پاکستان میں مزارات ،مساجد ،امام بارگاہوں اور بازاروں ،اسکولوں ،ہسپتالوں ،پلوں کو اڑانے والوں سےمذاکرات کرنے کے حامی اور ان کے لڑنے والوں کو مزاحمت کار لکھتے اور بولتے تھے جبکہ ان سے مقابلہ کرتے مارے جانے والے فوج اور پولیس کے سپاہیوں کو یہ شہید ماننے سے انکار کرڈالتے تھے ان کے ہاں دیوبندی تکفیری دھشت گرد نہ تو حکومت کی عملداری کو چیلنج کرنے والے تھے اور نہ ہی وہ کوئی بدمعاش ،دھشت گرد ،بھتہ خود ،تاوان کار ،اغواء کار اور فسادی تھے
تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے ہمیشہ ایسے لبرل ،نام نہاد اعتدال پسند دیوبندی وہابی صحافیوں ،دانشوروں اور سیاسی مذھبی لیڈروں کی دو عملی کو بے نقاب کیا اور عرصہ دراز سے لکھا کہ پاکستان کے اندر ایسے جعلی لبرل ، جعلی لیفٹیوں کی کمی نہیں ہے جن کا اتحاد دیوبندی لابی کے ساتھ ہے جن کو اس ملک کے عملی اور نظری اعتبار سے دیوبندی ریاست بن جانے اور عالمی وہابی دیوبندی تکفیری دھشت گرد نیٹ ورک میں شامل ہوجانے پر اصولی اختلاف نہیں ہے – لوگوں کو امیر جماعت اسلامی کا حکیم اللہ محسود کو لکھا جانے والا خط یاد کرنا چاہئیے جس میں اس نے لکھا تھا کہ ان کی اور ٹی ٹی پی کی منزل ایک بس حکمت عملی میں اختلاف ہے
امریکی سی آئی اے اور سعودی ریال یافتہ نواز شریف سے مستفید ہونے والے جعلی لبرل ، جعلی لیفٹیئے اور جعلی سرخے ، جعلی ترقی پسند صرف اس وقت اپنے اوپر اینٹی فرقہ پرست نقاب چڑھاتے ہیں جب ان کو دھشت گردوں کی دیوبندی شناخت چھپانا ہوتی ہے اور مسلم لیگ نواز کی دیوبندی دھشت گردی کی حمائت پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے
تعمیر پاکستان ویب سائٹ پنجاب میں انسانی حقوق کی شدید پامالی اور اہل سنت بریلوی کے خلاف حکومت کی پراسیکوشن اور سنی صوفی نسل کشی کی شدید مذمت کرتی ہے ہم پنجاب میں اہل سنت بریلوی کو ریاستی طاقت کی پشت پناہی کے ساتھ دیوار سے لگانے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس حکومت کی جانب سے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی کھلم کھلا سرپرستی کرنے سے باز نہ آنے پر سمجھتے ہیں کہ اس حکومت کا فوری خاتمہ ضروری ہے ورنہ یہ حکومت پنجاب کو زبردستی بدترین خانہ جنگی کی جانب دھکیل دے گی
The fight against the Taliban is not just a military struggle. It is also an ideological struggle between moderate and Takfiri Islam. The army can use its tanks and guns but for all-out victory, for success on the ideological front, for Pakistan to return to its moorings, there has to be a meeting of minds between the army and moderate Islam. And if there is such an understanding, conscious or otherwise, Pakistan will never go the way of Iraq or Syria. No Salafi brand of fitna (discord) can arise on its soil.
Ayaz Amir
خداهم سب کو حق پرعمل کرتے کی توفیق دتے الله زور قلم اور زیاده دتے مبارک هو