پانچ جولائی کا شب خون جب ایک فوجی حکمران نے پاکستان پر دیوبندی ملائیت کی سیاہ رات مسلط کر دی – از عامر حسینی
5 جولائی 1977ء کی رات کو پاکستانی فوج نے اس وقت ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ 16 دسمبر 1971ء میں اس کے نوے ہزار فوجیوں کی جانب سے ڈهاکہ میں ہتهیار ڈالے صرف 5 سال ہوئے تهے اور اس فوج نے اس منتخب وزیراعظم کو اپنے عهدے سے زبردستی الگ کردیا جس نے اپنے تئیں بنگالیوں کی آزادی لے لینے کے بعد پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ و سول بابو شاہی کے ساته ایک نیا معاهدہ عمرانی کیا تها جس کے تحت اس نے پاکستان کو بطور ایک فیڈریش برقرار رکهتے ہوئے اور اس کو ایک سیکولر اور روادار ریاست کے برقرار رکهتے ہوئے اس میں بسنے والی قوموں اور مذهبی برادریوں کے درمیان ایک ہم آهنگ فضا کی تشکیل کی کوشش کی
زوالفقار علی بهٹو نے پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے مختکف رجحانات کے درمیان ایک قابل عمل سمجهوتے کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس سارے عمل کے دوران یہ ہوا کہ فیڈریشن ،آرمی اور سول بیوروکریسی کو مضبوط بناتے بناتے وہ اس ملک کی اقوام اور سماجی و سیاسی طور پر کمزور مذهبی برادریوں سے دور ہوتے چلے گئے زوالفقار علی بهٹو نے سوچا ہوگا کہ صوبائی خودمختاری کا ایشو دس سال تک معطل رکهکر جب فوجی اور سول بیوروکریٹک ڈهانچہ مضبوط ہوجائے گا تو دس سال بعد صوبائی خودمختاری کا ایشو حل ہوجائے گا
انہوں نے محض 2 سال بعد ہی پاکستان کی بنیاد پرست ،مذهبی فسطائیوں کے آگے گهٹنے ٹیک دئے وہ پنجاب اور سنده کے شہروں میں مذهبی فسطائیت کے غلبے اور زور سے گهبراگئے اور انہوں نے یہ کیا کہ اس ملک کے احمدی لوگوں کو آئینی ترمیم کرکے غیرمسلم قرار دے دیا اور شراب ،ریس ،جوئے پر پابندی عائد کی اور اس طرح سے ملائیت کو ایک راستہ دکهایا کہ وہ اس ملک میں جس مذهبی کمیونٹی کو چاہیں اس کو غیر مسلم قرار دلوانے کے لئے آئین میں موجود چوتهی ترمیم امتناع قادیانیت ایکٹ کی نظیر کا حوالہ دیتے رهیں
زوالفقار علی بهٹو فوج کو مضبوط کرنے کے نام پر جو اقدامات کررہے تهے انهی کا شاخسانہ تها کہ فوج نے 1974ء میں بلوچستان پر چڑهائی کردی اور بلوچستان اور خیبرپختون خوا کی حکومتوں کو ختم کرواکر زوالفقار علی بهٹو کو بائیں بازو کی ایک بڑی طاقت نیپ اور اس کے حامیوں کی حمایت سے محروم کردیا
زوالفقار علی بهٹو کی پارٹی اور ملک میں اور جتنی بائیں بازو اور ترقی پسند سیاسی قوتیں تهیں اس زمانے میں ملک میں سماجی انصاف کے قیام ،مابعد نوآبادیاتی سامراجیت کے خاتمے اور مذهبی پیشوائیت کے خاتمے کے لئے متحرک تهیں اور یہ سب عناصر وہ تهے جن سے اس وقت کی سپرپاور امریکہ اور اس کے اتحادی خائف تهے ان کا خیال تها کہ سرد جنگ کے اس فیصلہ کن مرحلے میں پاکستان سمیت تیسری دنیا کے وہ ملک جہاں بایاں بازو برسراقتدار ہے وہاں فوجی آمریتوں کو لایا جانا اور ان کی مدد کرنی انتہائی ضروری اور وہاں پر سامراج مخالف رجحانات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے
جنرل ضیاءالحق اور اس کے مذهبی رجعت پسند اتحادیوں کے اشتراک سے پاکستان کے اندر اس کالی اور سیاہ رات کا آغاز ہوا جس کا ابهی تک اختتام ہوتا نظر نہیں آرہا جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کے بعد سے لیکر 1988ء تک ملک پر جو حکومت کی اس کا جائزہ اس نکتہ نظر سے بهی لینے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ اس نے ان گیارہ سالوں کے دوران پاکستان میں حکومتی وسائل سے اور عالمی قوتوں کی اشیرباد سے کس طرز کے اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش کی
مجهے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے سعودی عرب کی مدد سے پاکستان میں دیوبندی ،،وهابی مسلک کے انتہاپسند نظریات کا ایک آمیزہ تیار کیا جس کی بنیاد تکفیر اور خارجیت پر تهی اور یہ دیوبندی وهابی تکفیری خارجی اسلام وہ تها جس نے اس ملک کے اکثریتی مسلک اہل سنت بریلوی اور مذهبی اقلیتوں شیعہ ،احمدی ،عیسائی ،هندوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور ریاسےی سطح پر ایسے قوانین متعارف کرائے گئے جن کی وجہ سے اس ملک کی اکثریت کا جو عام مذهبی ثقافتی چلن تها اس کا راستہ بهی مسدود ہوگیا
اگرچہ اس زمانے میں اہل سنت بریلوی کے پنجاب اور کرچی سے تعلق رکهنے والے رہنما ضیاءالحق کی سیاسی رشوتوں کی وجہ سے ضیاءالحق کی سازش کو نہ سمجه سکے اور انہوں نے اپنے پیر پر کلہاڑی مارلی لیکن آج ان کی اکثریت بهی یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ ضیاءالحق نے اسلام کے نام پر ان کو بهی اقلیت میں بدلنے کا سامان کرڈالا تها
جنرل ضیاءالحق نے ایسے دیوبندی وهابی خارجی تکفیری جنگجو اسلام کو پاکستان پر مسلط کیا جو یہاں کی صدیوں سے چلی آرهی صلح کل ،امن پسند صوفیانہ مذهبی روایت کے خلاف اور اس سے براہ راست متصادم تها اور اس نے اسی جنگجو نام نہاد اسلام کو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب اور پاکستانی میڈیا خاص طور پر اردو میڈیا کی گائیڈلائن بهی قرار دلوایا اور ساته ساته ساته اس نے پنجاب ،سنده ،خیبرپختون خوا ،بلوچستان ،گلگت بلتستان اور کشمیر میں ایسی پولٹیکل و مذهبی اشرافیہ بهی تشکیل دینے میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا
جو سعودی عرب کی غلام اور دیوبندی وهابی تکفیری آئیڈیالوجی کی ہمدرد تهی اور جس کا سب سے طاقت ور اظہار مسلم لیگ نواز ،جماعت اسلامی ،جے یو آئی س و ف میں ہوا اور اس پولیٹکل اشرافیہ کے پیچهے ایک انتہائی منظم عسکری فرقہ پرست فورس کا قیام بهی عمل میں لایا گیا جس میں سپاہ صحابہ پاکستان سرفہرست تهی جس کے بطن سے ٹی ٹی پی لشکر جهنگوی ،جیس محمد ،حرکہ الانصار جمل دیوبندی دہشت گرد تنظیموں کا ظہور ہوا اور دوسری طرف یہ افغان وار تهی جس کی وجہ سے پاکستانی دیوبندی وهابی تکفیری خارجی عسکریت پسندوں کے تعلقات عرب ،ازبک،چیچن ،تاجک ،ترکستانی ،افریقی وهابی عسکریت پسندوں سے استوار ہوئے اور اس سے وہ گلوبل وهابی دیوبندی خارجی تکفیری دہشت گرد نیٹ ورک کی تشکیل کا راستہ استوار ہوا جس کو آج ہم اپنی زندگی میں پورے عروج پر دیکه رہے ہیں
جنرل ضیاءالحق وہ آمر تها جس نے پاکستان آرمی کے اندر strategic depth theory کو باقاعدہ نافذ کیا اور پاکستان میں فرقہ وارانہ نام نہاد جہادی عسکریت پسندی کوproxy کے طور پر استعمال کرنے کی منظوری دی اور اس نے پاکستانی فوج کی second and third officer ranksکے لوگوں کو جہادی بنانے کا راستہ ہموار کیا اور جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں فوجی چهاونی اور دیگر جگہوں پر تمام مساجد کے اندر دیوبندی امام اور خطیب لائے گئے تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کو فوجی رجمنٹوں تک رسائی دی گئی اور اس عمل سے آرمی ،ائرفورس اور نیوی کے اندر دیوبندی وہابی تکفیری جہادی سوچ رکهنے والے دوسرے اور تیسرے درجے کی فوجی قیادت میں لوگ سرایت کرگئے اور اسی وجہ سے جی ایچ کیو ،مہران ائر بیس ،فوجی پریڈ گراونڈ ،منگلا کور کا میس ،آئی ایس آئی لاہور مرکز،آئی ایس آئی سکهر مرکز،کراچی ائر پورٹ پر کامیا کاروائیاں کی گئیں
جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمان نے ملکر پاکسان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی کو strategic depth and deep state concepts کے تحت جو شکل دی اس کے جس قدر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اس کا احساس خود پاکستان آرمی کے اندر بهی موجود ہے اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان پالیسیوں سے فوج کے اندر چفرقہ وارانہ خطوط پر سوچ کی تقسیم کا عمل بهی شروع ہوچکا ہے
پاکستان آرمی کے سابق میجر جنرل اطہر عباس نے دہشت گردی کے خلاف فوج میں پائی جانے والی جس تقسیم کا زکر کیا ہے اور فوج کے سابق چیف جنرل کیانی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے بهی اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے میں ہت واضع طور پر کہتا ہوں کہ پاکستانی فوج کے اندر اس وقت جو شیعہ اور سنی بریلوی افسران اور فوجی ہیں ان کے اندر شیعہ نسل کشی ،سنی بریلویوں ہر ہونے والے حملون ،مزارات و امام بارگاہوں کو نشانہ بنائے جانے سخت تشویش اور بےچینی پائی جاتی ہے
پاکستان آرمی کے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جن کی آدهی فیملی بریلوی اور آدهی شیعہ ہے اور جو آرمی ٹرک میں بیٹه کر خود بهی شوق سے مجالس عزا سنتے رہیں کےبارے میں بهی کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہئیے میاں نواز شریف اور ان کے جملہ حواری ضیاءالحق کی حقیقی اور اصل باقیات ہیں اور سعودی عرب نے اسی لئے مسلم لیگ نواز کے اوپر ہی داو لگایا ہے اور مسلم لیگ نواز کی اتحادیوں میں بهی اس وقت دیوبندی و وهابی جماعتیں ہی سرفہرست ہیں
پانچ جولائی 1977ء کے بعد سے ضیاءالحق نے پاکستان کی عوام پر جس تاریکی کو مسلط کیا اس نے پاکستان کی مذهبی ،سیاسی ،سماجی ،ثقافتی fabrication کو پارہ پارہ کرڈالا اور امن کو بہت ہی مشکل ٹاسک بنادیا میں حرف آخر کے طور پر یہ بهی کہنا چاہتا ہوں کہ جنرل ضیاءالحق نے دیوبندی پشتون و مہاجر و پنجابی نوجوانوں کا مستقبل بهی باکل تاریک کردیا اور ان دیوبندی نوجوانوں کو اس نام نہاد جہادی جنگ میں پیدل سپاہی بنادیا ہے اور یہ نوجوان ہر طرف سے مارے جارہے ہیں ،
ابهی بهی وقت ہے کہ اعتدال پسند دیوبندی علماء اور دانشور خوف اور مفاد پرستی کے چنگل سے خود کو آزاد کرلیں اور اپنے نوجوانوں کو گلوبل دیوبندی وہابی تکفیری جنگ کا پیدل سپاہی بننے سے بچالیں ورنہ ان کو آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی
میں دیو بندی مسلک کے علمائے اعتدال کو کہتا ہوں کہ وہ اپنی صفوں سے سپای یزید کو نکال باہرکریں ورنہ وہ ایسی آگ لگائیں گے جس سے پہلے خود دیوبندی نشیمن کو آگ لگے گی اور هاته سوائے تباہی و خون ریزی کے اور کچه نہیں آئے گا
Tanveer Akhtar said:
آج سے ٹھیک 37 سال پہلے امریکہ بہادر نے پاکستانی مُلا ملٹری الائنس کی مدد سے پاکستان بلکہ ایشیا بھر کے اُبھرتے لیڈر ذوالفقار علی بُھٹو کو منظر عام سے ہٹاکر، “آزادی” کے نام پر حاصل کردہ پاکستان نامی اپنی کالونی پر کمزور ہوتا “ہولڈ” پھر سے مستحکم کرلیا۔۔ وہ دن اور آج کا دن،بھٹو شہید کی طرف سے زندگی کے مختلف شعبوں میں متعارف کرائی گئی’اعتدال پسندی اور میانہ روی‘‘ کو ایسا ریورس گیئر لگا کہ آج مذہبی تنگ نظری و تشدد سے بھرپور شدت پسندی اورمنافقت و بدعنوانی سے بھرپور طرز زندگی، بس یہی ’’اعلیٰ ترین خصائل‘‘ ہی پہچان بن کر رہ گئی ہیں، دُنیا بھر میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی۔ اور یہی ہے بعد از بھٹو سامنے آنے والی وہ ’’جوہری تبدیلی‘‘، جس کا ثمر ہم نے ستر ہزار معصوم پاکستانیوں کے لاشے اٹھا کر حال ہی میں پایا۔اور نہیں معلوم کہ من حیث القوم، بربادی اور تباہی کی ان تاریک راہوں میں ہم کب تک یونہی بھٹکتے رہیں گے کیونکہ دُور دُور تک ’’ کوئی اُمید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظرنہیں آتی‘‘