

English translation: “We will annihilate Saudi Arabia”: LUBP’s interview with ISIS aka Da’ish https://lubpak.com/archives/316531
دولت الاسلام یا اسلامی ریاست (سابق نام آئی ایس آئی ایس یا داعش) سے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کے سابق مدیر عبدل نیشاپوری کی بات چیت قارئین کے لئے پیش خدمت ہے -اس بات چیت سے سعودی عرب، ایران، شام، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے بارے میں دولت الاسلام کے عزائم کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ پاکستانی اور سعودی افواج کو مرتد سمجھتا ہے – عراق میں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر قابل احترام مقدس ہستیوں کے مزارات کو مسمار کرنا چاہتا ہے اور تمام دنیا پر خلیفہ ابو بکر السلفی البغدادی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے
************
تعمیر پاکستان: امریکہ، سعودی عرب، شام، ایران مل کر اس دہشت گرد فتنے کا خاتمہ کریں جو سنی، شیعہ، یہودی، سلفی، مسیحی سب کا دشمن ہے
دولة الاسلام: زبردست ہم چاہتے ہی یہی ہیں کہ یہ سب مل جائیں اور مسلمانوں کو اپنے دشمن کا پتا لگ جاۓ
تعمیر پاکستان: خادم حرمین الشریفین شاہ عبد الله نے دولت لاسلامیہ کے تکفیری خوارج کی شدید مذمت کی ہے
دولة الاسلام: خادمین الحرمین شریفین نے مصر مین مسلمانوں کے قتل عام کو بھی ٹھیک قرار دیا
تعمیر پاکستان: خادم حرمین الشریفین نے تیس ہزار سعودی سلفی فوجی، آئ ایس کے دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کے لئے بھیج دیے ہیں
دولة الاسلام: ایک بھی زندہ نہیں بچے گا گارنٹی ہے ان مرتدین کو ہم شکست دیں گے انشااللہ۔ امریکن ایجنٹ
تعمیر پاکستان: سعودی سلفی افواج بیت الله کی محافظ ہیں، آئی ایس کے تکفیریوں کے ناپاک ارادے ناکام بنا دیے جایئں گے
دولة الاسلام: دیکھ لے گے اس ایجنٹ فوج کو بھی
تعمیر پاکستان: جس طرح پاک فوج طالبان کے تکفیری خوارج کو جہنم واصل کر رہی ہے، سعودی فوج بھی آئی ایس کا یہی انجام کرے گی
دولة الاسلام: میں تمھاری ناپاک فوج کو اچھی طرح جانتا ہوں ۔ اندر سے ڈرے ہوۓ ہیں ۔ فوج کا سپاہی مجاہدین سے نہیں لڑنا چاہتا مگر مجبوریوں میں لڑ رہا ہے کوئی پیسے کے لیے کوئی خاندان کے لیے – ناپاک فوج ایک مہینے میں وزیرستان میں داخل نہ ہو سکی ۔ خلافت اسلامیہ کے پاس تو اسرائیل سے بڑا علاقہ ہے
تعمیر پاکستان: آئی ایس کے لوگ امام اعظم ابو حنیفہ اور عبدالقادر جیلانی کے مزارات تباہ کرنا چاہتے ہیں یہ اسلام کی کونسی خدمت ہے
دولة الاسلام: اسلام کا حکم ہے کہ قبروں کو زمین کے برابر کر دو ۔ فتح مکہ بعد محمدﷺ نے حضرت علی رض کو یہی حکم دیا تھا
تعمیر پاکستان: سنی اور شیعہ حضرت علی، حضرت حسین، امام ابو حنیفہ اور غوث الاعظم کے مزارات کو تباہ کرنے کے آپ کے منصوبے کے خلاف ہی
دولة الاسلام: اگر ساری امت ایک بات کہے اور قرآن اور حدیث دوسری بات کرے تو جوتے کی نوک پر امت کی بات
تعمیر پاکستان: سعودی مفتی اعظم اور جامعہ الازہر کے مفتی اعظم نے آئی ایس کو تکفیری خارجی گروہ قرار دیا ہے آپ کے پاس کیا حجت ہے؟
دولة الاسلام: یہی فتوہ انھوں نے مصر کے مظلوم عوام کے خلاف بھی دیا اور سیسی کو امت کا ہیروں کہا گیا ۔ آپ اس کی حمایت کرتے ؟
تعمیر پاکستان: آپ کے پاس کسی مفتی یا امت مسلمہ کی سند ہے جس نے آپ کی خلافت کی توثیق کی ہو؟
دولة الاسلام: جس علاقے پر خلافت قائم ہے اس علاقے کی عوام کی راۓ لیں اور پھر باتیں کریں ۔ان کی راۓ ہی ہماری سند ہے
اور آپ کے علم میں اضافے کے لیے خلافت قائم کرنے کے لیے کسی مفتی یا امت کی سند کی نہیں قرآن اور حدیث کی ضرورت – آپ یہ ُپڑھیں تاکہ آُپ کے علم میں اضافہ ہو۔ ورنہ پچھتاؤ گے ایک دن
http://justpaste.it/khlft
تعمیر پاکستان: کیا آپ سعودی عرب کو بھی جہاد و قتال کے طریقے سے دولت الاسلامیہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں؟
دولة الاسلام: انشااللہ ہم آل سعود کو ختم کر کے رہیں گے


















Comments
comments
سعودی عرب نے عراق کے ساتھ اپنی 800 کلومیٹر طویل سرحد پر 30 ہزار فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ ٹی وی چینل العربیہ کے مطابق اس تعیناتی کی وجہ یہ ہے کہ اس سرحد پر موجود عراقی فوجیوں کے چلے جانے کے بعد یہ سرحد غیر محفوظ ہو گئی تھی۔
تاہم دوسری جانب عراق کے فوجی حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ سرحد پر تعینات فوجی اپنی چوکیاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ عراق کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کی سرحدی فوج معمول کے مطابق کام کر رہی ہے۔
سعودی فوج کی تعیناتی سے پہلے شاہی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ شاہ عبداللہ نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی ’ممکنہ خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔ یہ بیان سعودی عرب کی قومی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کے بعد جاری کیا گیا تھا جس میں عراق میں بدلتی ہوئی صورتِ حال اور داعش کی جانب سے خلافت قائم کرنے کے اعلان پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ ’شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی دہشت گرد تنظیموں اور دوسرے عناصر کی جانب سے سکیورٹی کو لاحق کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر حکم دیا ہے کہ مملکت کے اثاثوں، اس کے استحکام اور سعودی عوام کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/07/140703_saudi_deployment_sq.shtml
The Shias of Iraq run away cowardly to save their lives instead of fighting against ISIS, this really proves that they are Children of Kofees who first invited and then left Imam Hussain and his Noble family instead of fighting with him against Yazedi army. Shame on Shias. Instead of mere propaganda , shias need to go Iraq and face ISIS. – See more at: https://lubp.net/archives/316278/comment-page-1#comment-1066845
آگے سمندر، پیچھے کھائی
فرینک گارڈنر
نامہ نگار برائے سکیورٹی امور، بی بی سی نیوز
آخری وقت اشاعت: جمعرات 3 جولائ 2014 , 16:52 GMT 21:52 PST
سعودی عرب کی وزارتِ داخلہ کے سکیورٹی اہلکاروں کے پاس اس علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ شمالی ہمسایہ ملک عراق کے ساتھ اپنی ویران صحرائی سرحد پر چاک و چوبند کھڑے رہیں۔
سعودی عرب کے خدشات بلاوجہ نہیں کیونکہ دولت سے مالا مال اور بہترین اسلحے سے لیس داعش کی جہادی فوج مغربی عراق کے بڑے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد سعودی عرب کی چوکھٹ تک پہنچ چکی ہے۔
سعودی عرب اور عراق کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد کا نصف صوبہ انبار کے ساتھ لگتا ہے جو داعش (جس کا نیا نام دولتِ اسلامی ہے) کے مکمل قابو میں اور اس تمام علاقے میں دولتِ اسلامی کے مسلح لوگ آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔
اگرچہ سعودی عرب ابھی تک دولت اسلامی کے جنگجوؤں کے براہ راست نشانے پر نہیں آیا، لیکن اب یہ کوئی زیادہ دُور کی بات نہیں رہی۔
جنگجوؤں کی گھر واپسی
دولت اسلامی کے ہراول دستوں میں شامل جنگجوؤں میں زیادہ تعداد سعودی شہریوں کی ہے جو آخر کار جب گھر لوٹیں گے تو جنگ کے تجربات کی وجہ سے وہ پہلے سے زیادہ سخت گیر ہو چکے ہوں گے۔
اسی ہفتے شاہ عبداللہ نے حکم دیا ہے کہ ’مملکت کو دہشتگردوں اور ایسے تمام دوسرے گروہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں جو مملکت کی سکیورٹی اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں تیل پیدا اور برآمد کرنے والے سب سے بڑے ملک کو داعش سے کیا خطرات ہو سکتے ہیں؟
جہاں تک زمینی حقائق اور وسائل کا تعلق ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سعودی عرب کی شمالی سرحد محفوظ ہے۔
مضبوط سعودی سرحد
“سنہ 2006 سے سعودی عرب اس سرحد کو مضبوط تر بنانے کے لیے یہاں ریت سے بھری ہوئی رکاوٹیں کھڑی کے ان کے اوپر خاردار تاروں اور دیگر حفاظتی مواد نصب کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ میلوں طویل اس دیوار پر چوکیاں بھی بنائی جا چکی ہیں جہاں پر سیکورٹی اہلکار گشت کرتے رہتے ہیں۔”
سنہ 2006 سے سعودی عرب اس سرحد کو مضبوط تر بنانے کے لیے یہاں ریت سے بھری ہوئی رکاوٹیں کھڑی کر کے ان کے اوپر خاردار تاریں اور دیگر حفاظتی مواد نصب کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ میلوں طویل اس دیوار پر چوکیاں بھی بنائی جا چکی ہیں جہاں سیکورٹی اہلکار گشت کرتے رہتے ہیں اور یہ اہلکار قریبی فوجی چھاونیوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ کوئی بھی اس سرحدی دیوار کو عبور نہیں کر سکتا، لیکن سعودی عرب کی یہ سرحد عراق اور شام کی درمیانی سرحد کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے جسے داعش کے جنگجو گذشتہ ماہ بغیر کسی مشکل کے روند کر گذر گئے تھے۔
دولس اسلامی کی خود ساختہ خلافت شمالی شام سے لیکر مشرقی عراق تک پھیلی ہوئی ہے
گذشتہ برس جب میرا ریاض میں وزارتِ داخلہ کے ہیڈ کوارٹرز میں جانا ہوا تو وزارت کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے مجھے شیشے کے ایک بڑے ڈبے میں پڑا ہوا ایک ماڈل دکھایا تھا جس میں سعودی عرب اور عراق کی درمیانی سرحد پر لگی ہوئی رکاوٹوں اور دیوار کو بھی دکھایا گیا تھا۔
میں نے ترجمان کو اِس سرحد پر موجود حفاظتی انتظامات کے حوالے سے مطمئن پایا۔ میرے خیال میں ترجمان سعودی عرب اور یمن کی درمیانی سرحد کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے جہاں پر ان کے کئی سکیورٹی اہلکار منشیات اور اسلحے کے سمگلروں، غیر قانونی تارکین وطن اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو ملک میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے زخمی یا ہلاک ہو چکے تھے۔
لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ القاعدہ کے جذبے سے سرشار جہادی جنگجو سعودی عرب کے شمال اور جنوب دونوں اطراف پر پہنچ چکے ہیں اور سعودی عرب کو لگتا ہے کہ وہ دو خطرناک مقامات کے درمیان سینڈوچ بن گیا ہے۔
سنہ 2000 کی واپسی
سعودی حکام پریشان ہیں کہ آج کل حالات اور ایک دہائی پہلے کے حالات میں بہت مماثلت دیکھنے میں آ رہی ہے۔
اُس وقت امریکی فوجوں کے عراق میں داخل ہونے اور پھر عراق کی مرکزی حکومت کی توڑ پھوڑ کے بعد سعودی نوجوان اپنی مذہبی ذمہ داری کی ادائیگی کی سوچ لیکر گروہ در گروہ عراق جا رہے تھے تاکہ وہ امریکی فوجوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیں سکیں۔
داعش کی صفوں میں سعودی
“سعودی حکومت کے فتووں کے باوجود کئی ایک سعودی نوجوان داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے شام اور عراق میں داخل ہو چکے ہیں۔ کچھ ایسی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں داعش کی قید میں عراقیوں کو بےرحمی سے قتل کرتے دکھایا گیا اور پس منظر میں آپ کو کچھ لوگ سعودی لہجے میں عربی بولتے سنائی دیتے ہیں۔”
آج بھی، سعودی حکومت اور اس کے مفتیوں کے فتووں کے باوجود کئی ایک سعودی نوجوان داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے شام اور عراق میں داخل ہو چکے ہیں۔ کچھ ایسی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں داعش کی قید میں عراقیوں کو بےرحمی سے قتل کرتے دکھایا گیا اور پس منظر میں آپ کو کچھ لوگ سعودی لہجے میں عربی بولتے سنائی دیتے ہیں۔
سعودی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ نوجوان جب بھی واپس گھر آتے ہیں، ملک کے لیے ایک خطرہ بن سکتے ہیں۔
اور اگر یہ لوگ دولت اسلامی کے زیر اثر علاقوں سے واپس نہیں آتے اور یمن جا کر القاعدہ کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں بھی یہ جہادی نوجوان سعودی عرب کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
سعودی حکام کو خدشہ ہے کہ داعش کا اگلا ہدف اُن کا ملک ہوگا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی داعش کی کامیابی کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے؟
ایرن اور عراق کے حکومتی حلقے تو اس بارے میں یک زبان ہیں اور ان دونوں کا کہنا یہی ہے کہ ’جو بوؤ گے، سو کاٹو گے۔‘ اسی ہفتے ایران کے رکنِ پارلیمان محمد اصفری کا کہنا تھا کہ ’ سعودی عرب داعش اور دیگر دہشگرد گروہوں کی مدد کرتا رہا ہے اور آخر کار یہ لوگ سعودی عرب کے ہی گلے پڑیں گے۔‘
ان کا مذید کہنا تھا کہ ’داعش کی روحانی، مادی اور نظریاتی حمایت کا ماخذ سعودی عرب ہی ہے اور سعودی بادشاہ نے ملک کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کو داعش کی مدد کا خصوصی مشن سونپا تھا۔‘
’بالکل جھوٹ‘
سعودی عرب کہتا ہے کہ یہ الزام بالکل غلط ہے، بلکہ سعودی عرب اس کا ذمہ دار عراقی وزیرِاعظم نوری المالکی کو قرار دیتا ہے کہ انھوں نے عراق کی سنی آبادی کو کنارے لگا کر نادانستہ طور پر داعش کو موقع فراہم کیا کہ وہ ملک کے سنی علاقوں پر قبضہ کر لے۔
تاہم سعودی عرب اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ حال ہی میں ریٹائر ہونے والے خفیہ ایجنسی کے سربراہ پرنس بندر بن سلطان الاسد نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے سنی باغیوں کی ایک مؤثر فوج بنانے پر بہت بڑی رقم اور وقت صرف کیا تھا۔
سعودی عرب اور عراق کی درمیانی سرحد پر لگی ہوئی رکاوٹیں اور خار دار تاریں لگی ہوئی ہیں
لگتا ہے کہ پرنس بندر کا منصوبہ ہر لحاظ سے ناکام رہا۔
شام کے وہ تمام علاقے جن کی کوئی حیثیت ہے، ان سب پر بشارالاسد کا مکمل کنٹرول ہے اور سعودی عرب اس بات کو بھی یقینی نہیں بنا سکا ہے کہ شام میں لڑنے والے سنی باغیوں کو دیا جانے والا اسلحہ داعش کے جنگجوؤں کے ہاتھ نہ لگے۔
اگر سعودی عرب نہیں تو پھر داعش کو پیسہ کہاں سے ملتا رہا ہے۔
سعودی حکومت کہتی ہے کہ اس نے داعش کو پیسہ نہیں دیا، لیکن عام تاثر یہی ہے کہ سعودی عرب کے کئی امیر لوگ ذاتی حیثیت میں مختلف راستوں سے داعش کو بھاری رقوم کے عطیات بھجواتے رہے ہیں۔
کیوں؟
سعودی عرب کو خدشہ ہے کہ داعش کا اگلا نشانہ وہ ہوگا
اس لیے کہ سلفی سنی ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کے ان امیر لوگوں کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ ایران اور اس کے شیعہ اتحادی علاقے میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہے ہیں۔
کئی دہائیوں تک عراق پر صدام حسین کی سنی حکومت کا ظالمانہ دور رہا۔
سنہ 2003 میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج کے عراق میں آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا جس کے نتیجے میں بغداد میں ایک شیعہ اکثریتی حکومت برسر اقتدار آ گئی جس کی ہمدردیاں سعودی عرب کے دیرینہ دشمن ایران کے ساتھ ہیں۔
اس لیے کچھ سعودی لوگوں کے خیال میں داعش خون کے پیاسے دہشتگردوں کا ٹولہ نہیں ، بلکہ وہ اسے نظم و نسق کی پابند ایک ایسی طاقت سمجھتے ہیں جو کہ خطے کے سنیوں کے حقوق کی محافظ ہے اور ایران اور اس کے ’بدعتی‘ شیعوں کے خلاف دیوار کا کام دے گی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/07/140703_saudi_arabia_sandwiched_sq.shtml?ocid=socialflow_facebook
SCORPIONS FIRST FOOD IS THEIR OWN MOTHER.
ISIS WILL ATTACK ON KSA JUST LIKE SADDAM DID ON KUWAIT & KSA.
SADDAM WAS STUCK WITH IRAN OTHERWISE HIS FIRST TARGET WAS KSA & KUWAIT.
HE WAS FOOLED & ARRANGED TO ENGAGE IN LONG WAR WITH IRAN AS ARRANGED BY USA UPON REQUEST OF KSA.
FILTHY POLITICS.