علامہ طاہرالقادری صاحب کے ناقدین کی خدمت میں – از خرم زکی

tuq

ہمارے وہ دوست جو طاہر القادری صاحب پر صحیح اور غلط ہر قسم کی تنقید کر رہے ہیں ان کی خدمت میں کچھ معروضات

١. میں ذاتی طور پر قادری صاحب کا مداح نہیں اور نہ ہی ان کے تصور انقلاب سے متاثر

٢. لیکن پچھلے کچھ دنوں میں پنجاب کی حکومت نے جس طرح پاکستانی عوامی تحریک کے کارکنوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کیا اور جس طرح سیکورٹی رکاوٹوں کو ہٹانے کے بہانے مرد و خواتین کو قتل کیا گیا اور ریاستی طاقت و دہشتگرد ی کا مظاہرہ کیا گیا اس کی مذمت کرنا سب کی ذمہ داری ہے.

٣. قادری صاحب کے جہاز کا رخ جس طرح اسلام آباد سے لاہور کی طرف موڑا گیا اس نے جنرل مشرف کے دور کی یاد تازہ کر دی جب میاں برادران کے طیارے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک ہوتا تھا. یہ کس قانون کے تحت کیا گیا یہاں تک کہ نوبت یہ آ پہنچی کہ امارات ائیر لائن کو دھمکی دینی پڑی کہ اگر تھوڑی دیر مزید طیارہ اسی صورتحال میں رہا تو وہ ہائی جیکنگ کا مقدمہ درج کرائیں گے اس کا ذمہ دار حکومت پاکستان کے سوا کوئی نہیں. اس طرح کے آمرانہ اقدامات کر کے پاکستان کی جگ ہنسائی کا سامان پیدا کیا گیا. کون سے قانون کے تحت طاہر القادری کی اسلام آباد آمد کو روکا گیا اور اس میں رکاوٹ ڈالی گئی ؟ کیا ملک میں آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ؟ کیا لوگوں کو اپنے عزیزوں اور لیڈروں کو ائیرپورٹ پر ریسیو کرنے کی اجازت نہیں ؟ کیا ملک میں جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی گئی ہے ؟ یا یہ تمام سہولتیں محض حکمران جماعت اور ان کی پروردہ تکفیری خارجی دہشتگرد تنظیموں کو ہی حاصل ہیں ؟

٤. قادری صاحب نے کالعدم دہشتگرد خارجی تکفیری جماعتوں – جن کا عمومی تعلق دیوبندی مسلک کے تشدد پسند گروہ سے ہے – بشمول تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور انجمن سپاہ صحابہ کے خلاف واضح مؤقف اپنایا، دہشتگردوں سے مذاکرات کی مخالفت کی اور اس کا کھل کر اظہار بھی کیا ہے. یہ کام ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سمیت کوئی جماعت نہیں کر سکی. ان میں سے کچھ جماعتیں تو عملی طور پر ان تکفیری دہشتگرد جماعتوں کی عملی معاونت و حمایت کر رہی ہیں. ہم اس مؤقف کی حد تک ان کے حامی ہیں اور صرف ان ہی کے نہیں بلکہ جو بھی اس حوالے سے آواز اٹھاۓ گا اس کی حمایت کی جانی چاہیۓ اگر وہ خود کہیں ایسے ہی گروہ کی پشت پناہی نہ کر رہا ہو تو.

٥. یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجاب کی حکومت، اس کے سابقہ وزیر قانون رانا ثنااللہ، موجودہ وزیر قانون رانا مشہود، آئ جی پولیس مشتاق سکھیرا یہ سب پنجاب میں کالعدم دہشتگرد تکفیری جماعتوں انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی کھل کے سرپرستی کر رہے ہیں اور ان گروہوں کو ملک کے دیگر حصّوں میں خونریزی اور قتل و غارتگری کے لیۓ محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی ہوئی ہیں.

٦. جس صوبے میں کالعدم تکفیری دہشتگرد گروہوں بشمول انجمن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور ملک اسحق جیسے جانور کو کھل کر کام کرنے کی اجازت ہے اور ہر طرح کی حکومتی سرپرستی و حمایت حاصل ہے وہاں طاہر القادری اور ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو کام کرنے سے کیوں روکا جا رہا ہے ؟ حالاں کہ دیگر جماعتوں کی نسبت پاکستان عوامی تحریک میں پڑھے لکھے سلجھے افراد کی اکثریت ہے. آپ کو ان کے سیاسی مؤقف سے اختلاف ہو سکتا ہے، مجھے بھی ہے لیکن ان کو پوری آئینی آزادی حاصل ہے سیاسی سرگرمیوں کے لیۓ. جن سکیورٹی رکاوٹوں کا بہانہ بنا کر ان کے کارکنان کا قتل کیا گیا ایسے سکیورٹی بیرئیرز لاہور میں سلفی اہلحدیث لیڈر جماعت الدعوه سے لیکر حکمران مسلم لیگ کے ہر بڑے رہنما کے گھر کے باہر موجود ہیں

٧. قادری صاحب اس ملک کے دیگر سیاستدانوں ہی کی طرح ہیں، اپنے وعدوں، دعوؤں اور سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے کسی اور سے مختلف نہیں. ان پر بھی ایسے ہی تنقید ہونی چاہیۓ جیسے کسی اور پر لیکن یہ کام ایسے نہیں ہونا چاہیے جس سے تکفیری خارجی دہشتگرد ناجائز فائدہ اٹھاۓ. ایسی تنقید جو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تکفیری دہشتگردوں کو یا ان کی سرپرست حکومت کو فائدہ پہنچاۓ نقصاندہ ہے. ہمارا فوری ہدف یہ تکفیری دہشستگرد اور ان کے سرپرست ہیں نہ کہ جھوٹے خواب کے دعوے

٨. ملک میں جمہوری عمل جاری رہنا چاہیۓ، فوجی آمریت کسی صورت قبول نہیں. میں ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے کی حمایت نہیں کرتا. فوج کا کام ملکی سرحدوں کی حفاظت، ان تکفیری خارجی دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کا قلع قمع کرنا ہے. ان مقاصد کے حصول کے لیۓ ہم فوج کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں. لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان تکفیری خارجی دہشتگردوں کی پشت پناہی اور نشو نما میں سیاسی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلیجنس اداروں کا پورا کردار،عمل و دخل ہے جس کا نتیجہ ملک میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے اور جن تکفیری گروہوں کی پرورش شیعہ اور سنی بریلوی مسلمانوں کا خون بہانے کے لیۓ اور اتحاد اسلامی و انقلاب اسلامی کا راستہ روکنے کے لیۓ کی گئی تھی ان آستین کے سانپوں نے پلٹ کر جی ایچ کیو اور آئ ایس آئ ہیڈ کوارٹر پر بھی ویسے ہی خونریزی کا بازار گرم کیا ہے، جن کو شیعہ ور سنی بریلوی مساجد پر حملے کا ہدف دیا گیا تھا انہوں نے فوجی مساجد کو بھی نہیں بخشا. ایسے درندوں کی پشت پناہی یہی رنگ لاتی ہے. فوج نے ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے آپریشن کا آغاز کر دیا ہے اور کہا گیا ہے آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی. ہم اس جنگ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں لیکن اگر جنگ کو محض ایک گروہ تک محدود رکھا گیا اور لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان اور انجمن سپاہ صحابہ جیسی تکفیری دہشتگرد خارجی تنظیموں تک اس جنگ کا دائرہ کر وسیع نہ کیا گیا تو یہ ملٹری آپریشن محض ایک ڈھکوسلہ ثابت ہو گا کیوں کہ دہشتگردی کی نرسریاں یہی گروہ اور ان سے جڑے مدارس ہیں، جہاں اس ملک کے نوجوانوں کو “ناپاک آرمی” اور “مرتد آرمی” کے اسباق پڑھاۓ جاتے ہیں، یہی گروہ ہیں جو اس ملک میں فرقہ وارانہ دہشتگردی کے بیج بو رہے ہیں، یہی گروہ ہیں جن کی ہمدردیاں اور وفاداری بین الاقوامی دہشتگرد گروہ القاعدہ اور داعش کے ساتھ ہیں. اگر ان تکفیری گروہوں کا سر نہ کچلا گیا تو اس ملک کا انجام بھی الله نہ کرے شام اور عراق جیسا ہو گا، فوجی اور انٹیلیجنس اداروں و تنصیبات پر حملہ اسی پلاننگ کی مشق ہے.

٩. بعض لوگوں کی خواہشات کے برعکس میں نے یہاں مسلح شیعہ گروہوں کی بات نہیں کی ہے کیوں کہ

ا. ان شیعہ گروہوں کا ہدف بنیادی طور پر یہی تکفیری دہشتگرد گروہ ہیں، جن کے ایک دھڑے سے آج مسلح افواج جنگ لڑ رہی ہیں اور جن سے شیعہ مسلمانوں کو تحفظ دینے میں حکومت و ریاست پاکستان ناکام ہو چکی ہے اور شیعہ نسل کشی مملکت خداد پاکستان میں ایک معمول بن چکی ہے.

ب. ان کا ہدف ملکی افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوجی اور سول تنصیبات، انٹیلیجنس ادارے اور عام عوام ہرگز نہیں.

ج. ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے

د. شیعہ مکتب فکر میں تکفیری سوچ کا وجود تک نہیں اور وہ تمام اہل سنت و اہل حدیث کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں باوجود تمام مسلکی اختلافات کے. اور کسی شیعہ تنظیم کے جلسے میں آپ کو “کافر کافر سنی کافر” جیسے نعرے سنے کو نہیں ملیں گے. جبکہ دوسری طرف تکفیری خارجی دہشتگرد ہر اس آواز کو خاموش کر دیتے ہیں جو ان کی بربریت کے خلاف اٹھتی ہے. معروف دیوبندی عالم مولانا حسن جان، اور بریلوی عالم مفتی سرفراز نعیمی کا انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ہاتھوں قتل اسی بربریت اور درندگی کی ایک مثال ہے. یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد مرحوم بھی اس تکفیری گروہ کے حملے سے محفوظ نہیں رہ سکے.

بعض گروہ و افراد دانستہ طور پر شیعہ نسل کشی پر پردہ ڈالنے کے لیۓ ایک نقلی مساوات کا وہم و مفروضہ تخلیق کرنے کے درپے ہیں اور اس شیعہ نسل کشی کو شیعہ سنی دو طرفہ جھگڑے کا رنگ دے کر عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں ورنہ سب دیکھ چکے کہ کس طرح مسلسل کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں شیعہ زائرین اور شیعہ ہزارہ کمیونٹی کا قتل عام کیا گیا، کس طرح گلگت بلتستان کے شیعہ عوام کو شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر قتل کیا گیا، کس طرح پاراچنار، ہنگو اور کوہاٹ کے شیعہ عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے، کس طرح کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر شیعہ ڈاکٹرز، وکیلوں، ماہرین تعلیم و اساتذہ، پروفیشنلز، علماء اور عام عوام کا قتل عام کیا جا رہا ہے

١٠. یہ بات بھی ساتھ ساتھ واضح کر دوں کہ ہمارے ملک کی سیکورٹی عراق و شام کی صورتحال سے کلی طور پر آزاد نہیں بلکہ یہ تکفیری گروہ اگر وہاں کسی حصہ میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو لا محالہ یہاں پاکستان میں موجود ان کے اتحادی (تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور انجمن سپاہ صحابہ) اس کامیابی سے تقویت پکڑیں گے خاص طور پر امریکی انخلا کے بعد پڑوسی ملک افغانستان میں اگر طالبان حکومت قائم ہوئی تو یاد رکھیں کہ بنیادی نظریات آ خیالات میں یہاں کے طالبان اور وہاں کے طالبان میں کچھ زیادہ فرق نہیں اور وہ ٩٠ کی دہائی میں انجمن سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو اپنے علاقوں میں ہر قسم کی سہولیات فراہم کے چکے ہیں. اس تکفیری خارجی فتنہ کا ہدف تمام انسانیت ہے اور ان کے شر سے سنی مسلمان بھی شام اور عراق میں ایسے ہی متاثر ہوۓ ہیں جیسے شیعہ مسلمان. آج موصل اور تکریت میں یہ بے غیرت گروہ سنی مسلمان لڑکیوں کی ہی عصمت دری کر رہے ہیں، شیعہ علاقوں تک تو وہ ابھی پہنچے ہی نہیں.

اس لیۓ وہ تمام طبقات و افراد جو اس مذہبی جنونیت، اس دہشتگردی اور فرقہ وارانہ نسل کشی کے خلاف ہیں، وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی گفتگو کسی مسلک و مکتب فکر کے خلاف ہونے کا بجاۓ ہم سب کے مشترکہ دشمن کے خلاف ہونی چاہیۓ

آخر میں نواز شریف کے آلہ کار خاص جناب گلو بٹ کی ایک ایسی وڈیو بھی آپ کے ساتھ شیئرکرتا چلوں جو پہلے شائد آپ کی نظر سے نہ گزری ہو. اس ویڈیو میں گلو بٹ پولیس اہلکاروں کے ساتھ مل کر گاڑیوں کے شیشے توڑتا نظر آ رہا ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Nayyar Hashmey
    -