عراق اور شام کو وہابی خلافت میں بدلنے کا منصوبہ ،دولت اسلامیہ عراق والشام کی کہانی —از قلم محمد بن ابی بکر

دولت اسلامیہ عراق والشام نے عراق کے سنّی اکثریت والے صوبے انبار کے بعد سابق عراقی صدر صدام حسین کے آبائی شہر تکریت اور موصل پر بھی قبضہ کرلیا اور موصل بغداد شہر سے صرف 90 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے
موصل شہر سے عراقی افواج ،سرکاری ملازمین اور عام شہری فرار ہوچکے ہیں جبکہ فرار ہونے والوں کی تعداد 5 لاکھ بتائی جارہی ہے
عراقی افواج کی تعداد 6 لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ 6 لاکھ فوج پر عراقی حکومت کا خرچہ تقریبا 7 ارب ڈالر سالانہ بتایا جاتا ہے جس میں 3 ارب ڈالر عراقی حکومت صرف جدید اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتی ہے اور اس 7 ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر ایمرجنسی بجٹ ہے جو ہنگامی صورت حال میں خرچ کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے اور اس میں ایک بلین ڈالر بجٹ آپریشنل مد میں خرچ کیا جاتا ہے
ڈاکٹر ہشام الھاشمی جوکہ دفاعی تجزیہ کار ہیں کا کہنا ہے کہ عراقی فوج کے پاس 15 ڈویژن فوج ہے ہر ڈویژن میں 12 ہزار سے 15 ہزار فوجی ہیں جبکہ ائر فورس،نیوی،سیکورٹی فورسز ،ملٹری پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اس کے علاوہ ہیں
اس قدر فوجی طاقت کو دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر دولت اسلامیہ عراق والشام کے مقابلے میں عراقی فوج کیوں پسپا ہوگئی اور موصل ان کے حوالے کردیا؟
بیروت سے شایع ہونے والا ترقی پسند اخبار الاکبر کا کہنا ہے کہ
موصل و تکریت پر آئی ایس آئی ایس کا قبضہ کی بنیادی وجہ مالکی حکومت کی جانب سے شہریوں کو تحفظ اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ممکن نہ بنانے ،شہریوں سے رشوت لینے ،بدعنوانی کا بازار گرم کرنے ،پولیس اور دیگر انتظامی افسران کی فرقہ وارانہ سوچ اور عراقی فوج کے اندر کوئی متحدہ آئیڈیالوجیکل یونٹی پیدا کرنے والی ڈاکٹرائن کا نہ ہونا ہے

Rebels parade through Mosul

موصل میں بغاوت کا ایک منظر

ISIS-iraq

جبکہ دولت اسلامیہ عراق والشام کے عراق اور شام میں ہزاروں میل رقبے پر قبضے کے پیچھے سعودیہ عرب سمیت عرب ممالک ،وسط ایشیا ،پاکستان ،افغانستان اور یورپ و امریکہ سے ہزاروں وہابی-دیوبندی دھشت گردوں کی بھرتی ہے اور اس انفنٹری فورس کو قائم کرنے میں سعودیہ عرب کا کردار بہت بنیادی ہے
رابرٹ فسک نے برطانوی اخبار روزنامہ انڈی پینڈینٹ میں شایع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں طنزیہ طور پر لکھا کہ
“طالبان،اسامیہ بن لادن ،امریکی میں 9/11 کے خالق 19 میں سے 15 خودکش بمباروں کو جنم دینے والے سعودیہ عرب کا معاصر دنیا کی تاریخ میں ایک اور کارنامے سے آگاہ ہوں اور وہ ہے دولت اسلامیہ عراق و الشام کے عراق میں موصل و تکریت اور شام میں رقہ شہر کو فتح کرنے میں مدد دینا
آئی ایس آئی ایس کے دھشت گرد جن کو سعودی وہابی تنخوا دیتے ہیں شمالی شام میں الیپو سے لیکر عراق-ایران سرحد تک ہزاروں میل رقبے پر قابض ہیں
آئی ایس آئی ایس جوکہ بنیادی طور پر وہابی سلفی -دیوبندی ٹائپ دھشت گردوں پر مشتمل ایک ایسی آرگنائزیشن ہے جو القائدہ سے الگ ہوئی وہ تنظیم ہے جس پر سعودی عرب کا کنٹرول ہے
عراق میں جب صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹا اور امریکی قابض ہوئے تو ایک طرف القائدہ میدان میں اتری تو خود سعودیہ عرب و ديگر عرب ریاستوں نے عراق میں بسنے والے شیعہ،سنّی ،کرد اور کرسچن کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ ایک متحدہ عراقی حکومت کی تشکیل کو روکنے کے لیے اپنے پالے ہوئے سلفی دھشت گردوں کو عراق میں داخل کرنا شروع کردیا اور عراق میں شیعہ-سنّی ،شعیہ-کرد لڑائی کے لیے کوششیں شروع کردیں
سعودی عرب کی کوشش تھی کہ کسی طرح سے عراق میں برسر پیکار سلفی وہابی تنظیمیں اس کے کنٹرول میں آجائیں اور وہ ان کو اپنی مرضی سے حرکت دے لیکن القائدہ کی عراق میں تنظیمی گرفت کے مضبوط ہونے سے یہ مقصد پوری طرح سے حاصل نہ ہوا جبکہ القائدہ کے عراقی چیف ابومصعب الزرقاوی نے سعودی عرب میں لڑنے والے گروپوں کے درمیان اتحاد قائم کرکے مجاہدین شوری کونسل بنائی جس کا امیر ابوعبداللہ راشد البغدادی جو ابوعمر البغدادی کے نام سے معروف ہوا تھا اور اس شوری میں انصار التوحید ،اسلامی جہاد ،مجاہدین الغرباء،الاحوال اور جیش اہل السنہ و الجماعۃ نامی وہابی تنظیمیں شامل تھیں
2006ء میں ابوعمر البغدادی نے کونسل کو دولت اسلامی عراق کا نام دے دیا اور اس کا داالحکومت باقوبہ شہر کو بنایا گيا جبکہ ابوعمر البغدادی اس کا امیر بنا
ابوعمر البغدادی اصل میں سابق عراقی سیکورٹی افسر تھا اور اس نے 1985ء میں وہابیت کو اختیار کرلیا تھا اور وہابیت کا سخت داعی بن گیا تھا
2010ء میں ابوعمر البغدادی فوت ہوگیا اور اس کی جگہ ایک اور کٹر سلفی ابوبکر البغدادی آئی ایس آئی کا امیر بنا اور اس وقت دولت اسلامی عراق کی حالب بہت خراب ہوچکی تھی تو ابوبکر البغدادی نے اسی زمانے میں شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا
لبنانی اخبار الاکبر نے دعوی کیا ہے کہ اس کو آئی ایس آئی ایس کے ایک رہنماء نے بتایا کہ اصل میں ابوبکر البغدادی کو ایک عرب ملک کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے پیشکش کی تھی کہ اگر ان کا گروپ شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑے تو وہ اس کی بھرپور مالی ،لاجسٹک سپورٹ کریں گے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابوبکر البغدادی نے جب اس حوالے سے القائدہ کے چیف ایمن الزھروی سے مشورہ کیا تو اس نے اجازت دے دی لیکن اس سورس نے اخبار کو یہ نہیں بتایا کہ وہ ملک کون سا تھا لیکن اخبار کے مطابق جب انھوں نے پوچھا کہ سعودیہ عرب یا قطر ؟تو سورس کا کہنا تھا دونوں میں سے ایک ،اب اغلب یہ ہے کہ یہ سعودیہ عرب ہوگا ،کیونکہ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف بندر بن سلطان کے آئی ایس آئی ایس سے کافی گہرے روابط بتائے جاتے ہیں بکہ رابرٹ فسک نے بھی اپنے آرٹیکل میں سعودیہ عرب کو آئی ایس آئی ایس کا جنم داتا قرار دیا ہے
ابتداء میں دولت اسلامیہ عراق والشام اور القائدہ نصرہ فرنٹ ملکر کام کرتے رہے اور یہ آزاد شامی فوج اور دیگر شام میں وہابی گروپوں کے ساتھ ملکر کام کرتے رہے لیکن ابوبکرالبغدادی اور نصرہ فرنٹ کے درمیان اختلافات کنٹرول پر شروع ہوئے اور بڑھتے بڑھتے یہاں تک آئے کہ آئی ایس آئی ایس نے اپنے آپ کو القائدہ سے مکمل طور پر الگ کرلیا اور آئی ایس آئی ایس کی قیادت کے سعودی عرب کے خلاف کوئی عزائم نظر نہیں آتے جیسے عزائم القائدہ آل سعود کے حوالے سے ظاہر کرتی آئی ہے
دولت اسلامیہ عراق والشام اصل میں سعودیہ عرب اور اس کے اتحادی عرب وہابی حکمرانوں کا ایک منصوبہ ہے جس کے تحت عراق اور شام کو مکمل طور پر وہابیت کے زیر اثر لاکر ان ملکوں کو سعودیہ عرب کی کالونی بنایا جانا مقصود ہے اور اس مقصد کے لیے سعودیہ عرب ،کویت ،بحرین ،متحدہ عرب امارات کے کئی شیوخ نے لاکھوں ڈالرز آئی ایس آئی ایس کو دینے شروع کررکھے ہیں جبکہ آئی ایس آئی آیس نے شام کے اندر الیپو سمیت جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں تیل کے کنوؤں سے وہ روزانہ کی بنیاد پر 6۔3 ملین ڈالر کمارہی ہے جبکہ 30 ملین ڈالر آئی ایس آئی ایس اب تک زرعی ایشیا ،کارخانوں کی مشنیری اور ریلوے ٹرانسپورٹ کے انفراسٹرکچر کو کباڑ کے طور پر بیچ کرحاصل کرچکی ہے اور یہ تاوان،چوری۔ڈاکے وغیرہ اور بھتے کی مد میں بھی 1۔3 ملین ڈالر روزانہ کمارہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ دولت اسلامیہ عراق والشام کی مالی حثیت کس قدر مستحکم ہے اور اسی وجہ سے یہ ایک بڑی انفنٹری ملیشیا قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے جو القائدہ آف عراق یا نصرۃ فرنٹ پر کبھی نہیں رہی
ایک دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ملکوں نے عراق اور شام میں اپنی باج گزار حکومتوں کو قائم کرنے کے لیے غیرمحسوس طریقے سے آئی ایس آئی ایس کی شکل میں ایک سریع الحرکت فوج تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے
انٹرنیشنل میڈیا عراق اور شام میں وہابی طرز کی خلافت کے قیام کے سعودی منصوبے کے بارے میں بات کرتا ہوا خاصا کنفیوز لگتا ہے اور وہ ابھی تک عراق اور شام کی سنّی برادری سے وہاں پر لڑنے والی وہابی فوج کو الگ نہیں کرسکا اور وہ دولت اسلامی عراق والشام ایک سنّی آرمی لکھ رہا ہے
خود رابرٹ فسک جیسا جہاں دیدہ اور خاصا باعلم صحافی اپنے آرٹیکل میں ایک طرف تو یہ اعتراف کنتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس ،طالبان ،اسامیہ بن لادن سب کے سب سعودی عرب کے انڈے ہیں تو دوسری طرف وہ یہ کہتا ہے کہ عراقی ،شامی شیعہ اور علوی عالمی سنّی آرمی سے نبردآزما ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
اس وقت عراق اور شام میں شیعہ،سنّی ،عیسائی ،دیروزی کرسچن ،عرب یہودی ،کرد ،فلسطینی ،علوی سب کے سب عالمی وہابی لشکر سے نبرد آزماء ہیں اور یہ شیعہ یا علوی رجیم بچانے کی نہیں بلکہ عراق اور شام کو سعودی عرب کی کالونی بننے اور ان ممالک میں وہابی کوڈ کے نفاز کو روکنے کی کوشش ہے
مڈل ایسٹ میں وہابیت کے زبردستی نفاز کی کوششوں کو سنّی اسلام کے نفاز سے تعبیر کرنا اور وہابی دھشت گرد آرمی کو سنّی فورس سے تعبیر کرنا بہت بڑا فکری مغالطہ ہے
اس وقت سنّی مڈل ایسٹ میں سب سے زیادہ بے آواز دکھائی دے رہے ہیں اور ان کو زبردستی وہابی-دیوبندی دھشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑا جارہا ہے جبکہ ان کا سعودی وہابی نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے
عراق کے سنّی اور شیعہ علماء نے وہابی دولت اسلامیہ عراق و شام کی بغداد کی جانب پیش قدمی کے خلاف فتوی دیتے ہوئے کہا کہ کہ ہر عراقی کی زمہ داری ہے کہ وہ مادر وطن کا دفاع کرے اور فتوی سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی شعیہ و سنّی مسلمان اسے عراق کو نوآبادی بنانے کے منصوبے سے تعبیر کرتے ہیں
وہابی -دیوبندی فاشزم کا سہارا لیکر عرب ریاستیں مڈل ایسٹ میں جمہوریت،سماجی انصاف،معاشی مساوات،انسانی حقوق کی بازیابی کی تحریکوں اور ان کی حکومتوں کی طرف بڑھنے والے خطرات سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے ان کو کتنا خون بہانا پڑے اس کی ان کو پرواہ نہیں ہے
سعودیہ عرب اور اس کے اتحادیوں نے مصر میں اٹھنے والی انقلابی تحریک کو دبانے میں جو کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور سعودیہ عرب مڈل ایسٹ سمیت پوری دنیا ئے اسلام میں وہابیت کے زبردستی نفاز کے لیے بڑی بڑی نام نہاد اسلامی جہادی فورسز کی تشکیل اس لیے دے رہا ہے کہ آل سعود کا اقتدار قائم رہ سکے کیونکہ یہ زبردست انتشار اور تفرقے کے بغیر ممکن نہیں ہے
جبکہ موصل ،تکریت اور شام کے بڑے حصّے پر وہابی قبضے سے خود امریکی صدر اوبامہ کی مڈل ایسٹ کے حوالے سے اختیار کی گئی پالیسیوں پر تنقید شروع ہوگئی ہے اور اب ایک طرف تو امریکی حزب اختلاف ریپبلیکن کا کہنا ہے کہ اوبامہ کی جانب سے عراق جنگ کے خاتمے اور امریکی فتح کا اعلان غلط تھا اور وہاں سے واپسی اس سے بھی بڑی غلطی تھی جبکہ اسی تناظر میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے اعلان کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے
امریکی صدر اوبام کو سعودیہ عرب کے حلیف ہونے اور سعودیہ عرب کو مڈل ایسٹ میں کھل کر کھیلنے دینے کی پالیسی پر بھی سخت تنقید ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ سلفی وہابیت مڈل ایسٹ میں اور دیوبندی عسکریت پسندی کا تیزی سے پھیلتا ہوا دائرہ افغانستان ،بھارت ،پاکستان ،بنگلہ دیش ،چین ،روس وغیرہ میں سخت خطرے کی علامت ہیں اور اس پھیلاؤ سے زبردست خون ریزی ہونے کا اندیشہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ نقصان سنّیوں کا ہوگا جو وہابی -دیوبندیوں کی طرح سے ہرکز تربیت یافتہ اور مسلح لشکر نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی حالت زار پر کسی ملک کو توجہ دینے کی فرصت ہے ،ایسا لگتا ہے کہ اعتدال پسند ،صوفیانہ سنّیت کو مڈل ایسٹ،مشرق بعید ،جنوبی ایشیا سے مٹانے کا سعودی منصوبہ کامیابی کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے
رابرٹ فسک نے اپنے حال ہی میں تازہ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ مڈل ایسٹ میں موجودہ شورش کے نتیجے میں مڈل ایسٹ کی جو تقسیم عثمانی خلافت کو ختم کرنے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے ملکر کی تھی وہ شاید اب قریب المرگ ہے
لیکن سوچنے کی بات ہے کہ مڈل ایسٹ کی پرانی تقسیم میں جن ریاستوں کا نقشہ اور سرحدیں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ ریاستیں وہ ہیں جہاں پر وہابی اقلیت میں ہیں اور اس وہابی اقلیت کو عراق اور شام پر قبضے کرنے کی ساری تیاری سعودیہ عرب نے کرائی ہے اور یہ 1925 ء کی طرح دھشت گردی اور قبضہ گیری کے زریعے وہابیت کا تسلط عراق اور شام میں کرائے جانے کا منصوبہ ہے ،اگر پورا عراق اور شام قبضے میں نہ آیا تو کم از کم جنوبی شام اور شمالی عراق کا ایک بڑا حصّہ تو وہابیت کے قبضے میں آہی جائے گآ

iraq
عراقی فوج وہابی دولت اسلامیہ عراق والشام کے خلاف متحد


‎Why did the Iraqi army collapse in Mosul?
http://english.al-akhbar.com/node/20164
The war in Syria: ISIS’s most successful investment yet
http://english.al-akhbar.com/node/20133
http://www.independent.co.uk/voices/iraq-crisis-sunni-caliphate-has-been-bankrolled-by-saudi-arabia-9533396.html
http://www.independent.co.uk/news/world/middle-east/robert-fisk-the-old-partition-of-the-middle-east-is-dead-i-dread-to-think-what-will-follow-9536467.html
Western media’s obfuscation and lies about the situation in Iraq – by Zara Bokhari

Western media’s obfuscation and lies about the situation in Iraq

Comments

comments