ملاں نئیں کہیں کار دے،شیوے نہ جانن یار دے – از عامر حسینی

Bulleh-Shah-Parh-Parh-Kitaaban-Ilm-Diyan

روشنی سے ڈرے ہوئے لوگ-یہ میرے گذشتہ بلاگ کا عنوان تھا میں نے اسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بھی پوسٹ کیا تو میرے ایک چھوٹے بھائی آصف رضا نے اس پر ایک کمنٹ کیا تو یہ کمنٹ ایسا تھا جس کا سیاق اور سابق مجھے خوب معلوم تھا مجھے اپنی طبعیت زرا موج میں نظر آئی اور لگا کہ جملے قطار در قطار اترنے لگے ہیں اور کہیں زرا رکنے کا موقہ نہیں ملا اور بس لکھتا چلا گیا آصف رضا ایک کمپیوٹر شاپ کا مالک ہے ،بہت اچھا اور تعاون کرنے والا نوجوان ہے ،میرے شہر میں اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا علم عام نوجوانوں میں منتقل کرنے میں خاصا کردار ادا کیا ہے مجھ جیسے نوآموز کو بھی اس نے بہت مدد بہم پہنچائی اور کبھی تعاون کرنے سے انکار نہیں کیا

اخلاق اور عادات سے بہت اچھا ہے لیکن میرے خیالات سے وہ کبھی متفق اس لیے نہیں رہا کہ خانیوال کے مریدان سید مودودی کے زیر سایہ وہ رہا ہے اور مریدان بھی ایسے کہ جنھوں نے اسے کبھی حریب فکر کے جام کے قریب جانے نہیں دیا کیونکہ وہ خود کبھی اس جام کے نزدیک نہیں گئے مجھے بھی عاشقان مودودیت کی صحبت سے لطف اٹھانے کا موقعہ میسر آیا لیکن ان میں سے کچھ عاشق زرا زیادہ ظرف اور زیادہ وسعت نظر والے تھے شاید یہی وجہ ہے کہ میں مودودیت کے کنویں میں قید ہونے کی بجائے فکر کے سمندر کی غوطہ زنی کرنے کے قابل ہوگیا

حالانکہ مجھے تیراکی عملی طور پر آتی نہیں ہے اور سائیکل چلالیتا ہوں موٹر سائیکل اور گاڑی چلانے سے نابلد ہوں لیکن فکر و خیال کے سمندر کی گہرائيوں میں جانے سے مجھے ڈر نہیں لگتا آصف رضا ! اپنے اپنے زاویہ ہائے نگاہ ہوتے ہیں ،تم نے تاریخ ،سیاست اور سماجیات کے باب میں اپنی زمانہ طالب علمی میں جو بھی پڑھا وہ اسلامی جمعیت طلباء کے بچونگڑوں سے پڑھا اور ایسے ہی کچھ دروس شاگردان سید مودودی سے لیے اور اب میڈیا میں تمہارے سب سے پسندیدہ لوگ اوریا جان مقبول ،انصار عباسی ،ڈاکٹر شاہد مسعود ،ہارون الرشید جیسے لوگ ہیں

جو تاریخ ،ادب ،سیاست ،معشیت ،سماج اس بارے میں جو بھی بتائیں گے وہ یا تو آبپارہ میں سرخ عمارت سے دی گئی ہدایات پر مشتمل ہوگا یا پھر وہ ملاّئیت کی اندھیر نگری سے آیا ہوگا اور سب کا سب مسخ شدہ ،جنونیت سے بھرا اور تعصب کی اندھی وادی میں ڈوبا ہوا ہوگا یہ تاریکی ایسی ہے جو آنکھوں کو واقعی چندھائی دیتی ہے اور تاریکی میں رہنے والے یک دم روشنی میں آجائیں تو ان کی آنکھوں پر اندھا پن آجاتا ہے اور وہ روشنی کو تاریکی کہنے پر مصر ہوجاتے ہیں اور بے اختیار ظلمت کو ضیاء کہنے والے اصل ضیاء پاشی دیکھ کر قلب کی بینائی کے بعد چشم بصارت بھی کھو بیٹھتے ہیں ،روشنی کس قدر روشنی دیتی ہے تبھی تو اسے بار بار بین کرنے کی ضرورت پڑ رہی ہے اگر یہ کاروبار ظلمت ہوتا اور یہ غیر منطقی ،بلا عقل و فہم کے بات پیش کررہی ہوتی تو اس پر اس قدر سیخ پا ہونے کی ضرورت کیا تھا ،

اس کا رد کیا جاتا ،جو روشنی کو روشنی نہیں سمجھتے وہ اس کی تاریکی کا پول کھولتے دلائل سے اس کا سیاہ و تاریک ہونا ثابت کرتے ،اس کی گمراہی کے راز ہائے درون کو افشاء کردیا جاتا اور اس کے تار و پود الگ الک کردئے جاتے آصف رضا! تمہارے پاس ٹک کر پوری لگن کے ساتھ کسی معاملے پر غور وفکر کا وقت ہی کہاں ہے ایک کاروباری دنیا کے آدمی ہو سارا دن اور ساری رات نان و شبنہ میں الجھے رہتے ہو اور اس دوران تمہارے پاس وقت صرف اتنا ہے کہ فیس بک پر کوئی امیج دیکھو ،کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھو اور پھر کسی چلتے چلتے اپنے پسندیدہ بت کی تحریر کو پڑھ ڈالو اور پھر اپنے پرانے تعصبات کی روشنی میں فیصلہ صادر کردو

سید مودودی کو میں نے بھی پڑھا تھا سلامتی کا راستہ سے لیکر تفہیم القران تک لیکن ایک مقلد اور مغلوب ہوئے شخص کی طرح نہیں ،تاریخ کے ہر ایک شارح اور ہر ایک مورخ کی تعبیر دیکھی اور اب بھی عقل کل اور حتمیت کا داعی نہیں ہوں اور نہ ہی اندھی تقلید کرتا ہوں مجھ جیسے لوگوں میں یہ حوصلہ اور ہمت یونہی نہیں آئی کہ اپنے محسنوں کے ںظریات اور خیالات سے اختلاف رکھنے کے باوجود جب ان کی خدمات اور ان کی اصل اہلیت کا زکر آئے تو اس کا برملا اعتراف بھی کروں اور ان کو خراج عقیدت بھی پیش کرون ،یہی وجہ ہے کہ میں سید مودودی کی نثر کی سادگی ،پرکاری ،پر اثر ہونے سے کبھی انکاری نہیں ہوا ،

یونہی میرے اندر علم و عرفان کی شمع فروازاں کرنے اور کتابوں سے میرا رشتہ جوڑنے میں میرے استاد سعید الرحمان کا جو حصّہ ہے میں نے اسے کبھی فراموش نہیں کیا ،عبدالکریم سروش پر ایک کتاب مرتب کی تو اس کا انتساب ميں نے سعید الرحمان اور وجاہت مسعود کے نام کیا اور سعید الرحمان میرے انگلش کے استاد تھے اور وہ جماعت اسلامی کے بہت پرانے رفیق کار اور مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث ہیں لیکن ان کی ایمانداری ،دیانت داری اور ان کی اپنے شاگردوں سے لگن کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے،میں نے شیخ الحدیث داماد علامہ یوسف بنوری بانی جامعہ بنوریہ العالمیہ مولانا طاسین کے دست فیض سے مستفید ہونے کا کبھی انکار نہیں کیا ،

آج بھی جعمیت علماء اسلام کے طلباء ترجمان رسالے کے بانی ایڈیٹر شمس القمر قاسمی سے نیاز مندی باقی ہے شورش کاشمیری کے چٹان میں سب ایڈیٹر شعیب الرحمان پکّے احراری تھے لیکن نیاز مندی ان سے رہی اور خوب رہی ان کے فن کا اعتراف بھی ان پر چھپی کتاب میں کیا ،یہ سب باتیں تحدیث نعمت کے طور پر کررہا ہوں کہ انصاف اور دیانت کی باتیں خوب کی جاتیں ہیں لیکن جب کبھی اختلاف کی منزل آجائے اور ایسے موقعہ پر عدل و ظلم کے درمیان مسابقت ہوجائے تو اکثریت عدل کا دامن ترک کردیتی ہے اور پھر ظلم کے سہارے اپنی باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے آصف رضا ! جس تحریر کو آپ روشنی کا نام دیکھکر بس تاریک معانی پہنانے پر تل گئے زرا اسے گہرائی سے پڑھا ہوتا تو پتہ چلتا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں ،

دوست نظریات اور افکار پر پہرے بیٹھائے نہیں جاسکتے ،تمہیں کیا بتاؤں کہ عقل اور خرد کو کتنے جوتے ملائیت نے مارے ہیں میں جب ملائیت کہتا ہوں تو اس سے مراد ہر مذھبی سکالر یا مخصوص وضع قطع کا آدمی نہیں ہوتا ہے اگر ایسا ہوتا تو میں سعید الرحمان ،مولانا طاسین ،مفتی محمد اسیر مالتا،مولانا فصل حق خیر آبادی،حفظ الدن سیوھاروی ،مولنا مناظر احسن گیلانی ،عبید اللہ سندھی ،ڈاکٹر کمال ،شمس القمر،مولانا برکت اللہ بھوپالی کا مداح کیوں ہوتا ؟

ملآئیت سے مراد ایک کیفیت اور زھنیت اور سوچ ہے جو اوریا جان مقبول اور انصار عباسی کے ہآں بھی ہے جو صاحب ریش قصیر ہیں اور جاوید چودھری کے ہآں بھی ہے جو بے ریش ہیں اور حافظ سعید و امیر حمزہ کے ہاں بھی ہے جو صاحب ریش طویل ہیں اور یہ اے کے بروہی میں بھی تھی جو بے ریش و بے مونچھ تھے اور تھری پیس سوٹ ،نکٹائی میں ہی رہا کرتے تھے،

تو میرے بھائی یہ ملائیت ابن رشد پر جامع مسجد اندلس کے باہر جوتے برساتی نظر آتی ہے زکریا رازی کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلاتی ہے اور اس سے بہت پہلے یہ ملائیت ہمیں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے “اعدل ۔اعدل ” کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہے اور باب مدینۃ العلم مولا علی کو کافر کہہ کر مسجد میں شہید کردیتی ہے اور یہی ملائیت تھی جو نواسہ رسول کو باغی ،خروج کا مرتکب کہتی ہے اور اس کی گردن پر خنجر پھیرتی ہے اور یزید کی صحابیت اور اس کی مغفرت کا جواز تلاش کرتی ہے اور یہی ملائیت ہے جو تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرک اور نعت رسول کو بدعت قرار دیتی ہے اور یہی ملائیت ہے جو بنگالیوں کی زبان کو ہندوانہ اور ان کے لباس کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے اور اردو کو مقدس اور مذھبی زبان قرار دے دیتی ہے ،

یہی ملائیت ہے جو شناخت کے سوال کو مذھبی بناتی ہے اور حق مانگنے کو صوبائیت ،لسانیت نہ جانے کیا کچھ کہتی ہے میرے دوست یہ ملائیت ہے جو نام دیکھر کسی کے زندہ رہنے نہ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے اسی لیے ملائیت ،پاردریت ،احباریت کا دشمن ہر صوفی ،ہر سقراطی ،ہر موسوی،ہر عیسیوی ،ہر بلھا ،شاہ حسین ،کبیر ،ہر ابن رشد ،ہر رازی ،ہر سینا ،ہر منصور ،ہر یعقوب الکندی رہا ہے واعظ ،ناصح ،محتسب ،ملّا اور پیر سے لڑائی رہی عارفوں کی ،باغیوں کی ،رندی عشق میں ڈوب جانے والوں کی ،ہر مست و الست کی ہر عاشق کی ،ہر شناسائے گوجہ محبتاں کی ،ہر مردود حرم مگر اہل صفا کی ،اب اگر اسے تم تاریکی کہو ،

اسے تم ظلمت کہو تو پھر دودھ بھی کڑوا اور شہد بھی کالا ہوسکتا ہے اور ہر بینا اندھا ،ہر صاحب عدل ظالم ہوسکتا ہے اور اگر تم اس فلسفے کے قائل ہو بھی جاؤ تو مجھے اس پر چنداں حیرت نہیں ہوگی کیونکہ یہاں پر حسین کو باغی اور یزید کو صحابی اور مغفور کہنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن تاریخ کا یہ سبق تمہیں اور مجھے بلکہ ہم سب کو یاد رکھنا چاہئیے کہ جس سچ کو پابند سلاسل کرنے یا اسے چھپانے یا اس کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بار بار سامنے آتا ہے اور پھر وہی ایک زمانے میں چیزوں کو ماپنے کا آلہ قرار پاتا ہے آٹھویں صدی سے گیارھويں صدی تک عرب ،وسط ایشیا کے مسلم سماج میں فلسفہ ،سائنسی اور سماجی علوم کے عالموں اور فاضلوں کو زلیل کیا جاتا رہا اور فسلفہ و سائنس کی کتب کو کفریہ اور شرکیہ کتب قرار دیکر جلادیا گیا اور ان موضوعات پر لکھنے کی سزا قتل قرار دے دی گئی

کیا بتاؤں کیسا حبس فکر اور خیال تھا جو آٹھویں صدی سے گيارھویں صدی تک مسلم سماج کی قسمت بنا رہا اور علوم کے شہ پارے اور موتی سب کے سب کے ویسے ہی عرب سے ہجرت کرکے یورپ چلے گئے جیسے کبھی یونان سے ہجرت کرکے عرب ملکوں میں آئے تھے ابن رشد ایوی رس ،ابن سینا ایبی سینیا ہوگیا سب عربی عالمان سائین و عمرانیات کے نام لاطینی ہوگئے اور پورا یورپ سچ کے نور سے جگ مگ کرنے لگا اور ساری دنیا سے طالبان علم وہیں کا رخ کرنے لگے آج مسلم ممالک کے اندر سائنس اور سماجی علوم کی نصابی کتب اٹھاکردیکھیں مسلم تہذیب کو علم و عرفان کی روشنی سے جگماگانے والی ثابت کرنے کے لیے ان سارے فلسفیوں ،سائنس دانوں اور ماہرین لسانیات و ادب کا حوالہ دیا جاتا ہے جن کو کبھی زندیق اور کافر کہا گیا تھا اور جن کی کتابوں کو چلادیا گیا ،

جن کو جامع مساجد کے دروازے کے سامنے بٹھاکر عوام و حواص سے جوتے پڑوائے گئے اور جن کی لاشوں کو مرنے کے بعد قبر سے نکال کر فلسفہ پڑھنے کی سزا دی گئی تھی آج ابن ہثیم ،موسی خوارزمی ،زکریا رازی ،ابن رشد،ابن سینا ،یقعوب الکندی اور طوسی کے تذکرے کے بغیر مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ کا بیان مکمل نہیں ہوتا ہے ایک بات مجھے آخر میں کہنی ہے ہوسکتا ہے اس پر بہت شور مچے اور ہمارے بہت سے قدامت پرستوں کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں قرون وسط کے جتنے فلسفی ،ماہرین طبعیات،حیاتیات،فلکیات،ریاضی والجبراء و جیومیٹری اور بڑے صرفی و نحوی تھے وہ سب کے سب عقائد کلامی میں معتزلہ اور مسلک کے اعتبار سے یا تو شیعہ امامیہ تھے یا شیعہ اسماعیلی اور تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس نے فزکس کا نوبل انعام جیتا وہ بھی احمدی تھا یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو چھٹلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے

تو ہم نے ہدائیت و گمراہی کے جو پیمانے اخروی طور پر خود سے متعین کررکھے ہیں ان کا اطلاق کم از کم طبعی سائنسی اور سماجی علوم پر تو نہیں ہوتا آصف رضا ! تم نے سوچا ہے کہ آج پاکستان ،عراق ،شام ،لبنان ،بحرین میں جن لوگوں کو محض شیعہ ہونے کی بنیاد پر قتل کیا گیاوہ بہترین ڈاکٹر ،سرجن ،وکیل ،انجینئر تھے اور خلق خداکی خدمت کرنے کے حوالے سے ان کا ریکارڈ مثالی تھا ایک بات اور بہت اہم ہے کہ ان مقتولوں کو جاننے والے اور ان کے پڑوس میں رہنے والے اور ان سے لین دین کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ خدا ترس تھے،غریبوں اور مجبوروں کے حامی تھے ،غرور و تکبر سے پاک تھے گویا خلق خدا ان کی فقیری کی گواہ تھی

ان کی درویشی کی عینی شاہد تو وہ کیوں مار دئے گئے؟ جواب بہت سادہ ہے ان کو مارنے والے ملّائیت کی تاریکی کے مارے ہوئے تھے جبھی تو روشنی کے چراغ گل کرنے آگئے آصف رضا! کسی دن میرے مرنے کی خبر آئے اور تمہیں معلوم ہو کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے مجھے شہر کی کسی سڑک کے کنارے ،کسی گلی کی نکڑ جاتے ہوئے یا کسی چائے کے ہوٹل پر چائےکی چسکی لیتے ہوئے گولیاں مار کر ہلاک کرڈالا تو تم شاید دل میں یہ سوچوگے کہ اگر روشنی ،روشنی نہ کرتا اور پرانے قصوں کو گاہے گاہے تازہ نہ کرتا تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا تم شاید کہو کہ آدمی لین دین کا کھرا تھا ،نیت کا برا نہیں تھا لیکن اس کے خیالات۔؟

اور شاید کبھی تم کسی مجمعے میں بیٹھ کر جب یہ دوھراؤ گے تو مجھے یقین واثق ہے کہ میری جیسے خیالات تمہیں پھر کسی اور نام کے آدمی ،کسی اور لہجے والے آدمی یا عورت سے سننے کو ملیں گے اور تم کہو گے احتیاط کرو تم سے پہلے بھی یہ سودا بہت سے لوگوں کے سرمیں سمایا تھا جو تاریخ ہوگئے لیکن دور کہیں قصور سے بلھّے شاہ کی قبر سے آواز آرہی ہوگی وہ تینوں کافر کافر آکھدے تو آہو آہو آکھ

Source :

http://lail-o-nihar.blogspot.com/2014/06/blog-post_6.html

Comments

comments

Latest Comments
  1. Akmal
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.