مصر کی عظیم درسگاہ جامعہ الازہر کے شیخ ڈاکٹر احمد الطیب کا سنی اور شیعہ مسلمانوں میں اتحاد کے بارے میں انٹرویو

eg

شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب مختلف مواقع پر شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے مختلف بیانات، انٹرویوز اور تحریریں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں مصر کے معروف چینل النیل المصریہ سے ایک انٹرویو میں شیعہ مذہب کے بارے میں سوالات کے جو جوابات دیے ہیں، وہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگت کی فضا کو بہتر کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوں گے۔

ذیل میں ہم ان سے کیے گئے سوالات اور شیخ الازہر کے جوابات اپنے قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں

سوال: کیا آپ کی نظر میں شیعہ عقائد میں کوئی مسئلہ ہے۔؟
جواب: نہیں کوئی مسئلہ نہیں، پچاس سال قبل شیخ شلتوت نے فتویٰ دیا تھا کہ دیگر اسلامی مسالک کے طرح شیعہ پانچواں اسلامی مسلک ہے۔

سوال: ہمارے بہت سے جوان شیعہ ہو رہے ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے۔؟
جواب: ہوتے رہیں، اگر کوئی شخص حنفی مسلک سے مالکی مسلک اختیار کر لیتا ہے تو کیا ہم اس پر اعتراض کرتے ہیں، تو پھر یہ افراد بھی چوتھے مسلک سے پانچویں مسلک میں چلے گئے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

سوال: شیعہ ہمارے رشتہ دار بنتے جا رہے ہیں اور ہمارے بچے بچیوں سے شادیاں کر رہے ہیں۔؟
جواب: اس میں کیا حرج ہے، مختلف اسلامی مسالک کے مابین شادیاں کرنے کی آزادی ہے۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ شیعوں کا قرآن مختلف ہے۔؟
جواب: ایسی باتیں بوڑھی عورتوں کی خرافات ہیں، شیعوں کے قرآن کا ہمارے قرآن سے کوئی فرق نہیں۔ یہاں تک کہ ان کے قرآن کا رسم الخط بھی ہمارے قرآن جیسا ہے۔

سوال: ایک ملک کے 23 مولویوں نے فتویٰ دیا ہے کہ شیعہ کافر اور رافضی ہیں۔؟
جواب: عالم اسلام کے مسلمانوں کے لیے فقط الازہر فتویٰ دے سکتا ہے، ان مولویوں کے فتوے کی کوئی حیثیت نہیں۔

سوال: پھر جو شیعہ و سنی کے مابین اختلافات بیان کیے جاتے ہیں، وہ کیا ہیں۔؟
جواب: یہ غیروں کی سیاست کے پیدا کردہ اختلافات ہیں، وہ شیعہ و سنی میں افتراق ڈالنا چاہتے ہیں۔

سوال: میں ایک اہم سوال کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ شیعہ جو کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو قبول نہیں کرتے، آپ کیسے انھیں مسلمان کہہ سکتے ہیں۔؟
جواب: جی ہاں وہ قبول نہیں کرتے، لیکن کیا حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ پر اعتقاد رکھنا دین اسلام کے اصولوں میں سے ہے۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کا مسئلہ ایک تاریخی مسئلہ ہے اور تاریخ کا عقائد کے اصولوں سے کوئی تعلق نہیں۔

سوال: شیعوں پر ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے امام زمانہ ایک ہزار سال سے ابھی تک زندہ ہیں۔؟
جواب: ایسا ہونا ممکن ہے اور کیوں ممکن نہ ہو، البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہم بھی یہ عقیدہ رکھیں۔

سوال: کیا ممکن ہے کہ 8 سال کا بچہ امام ہو؟ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آٹھ سال کا بچہ امام ہوگیا تھا۔؟
جواب: جب ایک بچہ گہوارے میں نبی ہوسکتا ہے تو ایک 8 سالہ بچہ امام بھی ہوسکتا ہے، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، اگرچہ ممکن ہے کہ ہم اہل سنت کی حیثیت سے یہ عقیدہ نہ رکھیں، لیکن یہ بات شیعوں کے مسلمان ہونے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی اور وہ مسلمان ہیں۔

شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب نے مرحوم شیخ شلتوت جو اپنے وقت میں شیخ الازہر کے منصب پر فائز رہے، کے جس تاریخی فتویٰ کا اپنے مذکورہ بالا انٹرویو میں حوالہ دیا ہے اس کا مضمون یہ ہے

دین اسلام نے اپنے ماننے والوں میں سے کسی ایک شخص کو بھی مخصوص مسلک کی پیروی کرنے کا پابند نہیں کیا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہر مومن شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ ابتدائی طور پر ان مسالک میں سے جو مسلک بھی صحیح طرح سے نقل ہوچکا ہو اور اس کے احکام مسلک کی مخصوص کتابوں میں ذکر ہوئے ہوں، اس کی پیروی کرے اور اسی طرح ایک شخص ان مسالک میں سے کسی مسلک کی پیروی چھوڑ کر دوسرے مسلک کی طرف جانا چاہے تو جاسکتا ہے اور اس طرح کرنے میں اُس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘

’’مسلک جعفری جو کہ مسلک امامیہ اور اثنا عشری کے نام سے بھی مشہور ہے، کی پیروی اُسی طرح جائز ہے جس طرح اہل سنت کے مسالک کی پیروی جائز ہے اور مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور کسی خاص مسلک کی حمایت اور بے جا طرفداریوں اور تعصبات سے بچنا چاہیے۔ خدا کا دین اور شریعت کسی مسلک کے تابع نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلک میں منحصر اور محدود ہے۔ جو شخص بھی اجتہاد کے مقام تک پہنچا مجتہد کہلاتا ہے اور اس کا عمل مورد قبول بارگاہ حق ہوگا اور جو شخص نظریہ پیش کرنے اور اجتہاد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کیلئے جائز ہے کہ وہ ان لوگوں کی پیروی کرے جنھوں نے فقہی مسائل بیان کئے ہیں۔ اس مسئلے میں عبادات اور معاملات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘

شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب شروع ہی سے ایسے اعتدال پسندانہ اور امت کے لیے وحدت آفریں نظریات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ 19 جولائی 2010ء کو ہم اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے ایک وفد کے ہمراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس موقع پر بھی انھوں نے فرمایا تھا

ہمارے ہاں تمام اسلامی فقہوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ البتہ حنبلی کم ہیں چونکہ وہ زیادہ سعودی عرب چلے جاتے ہیں اور یہ فقہ اس علاقے میں رائج بھی نہیں ہے۔ ہم فقہ جعفری کو بھی اسلامی فقہوں میں سے شمار کرتے ہیں۔ اسلام کی کوئی مخصوص تعبیر نہیں ہے۔ اسلامی فقہ ان تمام مذاہب پر مشتمل ہے۔ ہمارے ہاں شیعہ سنی مسئلے کے بارے میں کوئی حساسیت نہیں پائی جاتی۔ ہم مسلمانوں کے مابین اعتدال کا نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں سے بہت سے رسائل شائع ہوتے ہیں جو اس امر کا مظہر ہیں۔ ہم اسلامی تصوف پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم فلسفے کے مختلف مکاتب کا بھی احترام کرتے ہیں۔ فلسفہ اشراق، فلسفہ مشائی ہو یا ملا صدرا کا فلسفہ، کسی کے بارے میں ہمیں کوئی حساسیت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایسے عالم بھی رہے ہیں جو تصوف میں شہرت رکھتے تھے۔ یہاں اشعری نظریئے کے حامل اساتذہ بھی رہے ہیں اور معتزلی بھی۔ ہمارے ہاں کوفی مسلک کے لوگ بھی ہیں بصری مسلک کے بھی، لیکن کوئی ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتا۔ ہم مشرق و مغرب میں مسلمانوں کی وحدت کے قائل ہیں۔

2010
ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے روحانی قائد آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای نے اہل سنت کے مقدسات اور خاص طور پر ازواج رسولؐ کی توہین کو حرام قرار دیتے ہوئے ایک تاریخی فتویٰ جاری کیا تھا، جس کا پورے عالم اسلام میں بہت خیر مقدم کیا گیا۔ ڈاکٹر احمد طیب نے بھی اس فتوے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کا فتویٰ دراڑیں پڑنے کا سدباب کرنے اور فتنوں کے دروازے بند کرنے کے لیے بہت مفید اور بروقت ہے۔

ڈاکٹراحمد الطیب نے اس حوالے سے اپنے ایک مکتوب میں لکھا
میں نے تحسین و تمجید کے ساتھ صحابہ رضوان اللہ علیہم کی توہین کی حرمت کے سلسلے میں حضرت امام علی الخامنہ ای کا مبارک فتویٰ وصول کیا، یہ ایسا فتویٰ ہے جو صحیح دانش اور اہل فتنہ کی طرف سے انجام پانے والے اعمال کی خطر آفرینی کے گہرے ادراک کی بنیاد پر جاری ہوا ہے اور مسلمانوں کے درمیان وحدت و یکجہتی کے لیئے ان کے اشتیاق کی علامت ہے۔ جو چیز اس فتوے کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ فتویٰ مسلمانان عالم کے بزرگ علماء میں سے ایک عالم دین، عالم تشیع کے بزرگ مراجع میں سے ایک مرجع اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلٰی ترین رہبر کی جانب سے صادر ہوا ہے۔ میں اپنے علمی مقام اور جو شرعی ذمہ داری، میرے دوش پر ہے، کی بنا پر کہتا ہوں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لیے کوشش واجب ہے اور اسلامی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اختلاف ان مذاہب کے علماء اور صاحبان رائے کی حد تک محدود رہنا چاہیے اور اس اختلاف کو امت اسلامی کی وحدت کے لیے نقصان دہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:

وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ
(اور آپس میں جھگڑا مت کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والے کے ساتھ ہے۔)
میں اسی طرح اعلان کرتا ہوں کہ جو شخص مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالے وہ گنہگار، عذاب الٰہی اور عوام کی جانب سے دھتکارے جانے کا مستحق ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Anwar-ul Haq
    -
    • Captain Clematis
      -
  2. Alvi Haiderali
    -
  3. abuhurairah
    -
  4. fida panhwar
    -
  5. Husnain Sultan
    -
  6. Shoaib , Karachi , Pakistan
    -
  7. imtiaz
    -
  8. Ali Nasir
    -