جب استاد درندہ بن جائے – از عامر حسینی
دو دن پہلے میرے شہر سے ایک تیرہ سال کا بچہ اس کے اسکول کے پرنسپل کی مدد سے ایک استاد نے اغواء کیا اور مظفر گڑه لے جاکر اسے زیادتی کرنے کے بعد بےدردی سے قتل کرڈالا اور اس کی لاش ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک چوک پر ڈال دی میں اس درندے استاد کو اسحاق نہیں کہوں گا کیونکہ یہ نام اس وحشی کو زیب نہیں دیتا
یہ جو بچہ اپنے ہی معلم کی درندگی کا نشانہ بنا مظفر گڑه سے آئے مجرموں کے ہتهے کیسے چڑها جو اسکول بناکر معلموں کا روپ دهارن کئے ہوئے تهے یہ کہانی بهی وہی روائتی غربت اور سرمایہ داری کے مارکیٹ ماڈل سے جڑی ہے
سرکاری اسکولوں میں اس جیسے بچوں کو جگہ نہیں ملی تو اس کے غریب ماں باپ نے اسے ایک سستے نجی اسکول میں داخل کرادیا اورایک ماہ قبل اس اسکول کے مالک نے فیس میں کئی گناہ اضافہ کیا تو غریب ماں باپ نے اسے نئے سستے اسکول میں داخل کرادیا یہ اسکول جہاں میں رہتا ہوں اس سے دو سو قدم کے فاصلے پر ایک ایسی عمارت میں قائم ہے جہاں پہلے خورشیدیہ پبلک اسکول ہوتا تها جوکہ ایک پیر صاحب کے نام پر بنا تها بعد میں مریدوں کے لڑنے جهگڑنے پر اسکول بند ہوگیا اور بدمعاشوں نے اس کو کرائے پر لے لیا
اس اسکول میں کم فیس ہونے کی وجہ سے غریبوں نے اپنے بچے داخل کرانا شروع کرڈالے
اسکول کا پرنسپل ،اس کے تین بهائی اور ایک وہی درندہ مل کر اسکول کے بچوں سے بدفعلی کا مسلسل ارتکاب کرتے رہے اور اس دوران پانچ معلوم واقعات میں ان کے خلاف متاثرہ بچوں کے والدین نے سٹینڈ لینے کی کوشش کی لیکن علاقے کے ایک ایم پی اے اور مظفر گڑه کے جمشید دستی جو اس اسکول کے افتتاح کے موقعہ پر چیف گیسٹ بنے تهے اور اس شہر کے چند طاقتور لوگ غریبوں کو کمپرومائز کرنے پر مجبور کرتے رہے جس سے یہ مجرم اور دلیر ہوگئے
جو بچہ اس گروہ کی درندگی کا شکار ہوا جب وہ مقررہ وقت پر اسکول سے گهر نہ پہنچا تو اس کے غریب والدین نے تهانہ سٹی سے رجوع کیا تو ان کو دهکے مار کر تهانہ سٹی سے نکال دیا گیا جس پر یہ غریب اپنی داد فریاد لیکر ایک ایم این اے اور ایک ایم پی اے اور ڈی پی او آفس تک گئے جہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی
جب معاملہ میڈیا تک پہنچ گیا تو پولیس زرا حرکت میں آئی اور پرنسپل گرفتار ہوا لیکن وہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر اور رشوت خوری کرکے تفتیش سے بچتا رہا
مجهے بچے کے ایک عزیز نے کال کی اور روتے ہوئے مدد کی درخواست کی تو میں پہلے سٹی تهانے میں پہنچا تو میں شریک ملزم کا تهانے میں پروٹوکول دیکه کر حیران رہ گیا اور جب سخت غصے میں میں نے محرر اور تفتیشیشی کو کهری کهری سنوائی تو اسے لاک اپ کے پیچهے دهکیلا گیا اور اس دوران ایک ایڈیشنل ڈی آئی جی کو اپروچ کرکے میں نے تفتیششی کو پرنسپل سے لڑکے کو اغوا کرنے والے ملزم کا اتہ پتہ معلوم کرنے کا دباو ڈلوایا اور اس دوران دیگر صحافیوں اور شہریوں نے بهی دباو بڑهایا
مظفر گڑه میں ایک مرتبہ پهر جمشید دستی مجرموں کو بچانے کے لئے سرگرم ہوگئے اور خود میرے شہر کے ایم این ایے اور ایم پی اے بهنگ پی کر سوتے رہے ویسے بهی ان کو متروکہ املاک اور سرکاری رقبوں پر قبضوں سے فرصت ملے گی تو وہ اپنے ووٹرز کا حال پوچهیں گےاس دوران پولیس مسلسل نااہلی کا ثبوت دیتی رہی اور مرکزی ملزم کو پکڑنے سے گریزاں رہی اور سفاک ملزم اپنا کام کرگیا اور ایک غریب گهر ماتم کدے میں بدل گیا غربت سے بڑا جرم اس معاشرے میں کوئی اور ہوہی نہیں سکتا
میں شہریوں کے احتجاج میں شریک تها تو ایم این اے ،ایم پی اے اور قائم مقام ڈی پی او کی گاڑیاں غریب اور متاثرہ والدین کے گهر کے آگے آکر کهڑی ہوگئیں اور لگے سب سماج بهگت بننے اور دلاسے دینے میں لگ گئے
یہ نوآبادیات کا کوڑا کرکٹ جو سفید فام آقاوں کے تلوے چاٹ کر امیر اورشرفاء میں شامل هوگئے اور انگریز کے جانے کے بعد ہماری گردنوں پر مسلط ہوگئے عوامی غیض و غضب سے خوفزدہ ہوکر ڈرامے کررہے تهے میرا بس نہیں چل رہا تها کہ میں ان کے گریبان پکڑ کر پوچهتا کہ جب یہ غریب ماں باپ اپنی بے بسی اور مظلومیت کا نوحہ تمہیں سنانے آئے تهے تو تم نے کان بند کرلئے تهے یہ کون ساحسین نواز تهاکونسامونس تها کونسا حیدر گیلانی تها یا شہبازتاثیر تها کہ چیخ و پکار شروع ہوجاتی یہ غریب کا بچہ تها جو سو روپے فیس میں اضافے کے سبب اسکول بدلنے پر مجبور ہوا اور بهیڑیوں کی هوس کا شکار ہوگیا
میرا بس چلے تو میں ان نام نہاد محافظوں اور نام نہاد عوامی نمائندوں کو چوک میں کهڑا کرکے فائرنگ اسکواڈ کےحوالے کردوں لیکن بے بسی کا احساس ہے جو جینے نہیں دے رہا ہے ڈی پی او خانیوال ایاز سلیم سنا ہے آپ نے بارہ اپریل کو واپس لندن سے آنا ہے توزرا سوچئے گا کہ کس نااہل افسر کے سپرد ضلع کو کرکے گئے تهےکہ ایک بچے کو جنسی زیادتی کے بعد ٹکڑے کرکے پهینک دیا گیا اور شہر کے معروف ترین اور عین وسط میں واقع بازار میں سرعام قبضہ گروپ ایم پی اے کی شہ پر فائرنگ کرتا رہا اور تهانہ سٹی کی پولیس سوئی رہی
میں جانتا ہوں کہ آپ کا ایک بچہ کس قدر بے مار ہے اور اس کی خاطر آپ سات سمندر پار بهی جانے کوتیار ہیں لیکن یہ غریب ماں باپ تو اپنے بچے کو مظفر گڑه کے مقتل سے واپس نہ لاسکے ان کا دکه کس طرح سے بانٹا جاسکے گا یہ آج پورے خانیوال کے شہریوں کے لئے بہت زیادہ دکه اور پیشمانی کا دن ہے اور اہل مظفر گڑه زرا ان لوگوں کا گریبان پکڑو جنہوں نے مظفر شہید کے نام پر بنےشہر کے ماتهے پر کلنک کا ٹیکہ لگوایا ہے
Comments
Latest Comments
یہ سکول مثالی زکریا پلک سکول ہے جس کا مالک پرنسپل کاشف دیوبندی دھشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتا ہے اور اصل ملزم اسحاق بھی اسی تنظیم کا رکن ہے اور جبکہ کاشف کا بھائی مظفر گڑھ میں دیوبندی دھشت گرد کے طور پر جانا جاتا ہے اور اشتہاری ہے پرنسپل کاشف دیوبندی کا ایم این اے جمشید دستی سے خوب یارانہ ہے اور جبکہ ملزم اسحاق کا یارانہ سابق تحصیل ناظم آباد ڈوگر سے ہے جو خود بھی دیوبندی کالعدم تںطیم سپاہ صحابہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے ،خفیہ اداروں کی تحقیقات کے مطابق یہ اسکول کالعدم تنظیموں کے اشہتاریوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال ہورہا تھا
mere bhi hat ki sb unglia aik j se nah huti.har aik maslak , qabile me har kisam k log ha or kisi aik ki ghalti ki waja se pure maslak ko badnam karna munasib nah ya zulam ha .