سعودی عرب اور پاکستان کی تکفیری جہادی مہم بھارت کے لیے خطرہ ہے- انڈین ایکسپریس

ہندوستان سے شایع ہونے والے معروف روزنامہ “انڈین ایکسپریس”میں بین الاقوامی امور کے ماہر محمد طفیل کا ایک آرٹیکل شایع ہوا جس میں انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی،اقتصادی تعلقات کے نئے دور کے شروع ہونے پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا ہے

اس مضمون میں طفیل صاحب نے پاکستان اور سعودیہ عرب کے درمیان مجوزہ دفاعی اور سٹریٹجک تعلقات کی نوعیت اور ساخت پر بات کرتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ

پاکستان اور سعودی عرب شام کے ایشو پر جس طرح سے شام میں برسرپیکار سلفی تکفیری باغیوں کو تربیت دینے اور ان کو زیادہ کارآمد اسلحہ فراہم کرنے جس میں شامی فضائیہ سے نمٹنے کے لیے زمین سے فضاء میں مار کرنے والے مزائیلوں کی فراہمی اور اینٹی ٹینک راکٹ تک دینے کی شنید ہے اور پاکستان سے دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد تنظیموں و ریٹائرڈ فوجی نوجوانوں کو بھرتی کرکے وہاں بھیجنے جیسے اقدامات شامل ہیں کا جنوبی ایشیا میں عسکریت پسندی اور دھشت گردی میں اضافے کا کس حد تک سبب بن سکتے ہیں

طفیل صاحب کا خیال ہے کہ پاکستان اور سعودیہ مل کر سلفی و دیوبندی تکفیری خارجی جہادیوں پر جو سرمایہ کاری کررہے ہیں اس کے نتائج بھارت کے حق میں بہت برے نکلیں گے

طفیل بھارت کو مشورہ دیتے ہیں کہ اسے سعودیہ عرب کی جانب سے دفاعی اور سٹریٹجک معاہداتکی پیشکش کو مسترد کردینا چاہئیے اور بین السطور وہ یہ بھی مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ بھارت کو پاکستان و سعودیہ کی نئی سٹریٹجک پرواز کو روکنے کے اقدامات کرنے چاہئیں

ان کے خیال میں یہ جہادی تکفیری خارجی پروجیکٹ بھارت کے افغانستان میں کئے گئے اب تک کے اقدامات کو بھی غیر موثر کرنے کا سبب بنے گا

طفیل صاحب نے جن خیالات کا آظہار کیا بھارتی مین سٹریم میڈیا سعودی وزیر خارجہ و سعودی وزیر دفاع کے پے درپے ہونے والے پاکستان کے درورے اور پھر پاکستانی آرمی چیف کے دورہ سعودیہ عرب اور بعد ازاں سعودی ولی عہد،وزیر دفاع کے پاکستان کے دورے کے فوری بعد ہندوستان کے دورے کے دوران ان خیالات،تحفظات اور خدشات کو بیان کرتا رہا ہے

اصل میں دیکھا جائے تو سعودیہ عرب کے ولی عہد سیلمان بن عبدالعزیر کا دورہ ہندوستان پاک-سعودیہ سٹریٹجک ڈرائیو کی شام میں مبینہ جہایوں کی کیپسٹی کو تعمیر کرنے کی جہت سے پیدا ہونے والے خدشات کے تناظر میں تھا

سعودی ولی عہد بھارتی حکومت کو یہ باور کرانے گئے تھے کہ بھارت کو مڈل ایسٹ میں ایک تو روسی-چینی-شامی-ایرانی کیمپ میں شامل نہیں ہونا چاہئیے اور دوسرا اسے سعودیہ عرب کے مڈل ایسٹ میں سلفی جہادی پروجیکٹ سے خائف نہیں ہونا چاہئیے

سعودی ولی عہد کا دورہ ہندوستان بالکل اسی طرح کی ایک گاجر و ڈنڈے والی پالیسی کا آظہار تھا جیسی پالیسی سعودی انٹیلی جنس چیف نے روس کے دورے کے دوران اختیار کی تھی اور روس کے سامنے یہ آپشن رکھا تھا کہ اگر وہ شام،ایران ،حزب اللہ کی مدد کرنے سے رک جائے اور شام میں سعودی عرب کی سلفی تکفیری ڈرائیو کا راستہ نہ روکے تو شام میں اس کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا بلکہ روس کو چیچن تکفیری سلفی دھشت گردی سے بھی نجات مل جائے گی

سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ ہندوستان کے موقعہ پر ایک طرف تو ہندوستان کو یہ باور کرایا ہوگا کہ پاک-سعودیہ سٹریٹجک ڈرائیو کا کشمیر یا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو بھی سلفی ،دیوبندی دھشت گرد نیٹ ورک اردن-شام کی سرحد پر واقع تربیتی کیمپوں میں تربیت لیں گے ان کو کشمیر پراکسیکے لیے پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور سعودیہ عرب نے ہندوستان کو یہ بھی باور کرایا ہوگا کہ جن دیوبندی اور سلفی عسکریت پسندوں نے کشمیر اور انڈیا کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے سعودیہ عرب ان پر اپنے اثرو رسوخ کو استعمال میں لاکر بھارت پر دباؤ خاصا کم کرسکتا ہے

اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ لشکر طیبہ،جیش محمد  ایسی تنظیمں ہیں جن پر سعودی عرب کا اثر رسوخ بہت زیادہ ہے اور سعودیہ عرب پاکستان کو بھی ان کی کاروائيوں کو کنٹرول کرنے کا کہنے کی پوزیشن میں ہے

خود پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی کی قیادت کا یہ خیال ہے کہ وہ شام کے لیے سعودیہ عرب کو جو افرادی قوت فراہم کریں اس سے ایک تو دیوبندی دھشت گردی کے نیٹ ورک کی پاکستان پر فوکس میں کمی آئے گی اور پھر اس دوران دیوبندی نیٹ ورک کے بہت سے حصّوں کو وہ کشمیر میں پراکسی کے لیے استعمال کرسکیں گے

لیکن 80ء کی دہائی سے کشمیر اور افغانستان کے اندر جہادی پراکسی کے نتائج جس طرح سے پاکستان میں ایک طرف تو فوج،پولیس کو بھگتنے پڑے تو دوسری طرف اس ملک کے شیعہ کی نسل کشی،بریلوی سنّی،ہندؤ،احمدی،عیسائی ،سیکولر لبرل لوگوں کا قتل ،ان کی کلچرل آزادیوں پر پابندیوں وغیرہ کی صورت میں نکلے اور پاکستانی سٹیٹ جہادی پراکسی کے نام پر تیار کئے جانے والے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کو اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ سکی تو اب یہ کیسے ممکن ہوگا کہ مڈل ایسٹ میں دیوبندی تکفیری دھشت گرد نیٹ ورک کو استعمال کرنے کے بعد ان کو صرف کشمیر پراکسی تک محدود کردیا جائے

سعودیہ عرب نے حال ہی میں اخوان المسلمون سمیت درجنوں سلفی تکفیری دھشت گرد گروپوں پر پابندی عائد کی ہے یہ وہ سلفی دھشت گرد گروپ ہیں جو سعودی عرب کی پراکسی سے باہر نکل کر خود سعودیہ عرب کے اندر بھی آل سعود کی بادشاہت کا خاتمہ کرکے سعودیہ عرب میں زیادہ شدید سلفی تکفیری خارجی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو سعودیہ عرب کیسے ان سلفی تکفیری دھشت گردوں کو اپنے ایجنڈے تک محدود رکھ پائے گا جو آج بظاہر سعودی پراکسی کے لیے لڑرہے ہیں

یہاں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سعودیہ عرب کے حکمرانوں،پاکستان کی موجودہ حکومت ،آئی ایس آئی کے اندر ایک سیکشن کو دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کی شیعہ، سنّی بریلوی، ہندؤ، عیسائی اور احمدیوں کو مارجنلائز کرنے ،ان کی ٹارگٹ کلنگ کرنے اور ان کی مذھبی آزادیوں کو محدود کرنے جیسے اقدامات پر اصولی کوئی اعتراض نہیں ہے

پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت کے مسلم لیگ نواز اور آئی ایس آئی کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اب تک اختیار کی گئی پالیسی پر حکمت عملی کا آحتلاف موجود ہے لیکن بدقسمتی سے یہ تینوں ریاستی سیکشن سعودیہ عرب کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کی موجودہ جہت سے بالکل اتفاق کرتے ہیں

اس اتفاق کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات کافی نیچی سطح پر چلے گئے ہیں اور اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر شیعہ کمیونٹی پر ہونے والے جبر اور حملوں اور ان کی ٹارگٹ کلنگ میں اور اضافے کا امکان ہے

بین السطور اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت،فوجی قیادت اور آئی ایس آئی مستقبل قریب میں کشمیر اور دیگر علاقوں میں اپنے مفروضہ مفادات کے تحفظ کے لیے نام نہاد جہادی پراکسی کے لیے دیوبندی اور سلفی عسکریت پسند نیٹ ورکس پر انحصار جاری رکھے گی اور آئی ایس آئی و ایف سی بلوچستان میں پہلے سے دیوبندی تکفیری خارجی دھشت گرد تنظیم اہل سنت والجماعت کے دھشت گردوں کو بلوچ مزاحمت کا خاتمہ کرنے اور ایرانیوں کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کررہی ہے

ایسے میں اگر ہم ایران،بھارت اور عمان کی حالیہ سٹریٹجک و دفاعی ڈرائیو کو مدنظر رکھیں تو اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک طرف سعودیہ-پاکستان-بحرین کیمپ بنتا ہے اور دوسری جانب ایران-انڈیا-عمان کیمپ بنتا ہےجس میں اور دوسرے بہت سے ملک شامل ہوں گے تو پاکستان کے اندر شیعہ کمیونٹی پر دباؤ آنا لازم ہے اور ان پر ہونے والے ظلم اور نسل کشی میں اضافے کے امکانات ہیں

پاکستان کے اندر ریاست دیوبندی-سلفی تکفیری خارجی دھشت گرد نیٹ ورک کو یکسر ختم کرنے اور جڑ سے اکھاڑنے کے حوالے سے تیار نظر نہیں آتی بلکہ ختم سے زیادہ اپنے کنٹرول میں لانے کی پالیسی ایسی ہے جس پر حکومت،فوج ،آئی ایس آئی میں اتفاق نظر آتا ہے

اختلاف بس حکمت عملی پر ہے اور یہاں بھی آئی ایس آئی اور نواز حکومت ایک زبان نظر آتے ہیں

پاکستانی میڈیا کا مرکزی رجحان ان سٹریٹجک ایشوز پر پاکستان کی فوجی،سیاسی اور خفیہ اداروں کی قیادت کی پرواز اور اقدامات کو چھپانے اور ان کے بارے میں امیج بلڈنگ کرتے چلے جانے کے سوا کچھ نہیں ،یہ اب تک دیوبندی دھشت گرد مشین کے کل پرزوںکی شناخت پر پردہ ڈالنے اور ان کی درندگی و بربریت کو سافٹ کرنے میں مصروف ہےجبکہ اس کے اثرات جو پاکستانی عوام پر مرتب ہونے والے ہیں اس پر مکمل بلیک آؤٹ کی پالیسی نافذ ہے

http://www.newindianexpress.com/opinion/Saudi-Pakistan-Threat-to-India/2014/03/11/article2101777.ece#.Ux6zjvl_uFt

Comments

comments

Latest Comments
  1. راجہ قنبر
    -
  2. Wahhabi Nawaz Sharif
    -
  3. saleem khan
    -