سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کی تحریک جہاد، دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری بنیادیں اور پشتون قوم پرستوں کی جذباتیت

shh

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی ہندوستان کے اندر وہ پہلے دو ایسے مذھبی رہنماء تھے جنہوں نے ہندوستان کے اندر تکفیری خارجی آئیڈیالوجی پر مبنی نظریات قائم کئے

سید احمد بریلوی تکفیری سلفی نظریات کے حامل تھے ان کا امام احمد رضا خان بریلوی یا بریلوی مسلک سے کوئی تعلق نہیں

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کے ہاں اہل سنت کی معروف روش سے ہٹ کر چلنے کا رجحان پہلے شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحبزادوں خصوصی طور پر شاہ عبدالعزیز کے خیالات میں تغیر کی وجہ سے آیا

کہا جاتا ہے جب شاہ ولی اللہ نے سفر جحاز اختیار کیا تھا تو وہاں کچھ ایسے سلفی لوگوں سے ملے تھے جو کہ علامہ ابن تیمیہ کے خیالات سے متاثر تھے اور علامہ ابن تیمیہ وہ پہلا مذھبی سکالر ہے جس کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء کا یہ اتفاق موجود ہے کہ اس نے خوارج کی رائے اور فکر کو پھر سے زندہ کرنے کا کام شروع کیا تھا

شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کے بارے میں یہ بات متحقق ہوچکی ہے کہ دونوں نے حج کا سفر اختیار کیا تو دونوں وہاں نئی نئی اٹھنے والی محمد بن عبدالوہاب کی تحریک توحید والعدل جوکہ وہابیت کے نام سے معروف تھی سے متاثر ہوئے اور شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی حجاز کے سفر سے واپس آتے ہوئے شیخ محمد بن عبدالوہاب کے دروس کی کتاب “کتاب التوحید”ساتھ لیکر آئے اور اس کتاب کے اسباق توحید کو انہوں نے اپنی دو کتابوں میں ظاہر کیا

ایک کتاب کا نام تقویۃ الایمان تھا اور دوسری کتاب کا نام صراط مستقیم تھا

یہ دونوں کتابیں اس زمانے میں مرکنٹائل پریس سے شایع ہوئیں اور اس کی تقسیم کے بارے میں یہ شہادتیں موجود ہیں کہ ان کو انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی نے شایع اور تقسیم کرنے میں مدد دی

اس کتاب کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی نے اس بات سے اتفاق کرلیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت شرک اور بدعت کی دلدل میں دھنس گئی ہے اور ان کو اس دلدل سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے شریعت کے نفاز کے لیے جہاد کیا جائے

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی دلّی کے اندر جامع مسجد میں سکھوں کے خلاف جہاد کے نام پر لوگوں کی بھرتی کرتے رہے اور ان میں اپنی تکفیری خارجی سوچ کو مضبوط کرنے کی سعی کرتے رہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان کی ان کوششوں کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اس سے پہلے جب شاہ ولی اللہ یعنی شاہ اسماعیل کے دادا نے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تو وہ مرہٹہ،سکھ ،ہندو جاٹ اور شیعہ والی اودھ واجد علی شاہ کو اسلام کی بقاء کے لیے خطرے کا سبب خیال کررہے تھے اور احمد شاہ ابدالی نے اس دعوت کو بنیاد بناتے ہوئے ہندوستان پر حملہ کیا اور اس نے نہ صرف سکھ، مسلمان ، ہندو عوام کا قتل عام کیا بلکہ اس نے اعتدال پسند سنی پختون آبادی کو بھی قتل کیا اور اس سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو مزید ہندوستان پر قابض ہونے کا موقعہ میسر آگیا

شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کے تحریک جہاد کی برٹش سامراج نے اس لیے حوصلہ افزائی کہ اس سے سکھ پنجابی ریاست کوکمزور کرنے اور پنجاب جوکہ پشتون علاقوں تک پھیلا ہوا تھا پر قبضہ کرنے میں مدد مل سکتی تھی

سید احمد بریلوی جوکہ دلّی میں جہاد کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کررہے تھے تو دلّی اس زمانے میں پوری طرح سے انگریزوں کے کنٹرول میں آگیا تھا اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اب علامتی بادشاہ تھا تو انگریز اس کی حوصلہ افزائی کررہے تھے

اور سید احمد بریلوی ،شاہ اسماعیل دھلوی بھی اپنے پیروکارو،عقیدت مندوں اور جہاد کے لیے بھرتی ہونے والے نوحوانوں کے ساتھ نہ تو پنجاب گئے اور نہ ہی انہوں نے دلّی اور بنگال کا رخ کیا بلکہ وہ جہاد کرنے پشتون علاقے یاغستان پہنچ گئے اور وہاں کی اعتدال پسند سنی مسلمان مقامی پشتون آبادی کو کافر قرار دیکر ان کے خلاف جہاد شروع کردیا اور پائندہ خان کی تکفیر کی اور اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا

سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد اور اس کے سائے میں چلنے والی خارجی تکفیری مہم نے پشتون علاقوں کے مقامی کلچر ،رسوم و رواج اور ان کے مذھبی عقائد کو رد کرنا شروع کردیا

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کے سوانح نگار اور “حیات طیبہ کے مصنف مرزا خیرت دھلوی یہ سب روداد رقم کرتے ہیں

عاشق اللہی میرٹھی دیوبندی دارلعلوم دیوبند کے دوسرے مہتمم رشید احمد گنگوہی کی یاد میں لکھی جانے والی کتاب تذکرۃ الرشید میں اس بات کا زکر کرتے ہیں اور سید مراد علی کی معروف کتاب “تاریخ تناولیاں مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور اور سرسید کے مقالات کی جلد نہم ص 139 تا 140 مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہور یہ بتاتی ہیں کہ سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کو ان کے ساتھیوں سمیت بالاکوٹ میں پختونوں نے ان کے تکفیری خارجی شرعی قوانیں اور پشتون عورتوں کے زبردستی مجاہدوں سے نکاح کرنے کی وجہ سے سکھوں سے اتحاد بناکر ان کو قتل کیا

سرسید پختونوں کو پہاڑی قومیں لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہاڑی قوم نے وہابیوں سے دغا کیا اور سکھوں سے اتفاق کر کے مولوی اسماعیل اور سید احمد بریلوی کو قتل کردیا

دیوبندی مکتبہ فکر میں شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کی تکفیری خارجی اور وہابیانہ خیالات کو اپنانے اور ان کی طرفداری کرنے کا رجحان اس مکتبہ فکر کی تشکیل کے ابتدائی دنوں سے موجود تھا اور ان نظریات کے ساتھ رشید احمد گنگوہی بہت زیادہ وابستہ نظر آتے ہیں اور یہ بات بھی قابل غور ہے جب مفتی محمود حسن نے دارالعلوم دیوبند کی قیادت سنبھالی تو مفتی ہند محمود حسن کی برطانوی سامراج سے دشمنی ،ترک عثمانیہ خلافت سے تعلقات اور وہابی تحریک کے برطانوی سامراج کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے اور حجاز پر وہابی حکومت قائم کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی وجہ سے ، ہندوستان کے اندر وہابی ازم کے خلاف پائے جانے والے سخت ردعمل اور خود ترک عثمانوں اور اہل سنت کے علماء کی وہابیت کی مخالفت کے سبب دیوبندی مکتبہ فکر کے تاریخ نگاروں اور ان کی قیادت نے یہ لکھنا اور کہنا شروع کردیا کہ

سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد انگریزوں کے خلاف جہاد کی تحریک تھی اور اس دوران تحریک جہاد کے چھنڈے تلے تکفیری خارجی نظریات کو چھپانے کی کوشش بھی ہوئی

یہ کوششیں ٹھیک اس زمانے میں ہوئیں جب دیوبند مکتبہ فکر کے اندر بھی ہندوستان میں انگریز راج کے خلاف ایک عمومی فضاء قائم ہونے لگی تھی

مولانا حسین احمد مدنی اپنی سوانح عمری نقش حیات میں شاہ اسماعیل دھلوی اور سید احمد بریلوی کی تحریک جہاد کو انگریزوں کے خلاف جہاد کا فسانہ گھڑتے ہیں اور یہیں سے پھر شاہ اسماعیل اور سید احمد بریلوی کی تکفیری و خارجی تحریک جہاد کو انگريز راج کے خلاف جہاد بنادیا جاتا ہے

سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی نے جس طرح سے ہندوستان کے مرکز دلّی میں تکفیر اور خارجیت کا فتنہ کھڑا کیا تھا اسی طرح سے ان دونوں نے پشتون آبادی کے اندر بھی یہ بیج بوئے

اہل سنت کے علماء نے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کے تکفیری خارجی وہابی عقائد کے خلاف کتب تحریر کیں جن میں مولانا فضل حق خیر آبادی،مولانا عبدالمجید بدایونی،فضل رسول بدایونی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا محمد موسی،ابوالخیر سعید مجددی نمایاں تھے اور فضل حق خیرآبادی نے ایک مبسوط کتاب “تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی”لکھی

دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دھلوی کے تکفیری اور خارجی نظریات کی بنیاد کو قبول عام ملا اور یہ وہ بنیاد ہے جوآگے چل کر ہندوستان،افغانستان اور بنگلہ دیش کے اندر دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر نیم وہابی اور تکفیری خارجی رجحان کے بالغ ہونے کا سبب بنی

دیوبندی تکفیری خارجی فکر نے ہندوستان ،پاکستان،بنگلہ دیش کے اندر پائی جانے والی ثقافتوں کی تنوع پسندی ،صلح کلیت ،امن پسندی،عدم تشدد،مذھہبی رواداری کو بالکل اسی طرح سے متاثر کیا جس طرح سے وہابی سلفی نجدی تحریک نے کیا تھا

پشتون قوم پرستوں کی جذباتیت

آج پاکستان کے اندر خیبر پختون خوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، فاٹا ،گلگت بلتستان کے اندر دیوبندی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی پر مبنی ایک ایسی دھشت گرد کلنگ مشین وجود میں آچکی ہے جس نے پاکستان کے سنّی بریلوی، شیعہ، ہندؤ،احمدی،سکھ، عیسائی، سیکولر پختون، بلوچ سب کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے اس حقیقت کو جیسے ہی بیان کیا جاتا ہے تو پشتون قوم پرستوں کا ایک گروہ پشتون قوم پرستی کے تحفظ کے نام پر دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر نیم وہابی، سلفی تکفیری خارجی رجحان کی موجودگی اور اس مکتبہ فکر کے اندر اس رجحان کی نظریاتی بنیادوں کی موجودگی سے انکار کرنے لگتا ہے اور وہ اس موجودگی کی نشاندھی کرنے والوں کو پنجابی کالونیل زھنیت کی عکاسی کہنے لگتا ہے

یہ قوم پرست احمد شاہ ابدالی کی جانب سے شیعہ، سنّی صوفی مسلمانوں، سکھوں، ہندؤں کے قتل عام کو چھپانے کی کوشش صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ اگر یہ چھپایا نہ جائے تو احمد شاہ ابدالی پھر ایک قوم پرست پشتون ھیرو کیسے قرار دیا جاسکے گا؟

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دیوبندی تحریک طالبان کے امیر ملّا عمر نے قندھار پر قبضہ کرنے کے بعد احمد شاہ ابدالی کی قبر پر آکر اپنی امارت کا اعلان کیا تھا ؟

1

خادم حسین جوکہ ایک اور پشتون قوم پرست ہیں انہوں نے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کی جانب سے پاکستان،افغانستان ،ہندوستان میں انتہاپسند مذھبی دھشت گردی اور انتہا پسند تحریک کے پھیلاؤ میں دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر تکفیری وخارجی ںطریات کے نفوز کے کردار کی نشاندھی کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے یہ کہا کہ عبدل نیشا پوری کی جانب سے یہ تنقید مین سٹریم کالونیل ڈسکورس کا آف شوٹ ہے جس کے مطابق پشتون غیرمہذب، بے قابو، جنگجو نسل ہے

اس تنقید سے صاف نظر آتا ہے کہ خادم حسین کو تعمیرپاکستان ویب سائٹ کے سابق ایڈیٹر انچیف کی بات سمجھ میں نہیں آئی یا انہوں نے ان کی تحریر کو پڑھا ہی نہیں

قیامت تک خادم حیسن عبدل نیشاپوری کے باچاخان پر لکھے گئے مضمون میں ایک جملہ ایسا لکھا نہیں دکھا سکتے جو ان کے کالونیل ڈسکورس کی عکاسی کرتا ہو

بلکہ میں خادم حیسن کی اندھی بصیرت کا جتنا ماتم کروں کم ہے کہ انہوں نے تو عبدل نیشا پوری کی بات کابیڑا غرق کرڈالا

عبدل نیشا پوری کے سارے کے سارے مقدمے کی بنیاد یہ تھی کہ خیبر پختونخوا (اور دیگر علاقوں میں بھی ) شیعہ نسل کشی کے پیچھے پشتون کلچر یا پشتونوں کی ایتھنسٹی کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دیوبندی تکفیری خارجیت ملوث ہے

خادم حسین اندھی جذباتیت کے سمندر میں ایسے غرق ہوئے کہ انہوں نے وہ سوال عبدل نیشا پوری سے کیا جس پر میرا تبصرہ یہ ہوسکتا ہے کہ

“مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ”

خادم صاحب آپ نے یہ کہاں سے نتیجہ اخذ کرلیا کہ تعمیر پاکستان ویب سائٹ یا عبدل نیشا پوری نے احمد شاہ ابدالی کی انتہا پسندی اور شدت پسندی اور اس کے شیعہ نسل کشی میں ملوث ہونے یا اس کے ہندوستان کی مذھبی برادریوں کے قتل میں ان کی لوٹ میں ملوث ہونے کی وجہ دارالعلوم دیوبند کو قرار دیا

آپ نے گنگا الٹ بہادی میرے سرکار

ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ احمد شاہ ابدالی کی انتہا پسندی میں ہاتھ ان خطوط کا تھا جو شاہ ولی اللہ نے ان کو ارسال کئے تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اندر نیم وہابیانہ، نیم سلفی خیالات شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز ، شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، شاہ غنی اور پھر سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کے توسط سے آئے اور آپ ہیں کہ اس مساوات کو الٹ کررہے ہیں

یعنی جو علت ہے اسے معلول اور جو معلول ہے اسے علت بنارہے ہیں

یہ علت اور معلول آپ کو شاید سمجھ نہ آئے تو بھائی آپ مسبب کو سبب اور سبب کو مسبب بنا رہے رہیں ہیں یعنی کاز کو ایفکٹ اور ایفکٹ کو کاز بنانے پر تل گئے ہیں

خادم صاحب آپ نے سپاہ محمد نام کی ایک ایسی تنظیم کے بارے میں سوال کیا ہے جوکہ خود ماضی میں اسٹبلشمنٹ نے کنٹرول سے باہر ہوجانے والے دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے خاتمے کے لیے بنائی تھی اور پھر اپنے ہاتھوں سے اس کو دفن کردیا

یہ تنظیم اس لیے بھی دفن ہوگئی کہ شیعہ برادری اور اس کے علمائے کرام نے اس تنظیم کے تکفیری خیالات اور دھشت گردی کو اپنے مکتبہ فکر میں ایک روائت کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا اور حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت بریلوی نے بھی اس کو اپنے مکتبہ فکر کی روائت بننے نہیں دیا

اہل تشیع اور اہل سنت بریلوی نے تکفیری و خارجیت پر مبنی دھشت گردی پر مبنی روآئت اور آئیڈیالوجی کو اپنے مرکزی دھارے میں کبھی داخل ہونے نہیں دیا اور نہ ہی انہوں نے کسی فرد کے انفرادی دھشت گرد عمل کے گرد آئيڈیالوجی کا حصار کھڑا کیا

جبکہ دیوبندی مکتبہ فکر کے اندر تکفیری خارجی رجحان غالب ہوچکا اور یہ ایک باقاعدہ طرہ امتیاز خیال کیا جانے لگا ہے اور کوئی دیوبندی عالم اس رجحان کی بیخ کنی کرنا نہیں چاہتا ،تکفیری خارجی نیم سلفی آئیڈیالوجی اور اس پر استوار دھشت گردی دیوبند مکتبہ فکر میں ایک معیار اور قدر کی حثیت اختیار کرگئی ہے جس کو بعض پشتون قوم پرست ویسے ہی ماننے سے انکاری ہیں جیسے کئی لبرل، سیکولر لوگ ماننے سے انکاری ہیں بلکہ اس پر بہت سیخ پا ہوتے ہیں

محمد بن ابی بکر ایڈیٹر تعمیر پاکستان ویب سائٹ

Comments

comments