اداریہ تعمیر پاکستان : کیا سول حکومت اور ملٹری قیادت دھشت گردی کے خاتمے کے لیے مکمل جنگ کا اعلان کرپائیں گی؟
مفتی منیب الرحمان چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے تعمیر پاکستان ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اہل سنت بریلوی طالبان سمیت دھشت گرد گروپوں سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہے اور اس سلسلے میں اہل سنت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا
طالبان سے مذاکرات پر اہل سنت بریلوی،شیعہ،ملک کے اعتدال پسند روادار عوامی حلقے ،پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت اکثریت کی مخالفت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت کی جانب سے مخالفت بھی آن دی ریکارڑ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتی رائے کے ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ کیوں رچاتی رہی؟
طالبان سے مذاکرات کے نام پر جو پالیسی نواز لیگ کی حکومت نے اختیار کی اس سے یہ ہوا کہ طالبان کو حکومت برابر کا شراکت دار قراردینے کے تاثر کو طاقتور کرنے کی مرتکب ہوئی ہے
پورے ملک کا میں سٹریم میڈیا بھی طالبان کو پاکستان کی ریاست کے برابر کا ایک طاقتور فریق کے طور پر پیش کررہا ہے
طالبان نے اس تاثر اور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کیا کہ پورے ملک میں فوج،ایف سی ،رینجرز،پولیس،شیعہ،بریلوی کو نشانہ بنایا اور اپنے کنٹرول کو مختلف علاقوں میں مزید بہتر بنانا شروع کردیا
ان مذاکرات کے کھیل کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ میں میوزک چلانے پر خود ٹریفک پولیس نے پابندی عائد کی جبکہ پشاور سمیت خیبر پختون خوا میں سب سینما بند کردئے گئے اور کیلاش کے باسیوں کو طالبان نے اسلام قبول کرنے کی دھمکی دی اور چارسدہ کی خواتین کو طالبان کے مطابق پردہ نہ کرنے پر ان کے گھروں میں صف ماتم برپا کرنے کی دھمکی دی گئی
اس دوران جب ایف سی کے لوگ قتل ہوئے اور میجر جہانزیب کی پشاور میں شہادت ہوئی تو فوج نے اپنے اوپر براہ راست حملوں کا بدلہ لینے کے لیے فضائی حملے وزیرستان،خیبرایجنسی اور وادی تیراہ میں کئے جوکہ ایک مثبت اقدام ہے مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اپنے اوپر براہ راست ہونے والے حملوں کا انتقام تو فوری طور پر لے لیتی ہے مگر سول حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے سے قاصر نظر آتی ہے اور یہاں تک یہ اپنے پولیس والوں کی ہلاکتوں کا بدلہ لینے سے کی صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے
پاکستانی فوج کی شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی میں مخصوص ٹھکانوں پر بمباری سے ایسا تاثر بھی دیا جارہا ہے جیسے پورے ملک کو دھشت گردی سے آزاد کرالیا گیا ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے مخصوص حملوں سے دھشت گردی سے نجات ملنے والی نہیں ہے اور نجات کے لیے دھشت گردوں کے خلاف مکمل جنگ کرنا ہوگی کیونکہ فاٹا کے اندر چند مخصوص ٹھکانوں پر حملے کرنے کو ہی مکمل حل خیال کرنے کا مطلب ملک کے باقی علاقوں میں دھشت گردوں کو بغیر کسی روکاوٹ کے کاروائی کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے
طالبان کے خلاف کوئی بھی آپریشن اس وقت تک امن نہیں لاسکتا جب تک ملک میں دھشت گردوں کی جڑ پر پوری قوت سے اور مختلف جہتوں سے حملہ کیا جائے اور اس کے لیے پورے ملک کو اٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے اور دھشت گردوں کے خلاف جنگ کی حمائت ہونی جاہئیے
حکومت اور نواز شریف پوری طرح سے جانتے ہیں کہ طالبان کے کتنے ٹھکانے ہیں ،پنجاب میں ان کے کتنے سیل ہیں اور کراچی میں ان کے اثر اور کنٹرول کے بڑھنے کی شرح کیا ہے
حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر دھشت گرد آزاد پھررہے ہیں اور جو ان کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پورے پورے خاندان ختم کردیا جاتا ہے جیسے پشاور کے نواحی علاقے شامبوخیل میں پیر اسرار اور ان کے خاندان کے لوگوں کو قتل کردیا گیا
سول اور ملٹری خفیہ ایجنسیوں ،سول اور فوجی سیکورٹی ادارے ملکر دل جمعی کے ساتھ پورے ملک میں ایک ساتھ دھشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کریں اور دھشت گردی کی تمام جڑوں اور شاخوں کو ختم کرنے کا فیصلہ ہو
ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان،لشکر جھنگوی اور ان گۓ دیگر اتحادی جوکہ اپنی دیوبندی خارجی تکفیری شناخت میں مشترک ہیں کے خلاف اگر پورے ملک میں آپریشن اور جنگ شروع نہیں کی جاتی تو بھی طالبان اور ان کے اتحادی حالات کو اس نہج پر لے جائیں گے کہ وہ حکومت اور عوام کے خلاف ایک بھرپور جنگ مسلط کردیں
طالبان اور دیگر دیوبندی دھشت گرد تنظیمیں ایک مربوط پالیسی کے تحت پاکستان کے شہری مراکز پر حملے کررہے ہیں وہ فوج،ایف سی،سول ایڈمنسٹریشن کو ایک طرف کمزور کرہے ہیں تو دوسری طرف ان مذھبی برادریوں ،سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنارہے ہیں جو ان کی مخالفت کرتے ہیں
طالبان کی اس حکمت عملی کے نشانات میں سے کراچی پر طالبان کا بڑھتا ہوا کنٹرول ہے،امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے اس حوالے سے مربوط رپورٹ شایع کی ہے اور کراچی کے ایک تہائی حصّے پر طالبان کے کنٹرول کا زکر کیا ہے
جبکہ اے این پی کی قیادت کے مطابق خیبرپختون خوا کے اکثر علاقوں میں شام کے وقت طالبان کی حکومت ہوتی ہے
خیبرپختون خوا اور فاٹا میں دیوبندی طالبان کے خلاف جدوجہد کرنے والے امن لشکروں کو بھی نظرانداز کئے جانے کی خبریں آرہی ہیں
کراچی میں پانچ ماہ کے اندر دھشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کے نتیجے میں طالبان اور لشکر جھنگوی مزید منظم ہوکر سامنے آئے ہیں اور ایم کیو ایم و اے این پی اس کا اظہار برملا کررہی ہیں
اس سے دیوبندی خارجی تکفیری دھشت گردی کے پھیلاؤ اور ان کے عزائم کا اندازہ لگایا جانا مشکل نہیں ہے طالبان کے خلاف اگر آپریشن ردعمل سے ہٹ کر پوری طاقت سے کیا جائے گا تو امن کے امکانات روشن ہوں گے
پاکستان کی سویلین حکومت ،خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے بعض عہدے داروں کی افغان اور پاکستانی طالبان سے رابطوں کی خبریں بھی آرہی ہیں جبکہ حقانی نیٹ ورک سے رابطے کی کوشش بھی کی جارہی ہے
اس سے یہ خدشہ جنم لے رہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ دھشت گردی کے مکمل نیٹ ورک کے خاتمے کے آپشن پر ابھی بھی غور نہیں کررہی ہے بلکہ زیادہ ٹربل اور مشکلات پیدا کرنے والے عناصر کے خاتمے کی حکمت عملی کو اپنانے کی سوچ تاحال غالب ہے
دوسری طرف نواز حکومت اور فوجی قیادت کے سعودیہ عرب کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنر شپ کے نئے فیز کی شروعات نے بھی کافی خدشات کو جنم دیا ہے ،پاکستان اور سعودیہ عرب کے حالیہ اعلی سطحی رابطوں کے دوران جو مشترکہ اعلامیے جاری ہوئے ان سے ایک بات تو مشتہر ہے کہ پاکستان کی شام پر پوزیشن میں تبدیلی آئی ہے اور ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودیہ عرب پاکستان سے شام کی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے عنزہ اور حتف مزآئیل کے حصول کی کوشش کررہا ہے
پاکستان کو دھشت گردی کے بڑھتے ہوئے طوفان اور اس کے پس پردہ عزائم اور ارادوں کو پہجاننے اور اس کے خلاف پوری طاقت سے کاروائی کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ دیوبندی خارجی تکفیری دھشت گردوں کا کنٹرول ایک حقیقت بن سکتا ہے
http://www.dawn.com/news/799118/taliban-in-karachi-the-real-story
http://www.deccanherald.com/content/114710/qaeda-taliban-lej-working-tandem.html
http://america.aljazeera.com/opinions/2014/2/pakistan-talibankarachiviolenceterrorism.html
https://lubpak.com/archives/305509
– See more at: https://lubpak.com/archives/305955#sthash.8hwU6bH8.dpuf