وزیراعظم نواز شریف طالبان کے سامنے پھر بھیڑ

pmln

تحریر: ندیم سعید

مذہبی شدت پسندوں جنہیں پاکستان میں اجتماعی طور پر طالبان کہا جاتا ہے ایک ایسی ریاست مخالف طاقت بن چکے ہیں جس سے لڑنے سے ریاستی ادارے اور بیشتر سیاسی جماعتیں کتراتی ہیں۔ انہیں خوش رکھنے کی حکمت عملی ریاست کو کھوکھلا کر رہی ہے اور وہ اتنے دلیر ہوتے جا رہے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اور اس کے قریب واقع فوجی ہیڈکوارٹرز بھی اب ان کی پہنچ میں رہتے ہیں۔

راولپنڈی کے آر اے بازار اور بنوں میں فوجیوں پر حملوں کے بعد ریاست نے کچھ جوابی کارروائیاں کیں تو لگا تھا کہ خواب غفلت سے آنکھ کھل گئی ہے۔ملک کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان اور ان کے زیر سایہ رہنے والے غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف ایک بڑے فوجی آپریشن کی باتیں ہونا شروع ہوگئیں۔

وزیراعظم نواز شریف اور بری افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے درمیان ملاقات کے بعد حکمراں جماعت مسلم لیگ (نواز) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا ، اور جو خبریں باہر آئیں وہ یہ تھیں کہ پارلیمانی پارٹی کی اکثریت طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں فوجی آپریشن کے حق میں ہے۔ ایسے میں وزیراعظم طویل غیر حاضری کے بعد قومی اسمبلی میں آئے تو ہر کوئی ہمہ تن گوش تھا۔

لیکن وہ کہا جاتا ہے نا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا تو وزیراعظم جو طالبان کے تازہ حملوں کے بعد گرج برس رہے تھے انہوں نے اپنی پٹاری میں سے مزاکرات کا چیتھڑوں میں بدلا سفید جھنڈا نکالا اور تھما دیا ایک چار رکنی کمیٹی کو، جن میں سے تین صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، سابق سفارتکار رستم مہمند اور سابقہ فوجی افسر میجر عامر واضح طور پر طالبان نواز ہیں جبکہ کالم نگار عرفان صدیقی کا نظریہ نواز شریف سے ذاتی وفاداری ہے۔

کمیٹی کا اختیار کیا ہے، حکومت کی طرف سے مزاکرات کی شرائط کیا ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا مزاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرنے کے لیے کوئی وقت یعنی ٹائم فریم بھی مقرر ہوا ہے کہ نہیں؟ ان تمام سوالوں کا کوئی جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ جو بات اخبارات کے ذریعے سامنے آئی ہے وہ صرف یہ کہ حکومتی ہدایت پر جیلوں میں بند طالبان جنگجوؤں کے کوائف اور ان پر قائم مقدمات کی تفصیل ہنگامی بنیادوں پر اکٹھی کرنا شروع کر دی گئی ہے۔

مطلب اس کا یہ ہے کہ حکومت کو طالبان کے مطالبات کا بخوبی اندازہ ہے اوران میں سر فہرست ان کے قید ساتھیوں کی رہائی ہے۔طالبان اپنے مقاصد کے حوالے سے کسی ابہام کا شکار نہیں۔ وہ ملک میں اسلامی شرعی نظام کا نفاذ ، ڈرون حملوں کا خاتمہ، امریکہ سے قطع تعلقی اور اپنے جیل میں بند اپنے ساتھیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کی جیلوں پر حملے کر کے وہ سینکڑوں کی تعداد میں اپنے ساتھیوں کو بزور بندوق رہا کراچکے ہیں۔

مسئلہ ریاست اور حکومت کا ہے جن کا مؤقف واضح نہیں کہ وہ ان مزاکرات سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔کیا مزاکرات کے نتیجے میں طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں ان کا اسلامی نظام نافذ کردیا جائے گا، وہ دہشت گرد جو ہزاروں افراد کے قاتل ہیں انہیں دوبارہ یہی کچھ کرنے کے لیے رہا کردیا جائے گا اور یہ کہ ریاست اور طالبان کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟

طالبان کے ساتھ اس سے قبل بھی کئی دفعہ امن معاہدے طے پائے ہیں اور نتیجہ ہمیشہ ان کی توسیع پسندی کی شکل میں سامنے آیا، نتیجتاً وہ اور ریاست ایک بار پھر برسرپیکار تھے، اگرچہ ریاست نیم دلی کے ساتھ جبکہ طالبان نئے ولولے کے ساتھ۔طالبان ریاست اور اس کے اداروں سے لڑتے رہیں گے تاوقتیکہ کہ ان کا صفایا نہیں ہوجاتا یا وہ ریاست پر مکمل غلبہ نہیں پا لیتے۔

مزاکرات کا ڈول ڈالنے کے لیے مسئلے کو چاہے جتنا پیچیدہ کر کے بیان کرلیں طالبان اپنے برانڈ کے شرعی نظام کے لیے کوشاں ہیں اور وہ اپنے اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ وہ قبائلی سردار نہیں جو مسلمان ہونے کے سبب نماز پڑھتے ہیں لیکن معمالات کو قبائلی روایات اور ثقافت کے مطابق نبٹاتے ہیں۔ یہ تو دینی مدرسوں کے فارغ التحصیل یا بھاگے ہوئے طالب ہیں جن کی’ افغان جہاد‘ سے پہلے معاشرے میں کوئی زیادہ وقعت نہیں تھی۔مذہب ان کا ہتھیار ہے، وہ اسے کیسے طاق پہ رکھ کے خود کو دینی تعلیم، نکاح خوانی اور جنازہ پڑھانے تک محدود کرلیں۔

فیصلہ حکومت اور اس کے اداروں کو کرنا ہے کہ وہ ملک کو ایک جدید ریاست کی طرف لے جانا چاہتے ہیں یا پھرعوام کے مقدر میں مزید پسماندگی لکھنا چاہتے ہیں۔

Source: http://urdu.ruvr.ru/2014_01_30/128033918

Comments

comments

Latest Comments
  1. mahmood
    -