میلاد و عاشور کے جلوس اور طالبانی فسطائیت کے وکیل

کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان سمیت تمام خارجی تکفیری دیوبندی و وہابی تنظیمیں اپنے فسطائی خیالات کو پہلے پہل مذھب کے لبادے میں لاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتی تھیں کہ میلاد النبی کا جشن منانا،جلوس نکالنا ،ایام محرم میں سوگ منانا اور جلوس ہائے عزا و مجالس عزا کا انعقاد کرنا غیر شرعی ہے

میلاد و عاشور کے جلوسوں کو غیر شرعی ،شرک اور بدعت ثابت کرنے کے لیے دیوبندی اور وہابی مکتب سے تعلق رکھنے والوں نے لاکھوں صفحات کالے کئے

اور اگر فسطائیت کے نظریہ سازوں کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں ہر طرح کی ثقافتی سرگرمی اور جاندار تقریبات کے انعقاد کو بس بدعت اور شرک کا لیبل لگاکر بند کرانے کی سازش ہوئی

بعض مساجد کے منبر اور مدارس کے دروس کا ارتکاز ہی اس چیز پر رہا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ کہ ایک وقت وہ آیا کہ خارجی،تکفیری ٹولے کے دھشت گرد غنڈوں نے یہ سوچ لیا کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر یہ سب رکواسکتے ہیں

اس سوچ کے تحت مساجد،مدارس ،بازار،گلی،محلے،مزارات،امام بارگاہ اور مسافر بسوں تک پر خود کش حملے،فائرنگ ،بم دھماکے کرائے گئے

چرچ،مندر اور مراکز احمدیہ بھی ان کی دسترس سے نہ بچ سکے

لیکن نہ میلاد النبی کے جلوس رکے اور نہ ہی عزاداری کے جلوس روکے جاسکے

اس کے بعد یہ ہوا کہ طالبانی فسطائی یوں متحرک ہوئے کہ انھوں نے ان جلوسوں کے روٹ وغیرہ پر فتنہ اور فساد پھیلایا اور ان جلوسوں کو تاریخ میں پہلی مرتبہ “لڑائی”کا سبب کہا جانے لگا اور ان جلوسوں کی قدیمی تاریخ اور ان کی تقدیس کے حوالے سے ساری باتیں طاق نسیان میں ڈال دیں گئیں

ایسے میں کچھ جعلی اعتدال پسند اور عقلیت پسند میدان میں اترے اور طالبانی فسطائیوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کو لبرل دلیلوں کا لبادہ اوڑھانے لگے

سب سے بڑے تعقل پسند تو سپاہ یزید کے سربراہ بنکر آئے ،محمد احمد لدھیانوی صاحب،ان پر اچانک یہ الہام ہوا کہ محرم کے جلوسوں سے پاکستان کی اقتصادیات پر سخت نقصانات مرتب ہورہے ہیں

بس یہ کہنا تھا کہ بہت سے جعلی لبرلز اور بہت سے جعلی اعتدال پسند اس ہی راگ کو الاپنے لگے اور پھر جادوگری یہیں پر بس نہیں کرگئی بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ گئے

شدت پسندوں،دھشت گردوں،انتہا پسندوں کی شدت ،دھشت اور انتہا کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس کا نشانہ بننے والوں کو ان کی مذھبی آزادیوں اور بنیادی انسان حقوق سے دست بردار ہونے کو کہا جانے لگا

پاکستان میں اپنے آپ کو روادار،لبرل اور معتدل کہنے والے بہت سارے لکھاری،صحافی ،کالم نگار،اینکر ،سیاست دان کبھیکتے ہیں کہ جلوسوں کے روٹس بدل لیں

کبھی کہتے ہیں کہ ان جلوسوں کو چار دیواری میں محدود کرلیں اور کبھی ان جلوسوں سے معشیت کا دھڑن تختہ  ہوتے دکھا دیا جاتا ہے

لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے تمام جعلی لبرلز،جعلی صاحبین اعتدال اور جعلی رواداروں کی جب بھی ڈوریاں دیکھی جاتی ہیں تو وہ وہ وہاں سے ہلتی نظر آتی ہیں جہاں میلاد و عزاداری والوں کے خون گرانے والے مجرموں کا کھرا جاتا ہے

حامد میر صاحب ہوں یا کہ کوئی اور صاحب یہ سب کے سب محمد احمد لدھیانوی ،رانا ثناءاللہ کے حلقہ بگوش نظر آتے ہیں

ہمارا اردو پریس کا غالب حصّہ تو آج کل بہت ننگا ہوکر درود والوں کے مقابلے میں بارود والوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے

طالبان کے حق میں گھنٹوں ،گھنٹوں کے ٹاک شوز اور ادارتی صفحوں کو کالے پے کالے کئے جاتے رہنا اور جہاں درود والوں ،مصطفیوں اور حسینیوں کی بات آئے تو ان کے لاکھوں کے مجمع کی خبر بھی پچھلے صفحے پر اور کسی کالم یا ٹاک شو کا عنوان نہ بن پائے

پاکستان میں مسلم آبادی کے سواد اعظم کی تشکیل کرنے والے اہل سنت بریلوی اور شیعہ طالبان کے سب سے بڑا نشانہ ہیں اور ان کی بربریت کا سب سے زیادہ ٹارگٹ بھی لیکن پھر بھی ان کی رائے کو پریس میں وہ جگہ نہیں مل رہی جو محمد احمد لدھیانوی،فضل الرحمان،سمیع الحق حافظ سعید ،اورنگ زیب فاروقی اور ہما شما کو دی جاتی ہے

پاکستان میں تنوع،رواداری اور کثیر النوعی معاشرے کی تشکیل کے علمبردار سیکولر اور لبرل کمیونٹی کے ان قلم کاروں کو اپنے سست اور مفعولی رد عمل پر نظرثانی کرنی چاہئیے

وہ میلاد النبی کے جشن اور جلوسوں کو شیعہ و سنّی،سکھ،ہندؤ،عیسائی کی جانب سے مشترکہ طور پر منائے جانے کے اعلان غیراہم واقعے کے طور پر مت لیں اور نہ ہی اسے خود ساختہ فرقہ واریت کے بنائے ہوئے فریم ورک کی روشنی میں مت دیکھیں

یہ پاکستان کے اندر طالبان کی یک نوعی اور تنوع مخالف مہم اور جبر کے خلاف بہت بڑا اور تاریخی قدم ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے

اسلام آباد میں قومی امن کانفرنس طالبان کے اسلامو فاشزم کا زبردست جواب تھی اور یہ حقیقی مزاحمت ہے جو سنّی اور شیعہ کی نمائندہ جماعتوں نے کی

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی جو مین سٹریم لبرل اور سیکولر دانش ہے وہ اس سارے عمل کو اپنی بنائی ہوئی رجعت پسندی کی تعریف کے تنگ دائرے میں رکھ کر نہ دیکھے بلکہ وہ اس عمل کے اندر چھپے امکانات دیکھے

طالبان کے خلاف اہل سنت بریلوی ،شیعہ اور ديگر مذھبی اقلیت کا اتحاد اور اتفاق ہی سب سے بڑی مزاحمت کو تشکیل دے سکتا ہے اور اس اتحاد اور اتفاق کا ایک دائرہ جشن عید میلاد النبی کو مشترکہ طور پر منانے کی تیاری سے شروع ہوتا ہے  

Comments

comments

Latest Comments
  1. Wahdat
    -