تکفیری نظریات پر مبنی دیوبندی مدارس تیزی سے پھیل رہے ہیں

madresa

تکفیری آئیڈیالوجی نے تکفیری ذھنیت کو پاکستان کے مذھبی ڈسکورس پر غالب کررکھا ہے اور اس ذھنیت کو غالب کرنے میں ان دیوبندی مدارس کا بہت زیادہ ہاتھ ہے جو 1980ء کے عشرے میں افغان وار کے دوران تشکیل پائے

ان مدارس میں تکفیری آئیڈیالوجی کو باقاعدہ تعلیمی نظام کا حصّہ بنادیا گیا-افغان وار کے تناظر میں بننے والے یہ دیوبندی مدارس روائیتی دیوبندی مدارس سے مختلف تھے-کیونکہ ان مدارس میں دی جانے والی تعلیم یہاں پڑھنے والے طلباء کو ایک جنونی ،متشدد اور دھشت گردی کا پوٹینشل رکھنے والے فرد میں بدلنے کی اہلیت رکھتی تھی

تکفیری آئیڈیالوجی سے متاثر ہونے والے یہ دیوبندی مدارس معاشرے میں تکثیریت کے دشمن ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنے سے اختلاف رکھنے والی ہر کمیونٹی اور اس کے افراد کو ختم کرنا اور ان کو دوسرے درجے کے شہری میں بدلنا اپنا مذھب بنالیا

1979ء تک پاکستان میں کل مذھبی مدارس 570 تھے اور جب جنیوا معاہدہ ہورہا تھا تو پاکستان میں مدارس کی تعداد بڑھ کر 7000 ہزار ہوچکی تھی

ان مدارس میں سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں بھی زیادہ تر کا تعلق کالعدم سپاہ صحابہ یا نام نہاد جہادی تنظیموں سے تھا

پاکستان میں 1979ء کے بعد ایک طرف تو وہابی مدارس کی تعداد میں اضافہ شروع ہوا تو دوسری طرف دیوبندی مدارس تیزی سے بڑھنے لگے اور ان مدارس کے قیام اور ان کو چلانے میں جہاں ایک طرف سعودی عرب و مڈل ایسٹ سے آنے والے پیسوں نے اہم کردار ادا کیا تو دوسری طرف خود پاکستان کی ریاست کے عسکری اداروں اور سیاسی اشرافیہ کی مدد نے بھی اہم کردار ادا کیا

حال ہی میں سینٹ کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے کی زمین پر غیر قانونی قبضے کے زریعے سے سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مکتبہ فکر کے بنے ہیں

ریاست اور اس کے مقتدر لوگ ابھی تک مدارس کے پھیلاؤ اور خاص طور تر تکفیری آئیڈیالوجی پر مبنی نظام تعلیم کے حامل مدرسوں کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی پالیسی تیار نہیں کرسکے

جبکہ بعض تجزیہ نگار تو یہ کہتے ہیں کہ تکفیری آئیڈیالوجی کے غالب مذھبی ڈسکورس بننے میں ریاست نے جو کردار ادا کیا اس کے کفارے کے طور پر ریاست کو متبادل مذھبی ڈسکورس دینے کی ضرورت تھی جو یہ نہیں دے سکی

سوچنے کی بات یہ ہے کہ دینی مدارس جس کے اندر پڑھنے والے بچے کل زیر تعلیم بچوں کی تعداد کا 6٪ بنتے ہیں اور باقی کے 94 فیصد بچے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں لیکن پھر بھی حکومت غیر دینی اسکولوں میں تکفیری آئیڈیالوجی کا مقابلہ کرنے والا بیانیہ تعلیمی نظام میں شامل کرنے میں ناکام رہی ہے

بلکہ سرکاری سکولوں اور پرائیویٹ اسکولوں کے اندر تکفیری آئیڈیالوجی کے نفوز کرنے کے آثار بہت واضح دکھائی دیتے ہیں

ڈاکٹر اے ایچ نئیر،ارشد محمود،پرویز ھود بھائی،سلیم احمد سمیت بہت سے ماہرین تعلیم کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں سکولنگ سسٹم میں رائج تعلیمی نظام تکثریت مخالف اور خارجیت پسند ہے

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ درسی کتابوں میں ہندؤں،احمدی،عیسائیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا سامان موجود رہتا ہے اور ان کے خیال میں میٹرک کے بعد تھیالوجی کو آپشنل ہونا چاہئیے

لیکن کیا نواز شریف کی وفاق اور پنجاب میں حکومت سرکاری اور پرائیوٹ اسکولوں میں یکساں نظام تعلیم اور ایسے افکار کو اس نظام تدریس کا حصّہ بنانے کی طرف قدم بڑھا پائے گی جس سے تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کی تردید اور تکثیری بیانیہ کی تائید ہوتی ہو؟

اس سوال کا جواب اب تک کے نواز حکومت کے اقدامات کو دیکھ کر نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے-جس نے دیوبندی تکفیری دھشت گرد ٹولے کی پشت پناہی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے

نواز حکومت ایک طرف تو تعلیمی سیکٹر کو خود مختاری کے نام پر پرائیوٹ شعبے کے حوالے کررہی ہے تو دوسری طرف یہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانے سے قاصر ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. Saqlain
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.