راولپنڈی میں چہلم کے جلوس پر حملے کی سازش میں کالعدم دیوبندی تنظیم، رانا ثنااللہ اور حامد میر کا کردار – از حق گو
کالعدم دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ کے حامی حامد میر نے اپنے پروگرام میں کہا ہے کہ اہلِ تشیع راولپنڈی جلوس کا روٹ تبدیل کر لیں تاکہ تصادم نہ ہو۔ واضح رہے کہ راولپنڈی کی جامعہ تعلیم الفساد جس کی وجہ سے عاشور کے روز پنڈی میں فساد ہوا، اس نے اربعین کے روز اپنے مرکزِ فساد کے سامنے دو روزہ کانفرنس کرنے کا اعلان کیا جس کا واضح مقصد یہ ہے کہ قدیمی جلوس عزا کے راستے میں رکاوٹ قائم کی جائے اور پھر کوئی نیا فساد کھڑا کر کے جلوس پر پابندی کا مطالبہ کیا جائے۔
کل راولپنڈی میں امام بارگاہ میں آکر ایک تکفیری دیوبندی خود کش بمبار اپنے نفرت کی آگ میں جلتا ہوا پھٹ گیا، تو کیا امام بارگاہ بھی چاند پر لے جائیں؟
بجائے اس کے کہ خود کش بمباروں کو روکا جائے اور دہشت گردوں کو لگام دی جائے، یہ کالعدم جماعتوں کے حامی نام نہاد صحافی اہل تشیع اور اہل سنت مسلمانوں کو مشورے دیتے ہیں کہ میلاد کے جلوس اور عاشور و اربعین کے جلوس نہ نکالیں، خطرہ ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کالعدم دیوبندی دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ (جعلی اہلسنت والجماعت) کے لوگوں مولوی اشرف علی ، مولوی امان الله، مولوی لدھیانوی اور عدنان کاکا خیل نے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ کے ساتھ مل کر راولپنڈی میں امام حسین کے چہلم کے جلوس اور اس کے بعد میلاد النبی (ص ) کے جلوس پر حملے کی تیاری کر رکھی ہے اس منصوبے میں انہیں حامد میر اور دیگر طالبان پرستوں کی مدد حاصل ہے
http://www.dawn.com/news/1074818
تکفیری دیوبندی کالعدم سپاہ صحابہ، طالبان، لشکر جنگلی نے بازاروں، چوراہوں، مساجد، سکول، گرجا گھروں، امام بارگاہوں، درباروں، غرض ہر جگہ جہاں لوگ اجتماع کرتے ہیں حملہ کیا ہے اور شیعہ ،سنی بریلوی، معتدل دیوبندی، احمدی، عیسائی اور ہندو سب کو قتل کیا ہے، تو کیا پورا ملک بند کر دیں کیوں کہ خطرہ ہے؟ اگر خطرہ ہے تو خطرے پر قابو کیوں نہیں پایا جاتا؟عباس ٹاون کراچی میں اہلِ تشیع کے گھروں میں بم لگایا گیا تو گھروں میں رہنا چھوڑ دیں؟وہ شیعہ ڈاکڑز، انجینرز، پروفیسرز، دانشور، شعراء، خطبا اور علما جنہیں کلینکس اور گھروں میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے، کیا وہ بھی اپنا راستہ بدل لیں؟
تکفیری عناصر سے تو یہی امید ہے کہ وہ اپنے بغض کے باعث نواسۂ رسول اللہ (ص) کی یاد مٹانا چاھتے ہیں لیکن یہ نام نہاد صحافی دانشور بھی ناسور ہیں جو ہمدرد اور مخلص بن کر ان تکفیری دہشت گردوں کی زبان بولتے ہیں۔
سن لو دہشت گردو اور ان کے حامیو، نہ عاشورا و اربعین کے جلوس رکیں گے، نہ میلاد کے جلوس رکیں گے اور نہ ہی عزاداری رکے گی۔ اب پابندی لگے گی تو دہشت گردوں اور ان کے حامیوں اور سرپرستوں پر۔ کسی میں دم ہو تو حسینیت سے ٹکرا کردیکھ لے۔ جسے یزید نہ مٹا سکا اسے تم کیا مٹاو گے؟
حامد میر کے دیوبندی تکفیری دشت گردوں طالبان کے ساتھ یارانہ تو بہت پرانا تھا جو کئی مرتبہ سامنے آ چکا ہے اس کے علاوہ لال مسجد معاملے میں بھی حامد میر کا کردار ایک بار پھر کھل کر سامنے آیا کہ جس نے دیوبندی دہشت گردوں کی مرضی کے عین مطابق لال مسجد میں چھپے دہشت گردوں کو ” معصوم بچیاں ” ثابت کرنے میں وہ وہ معجزات کر دکھاے کہ جس سے سائنس بھی حیران ہے کہ لمبی لمبی داڑھیوں اور ٹخنوں سے اوپر شلواروں والے ہاتھوں میں بندوقیں پکڑ کے دوڑتے پھرتے دہشت گرد مرنے کے بعد یکا یک ” معصوم بچیوں ” میں کیسے تبدیل ہوگیے –
حامد میر کے دیوبندی دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کوئی راز نہیں ہیں، ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل طالبان حامد میر کو اپنے لئے اعلی خدمات سر انجام دینے کے سلسلے میں نہایت قدر کئی نگاہ سے دیکھتے ہیں – اس لئے دیوبندی دہشت گرد طالبان کے سارے حامیوں کئی جانب سے میڈیا پہ آتے ہوے اس بات کا خصوصی طور پہ خیال رکھا جاتا ہے ہیں کہ وہ اپنے چہیتے حامد میر کے پروگرام میں شامل ہو کر اس کے احسانوں کا بدلہ چکنے کئی کوشش کریں – چاہے وہ دیوبندی تکفیری ملا لدھیانوی ہو یا دیوبندی تکفیری جاوید ابراہیم پراچہ سب کو میڈیا پہ لانے میں حامد میر اور جیو کا کا سب سے زیادہ ہاتھ ہے –
راولپنڈی میں عاشورہ کے فسادات جو دیوبندی تکفیریوں نے پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت برپا کیے تھے ان دیوبندی دہشت گردوں کا ہمیشہ سب سے بڑا مطالبہ محرم اور میلاد کے جلوسوں پہ پابندی رہا ہے جس کے لئے انہوں نے پورے ملک میں فساد برپا کر رکھا ہے – اور اطلاعات کے مطابق حامد میر نے لدھیانوی کے ساتھ حالیہ دنوں میں ہونے والی ملاقات میں یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ وہ اپنے پروگرام اور چینل کے کے اثر کو استعمال کرتے ہوے اس بات کو یقینی بناے گا جس میں سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے تکفیری دہشت گردوں کئی منشا کے مطابق محرم اور میلاد کے جلوسوں پہ سرکاری سطح پہ پابندی یا کم سے کم محدود کرنے کو ہر صورت یقینی بنایا جائے –
حامد میر دیوبندی دہشت گردوں کئی مرضی و منشا کے مطابق شیعہ اور سنی جلوسوں کو بند کروا کہ شاید کچھ دیوبندی تکفیریوں کئی ہمددریاں تو حاصل کر لے لیکن پاکستان کئی تاریخ میں حامد میر کو ایک دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے حامی اور مدد گار کی صورت میں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا
Comments
Tags: Al-Qaeda, Hamid Mir, Jang Group Jang & The News & Geo, Pakistani Media, Rawalpindi Ashura Violence 2013, Religious extremism & fundamentalism & radicalism, Sectarianism, Shia Genocide & Persecution, Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP) & Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) & Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ), Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij, Taliban & TTP, Terrorism
Latest Comments
Hamid Mir and Rana Sanaullah were ganging up against Shia cleric Ameen Shaheedi forcing, harassing, threatening Shias to change the route of the Chehlum procession. This is only a a start. Next they will implement full ban on all processions of Shias and Sunni Barelvis including those of Ashura and Milad. Rana Sanaullah and Ahmad Ludhyanvi have planned a gruesome attack on the chehlum procession in Rawalpindi and later they are also planning an attack on the 12 rabi ul awal jaloos of Sunni Barelvis.
Banned Deobandi group SSP-ASWJ planning to attack Chehlum Jaloos http://www.dawn.com/news/1074818
http://www.dawn.com/news/1074818/clerics-conference-plan-adds-to-worries-of-pindi-police
A few days before Hamid Mir’s capital talk show, Ahmed Ludhyanvi and Hamid Mir met to force shias to cancel their jaloos or change its route. Changing route of the jaloos is the first step to ban ashura and milad processions of sunni and shia muslims.
We ask Hamid Mir why does he never invite Sunni Barelvi clerics from sunni tehreek or sunni ittehad council who are true represenatives of the sunni majority sect (sunni barelvi sect). Why does he present deobandis as only representatives of sunni hiding the fact that sunni majority rejects banned deobandi terrorist outfits and rejects their demand of ban on ashura and milad processions etc.
Also, we ask hamid mir, why does not he suggest to punjab govt to relocate deobandi madressas which are located on routes of ashura and milad processions. As a matter of fact, almost all deobandi mosques and seminaries are a threat to public peace because of their links with banned terrorist outfits therefore they must be relocated to barrne areas or waziristan or central jails etc.
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=502219876559609
There is no point in changing route. Rasta tabdeel kiya tou kya guarantee hai k naye rastay may koi naya maddersa nahi banay ga? Yeh jaloos pakistan say purana hai, masjid market sub bad may bana hai, naye route pay bhi isi tarhan ban jayega
حسینیو!
اپنی تاریخ کو مت بھولنا!!
1988 میں سپاہ یزید کی طرف سے ڈیرہ اسماعیل خان کے مرکزی جلوس عزاء کا روٹ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت نے دباؤ میں آکر روٹ تبدیل کر دیا۔ 30 ستمبر 1988 کو علامہ ساجد نقوی نے ملک گیر احتجاج کی کال دے دی جس کے نتیجے میں ملک بھر سے مومنین کے قافلے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنا شروع ہو گئے۔ حکومتی رکاوٹوں کے باوجود شہر کے گرد مومنین کے جم غفیر کوٹلہ جام، چشمہ روڈ، ٹانک وغیرہ کے راستوں پر جمع ہو گئے۔ اسی دن جب مومنین نے امام بارگاہ واقع بستی ڈیوالہ سے جلوس عزاداری امام حسین علیہ السلام پرآمد کیا تو پولیس اور ایف سی نے ایک سرخ لکیر کھینچ کر کہا کہ اس سے آگے جو آۓ گا، اسکو شہید کر دیں گے_ جلوس کے شرکا نے اس دھمکی کو اسکی اوقات میں رکھتے ہوۓ جلوس عزا کو جاری رکھا_ ایف سی اور پولیس نے لائن کراس ہوتے ہی گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے 10 مومنین شہید اور 40 شدید زخمی ہوگئے مگر شدید فائرنگ میں بھی مومنین نے علم عباس کو جھکنے نہ دیا نہ ہی جلوس کی رفتار میں کوئی کمی آئ_ ان قربانیوں کے نتیجے میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مرکزی جلوس کا روٹ بحال ہو گیا۔
اگر ایک ہزار یا دس ہزار شہادتوں سے پنڈی میں عزاداری امام حسین(ع) کے خلاف سازش ناکام ہو جاتی ہے تو کوئی مہنگا سودا نہیں!!
یہ جان لینے کا نہیں، جان دینے کا وقت ہے!!
https://www.facebook.com/VOSnews/posts/502559746525622
اپنے خون سے راستہ صاف کر دیں گے!!
چہلم کے جلوس کے راستے میں جلسہ کرنا ویسی ہی شرارت ہے جیسی عاشورا کے جلوس پر پتھراؤ اور یزید کی وکالت کر کے کی گئی تھی_ پچھلی بار تو کسی کو شرارت کا علم نہیں تھا، مگر کیا اس مرتبہ بھی انتظامیہ اس شرارت کو ہونے دے گی؟ کیا یہ کانفرنس کسی اور دن یا کسی اور جگہ منعقد نہیں ہو سکتی؟ مومنین کو چاہئیے کہ اپنا جلوس پر امن رکھیں اور اگر راستے کسی کانفرنس کا انقعاد کیا جا رہا ہو تو کانفرنس ختم ہونے کا صبر و تحمل سے انتظار کریں، کسی اشتعال میں نہ آئیں اور جب کانفرنس ختم ہو جاۓ تو جلوس گزار لیں!
اگر ایک ہزار یا دس ہزار شہادتوں سے عزاداری امام حسین(ع) کے خلاف سازش ناکام ہو جاتی ہے تو کوئی مہنگا سودا نہیں!
https://www.facebook.com/VOSnews/posts/502554249859505
کسی اشتعال میں مت آئیں!
راولپنڈی میں چہلم یا میلاد کے جلوس کو روکنے کیلئے فساد پھیلانے والوں کا صرف ایک علاج ہے،
اسی روٹ پر پر امن جلوس!
رسول الله (ص) نے نہتے اور پر امن جلوس کی مدد سے مکّہ فتح کر کے امن کی طاقت بتا دی!
شہزادہ علی اصغرعلیہ السلام کی ثابت قدم مسکراہٹ نے ہزاروں یزیدیوں کو شکست دے دی!
صبر اور استقامت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، صبر اور استقامت سے امن کو یقینی بنائیں،
انتشار پھیلانے والوں کو ناکام کر دیں
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=502546019860328
جلوس نہیں بلکہ مسجد کو ہٹادیا جائے – امین شہیدی
پنڈی کے جلوس راستے میں 6 مسجد ہیں کسی کو مسئلہ نہیں صرف انھیں ہے۔ اگر راستہ بل بھی لیا جو ناممکن ہے کیا گارنٹی ہے کے اگلے راستے میں کوئی اور مسجد والا کھڑا نہ ہو۔ 50 ہزار جلوسوں کے ساتھ کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ کوئی یہ مطالبہ کریں کے آپ مسجد کو ہی وہاں سے ہٹادے!(علامہ امین شہیدی
https://www.facebook.com/photo.php?v=1429104710654867
جلوس عزا تو برآمد ہوگا – علامہ امین شہیدی
https://www.facebook.com/photo.php?v=1429098383988833
جو پاکستان کو ہی نہیں مانتے ان سے کیسے مذاکرات – حامد رضا
جو پاکستان کو ہی نہیں مانتے ان سے کیسے مذاکرات –
پانچ جنوری کو ہم شیعہ سنی اسلام باد میں جمع ہونگے اور اب دہشتگرد ہمیں مار دیں یا ہم انہیں مار دینگے ہم اب ایسے واپس نہیں جانے والے ہم نے اس ملک کے لیے قربانیا دی ہیں ہمیں پوری دنیا میں ذلیل کر دیا ہے۔
حامد رضا رہنماء سنی اتحاد کونسل
https://www.facebook.com/photo.php?v=1428940124004659
Sectarian violence looms large over Pindi
Increase font size Decrease font size Reset font size
By Aamir Yasin and Munawer Azeem | 12/19/2013 12:00:00 AM
RAWALPINDI: Unless better sense prevails, the city looks heading for a man-made disaster next week when the Shia community brings out a procession to observe Chehlum of Imam Hussain and a section of the Sunni majority tries to block it.
A signature campaign is going on in the Raja Bazaar to gain support of the traders for the blockade who had suffered most in the bloody sectarian mayhem on Ashura day last month.
Clerics of the Madressah Taleemul Quran in the area have made the blockade a certain-ty by deciding to hold a 40-hour, non-stop, onthe-road conference on the Chehlum procession`s route in the memory of those killed and the burning down of their madressah-mosquemarket complex that day.
Punjab Law Minister Rana Sanaullah arrived in Rawalpindi on Wednesday at the head of the Punjab Cabinet Special Sub-Committee for Peace and Security, which was formed after that violence, to prevent worse happening on December 24, the Chehlum day.
Local PML-N leaders, interested in seeing peace and development in the city in view of the forthcoming local government elections, tried to persuade the madressah clerics to postpone their conference but failed.
Desperate, the Rawalpindi administration and police then took their request to the clerics of Lal Masjid and Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ) leaders in Islamabad to calm down the clerics of Madressah Taleemul Quran.
`We will take up the request on Thursday,ASWJ Islamabad leader Mustafa Baloch told Dawn, adding that the conference was being held to express solidarity with the victims of Ashura day violence.
Custodian of the Madressah Taleemul Quran Maulana Ashraf Ali, however, sounded adamant.
`There is no plan to postpone the conference,` he told Dawn.
He said his madressah and the mosque associated with it had `no role` in the Raja Bazaar traders` campaign to block the Chehlum procession. Sharjeel Mir of the Traders Association of Madina Market, which was located in the madressah complex, said same.
`We in the business community suffer financially because of the procession and the potential violence it entails,` he told Dawn.
However, President of the Rawalpindi Traders Association Sheikh Sadique had a different take on the issue.`Traders want all processions to stop, whether brought out by the Sunnis or Shia or political parties,` he said.
`They want peaceful environment for their business activities. We are not against any sect and requested the government to device the policy while taking all religious leaders on board,` he added.
Meanwhile, the Islamabad police have chalked out an elaborate security plan for the city on Chehlum day. Extra police have already been deployed at five Imambargahs and 14 more have been declared `sensitive` places.
Inspector General of Police Sikandar Hayat said security was enhanced at worship places soon after the terrorist attack at an Imambargah in Rawalpindi overnight.
There will be 3,000 police personnel on duty on Chehlum day compared to the 2,500 policemen deployed on Ashura day last month, he said.
http://epaper.dawn.com/DetailImage.php?StoryImage=19_12_2013_004_006
I would urge our shia brothers not to change the route of Chehlum Juloos. If you do it once, it would be happening every where in the country. Please, Please if you love Syedna Imam-e-Hussain R.A, don’t be threatened with this Wahabi Deobandi government. We all have to give our lives to Allalh, why not with hands of Yazids of our time.
19 December 2013 21:30
Share/Save/Bookmark
راولپنڈی جلوس کا روٹ تبدیل ہوگا نہ جلوس محدود ہوگا
ایک کروڑ شہید بھی دینے پڑے تو دینگے لیکن عزاداری پر حرف نہیں آنے دینگے، علامہ ناصر عباس جعفری
اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل نے ”اسلام ٹائمز” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف حسینی قوت ہے اور دوسری طرف یزیدی قوت ہے، اہل سنت بریلوی حسینی ہیں چونکہ یہ امام حسین (ع) سے عشق کرتے ہیں، سانحہ راولپنڈی کے بعد شیعہ سنی اکٹھے ہوگئے اور دہشتگرد تنہا رہ گئے ہیں، اہل سنت برادران نے جمعہ کے خطبوں میں ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے جو مثبت پیش رفت ہے۔
ایک کروڑ شہید بھی دینے پڑے تو دینگے لیکن عزاداری پر حرف نہیں آنے دینگے، علامہ ناصر عباس جعفری علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، ملت پر جب بھی مشکل وقت آیا تو آپ میدان عمل میں نظر آئے، بغیر کسی خوف کے عوام کو حوصلہ دیا اور یہ باور کرایا کہ ہمیشہ میدان میں رہنے والی قومیں ہی کامیاب و کامران ہوا کرتی ہیں۔ سانحہ راولپنڈی کے بعد جب ہر طرف مایوسی کے بادل گہرے ہونے لگے اور تو آپ ایک بار پھر امید کی کرن بن کر سامنے آئے اور ان قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو عزاداری سیدالشہداء کو بند کرنے یا محدود کرنے کی سازشیں کر رہے تھے۔ راولپنڈی سانحہ کے پہلے دن سے لیکر تاحال میدان عمل ہیں۔ ہر روز سات سے آٹھ گھنٹے راولپنڈی ایشو کو دے رہے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اپنے دوٹوک موقف کی بدولت بیحد سراہے جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے سانحہ راولپنڈی کی اصل سازش اور محرکات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے پورے معاملے میں آپ شریک رہے ہیں، اس پورے سانحہ کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور دشمن کی اس سازش کے پیچھے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں انتہاء پسند لوگوں کا ہمارے ریاستی اداروں کے ساتھ جو اتحاد بنا اور ایک پارٹنر شپ وجود میں آئی، اس کے نتیجے میں یہ متشدد لوگ دہشت گرد بن گئے اور پاکستان سمیت افغانستان و دیگر ممالک میں ان سے کام لیا جاتا تھا۔ اسٹبیلشمنٹ کی خیانت سے یہ لوگ پاکستان میں اجتماعی اور مذہبی طور پر طاقتور بن گئے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں نفرت، ناامنی اور تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ جس میں مکتب تشیع کے پیروکاروں کو اور ان کے ساتھ دیگر مکتب یعنی اہل سنت برادران کو
” مکتب تشیع کے پیروکاروں کو اور ان کے ساتھ دیگر مکتب یعنی اہل سنت برادران کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہاں سے پاکستان کے اندر تکفیر، قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا، ان سب لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع کو دبایا جائے۔ “
بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہاں سے پاکستان کے اندر تکفیر، قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا، ان سب لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع کو دبایا جائے اور یہ لوگ ہماری فوج کے ساتھ مل کر اس ملک میں طاقتور ہو کر اپنی مرضی اور اپنے خاص نظریات کے مطابق سسٹم بنائیں اور حکومت کریں۔
افغانستان میں ان کا حوصلہ بڑھایا گیا جبکہ پاکستان میں ان کا ٹارگٹ اہل تشیع براہ راست تھے اور پورے ملک میں اہل تشیع کے خلاف ہر حوالے سے کام شروع کیا گیا۔ ان کے اہداف یہ تھے کہ پاکستان میں شیعوں کی سیاسی، سماجی طاقت ختم ہو جائے، ہماری عزاداری کو کنٹرول کیا جاسکے۔ پہلے یہ عزاداری کے جلوسوں کو ختم کریں اور پھر آہستہ آہستہ سارا سلسلہ ختم کر دیا جائے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے طاقت والے علاقوں میں لشکر کشی کی گئی، مثلاً گلگت بلتستان میں ہماری طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی طرح سے پاراچنار میں بھی یہی عمل جاری رہا۔ اسی طرح کوئٹہ، کراچی و دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔ دہشت گردوں کا جنوبی پنجاب میں وسیع تر نیٹ ورک بنا دیا گیا۔ بہرحال ان سب کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل تشیع کو کمزور کر دیا جائے اور اس قوم کو بہت زیادہ کمزور کر دیا جائے۔ الحمداللہ یہ دہشت گرد نہ ہمیں تنہاء کرسکے اور نہ ہی ہمیں اس معاشرے سے الگ کرسکے۔ یہ دہشت گرد اہل تشیع سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کو بھی خوفزدہ کرنا چاہتے تھے۔
یہ کوششیں بین الاقوامی سطح پر بھی چلتی رہی ہیں۔ 2006ء کی حزب اللہ کی جنگ میں اہل تشیع کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہشت گردوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی تفرقہ بازی اور شیعہ سنی کے مسائل کو بھڑکانے کی کوشش کی، تاکہ اہل سنت بھائیوں میں جو مقاومت کا اثر پیدا ہو رہا ہے، اس کو ختم کیا جاسکے اور اس کے خلاف دیوار کھڑی کی جاسکے۔ علاقائی اور عملی طور پر بھی اس حربے کو استعمال کیا گیا۔ اس طرح کے اور بھی حربے جس میں بم بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ اور لوگوں کو خوفزدہ کرتے رہے۔ لوگ ان سے نہیں ڈرے اور لوگ ہمیشہ میدان میں رہے۔ ہر جگہ پر دہشت گرد ذلیل ہوتے رہے اور حتٰی کہ میڈیا میں بھی ذلیل ہوگئے اور اپنی جگہ نہیں بناسکے۔
اسلام ٹائمز: سانحہ راولپنڈی کے پیچھے کیا سازش چھپی ہوئی ہے۔؟
علامہ ناصر
” دہشت گرد 30 سال سے ہدف لے کر چل رہے ہیں کہ ملت جعفریہ کو تنہا کر دیں، قتل و غارت گری ہو، ہماری عزاداری کو روک سکیں، ہمارے جلوسوں کو بند کر دیا جائے۔ “
عباس جعفری: راولپنڈی کا سانحہ ایک نیا انداز تھا اور نیا حربہ استعمال کیا گیا۔ اس وار سے کوشش یہ کی گئی کہ ظالم مظلوم بن جائے اور مظلوم ظالم بن جائے اور ان دہشتگردوں کو تحرک کا موقع مل جائے۔ قرائن سے بھی پتہ چلتا ہے کہ راولپنڈی کا واقعہ ایک طے اور پلان شدہ واقعہ تھا۔ اس واقعے کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی، بعد والے حالات بھی یہ بتاتے ہیں کہ بعض لوگوں کو پہلے سے بلایا گیا تھا۔ پھر جمعہ کے خطبے میں اسپیکر کا آن رکھنا اور اس تقریر کا ہونا جس میں توہین نواسہ رسول (ص) کی گئی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ گراؤنڈ پہلے سے تیار تھا، بس صرف آگ لگانا باقی تھی۔ واقعہ میں ایک مخصوص ٹولہ نے نسبتاً مظلوم بننے کی کوشش کی اور برما میں ذبح شدہ بچوں کی تصاویریں سوشل میڈیا پر دکھائی گئیں کہ یہ راجہ بازار والے واقعہ میں شیعوں نے ذبح کئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد ان کی ساری قوتیں، اجتماعی قوت، مدرسے کھل کر سامنے آگئے۔ اس کے بعد میڈیا پر دباؤ ڈالا گیا، یہ ازخود مظلوم بن رہے تھے اور جو واقعاً مظلوم تھے اور گذشتہ کئی دہائیوں سے مظلوم ہیں اور کبھی بھی قتل و غارت گری نہیں کی ہے اور قانونی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں، ان کو ظالم ثابت کرنے میں اپنی تمام تر قوت ان دہشت گردوں نے لگا دی۔
دہشت گرد 30 سال سے ہدف لے کر چل رہے ہیں کہ ملت جعفریہ کو تنہا کر دیں، قتل و غارت گری ہو، ہماری عزاداری کو روک سکیں، ہمارے جلوسوں کو بند کر دیا جائے۔ حتٰی کہ ان کے سرپرستوں نے ٹی وی چینلز پر کھلم کھلا یہ کہا کہ ان کے جلوسوں پر پابندی لگائی جائے، عزاداری نہ ہو، غم سیدالشہداء (ع) نہ منایا جائے اور اس مسئلے کو شیعہ سنی مسئلہ بنایا جائے۔ اہل سنت کو لا کر اہل تشیع کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا، جو الحمداللہ خدا کی مدد اور امام زمانہ علیہ السلام کی تائید سے دہشت گرد اس مقصد میں ناکام رہے۔ دہشت گرد جلوسوں کو محدود نہیں کرسکے۔ الحمداللہ عزاداری آج بھی بالکل پاکستان میں اسی طرح سے ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی دہشت گردوں نے جو کوشش
” مکتب کے اندر ہمارے فقہاء نے قانون سازی کر دی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ دہشت گرد کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ہدف تک پہنچیں، لیکن اب وہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں کرسکتے۔ “
کی تھی کہ ہمیں تنہاء کر دیا جائے۔ خدا کے فضل سے اہل سنت، بریلوی اور عوام اکٹھے ہوگئے، چونکہ دہشت گرد صرف عزاداری کے جلوسوں کو ہی ختم تو نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ یہ عید میلادالنبیؐ کے جلوسوں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے، اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف حسینی قوت ہے اور دوسری طرف یزیدی قوت ہے۔ اہل سنت بریلوی حسینی ہیں چونکہ یہ امام حسین (ع) سے عشق کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ سانحہ راولپنڈی کے بعد سازش کو بھانپتے ہوئے شیعہ اور سنی اکٹھے ہوگئے اور دہشت گرد تنہا رہ گئے۔ اہل سنت برادران نے جمعہ کے خطبوں میں ان سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ جو بہت زیادہ ان کے حامی افراد تھے، انہوں نے بھی امن کی آواز بولنا شروع کر دی۔ اس سے پتہ چلا کہ ان کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ وہ شکست کھا رہے ہیں، لیکن کچھ دہشت گرد جو رہ گئے ہیں، یہ خودکشی کرنے کے چکر میں ہیں۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ٹی وی پر آ کر ہمارے دوستوں نے کافی اچھے پروگرام کئے اور ان کے مثبت جوابات دیئے۔ رابطہ مہم شروع ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں سے ملے۔ اے این پی، مسلم لیگ قاف، تحریک انصاف، اہل سنت کے علمائے کرام اور مختلف اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی گئیں، تاکہ اس یلغار سے بچا جاسکے اور اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔
الحمداللہ بڑی حد تک اس پر قابو پا لیا گیا۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ قانون سازی ہونی چاہیے کہ صحابہ کرام، امہات المومنین، خلفائے راشدین اور اہل بیت علیہم السلام کے خلاف بات نہیں ہونی چاہیے اور اس پر قانون سازی ہونی چاہیے۔ دیکھیں پہلے یہ لوگ کہاں کھڑے تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں۔ پہلے کہتے تھے کہ عزاداری نہیں ہونے دیں گے، جلوس نہیں نکلنے دیں گے اور آج کہتے ہیں کہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ مکتب کے اندر ہمارے فقہاء نے قانون سازی کر دی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ دہشت گرد کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ہدف تک پہنچیں، لیکن اب وہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں کرسکتے۔ ریاستی اداروں کو بھی پتہ چل چکا ہے کہ اب پاکستان ایسی لڑائیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب ریاستی اداروں اور سکیورٹی فورسز کو پتہ چل چکا ہے کہ کبھی بھی
” مجلس وحدت مسلمین نے قومی اتفاق رائے کیلئے لاہور میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا اور دشمن کو واضح پیغام دیا کہ عزاداری سیدالشہداء پر پابندی قبول ہے اور نہ ہی کسی ایسے ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرتے ہیں جس میں شیعہ و سنی مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ “
شیعہ سنی آپس میں ایک دوسرے کو نہیں مارتے ہیں بلکہ یہ ایک دہشت گرد طبقہ ہے جو یہ سارے کام کرتا ہے۔
اسلام ٹائمز: اس سارے واقعے میں ایم ڈبلیو ایم تنہاء کیوں رہی، باقی بڑی تنظیموں کو کیوں ساتھ نہ ملا سکی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہم نے سیاسی لوگوں سے روابط کئے۔ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں، چاہے اس میں پیپلز پارٹی، اے این پی و پاکستان کی تمام دیگر سیاسی جماعتیں سب سے یا تو خود جا کر ملے ہیں یا پھر ہمارے دوست ملے ہیں۔ اہل سنت علمائے کرام سے ملاقاتیں کی گئیں۔ اندرونی طور پر کوشش کی کہ اس وقت جتنی بھی شیعہ تنظیمیں ہیں، وہ سب آئیں اور اس واقعے کے خلاف اسٹینڈ لیں اور اس یلغار کا مقابلہ کرنے میں اپنا مؤقف بیان کریں۔ لاہور اور کراچی میں بانیان مجالس و عزاداران نے پریس کانفرنس کی۔ اسی طرح فیصل آباد میں بھی پریس کانفرنس کی گئی اور اندرونی طور پر ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اسی لیے ہم نے بھی کوشش کی کہ اپنے بزرگوں سے اور علمائے کرام سے رابطہ کریں۔ خود میں نے شیخ محسن صاحب کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ آج کل جو ملکی سطح پر حالات چل رہے ہیں، ہمارے دشمن اکٹھے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی اکٹھا ہونا ہوگا اور ہمیں بھی ان کے خلاف اسٹینڈ لینا ہوگا۔ جس پر شیخ محسن صاحب نے کہا کہ ہاں یہ کسی جماعت پر حملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے مکتب و مذہب پر حملہ ہے اور ہمارے حقوق کو غصب کرنے کی تمام تر موومنٹ شروع ہوئی ہے۔ میں نے ان سے باقاعدہ ٹائم لیا اور ان سے ملاقات کی۔
ہماری موجودگی میں شیخ صاحب نے علامہ عارف واحدی صاحب کو فون کیا اور کہا کہ میں علامہ ساجد نقوی صاحب سے بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر جواب ملا کہ وہ کسی میٹنگ یا کسی پروگرام میں مصروف ہیں اور بعد میں بات کرواتا ہوں۔ بعد میں شیخ محسن نجفی صاحب نے کہا کہ کل جامعہ الکوثر میں دن 12 بجے بیٹھیں گے اور آپ تشریف لے آئیں۔ اس وقت آئی ایس او کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر بھی ہمارے ساتھ تھے، جنہوں نے اس وقت حیدر آباد جانا تھا۔ شیخ صاحب نے ان کو بھی روک لیا۔ رات کو ہم نے شیخ صاحب سے رابطہ کیا تو شیخ صاحب نے فرمایا کہ آغا ساجد علی نقوی صاحب سے میری بات ہوئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ کل صبح 9 بجے ان سے ملاقات کریں گے اور اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ جس پر ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے اکٹھا ہونا ہمارا ہدف ہے۔
اگلی
” دشمن نے یہ کوشش کی ہے کہ ہم ڈر جائیں اور اس عزاداری سے دستبردار ہو جائیں، لیکن دشمن یہ جان لے کہ اگر ہمیں عزاداری کی حفاظت کے لئے ایک کروڑ سے بھی زیادہ شہید دینے پڑے تو ہم دیں گے، لیکن کسی بھی صورت عزاداری سیدالشہداء پر حرف نہیں آنے دیں گے۔ “
رات پھر ہم نے شیخ صاحب سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ علامہ ساجد نقوی صاحب نے کہا ہے کہ چونکہ حافظ ریاض صاحب پاکستان میں نہیں ہیں، اس لیے جب وہ پاکستان آجائیں گے تو پھر انشاء اللہ عزیز ہم مل کر کچھ بات کریں گے۔ علاوہ ازیں ہم نے علامہ حامد علی موسوی صاحب کے رفقاء کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ ہماری امام بارگاہیں جل چکی ہیں اور شہر کے اندر خوف و ہراس کی فضاء ہے اور ہمارے سارے مخالفین اکٹھے ہوچکے ہیں، لہٰذا ہمیں بھی اکٹھا ہونا چاہیے اور آپس میں بات چیت کرنی چاہیے۔ اسی حوالے سے ہم آغا حامد علی موسوی صاحب سے ملنا چاہتے ہیں، جس پر جواب ملا کہ ہم آپ کی بات اوپر پہنچا دیتے ہیں۔ بعد ازاں دونوں تنظیموں نے پریس کانفرنسیں کیں اور اسٹینڈ لیا، یہ بےحد خوشی کی بات تھی کہ تینوں جماعتوں نے اس حوالے سے اسٹینڈ لیا۔ اس کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین نے قومی اتفاق رائے کیلئے لاہور میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا اور دشمن کو واضح پیغام دیا کہ عزاداری سیدالشہداء پر پابندی قبول ہے اور نہ ہی کسی ایسے ضابطہ اخلاق کو تسلیم کرتے ہیں جس میں شیعہ و سنی مسلمانوں کے عقائد کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ اے پی سی میں بلوچستان، خیبر پختونخوا، کشمیر، سندھ و شمالی علاقہ جات سے تنظیموں کی بڑی اچھی نمائندگی تھی۔
اسلام ٹائمز: چہلم امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے کیا پروگرام ہے، بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ عزاداری اور میلاد النبی ؐ کے جلوس نہ ہوں یا پھر انکا روٹ تبدیل ہو جائے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پورے پاکستان میں بالعموم اور راولپنڈی میں بالخصوص چہلم سیدالشہداء (ع) منایا جائے گا، چونکہ یہ عزاداری پر حملہ ہے اور اس حملے سے عزاداری کو محدود کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ لوگوں میں بڑا جوش و ولولہ ہے، رابطے ہو رہے ہیں، میٹنگز ہو رہی ہیں اور اربعین کا دن انشاءاللہ اچھے طریقے سے منایا جائے گا۔ دشمن نے یہ کوشش کی ہے کہ ہم ڈر جائیں اور اس عزاداری سے دستبردار ہو جائیں، لیکن دشمن یہ جان لے کہ اگر ہمیں عزاداری کی حفاظت کے لئے ایک کروڑ سے بھی زیادہ شہید دینے پڑے تو ہم دیں گے، لیکن کسی بھی صورت عزاداری سیدالشہداء پر حرف نہیں آنے دیں گے، ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے بازو کٹا کر بھی نواسہ رسول (ص) کے روضہ کی زیارت کی اور اس پیغام کو ہم تک منتقل کیا، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس پر ہم کوئی کمپرومائز کریں۔
http://islamtimes.org/vdcciiq1x2bq118.c7a2.html