خطیب اتحادالمسلمین۔ علامہ رشید ترابی۔ از آصف زیدی
آج جب یہ خیال آیا کہ علامہ رشید ترابی کو ہم سے رخصت ہوےءچالیس برس تمام ہوےُ تو یہ احساس دل کو مارے ڈالتا ہے کہ زمانہ کتنا بدل گیا۔ امت مسلمہ کا اتحاد کس طرح پارہ پارہ ہو گیا ایک وہ زمانہ تھا کہ نجی محافل میں احتشام الحق تھانوی, حامد بدایونی, ماہر القادری اور رشید ترابی جیسے اکابر یکجا ہوتےاور ان کی مو شگاخیاں اور بذلہ سنجیاں حاضرین کے دلوں کو گرماتیں۔ تمام مکاتب فکر کم از کم تقریر میں ایک دوسرےکی دل آزاری سے حتی الوسع گریز کرتے۔ کیسا وسیع القلبی اور جذب باہم کا دور تھا۔علامی رشید ترابی بھی اسی دور کا ایک روشن چراغ تھے۔
علامہ رشید ترابی کی خطابت ایک ایسا باب ہے جس کا آغاز بھی وہ خود تھےاور انجام بھی۔وہ مذہب کے ابدی حقایق کی گہری بصیرت کے مالک تھے اور علوم اسلامیہ کی بلندیوں سے مانوس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تعصب اور تنگ نظری کا سایہ تک نہیں پایا جاتا ۔ علم و ذہانت کے گراں مایہ خزانے انہوں نے اپنی خطابت میں سمو لیے تھےاور پھر ان خزانوں سے سامعین بلا تفریق مکتب فیض یاب ہوتے تھے۔کبھی کنایتا” یا اشارتا” بھی وہ ایسی کویُ بات نہیں کہتے تھے جو اختلاف مکتب کے باعث کسی کی دل خراشی کا باعث بن سکے۔ علامہ صاحب کی خطابت محض زوربیاں , روانی اور ولولہ انگیزی کی خطابت نہ تھی۔وہ علم آموز اور فکر انگیز خطابت تھی۔انھوں نے اپنی خطابت کو ہمیشہ اتحاد امت اور سامعین کی تربیت علمی کے لیے استعمال کیا۔ ان کےسامعین کے فکر و فہم کی سطح اتنی بلند ہو گیُ تھی کہ پھر وہ کبھی سطحی تقاریر سے مطمین نہ ہو سکے.
علامہ صاحب نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ عہد جدید کے علوم اور انسانوں کو مذہب سے مربوط رکھنے کی سعی کی۔ وہ مذہب کو زبردستی جدید علوم پر مسلط کرنے کے ہرگزقائل نہ تھے۔ بلکہ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ علوم انسانی اور فکر ہمہ وقت ارتقا پزیر ہیں۔تاہم مذہب ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ کس طرح فطرت کو مسخر کرکےفلاح انسانی کے لیے استعمال کیا جاےُ. ۔منبر کے ذریعے اتحاد المسلمین اور علم کا فروغ ان کی ترجیح اولیٰ تھا جس کےلیےانہوں نے استقلال پاکستان کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور پھر بعد میں صحافت سے بھی دامن چھڑا لیا۔ علامہ صاحب نے اپنے مزاج کے شاعرانہ عنصر کی ہمیشہ حفاظت کی اور خطابت کے دقیق سے دقیق مراحل میں بھی ان کی سخن وری ان کی تقاریر کو چار چاند لگاتی رہی۔
اتحاد اسلامی کے داعی ہونے کے ناتے علامہ صاحب کا مسلک روایتی مذہبی زعماُ سے قدرے مختلف تھا۔وہ روشن خیالی کے حامی تھے اور روایت پہ درایت کے قائل ,کشف کی بجاےُ علم کے داعی, اور جذب کی بجاےءعقل کے حامی تھے۔وہ علم کو میعار عقل اور عقل کو خوگر علم دیکھتےتھے۔انھوں نے اپنی مجالس میں بھی اسی طرز کو برقرار رکھااور یہی وجہ تھی کہ ان کے سامعین میں ہر مسلک کے لوگ شامل تھے۔ علامہ صاحب کی فکر کا ایک سرا اگرعلوم اسلامیہ تھے تو دوسرا ارسطو ,کانٹ, اور ہیگل سے جڑا ہوا تھا. یوں ان کی خطابت مغربی اور مشرقی دھاروں کا سنگم تھی, مگر اس حسن کے ساتھ کہ مشرقی فکر کہیں بھی مغربی فکر کے آگے اپنا سر خم کرتی نظر نہیں آتی ۔وہ یوں کہ قرآن کریم ان کی فکر کی اساس تھااور اس کتاب حکمت سے استنباط پر انھیں بھرپور دسترس حاصل تھی۔
خطابت کے لیے جن امور سے مکمل واقفیت ضروری ہےعلامہ ان سے بہرہ ور تھے۔اشارات ,استعارات, اشعار,تلمیحات ,احادیث,تنزیل,تاویل۔۔۔۔ تمام سے انھیں برمحل اور فصیح استفادہ کرنے میں ید طولیٰ حاصل تھا. روایت کی پاسداری کے ساتھ عصری تقاضوں کے شعور اور جدید علوم سے ہم آہنگی نے ان کی خطابت کو چار چاند لگا دیے تھے۔وہ جب زیب منبر ہوتے تو ایک شعلے کی مانند ہوتے۔ان کی تقاریر میں ان کی حرکات و سکنات سے ایک یکتا زیبایُ پیدا ہو جاتی خواہ وہ دوران خطابت آستین پلٹنا ہو یا شیروانی کے بٹن کھولنا یا منبر پر زور سے ہاتھ مارنا یا جھوم جھوم کر اشعار دہرانا. یہی وہ وسعت بیان اور ندرت اسلوب تھی کہ ان کے مداحوں میں نہ نکتہُ فقہی کی قید تھی نہ عمر و مرتبے کی.
آج علامہ صاحب کی چالیسویں برسی اس کلیے کی نفی کرتی ہے کہ تقریر کی عمر کم ہوتی ہے۔کتنے ہی دل ہیں جو آج بھی ان کی تقریروں سے گداز ہوتے ہیں اور ان کا نام سنتے ہی پگھل جاتے ہیں۔ان کا اعجاز ان کی زندگی میں بھی مسلم تھا اور آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔ان کی تقاریر فلسفے ,مذہب ,ادب اور تاریخ کی جگمگاتی تفسیریں ہیں۔ انھوں نے اتنی کم تقاریر میں جو کچھ ہمیں دیا وہ کویُ اور نہ دے سکا۔
میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر میری محفل مرا مزار نہ پوچھ
بہت عرصہ ہوا کہ میں جناب ماہر القادری کے گھر پر ان کی خدمت میں حاضر تھا کہ علامہ صاحب کا ذکر چھڑ گیا۔ ماہر القادری کی آنکھوں میں علامہ صاحب کے ذکر پر گویا ایک چمک آ گیءاور یادوں کی نہ جانے کتنی شمعیں تھیں جو روشن ہو گیںُ۔ ماہر القادری نے یاد کیا کہ ۱۹۳۷ میں ایک دفعہ اعلان ہوا کہ محلہ جدید حیدر آباد میں جلسہ ہو گا جس کی صدارت لسان الامت نواب بہادر یار جنگ اور’رشید ترابی۔بی ایس سی’ تقریر کریں گے. ماہر القادری بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ سائنس کا گریجویٹ مزہب یا شریعت پر کیا بولے گا مگر پھر بھی بےشمار لوگوں کی طرح میں نواب بہادر یار جنگ کے نام کی کشش میں جلسہ گاہ پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ اسٹیج پر نواب صاحب کے قریں ایک چوبیس پچیس سال کا خوبرو اور خوش پوشاک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ اس نوجوان کی تقریر کہ موضوع تھا’ استنشاق’۔ یعنی وضو کرتے ہوےُ جو ناک میں پانی لیتے ہیں۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ تو انتہایُ خشک موضوع ہےاس پر یہ لڑکا کیا کہہ سکے گا۔ مگر جب وہ بولا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو نطق ہزار پہلو ہے جس کی جھنکار کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ اور صرف لب و لہجہ اور الفاظ ہی نہیں ۔۔۔۔استدلال بھی ہے اور موضوع سے ارتباط بھی, معلومات بھی ہیں اور خطابت کا کمال بھی۔ ترابی صاحب نے دماغی اعصاب , ناک اور حلق کی ساخت اور ان کے سائنسی وظیفہُ عمل کی دل آویز, اثر انگیز اورعالمانہ تشریح فرمایُ اور پھر طب مغرب کے اصولوں کی روشنی میں ثابت کیا کہ استنشاق سے دماغ کے کن امراض سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور وضو کا یہ عمل صحت انسانی کے لیے کیوں اور کیسے مفید ہے اور عین فطرت ہے۔ مجمع سے سبحان اللہ؛ جزاک اللہ اور نعرہ تکبیر کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور تمام شہر میں کیُ روز تک اس تقریر کے چرچے ہوتے رہے۔ وہ دن علامہ رشید ترابی کے تعارف کا پہلا دن تھا اور پھر ان کی شہرت و مقبولیت بوےء گل کی طرح پھیلتی چلی گیُ۔
علامہ صاحب اپنی ذہانت سے نیےُ نیےُ موضوعات وضع کرتے۔ ایک مرتبہ خالقدینا ہال میں ” حسین اور اقتصادیات” کے موضوع پر عشرہُ تقاریر سے خطاب کیا۔ اس موضوع پر بولنا اور پھر بھانا بس انہی کا کام تھا۔نواب بہادر یار جنگ جیسے عظیم خطیب اور دور بین مدبر نے مسلمانوں کے سیاسی جلسوں کا انعقاد ’ میلاد النبی” کے جلسے کروا کر کیا تاکہ مسلمان اپنی سیاسی بیداری اور حقوق کی جدوجہد میں بھی دامن اور اسوہُ محمدعربی سے وابستہ رہیں۔ اتحاد المسلمین کے ان تمام جلسوں کا روح رواں علامہ رشید ترابی ہوا کرتے تھے۔ ماہر القادری اور دیگر زعماُ بیان کرتے تھے کہ کس طرح اتحاد المسلمین کے جلسوں میں رشید ترابی کی خطابت سے سماں بندھ جاتا۔ ان جلسوں میں علامہ صاحب ملت اسلامیہ کے مشترک، مسلم اور متفق علیہ عقائد و مسائل پر انتہایُ علمی گفتگو کچھ اس طرح کرتے کہ تمام سامعین اپنے آپ کو ایک ہی لڑی میں پرویا ہوا محسوس کرتے۔انھوں نے تا عمر یہ کوشش کی کہ اہل سنت اور اہل تشیع اپنے اختلافات کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ اتفاق کی بنیادیں نگاہوں سے اوجھل ہو جاییںُ۔
ہر انسان ایک قصہ ہے ترابی کیا سنے کویُ
سلیقے کی کہانی ہو تو دل مشتاق ہوتا ہے
jo shaksh be khalifa rashdeen or musalmano ki ma hazrat aysha ki shan my zara be bakwas kary wo chai kitna be bara akabir ya insan ho wo kafir ha muslaman nahi
Hazrat Ayesha k baaray men Hamain sunni bhaiyon se shikayat hai k unnhon ne insaaf nahi kya. Teenon khulfaa ka sirf inkaar karnay ki waja se wo shiyon ko to kaafir kahtay hen aur Chotay Khalifa k khilaaf jang karnay waalay (Ameer Mavia aur Hazrat Ayesha). musalman bhi hen aur qaabil e ahtaram bhi. Kya ye Hazrat Ali R.A se bughz nahi?
.
Aap hi ki kitab Sahi Muslim se paish hai:-
.
“Hazrat Ali R.A ne farmya: Uss Hasti ki qasam jiss ne daanay ko cheer kar zindagi paida ki, Rasool Allah S.A.W ne Mujh se waada kya hai k Mujh se muhabbat karnay waala momin aur mujh se bughz rakhnay waala munaafiq hai”{Sahi Muslim English Book 1 Hadith No 141 tarjuma}.
.
Phir Ahl e Sunnat to kam bughz rakh rahay hen k Hazrat Ali R.A se jang karnay waalon ko qaabil e ahtaraam samajh rahay hen, unn hastiyon k baaray men kya khayaal hai jinnhon ne Hazrat Ali R.A se jang ki? Unn ka bughz to saabit hai k wo sirf dil ya zabaan se bughz ka izhaar nahi kartay balkay unn k khilaaf jang bhi kar chukay hen. Aur Nabi S.A.W ki biviyon ko to Allah ne bata bhi diya tha k:-
.
“(Aey Nabi ki biviyo) apnay gharo’n men tahri raho {Sura Ahzab Ayat 33}”
.
Leken Hazrat Ayesha to na sirf ghar se niklee’n balkay khalifa k khilaaf jang bhi ki. Yaani pahlay bataaey jaanay waali hadees aur ayat donon ki nafarmaani. Phr ahl e sunnat hazraat kahtay hen k Nabi S.A.W ki nisbat se unn ka ahtaraam hai aur shia unn k khilaaf boltay hen. Iss baat par Quran e Kareem k hawaalay paish hen jinn men waazay tor par bataaya gaya hai k Nabi ki nisbat se nahi balkay Allah k qurb se ahtaraam hota hai.
.
ALQURAN:
.
“So Hum ne Loot ko aur unn k ghar waalo’n ko bacha liya siwaaey unn ki biwi k, kyoon k woh azaab men reh jaanay waalon men se thee’n.{Sura Aaraaf Ayat 83}”
.
“Magar khaandan-e-Loot ko Hum zaroor bacha len gay siwaaey Uss (Loot) ki biwi kay {Sura Hijra Ayaat 59,60}”
.
“Pus Hum ney Ussay (Loot k) aur Uss k Ahl ko bacha liya siwaaey Uss ki bivi kay{Sura Namal Ayat 57}”
.
“(farishton ne kaha) Loot aur Uss k khandaan ko Bacha len gay siwaaey Unn ki bivi kay {Sura Ankaboot Ayat 32,33}”
Hazrat Nooh AS ki bivi aur baitay ko bhi unn ki nisbat se koi faaida na hua. Unn k baitay k baaaray men Quran paish hai
.
ALQURAN:-
.
“(Toofaan k waqt) Nooh ne apney baitay ko pukaara aur kaha kay meray Rab, Maira baita to meray ghar waalon men say hai . . . Allah ne farmaya aey Nooh! yaqeenan woh teray gharaney say nahi hai uss k kaam bilkul hi na shaaista hen. Tujhay har giz woh cheez na maangni chahiyay jiss ka tujhay mutlaqan ilm na ho Mein tujhay naseehat karta hoo’n k tu jaahilon men say naa ho{Sura Hood Ayat 45 46}”
.
Yahaan to Nabi ki nisbat kya balkay uss k liay dua karnay se bhi koi faaida na hua. Yahan tak k Hazrat Loot aur Hazrat Nooh AS ki Allah ne misaal paish kartay huay iss amar ka faisla kar diya k sirf Nabi ki nisbat insaan ko qaabil e ahtaraam nahi banaati.
.
ALQURAN:
.
“Allah ne kaafiro’n k liay Nooh ki aur Loot ki biwi ki misaal byaan farmai . . . pus woh dono’n (naik banday) inn say Allah k (kissi azab ko) na rok sakay aur hukum dey dya gaya (aey aurton) dozakh men jaaney waalo’n k saath tum dono’n bhi chali jao.{Sura Tahreem Ayat 10}”
.
Leken Allah k qurb ki waja se firon ki bivi bhi qaabil e ahtaraam hen.
.
ALQURAN:
.
“Aur Allah ne momino’n k liye firoan ki biwi ki misaal byaan farmai jab uss ne dua ki aey meray Rab! Meray liye apney paas jannat mein muqaam bana aur mujhay firoan aur uss k amal say bacha aur mujhay zalim logon say nijaat de {Sura Tahreem Ayat 11}”
.
Bivi to kya sirf, Nabi ka baap hona bhi qaabil e ahtaraam nahi banaata. Quran ne Hazrat Ibraheem AS aur Unn k waalid Aazar ki misaal paish ki.
.
ALQURAN:
.
“(Hazrat Ibraheem AS ne apnay waalid se kaha) Abba jaan! Mujhay khof hai k kahee’n aap per azaab-e-ILLAHI na aa paray k aap shaitaan k saathi bann jaayen.{Sura Jaasiya Ayat 45}”.
.
Hazrat Ibraheem AS ne apnay waalid k liay duay maghfirat bhi ki.
.
ALQURAN:
.
” Aur (Aey Allah) meray baap ko bakhsh dey, yaqeenan woh gumrahon mein say tha”
.
magar Irshad e Baari Taala hua:
.
” Aur Ibrahim ka apney baap k liye maghfirat maangna sirf waaday k sabab say tha jo Unnhon ney uss say kya tha, phir jab unn par yeh baat zaahir ho gai k wo Allah ka dushman hai to woh iss say bey taalluq ho gaey{Sura Tauba Ayat 114}”
.
aur saath saath Allah ne ye bhi farma dia:
.
“(Musalmano!) tumharay liye Ibrahim men aur unn k saathiyo’n mein behtareen namoona hai{Sura Mumtahina Ayat 4}”
.
Nabi ki nisbat par Itnay saaray Qurani dalaail k bawajood, agar sunni bhai ye kahai’n k Hazoor S.A.W to tamam Anbiya se afzal hen to Unn se nisbat qaabil e ahtaram ho jaati hai to iss k liay bhi Quran ne Hazoor S.A.W k chacha aur chachi (Abu Lahab aur uss ki bivi) ki muzzamat kar k hujjat tamaam kar di.
.
ALQURAN:
.
“Abu Lahab ky dono’n haath toot gaey aur who (khud) halaak ho gaya. Na to uss ka maal uss k kaam aaya aur na uss ki kamaai. Wo anqareeb bharakney waali aag men jaaey ga. Aur uss ki biwi bhi (jaaey gi) jo lakriyaa’n dhonay waali hai.uss ki gardan men post khajoor ki bati hui rassi hogi {Sura Tabbat Ayaat 1-5}”
.
Ab hamaray sunni bhai ye bhi kah saktay hen k Quran men hai k Rasool ki biviyaa’n momino’n ki maaen hen to hum ye batatay chalain k ye iss liay kaha gaya k Rasool S.A.W k baad bhi unn ka darja maa’n waala rahay ga aur unn se koi shaadi nahi kar sakay ga. Agar momineen ki maa’n kahna, izzat o ahtaraam k liay hota to Rasool S.A.W ko baap kaha jaata, leken Quran ne na sirf ye k Unhain baap nahi kaha balkay baap honay ki nafi ki.
.
ALQURAN:
.
“Muhammad tumharey mardon men se kisi k baap nahi magar Allah k paighamber hen {Sura Ahzaab, Ayat No 40}”
.
to iss ayat se pata chalta hai k “maan” ya “baap” kahna qaabil e ahtaram honay ki nishani nahi warna to baap honay ki nafi kar k (mazallah) Quran ne Rasool S.A.W ko qaabil e ahtaram nahi samjha. Quran ne Hazoor S.A.W ki biviyon ko buhat dafa tanbeeh bhi ki hai.
.
ALQURAN:
.
“Aey Paighambar ki bivio, jo tum men se sareeh naa shaaista harkat karaigi iss ko dugni saza di jaaegi {Sura Ahzaab Ayat 30}”
.
“Aey Paighamber ki biviyo (kissi ajnabi shaks se) narm narm batain na kya karo {Sura Ahzaab Ayat 32}”
.
Agar Nabi S.A.W ki biviyaan har baat bilkul sahi karti thee’n to Allah aisa na kahta. Quran ne ye bhi bataya k Nabi S.A.W ki biviyaa’n unn ka raaz faash kar daiti thee’n.
.
ALQURAN:
.
“Aur yaad karo jab Paighamber ne apni bivi se aik raaz ki baat kahi aur jab uss ne raaz faash kya to Khuda ne Paighamber ko aagaah kar dia{Sura Tahreem Ayat 3}”
.
Nabi S.A.W ki 2 biviyo’n ko Khuda ne Tauba karnay ka bhi kaha:
.
ALQURAN:
.
“(Aey Nabi ki biviyo) agar tum dono’n Khuda k aagay Tauba karo (to bahtar hai kyoon k) tumharay dil jhuk gaey hen aur agar Paighamber ko takleef dainay k liay aik doosray ki madad karo gi to Khuda aur Jibraeel aur naik kirdaar musalmaan aur farishtay inn k haami aur madadgaar hen{Sura Tahreem Ayat 4}”
.
Nabi S.A.W ki biviyon ko unn ki harkatao’n se baaz rakhnay k liay ye bhi kaha “Agar Paighamber tum ko Talaaq de de’n to ajab nahi k Unn ka parwardigaar tumharay badlay, inn ko tum se bahtar biviyaa’n dey dey{Sura Tahreem Ayat 5}”
.
.
hataa k Allah ne apnay Nabi ko ye tak kah dia:-
.
ALQURAN:
.
“Aey Paighamber apni biviyo’n se kah do k agar tum dunya ki zindagi aur iss iss ki zeenat o aaraaish ki khuwaahish mand ho to aao Mein tumhain kuch maal de kar achi tarah se ruksat karoo’n”.
.
Hamara sawaal phir wohi hai k agar Nabi S.A.W ki biviyaa’n bilkul sahi thee’n to Allah ne unnhain Quran men itna kyoo’n jhirka jitna Hazrat Nooh aur Loot AS ki bivi ko nahi daraaya ya Abu Lahab ki bivi ko. aik aur jaga irshaad farmaya:
.
ALQURAN:
.
“(Aey Nabi ki biviyo) apnay gharon men tahri raho aur jiss tarah jaahiliyat k dinon men izhaar e tajammul karti thee’n, iss tarah zeenat na dikhaao {Sura Ahzab Ayat 33}”
.
Hazrat Ayesha to ghar se bhi niklee’n aur Hazrat Ali R.A se jang bhi ki, jab k Rasool S.A.W ki bayan ki gai hadees wazay tor par aisay shaks ko munafiq kah rahi hai jo Hazrat Ali R.A se bughz rakhay. Anbiya ki nisbat pe hum ne Quran ki ayaat dekhee’n aur Khuda ka Nabi S.A.W ki biviyon ko jhirakna bhi daikha, Hazrat Ayesha ki Hazrat Ali R.A se jang taareekh ka hissa hai aur Hazrat Ali R.A se bughz rakhnay waalay ko munafiq samajhna bhi hadees e Nabwi hai jo Sahi Muslim men mojood hai. Sahi Bukhari se aik aur Hadees paish hai:
.
Hazoor S.A.W ne farmaya”Allah ki qasam, agar Meri baiti Fatima bhi chori karaigi to Mein uss k haath katwaanay ka hukam bhi de doo’n ga {Sahi Bukhari English Volume 4, Book 56, Hadith No 681tarjuma}”
.
. . to pata chala k mujrim chaahay Rasool S.A.W ki baiti hi kyoo’n na ho, uss ki saza waisi hi hai jaisay aam aadmi ki. Ab agar Shia, Khulafaa k inkaar par Kaafir aur dozakhi hen to Uss khalifa se jang karnay waali bhi to kaafir aur dozakhi huee’n jinn se bughz rakhna bhi nifaaq hai aur jang karna to. . . aur abhi bhi ahtaraam, Rasool S.A.W ki nisbat se, hi hai to hum wohi kahain gay jo Allah ne farmaya:-
.
ALQURAN:
.
“Kya ye loge Quran men ghor nahi kartay ya (unn k) dilo’n par taalay paray huay hen{Sura Muhammad Ayat 24}”
kuta tu na sabit kardi to ammi ayesha r.a ka dushmn ha muj ka kasm ha sahabar.a ka tum log badtareen kafir ha jo pagal ho gaya ha sahaba r.a ka dushmni ma
Very well-said, Nisar sahab. Ilmi aur mudallal jawab. JazakAllah.
موقع المجتمع العلمي المغربي، المتجدد على مدار الساعة بأخبار علمية، وصور ومقاطع.