پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں مسلم ليگ نواز نے کالعدم دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ یعنی نام نہاداہل سنت والجماعت سے غیر اعلانیہ اتحاد قائم کرلیا
پنجاب کے اندر نئی حلقہ بندیاں تکفیری دھشت گرد دیوبندی جماعت اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کو مضبوط بنانے کا سبب بنیں گی-اس بات کا انکشاف ڈیلی دی نیوز ملتان کے صحافی ندیم شاہ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں کیا ہے-ندیم شاہ نے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات میں مذھبی جماعتوں کے انتہا پسند گروپوں کی مداخلت سیاسی ماحول کو شدت پسندی کے گڑھ میں تبدیل کررہی ہے-
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب کے بعض اضلاع میں مذھبی شدت پسنوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے-ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مسلک دیوبند کی روائتی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے ووٹ بینک میں کمی اور تکفیری شدت پسند دیوبندی جماعت اہل سنت والجماعت جوکہ کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کا دوسرا نام ہے کے ووٹ بینک میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے-
ندیم شاہ کا کہنا ہے کہ پنجاب کے اضلاع جھنگ،مظفرگڑھ،ڈیرہ غازی خان،بہاول پور،بہاول نگر ،خانیوال میں اہل سنت والجماعت کے ووٹ میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے-ان اضلاع میں جو نئی حلقہ بندیاں ہوئی ہیں اس سے کئی یونین کونسلوں اور شہر کے وارڑز میں اس جماعت کی پوزیشن مستحکم ہوئی اور ان کی مداخلت کو وہاں روکنا ممکن نہیں رہا ہے-
تعمیر پاکستان ویب سائٹ کو اپنے زرایع سے پتہ چلا ہے کہ حال ہی میں جھنگ میں اے ڈبلیو ایس جے کے مرکزی دفتر میں خاموشی سے پنجاب کے زمہ داران کا اجلاس ہوا اور اس میں بلدیاتی انتخابات میں ممکنہ امیدواروں پر غور کیا گیا-اور شرکائے اجلاس کو بتایا گیا کہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ بہت سے اضلاع میں سیٹ ایڈجسمنٹ کا فارمولا طے پاچکا ہے-صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے حوالے سے اس اجلاس میں بتایا گیا کہ اہل سنت والجماعت کو زیادہ سے زیادہ ان اضلاع میں اکاموڈیٹ کرنے کا فیصلہ پنجاب حکومت نے کیا ہے جہاں جہاں اس جماعت کا مضبوط ووٹ بینک ہے-جبکہ معلوم ہوا ہے کہ اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان نے جھنگ اور چینوٹ کی اربن کونسل کی چئیرمین شپ مانگی ہیں-
ندیم شاہ کہتے ہیں کہ اگر پچھلے دو قومی انتخابات کا ڈیٹا دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جھنگ سمیت پنجاب کے کئی اضلاع میں اہل سنت والجماعت کے ووٹ بینک میں 40 سے 45 فیصد اضافہ ہوا ہے-ان کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں دیوبندی تکفیری شدت پسندوں کے سیاسی اثر میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ان علاقوں میں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے شرمناک حد تک خستہ اور خراب ہیں-ندیم شاہ کا کہنا ہے کہ 2002ء اور 2008ء اور پھر 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے 2008ء میں اہل سنت والجماعت کے صرف 13 امیدوار میدان میں آئے تھے جبکہ 2013ء میں اس جماعت نے جنوبی پنجاب سے 40 امیدوار قومی اسمبلی کی نشستوں پر کھڑے کئے جن میں اہل سنت والجماعت کے مرکزی صدر محمد احمد لدھیانوی نے این اے 89 سے انتخاب لڑا اور اکہتر ہزار پانچ سو ووٹ لئے جبکہ 2008ء کے انتخاب میں انہوں نے پنتالیس ہزار پانچ سو سولہ ووٹ حاصل کئے تھے-جبکہ دیوبندی مسلک کی روائتی سیاسی جماعت جے یوآئی ف یہاں اپنا امیدوار ہی کھڑا نہیں کرسکی-این اے 190 سے آصف معاویہ نے 37ہزار 794 ووٹ حاصل کئے جبکہ اس جماعت کے امیدوار 2008ء میں صرف 4 ہزار 545ووٹ حاصل کیے تھے-خانیوال این اے 156 خانیوال سے اے ایس ڈبلیو جے کے امیدوار عبدالخالق رحمانی نے 2013ء میں 13 ہزار 598 ووٹ لئے جبکہ یہاں سے جے یو آئی ف کے عبدالمجید صرف ایک ہزار 199 ووٹ لے پائے تھے-
وزرات داخلہ کے کرائسس منجیمنٹ سیل کے مطابق ان کے پاس 1700 افراد کی ایک لسٹ ہے جوکہ دھشت گرد تنظیموں میں ہیں اور بڑے پیمانے پر دھشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں-وزرات داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ان 1700 کا تعلق دیوبند مسلک سے ہے اور سب کے سب اہل سنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے آگے دھشت گرد نیٹ ورک میں شامل ہوئے-ان میں سے 700 دھشت گردوں کا تعلق جھنگ،ڈیرہ غازی خان،مظفر گڑھ اور خانیوال سے ہے-جبکہ ان میں جی ایچ کیو پر حملے کا ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر عثمان ،جنودالحفصہ المعروف پنجابی طالبان کا امیر عصمت اللہ معاویہ اور رانا محمد افضل سمیت کئی ایک اور دھشت گرد جو لاہور آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والے دھشت گردوں کا تعلق بھی خانیوال کی تحصیل کبیروالہ سے ہے-اور یہ سب سپاہ صحابہ پاکستان/اہل سنت والجماعت کے رکن رہے ہیں-
ندیم شاہ کا کہنا ہے کہ ان سے حساس اداروں کے اہلکاروں اور پولیس کے حکام نے پردے کے پیچھے بات کرتے ہوئے کہا کہ اہل سنت والجماعت کے دفاتر اور ان کے مدرسے اور ان کے ممبران ٹی ٹی پی،لشکر جھنگوی العالمی اور دیگر دھشت گرد دیوبندی تنظیموں کے لوگوں کو لاجسٹک سپورٹ اور ریکی کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں-ان کے مطابق جب تک بنتہا پسند دھشت گرد تنظیموں کو نام بدل کام کرنے کی اجازت دی جاتی رہے گی دھشت گردی کے نیٹ ورک کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا-
Comments
comments