توہین رسالت قانون کا غلط استعمال – از حق گو

aa

گوجرانوالہ کی جیل میں ایک دماغی طور پہ معذور شخص محمد ثاقب جو کہ خود کو نبی کہتا ہے خود پہ سزاے موت کے ایک قیدی کی طرف سے ہونے والے حملے میں شدید زخمی ہوگیا ہے – جس کی تفصیلات کے بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں – پولیس کے مطابق دماغ معذور شخص پہ سریے سے وار کے گیے جس کی وجہ چند توہین آمیز الفاظ بتاے جاتے ہیں – پولیس کے مطابق مریض کی حالت اب خطرے سے باہر ہے

چند افراد نے قریباً چھ مہینے پہلے ثاقب کو توہین آمیز الفاظ ادا کرنے پہ پکڑ کے پولیس کے حوالے کر دیا تھا – اور چند دنوں بعد مقامی عدالت نے اسے دماغی طور پر معذور قرار دے کر آزاد کر دیا تھا – اپنی آزادی کے کچھ ہی دن بعد ثاقب نے پھر اسی قسم کے توہین آمیز الفاظ کہے جس پہ اس کے خلاف پھر سے مقدمہ قائم کر کے گرفتار کر لیا گیا – جیل میں اس قسم کے مقدمات میں ملوث قیدیوں پر حملے ہونا کوئی نیی بات نہیں ہے – سیمو ئیل مسیح پہ دو ہزار تین میں یہ الزام لگا کر گرفتار کیا گیا جس کو بعد میں ایک پولیس والے نے قتل کر دیا – دو ہزار نو میں گجرات میں ایک توہین آمیز کتاب چھاپنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جو بعد میں پولیس کی حراست میں ہونے والے حملے میں قتل ہوگیا – دو ہزار نو میں ہی فانش  مسیح کو سیالکوٹ جیل میں قتل کر دیا گیا – انیس سو ستانوے میں گرفتار ہونے والے یوسف علی کو سزاے موت کا قیدی ہونے کے باوجود دو ہزار دو میں جیل میں قتل کر دیا گیا

قومی کمشن براے انصاف کے مطابق پچھلے پچیس سالوں میں ایک ہزار اٹھاون مقدمات  توہین رسالت کے زمرے میں درج ہو چکے ہیں – جب کہ انیس سو ستائیس سے انیس سو پچاسی تک صرف سات مقد مات پورے بر صغیر میں درج ہوے تھے – توہین رسالت کے نام پر جاری ذاتی مخاصمت پہ مبنی مقدمات کا سلسلہ پچھلے تیس سال سے نہایت تیزی کے ساتھ  جاری ہے – خاص طور پہ ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی پاکستان پینل کوڈ قوانین میں ترامیم کے بعد تو یہ سلسلہ مسلسل بڑھتا چلا گیا – ان مقدمات میں باون لوگوں کا ماوراے عدالت قتل ریکارڈ کا حصہ ہے – حاصل کی گیی تفصیلات کے مطابق ان افراد میں بارہ مسیحی ، چودہ احمدی اور چار مسلمان ہیں –

اسی سال لی پنگ جو پاکستان میں چائنا کی مدد سے مکمل ہونے والے بجلی پروجیکٹ میں کام کر رہے ہیں ان پہ ایک مسلمان ورکر کی طرف سے توہین قرآن کا الزام لگایا جو انہوں نے اپنے کمرے میں سے مسلمان ورکر کا  سامان نکالتے ہوے باہر لا پھینکا ہے – پھر تحقیقات کے بعد حکام نے انھیں اس الزام سے بری کر دیا  پچھلے سال ایک نو عمرلڑکی اقرا ندیم جس نے گوجرہ میں مسیحی آبادی جلنے کے واقعہ سے متاثر ہو کر ایک کتاب لکھی تھی اور پھر انتہا پسندوں کی دھمکیوں اور احتجاج کی وجہ سے اسے پاکستان چھوڑ کے جرمنی منتقل ہونا پڑا – اس کتاب میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال پہ سوال اٹھے گیے تھے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ مقدمات زیادہ تر ذاتی مخاصمت کا نتیجہ ہوتے ہیں  –

ورلڈ کونسل آف چرچز نے پچھلے سال جنیوا میں رمشا مسیح کے حوالے سے ہونے والے مقدمے پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا – رمشا مسیح پر قرآن کی بے حرمتی کا الزام تھا – پاکستان میں انسانی حقوق کمشن کے سیکٹری جرنل ای اے رحمان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں نے ذاتی مخاصمتوں کا بدلہ لینے کے لئے توہین رسالت کے قانون کے استعمال کو ایک مشغلہ بنا لیا ہے – جس کی وجہ سے معاشرے کے مجموعی کردار پہ بھی منفی اثر پڑ رہا ہے

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین پاکستانی آئین میں موجود انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں – آرٹیکل سات جو تمام انسانوں کے لئے برابر حقوق بلا کسی تعصب کا کہتا ہے – آرٹیکل انیس جو آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے اور آرٹیکل اٹھارہ جو مذہبی اور فکری آزاد کی ضمانت دیتا ہے –

یہ اختلافی قوانین جو آرٹیکل دو ، تین اور چار کی بھی خلاف ورزی ہیں جو سب لوگوں کو مذہبی آزادی و فکر کی آزادی کا قائل ہے بلا کسی رنگ و نسل اور مذہب و فکر کے تعصب کے جو ہر انسان کو اپنے عقید و مذہب پہ عمل کرنے کی بھرپور آزادی دیتے ہیں – اقوام متحدہ کے مطابق بھی توہین رسالت کے قوانین کا اکثر غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے – ای اے رحمان کے مطابق ہماری حکومت اس معاملے میں خوف زدہ اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے اور وہ اس قانون کے بارے میں کوئی اقدام اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتی – اور نہ ان لوگوں کے خلاف کروائی کرتی ہے جو اس قانون کا غلط استمال کرتے ہیں – جس کی وجہ سے معاشرے میں اٹھا پسندی کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور جوزف کالونی جیسے واقعیات عام ہیں –

پاکستانی ریاست ، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس قانون کی بابت نظر ثانی کریں اور اس میں انسانی حقوق سے متصادم شقوں کو نکالیں اور ساتھ ہی اس کے غلط استعمال پہ کڑی سے کڑی سزا دیں تا کہ ان قوانین کا غلط استعمال روکا جا سکے –

English Version: https://lubpak.com/archives/295591

Comments

comments

WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.