سیف اللہ خالد! کالعدم دہشت گرد جماعت کی حمایت میں اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت

sk

سیف اللہ خالد روزنامہ امت کراچی میں مستقل کالم لکھتے ہیں-اس مرتبہ انہوں نے کالعدم دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ نام نہاد اہل سنت والجماعت صوبہ پنجاب کے سرپرست اعلی مولانا شمس معاویہ کے قتل پر قلم اٹھایا ہے-مولانا شمس معاویہ پر قلم اٹھاتے ہوئے انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ صحافت کو پاکستان کے اندر آگ لگانے اور فساد فی الارض برپا کرنے کا زریعہ خیال کرکے قلم اٹھائے ہوئے ہیں

ویسے مجھے روزنامہ امت کے اداراتی صفحے کے انچارج اور خود چیف ایڈیٹر پر حیرت ہے کہ انہوں نے ایک ایسے کالم کو شایع ہونے دیا جس میں اس ملک کی ایک بڑی مذھبی کمیونٹی کو پاکستان کا وفادار بتلانے کی بجائے ایک پڑوسی ملک(ایران ) کا وفادار کہا گیا-اور اس پوری شیعہ برادری پر یہ الزام بغیر کسی ثبوت کے لگادیا گیا کہ وہ پڑوسی ملک کے مفادات کے لئے کام کررہی ہے-اس کالم میں سیف اللہ خالد نے پاکستان کے پولیس افسران اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے بارے میں عام آدمی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جیسے کہ وہ مولانا شمس معاویہ کو یہ بتاتے رہے ہوں کہ ان کی جان کو خطرہ پڑوسی ملک سے ہے اور وہ ملک پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے اندر سے مولانا شمس معاویہ کے لیے کرائے کے قاتل تلاش کرہا ہے جو اسے مل گئے اور یوں مولانا قتل ہوگئے-بھئی! یہ سیف اللہ خالد اخبار میں کالم نویسی کیوں کررہا ہے اس کو اینٹی ٹیررسٹ فورس کا تفتیشیشی محکمہ کیوں نہیں دیا جاتا جو کراچی بیٹھ کر لاہور میں ہونے والی قتل کی ایک واردات میں ایک پڑوسی ملک کا کردار بھی دیکھ لیتا ہے اور اس پڑوسی ملک کے اشاروں پر ناچنے والوں کو بھی بہچان لیتا ہے-سیف اللہ خالد تو جاسوسی ناولوں کے فرضی کردار شرلاک ہومز سے بھی کئی ہاتھ آگے نکلا-ابن صفی کی جاسوسی کہانیوں کا ھیرو علی عمران اس کے آگے کیا ہوگا؟

سیف اللہ خالد میں زرا بھی شرم اور پاکستان کی عوام سے تھوڑی سی بھی ہمدردی ہوتی تو وہ کبھی ایک ایسے تکفیری دھشت گرد دیوبندی ٹولے کو مظلوم بناکر نہ دکھاتا جس نے اس ملک میں اپنی سازشوں اور تخریب کاریوں سے دیوبندی اور شیعہ مکاتب ہائے فکر کے درمیان بہت زیادہ فاصلے پیدا کرڈالے ہیں اور بلکہ اس گروہ کے اعتدال پسندوں کو دیوار سے لگا دآلا ہے-اس گروہ نے پورے پاکستان کی مذھبی ہم آہنگی کو تباہ و برباد کردیا اور پاکستان کے معصوم شہریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے سے بھی گریز نہ کیا-

سیف اللہ خالد میں اگر صحافتی دیانت داری کا مادہ ہوتا تو وہ اپنے پڑھنے والوں کو یہ ضرور بتاتا کہ جامعہ اشرافیہ سے سند فراغت پانے والا ایک ایسا مذھبی سکالر جس نے تخصص فی الحدیث کررکھا ہو اور وہ جامعہ اشرافیہ کے ان استادوں سے پڑھا ہو جو نمونہ اعتدال تھے کیسے تکفیری خارجی فکر کا اسیر ہوا؟کیسے اس نے درس نظامی میں پڑھی کتب دینیہ میں امن آشتی کے دروس کو نظر انداز کیا؟مجھے مولانا شمس معاویہ کے تکفیری دیوبندی دھشت گرد تنظیم سے تعلق پر سیف اللہ خالد کی چشم پوشی پر حیرانگی نہیں ہے لیکن کاش وہ یہ بتاتے کہ اہل سنت بریلوی مسلک کے علماء لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر حملے کا ماسٹر مائنڈ اسی مولوی شمس معاویہ کو قرار دیتے ہیں-ان کے خیال میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت میں اور لاہور ہائیکورٹ کے وکیل ذاکر رضوی ایڈوکیٹ اور کنگ ایڈورڈ کے ڈاکٹر اور ان کے کم سن بیٹے کی ہلاکت میں بھی شمس معاویہ کا کردار دیکھتے ہیں-یہ باتیں مولوی شمس معاویہ کے بارے میں بہت مشہور تھیں اور مولوی صاحب نے کبھی بھی جامعہ اشرافیہ سے تخصص فی الحدیث کرنے سے حاصل ہونے والے علم کو خیر خواہی اور نصحیت آموزی میں استعمال میں لانے کی بجائے بین المسالک ہم آہنگی کو ختم کرنے میں استعمال کیا اور عوام کو فرقہ وارانہ تنگ نظری کا شکار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی-اگر مولوی شمس معاویہ اپنے اساتذہ میں سے استادالعلماء شیخ الحدیث عبید اللہ انور کی صلح جوئی اور رواداری سے کوئی سبق سیکھ لیتے تو وہ اس راستے پر نہ چلتے جس پر سوائے اندھیرے کے اور کچھ نہیں تھا-

سیف اللہ خالد نے اس کالم میں شیعہ کے خلاف سادہ لوح دیوبندی نوجوانوں کو اکسانے کی بہت کوشش کی ہے-انہوں نے اہل سنت سواد اعظم کی گنتی دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے کھاتے میں ڈال کر ان کی مظلومیت کی جعلی اور جھوٹی داستان سنانے کی کوشش کی-سیف اللہ خالد اقلیت کے اکثریت پر قبضے کا ماتم کرتے رہے مگر یہ اقلیتی ٹولہ شیعہ نہیں ہے بلکہ تکفیری دیوبندی دھشت گرد ہے اور پڑوسی ملک کی بجائے اس ٹولے کو جہاں سے مدد ملتی ہے اس کا تذکرہ بھی کرنے سے وہ گبھرا گئے-سیف اللہ خالد سعودیہ عرب کی مداخلت اور وہاں سے آنے والی تکفیری آئیڈیالوجی کا تذکرہ بھی بھول گئے- وزیرستان کے کیمپوں سے آنے والے بمباروں کا تذکرہ کرنا بھی ان کو بھول گیا –سیف کا مقصد کالم میں آگ بھجانا نہیں بلکہ اس کو بھڑکانا لگتا ہے-وہ پہلے کالم نگار اور امت پہلا قومی اخبار ہے جس کے ادارتی صفحے پر فرقہ وارانہ آگ لگانے کی کوشش دھڑلے سے کی گئی ہے-

حیرت اس بات پر بھی ہے کہ کراچی میں کسی نے ان توھین آمیز جملوں کے ساتھ شایع ہونے والے کالم پر کوئی نوٹس نہ لیا-یہ اخبار اے پی این ایس اور سی پی این آئی کا رکن بھی ہے-ان دونوں اداروں اور پاکستان پریس کونسل کو اس کالم میں استعمال گئی اشتعال انگیز زبان پر نوٹس دینا چاہئيے –

سیف اللہ خالد نے اپنے اس کالم کے اندر اہل سنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کی شیعہ کے خلاف نفرت انگیز اور تشدد و قتل پر اکسانے والی مہم کا جواز پیش کرنے کے لیے ناموس اصحاب رسول کے بارے میں ایک خوف پیدا کرنے کی کوشش اسی طرح سے  کی ہے جس طرح سے آج تکفیری ،خارجی دیوبندی دھشت گرد ٹولہ کررہا ہے حالانکہ جس پڑوسی ملک کے بارے میں ان کا قلم آک اگل رہا ہے اس کے سب سے طاقتور روحانی اور سیاسی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک فتوی جاری کیا ہے جس میں اصحاب رسول ،امہات المومنین کے بارے میں سب و شتم کرنے اور تبراء کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور پاکستان میں بھی ملی یک جہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اہل تشیع کی نمائندہ جماعتوں نے اصحاب رسول کی توھین کرنے کو حرام قرار دیتے ہوئے ایسے شرپسندوں سے اظہار لاتعلقی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا-لیکن کتنے افسوس کی بات ہے آج تک دیوبندی تکفیریوں کے ہاں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت اور قیام کے بارے میں توھین آمیز کلام کا سلسلہ جاری ہے اور یزید کی مدح سرائی کی جارہی ہے-مشاجرات اصحاب رسول کا قصّہ اگر بازاروں اور چوراہوں پر کوئی لیکر آیا ہے تو وہ سپاہ یزید کے جلسے اور جلوسوں میں شروع ہوا-شیعہ کی عاشورہ کی مجالس اور جلوسوں کو بدنام کرنے کے لیے کہا جارہا ہے کہ ان میں تبرا ہوتا ہے-جبکہ ان مجالس میں اگر تبرہ ہوتا ہے اور برائت کا آظہار ہوتا ہے تو وہ یزید اور اس کے ساتھیوں سے ہوتا ہے اور اس کے فسق و فجور اور کفر کے بارے میں کسے شک ہوسکتا ہے اور اس کے لعنتی ہونے میں کس مومن اور کس مسلم کو اعتراض ہوسکتا ہے؟سیف اللہ خالد اگر تم اور تمہارے ممدوح عاشق اہل بیت اطہار ہوتے اور حقیقی محب اصحاب رسول ہوتے تو تم ان کی مدح سرائی نہ کرتے جو یزید کو ھیرو اور امام حسین کو باغی بنانے پر تلے بیٹھے ہیں جو عاشورہ کے دنوں میں شادیاں رچاتے ہیں اور یہاں تک کے شام غریباں کو شب زفاف مناتے ہیں-اور فضائل اہل بیت اطہار پر جن کے دل تنگ ہوتے ہیں تو ان کے خلاف تمہارا قلم سیف کیوں نہیں بنتا اور کیوں تمہارے لفظوں کا قہر ان پر نہیں ٹوٹتا جو اولیاء اللہ کے مزارات کو تباہ کرتے ہیں جو ہسپتالوں پر بم مارتے ہیں اور تم ان مدرسوں کے بارے میں لب کیوں سی لیتے ہو جن سے چلنے والا دھشت گرد عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر پھٹ جاتا ہے اور بھکر سے تکفیری دھشت گرد ایک تکفیری دیوبندی مدرسے سے چل کر اہل سنت سواد اعظم کے عظیم عاشق رسول ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی جان لیتا ہے اور ایک دھشت گرد جو تمہارے ممدوح کی منصوبہ بندی سے جاکر حضرت داتا گنج بخش کے مزار پرانوار پر جاکر پھٹ جاتا ہے-پیر سمیع اللہ کو مثلہ کرکے درخت سے اس لیے لٹکا دیا جاتا ہے کہ وہ یارسول اللہ قرۃ عینی (یارسول اللہ آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو) سیف اللہ کہلانے والے خارجی تم کیا جانو عشق و مستی کیا ہوتی ہے ؟تم کیا جانو عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اہل بیت اطہار کیا ہے ؟ تمہیں تو عقیدتوں اور آداب کے سارے قرینے شرک لگتے ہیں اور بدعت کا بخار تم کو چڑھنے لگتا ہے-اہل سنت کے نام سے تم اب زیادہ دیر لوگوں کو دھوکہ نہیں دے سکو گے-ناموس اصحاب رسول اور عترت رسول کے مقام کو کوئی خطرہ اگر ہے تو وہ سپاہ یزید سے ہے جو حرمت و ناموس رسول کی حفاظت کرنے والے عاشقوں کو بدعتی اور مشرک کہہ کر مارنے پر لگی ہوئی ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. ignorantways
    -
    • Sohail Raza Khan
      -
  2. umar maaviya
    -
    • umar maaviya
      -
      • Abdullah
        -
    • Tikson
      -
      • umar maaviya
        -
        • Abdullah
          -
  3. Raza Qadri
    -
    • Tikson
      -
      • umar maaviya
        -
        • sunni muslim
          -
          • umar maaviya
            -
        • Abdullah
          -
  4. امیر حیدر
    -
  5. Ali
    -
  6. Hasan
    -
  7. Usman Farooqi
    -
  8. Usman Farooqi
    -
  9. Ahsan Shah
    -
  10. قمر رضوی
    -
  11. پرویز علی خان
    -