فخر منبر – علامہ رشید ترابی – از آصف زیدی
اردو زبان ، عربی یا فرانسیسی کی مانند بلا شبہ خطابت کے لئے از حد زرخیز ہے – چنانچہ اس زبان نے بے شمار ا علی پاے کے خطیب پیش کے ہیں – میں نے ان میں سے اکثر کو سننے کی سعادت حاصل کی ہے – ان میں شورش کاشمیری اور عطا اللہ شاہ بخاری جیسے نابغہ روزگار خطیب شامل ہیں – بدقسمتی سے بہادر جنگ یار کی ریکارڈنگ دستیاب نہیں ہے لہذا میں انھیں سننے سے محروم رہا – تاہم اپنی تمام زندگی میں میں نے علامہ رشید ترابی جیسا غیر معمولی خطیب نہیں دیکھا –
علامہ صاحب کی داستان نہ صرف فصاحت و بلاغت کی داستان ہے بلکہ ایک غیر معمولی حافظے کی داستان بھی ہے – یہ ایک اجتماعی شعور کی پرورش کی داستان ہے – یہ زندگی کے نصب العین سے وفا اور ایثار کی داستان ہے – یہ نہ صرف عزا ے حسین (ع) کی داستان ہے بلکہ یہ اردو زبان و ادب ، فلسفہ و منطق ، رجال ، کلام ، حرف و نحو اور اسلام کی داستان بھی ہے – یہ ایک مدرسے کی داستان ہے جو اس سے اکتساب کرنے والوں کا حزر جان ہوگیی – گرچہ یہ مدرسہ اس وقت ہم سے رخصت ہوگیا جب میری عمر صرف گیارہ برس تھی مگر یہ اسی مدرسے کا فیض ہے کہ اس قدر نو عمری میں بھی میں ان کی تقریر کی جزئیات کو سمجھتا تھا – اور اس کے بعد اس مدرسے کی گونج طلوع و غروب سے بے نیاز ہمہ وقت میرے ساتھ رہی
علامہ صاحب کی عظمتوں کے آہنگ کو سمیٹنے کی تاب میری تحریر میں کہاں مگر اگر کوئی دل سے جمعی سے پڑھنا گوارا کرے تو یہ داستان کی خوبی ہے قصہ گو کی نہیں – علامہ صاحب ایک ایسے ہمہ جہت شخصیت تھے جو عالم ، مبلغ ، خطیب ، شاعر ، محقق اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کے پر جوش کارکن بھی تھے – وہ ملت کے اتحاد کے پر جوش حامی تھے اور انہوں نے تمام عمر اس مقصد کے لئے جان فشانی کی –
علامہ رشید ترابی تین جولائی انیس سو آٹھ کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوے – آپ کے والد مولوی شرف الدین ایک اعلی سرکاری عھدے پھر فائز تھے – آپ کے بھائی مظہر علی خان پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے جبکہ دیگر تین بھائی بھی قابلیت کے مدارج پر فائز رہے -علامہ صاحب وہ پہلے ذاکر تھے جنہوں نے سولہ سال کی عمر میں عنوان مقرر کر کے تقریر کرنے کی بنیاد ڈالی – آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے پریس پبلیشر افسر رہے – اور قائد ا عظم کی ہدایت پر نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ بر صغیر کا دورہ کیا – آپ انیس سو چالیس میں حیدر آباد دکن کی اسمبلی کے رکن بنے – انیس سو چوالیس میں آپ ناصر الملت کی خواہش پر لکھنو آ گیے – قیام پاکستان کے بعد آپ انیس سو انچاس میں کراچی آ گیے – اور عملی سیاست کو خیر آباد کہہ کر خود کو ذکر حسین (ع) کے لئے وقف کر دیا – آپ کی اولادوں میں عقیل ترابی ، بتول ترابی ، بیگم نواب خیر پور ، نصیر ترابی اور سلمان ترابی زیادہ جانے جاتے ہیں – علم ، خوش گفتاری اور حرف و حکایات میں یکتا یہ بے مثال انسان اٹھارہ دسمبر 1973 کو ہم سے رخصت ہوا
خطابت ایک ایسا تخلیقی وصف ہے جو سامعین کو اکائی میں ڈھال دیتا ہے اور ان کے دماغوں میں یکسانی اور دلوں میں جولانی آجاتی ہے – علامہ رشید ترابی اس واصف کی معراج کا نام ہے – علامہ صاحب بیان کے دھنی اور الفاظ کے غنی تھے – ان کے نطق پر الفاظ و معنی سحر آگیں کیفیت رکھتے تھے – انسان مبہوت ہو جاتا تھا – آواز میں کڑک بھی تھی – گفتگو میں رنگینی بھی اور لہجے میں شیرینی بھی – ایک مرتبہ دستہ سخن کھلتا اور فسفہ شہادت بیان ہوتا تو مجمع لوٹ پاٹ ہو جاتا – شیعہ ہو یا سنی سب ہی مسحور ہو جاتے -نہ کوئی فرقہ وارانہ بول ہوتا نہ کوئی مخفی یا جلی طنز – نہ کوئی اختلافی پہلو ہوتا نہ الفاظ کا خروش – معانی نگینہ ، چشمہ مانئ بہہ رہا ہوتا – یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایک گل زار تھا جس میں بہت سی روشیں ، انگنت شاخیں اور ان پہ کھلے ہوے پھول تھے – شاعری کے پھول ، علم الکلام کے پھول ، تاریخ کے پھول ، فلسفے کے پھول ، استدلال ہوتا تو بے پناہ جذبات کا ذکر کریں تو بے کراں – انداز یوں ہوتا کہ وہ ایک کارواں پہ رواں ہوے اور ان کا حسین (ع) ان کے ساتھ – علامہ صاحب داستان گو نہ تھے مگر ان کے طرز گفتار میں بلا کا سحر تھا – اپنی وسعت نظر و وسعت زبان کے باوجود وہ اپنے سامعین کو چند لمحوں میں اس طرف پیے سحر کر لیتے تھے کہ ایک ایک فقرے پر مجمع تڑپ اٹھتا تھا – وہ قرآن ، رومی ، حافظ اور اقبال کے مکمل حافظ تھے – انھیں نہج البلاغہ کے مکمل علم کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پر بھی تقریباً دسترس حاصل تھی –
علامہ صاحب کے وجود معنوی میں علم و گفتار کا بحر بے کراں موجزن تھا – آج ان کو ہم سے رخصت ہوے چالیس برس ہوگیے مگر لگتا ہے ساز خطابت اب تک برہم ہے – وہ ایسے شاعر تھے جنہوں نے جواب شکوہ لکھ کر علامہ اقبال کو ایک نیی جہت پر لگا دیا تھا – آج جب میں ان کی یادوں کی قندیل روشن کرنے بیٹھا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ آواز ذہن میں گونج رہی ہے جس نے مجھے یہ احساس دیا کہ انسانی آواز ایک سحر بھی ہوتی ہے – ایسی آواز کہ سننے والے پتھر کی طرح جامد و ساکت ہو جایں اور صرف آواز میں کھو جایں – سچ ہے – انسان بولے تو رشید ترابی کی طرح بولے کہ نطق و گفتار معجزے کی صورت اختیار کر جایں –
یہ ذکر حسین (ع) کا فیض ہے کہ ان کی یاد کا اجالا اس دن ختم ہوگا جس دن آخری سورج غروب ہوگا –
ہے تیرے ذکر کی عطا ذکر رشید ہے یہاں
سب کو میں یاد رہ گیا صدقے تیری یاد کے
Comments
Tags: Allama Rasheed Turabi, Imam Hussain, Karbala, Urdu
Latest Comments
Beautiful and touching the heart. Writer has drank from the waters of knowledge, faith, wisdom, truth and emotions of Allama Sahib and imbibed it in every cell of his body.
Very well written. Indeed, Mr. Turabi was an amazing speaker. Despite the Shi muslims, he was equally popular among us as well. My father used to listen to him in Nishter Park every day during Mohorram. May Allah bless him for his love of Holly Prophet, his pure family and all those people who loved Holly Prophet in his life and after his death.
Allama Rasheed Turabi was an institution by himself. Many speakers came after Allama Turabi but no one could take his place. He was a legend like Syed Sibtey Jafar Shaheed in soaz-o-salam & marthia. Asif your article is brief but it pretty much captures the great memories of my childhood as well. At that time I could not comprehend as much, now when I listen to recorded majalis, subhanAllah; it is epic.