ایک عظیم سائنسدان کے ساتھ ہم نے کیا کیا – از وسیم الطاف
یہ تحریر وسیم الطاف صاحب نے انگریزی میں لکھی تھی اور ویو پوائنٹ آن لائن کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی۔ ۔ ہم اس کا ترجمہ یہاں پیش کر رہے ہیں کیوں کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ اہم معلومات عام پاکستانی تک بھی پہنچنی چاہئیں۔ اصل انگریزی متن کے لئے اس لنک پر کلک کریں:
ایک محکمہ تعلیم کے ہیڈ کلرک کا بیٹا تھا تو دوسری ایک چھوٹے سے ٹھیکیدار کی بیٹی جو سات برس کی عمر میں یتیم ہو گئی ۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والے ان دونوں افراد کو ۱۹۷۹ء(1979) میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ایک عبدالسلام اور دوسری اماں ٹریسا تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ، جوکہ پہلا اور شاید آخری پاکستانی تھا جسے نوبل انعام ملا ، نے ساری زندگی پاکستانی شہری رہنا پسند کیا اگرچہ ان جیسا عالم فاضل شخص اگر کسی بھی ملک کی شہریت قبول کرتا تو یہ اس ملک کے لئے اعزاز کی بات ہوتی۔ تاہم انہوں نے ایک ایسے ملک کا شہری رہنا پسند کیا جس نے مرنے کے بعد بھی انہیں رسوائی کے سوا کچھ نہ دیا۔
نومبر ۱۹۹۶ء (1996)میں جب اس عظیم سائنسدان کو ربوہ (جسے بعد میں ۱۹۹۸ میں پنجاب اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے چناب نگر کا نام دیا گیا) میں دفن کیا گیا تو ان کی قبر کی تختی پر یہ عبارت درج کی گئی “عبدالسلام پہلا نوبل انعام یافتہ مسلمان”۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایک پولیس والا ایک مجسٹریٹ کا ہمراہ ان کی قبر پر گیا اور لفظ “مسلمان” مٹا دیا۔ اب ان کی قبر پر نا معقول عبارت درج ہے “دنیا کا پہلا نوبل انعام یافتہ….”۔ بدقسمتی سے دنیا کے اِس حصے میں آج بھی ریاست فیصلہ کرتی ہے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں۔
یہی انعام حاصل کرنے والی دوسری خاتون چھوٹے سے قد کی لاغر سی بوڑھی عورت اماں ٹریساکلکتہ میں کوڑھ کے مرض میں مبتلا لوگوں کا علاج کرتی تھی اور مذہباً عیسائی تھی۔ ۱۹۴۸ میں انہوں نے ہندوستانی شہریت قبول کر لی۔ اماں ٹریسا کی آخری رسومات یوں ادا کی گئیں جیسے کسی شہنشاہ کی۔ جس بگھی میں مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کی میتیں لے جائی گئیں تھیں اسی بگھی میں اماں ٹریسا کی میت بھی نیتا جی اسٹیڈیم میں لے جائی گئی۔ لاکھوں لوگ گلیوں میں میت دیکھنےنکل آئے تھے کیونکہ وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ہندوستانی شہری تھیں نہ کہ کافر
۱۹۵۲ میں جب ڈاکٹر عبدالسلام کی گورنمنٹ کالج لاھور میں ریاضیات کے شعبے کے سربراہ کے طور پر تقرری ہوئی تو انہیں سرکاری رہائش گاہ نہیں ملی۔ جب انہوں نے وزیر تعلیم سردار عبد الحمید دستی کے سامنے اس مسئلے کا ذکر کیا تو وزیر تعلیم نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ بعد میں پرنسپل پروفیسر سراج الدین نے انہیں فٹ بال ٹیم کا انچارج بنا دیا۔ اس بات پر ڈاکٹر صاحب ساری زندگی افسوس کرتے رہے کیونکہ یہ کام ان کے مزاج سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ ایک ایسا شخص جو کیمبرج میں روزانہ 14گھنٹے پڑھنے لکھنے میں گزارتا تھا اس کے لئے یہ ذمہ داری محض وقت کا ضیاع تھا۔
پروفیسر وولف گینگ پالی جن کو ۱۹۴۵(1945) میں نوبل انعام ملا تھا اپنی کرسمس کی چھٹیاں گزارنے ہندوستان گئے تو انہوں نے ڈاکٹر عبد السلام کو بمبئی آنے کی دعوت دی۔ وہ ایک ہفتے کے لئے ہندوستان چلے گئے۔ جب واپس آئے تو ان پر بغیر اجازت غیر حاضر رہنے کی فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ اس پر وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ وہ یورپ کی آزادیوں کے عادی تھے۔ خیر بعد میں ڈائریکٹر کی مداخلت پر ان کی غیر حاضری کو بلا معاوضہ رخصت میں تبدیل کر دیا گیا۔
نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر سلام پاکستان آئے۔ دسمبر ۱۹۷۹(1979) میں لاہور ، پشاور اور اسلام آباد میں جونئیر فوجی افسروں نے ان کا استقبال کیا۔ یہ فوجی افسر صوبوں کے گورنروں اور صدر کے ملٹری سیکریٹری تھے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں ان کے استقبال کے لئے ایک کانووکیشن کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں انہیں اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا جانا تھا۔ تاہم اس کانووکیشن کو منسوخ کر دیا گیاکیونکہ جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے طلباء نے دھمکی دی تھی کہ وہ اس تقریب پر حملہ کر دیں گے۔ چنانچہ اس تقریب کو قومی اسمبلی ہال میں منقتل کر دیا گیا۔ لاھور میں پنجاب یونیورسٹی میں ان کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا تاہم اسے بھی سینٹ ہال منتقل کر دیا گیا کیونکہ ان کے خلاف مظاہرے کئے گئے تھے اور دھمکیاں دی گئی تھیں کہ ڈاکٹر سلام کو قتل کر دیا جائے گا۔پنجاب یونیورسٹی نے انہیں اعزازی ڈگری دینے سے انکار کر دیا اور گورنمنٹ کالج نے تو انہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت تک نہیں دی۔
اگرچہ یہ بات جنرل ضیا کے لئے خفت کا باعث تھی تاہم اسے اس عظیم سائنسدان کو خوش آمدید کہنا ہی پڑا بلکہ وہ ٹی وی پر ان کے ساتھ نظر بھی آیا۔ تاہم ڈاکٹر سلام کی تقریر کے وہ حصے نشر نہیں کئے گئے جن میں انہوں نے کلمہ پڑھا تھا یا دیگر اسلامی جملے کہے تھے۔ یہ ڈاکٹر سلام کی خوش بختی تھی کہ کسی راسخ العقیدہ مسلمان نے ضیا کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت ملک کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو چھ ماہ کی قید با مشقت کی سزا دلانے کے لئے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔
دو سال بعد ۱۹۸۱میں وہ ہندوستان گئے تو وہاں کی پانچ یونیورسٹیوں نے انہیں اعزازی ڈگریاں دیں۔ ان میں گرو دیو نانک یونیورسٹی بھی شامل تھی جہاں انہوں نے پنجابی زبان میں تقریر کی۔ اس یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کی درخواست پر لاہور اور جھنگ سے ان کے چار اساتذہ کو بھی اُس تقریب میں بلایا۔ وہاں کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں اپنے گھر بلایا اور خود اپنے ہاتھوں سے ان کے لئے کافی بنائی اور اس ملاقات کے دوران میں وہ ان کے قدموں میں قالین پر بیٹھی رہی یہ کہ کر کہ ایک عظیم مہمان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ اُس کا انداز ہے۔
۱۹۸۶ میں یونیسکو میں ڈائرکٹر جنرل کا عہدہ خالی ہوا تو اس کے لئے دنیا بھر سے نام مانگے گئے۔ ڈاکٹر سلام چاہتے تھے کہ انہیں نامزد کیا جائے اور تقریباً ہر کسی کا خیال تھا کہ وہ منتخب ہو جائیں گے۔ مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ نامزدگی متلعقہ شخص کے ملک کی حکومت کی طرف سے کی جائے۔ پاکستان نے لیفٹنٹ جنرل (ر) یعقوب خان کو نامزد کر دیا۔ برطانیہ اور اٹلی کی حکومتوں نے ڈاکٹر صاحب کو پیشکش کی کہ اگر وہ ان کی شہریت قبول کر لیں تو وہاں کی حکومتیں ڈاکٹر صاحب کو نامزد کر دیں گی مگر ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا۔ پاکستان کے نامزد کردہ فوجی جرنیل کو صرف ایک ووٹ ملا۔ فرانس کی حکومت نے یونیسکو میں اپنے نمائندے پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے فوجی جرنیل کو ووٹ دے تو اس نے صاف انکار کردیا۔ جب زیادہ زور دیا گیا تو اس نے یہ کہ کر استعفٰی دے دیا کہ “وہ مر جائے گا مگر یونیسکو کا سربراہ کسی فوجی جرنیل کو نہیں بننے دے گا”۔
ڈاکٹر سلام ۲۱ نومبر ۱۹۹۶ (1996)کو آکسفورڈ میں انتقال کر گئے تو دنیا جہان سے ان کے لئے تعزیتی پیغامات آئے۔ لاہور میں مقیم ان کے بھائی نے حکومت سے پوچھا کہ کیا ان کی میت کو کوئی پروٹوکول دیا جائے گا تو انہیں اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ چنانچہ انہیں ربوہ میں ان کی ماں کے قدموں میں دفن کر دیا گیا۔
سائنسدان ڈاکٹر سلام کے پاس ایک وژن تھا وہ اس پسماندہ معاشرے کے تعلیم اور سماجی میدانوں میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ وہ جھنگ جیسے پسماندہ علاقوں کے غریب مگر ہونہار بچوں کے لئے مواقع پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جھنگ کے تعلیمی اداروں کے لئے عطیات دئے۔ وہ ان اداروں کو تعلیم، امن اور یگانگت کے مراکز بنانا چاہتے تھے۔ شاید مرحوم ڈاکٹر جھنگ کو ماڈل ضلع بنانا چاہتے تھے۔
تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ ہمارے معاشرے کے خود کش رجحانات جن کے شکار خود ڈاکٹر سلام بھی تھے نے ہمیں گھیر لیا۔ جھنگ آج پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کا مرکز بن چکا ہے۔ دہشت گرد تنظیموں سپاہِ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی کے مراکز یہیں ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق القائدہ اور طالبان کے نیٹ ورک بھی یہاں پھل پھول رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ تعلیم اور آگہی کی کمی سے پیدا ہونے والے خلا کو جہالت اور انتہاپسندی پُر کرتے ہیں۔ کیا ہم آج بھی اپنی ترجیحات میں مکالمے کی طاقت کو طاقت کے مکالمے سے اوپر لا سکتے ہیں۔ یہ وہ خیال ہے جس کی ترویج ڈاکٹر سلام ساری زندگی کرتے رہے۔
خدمات، ایوارڈس، اعزازی ڈگریوں کی تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیے
Source :
http://thelalajie.wordpress.com/2011/11/12/drabdulsalam/
Comments
Tags: Ahmadiyya Muslims & Persecution, Dr. Abdus Salam, Religious extremism & fundamentalism & radicalism, Sectarianism
Latest Comments
Thanks in favor of sharing such a pleasant thought, piece of writing is fastidious, thats why i have read it completely