پاک سعودی ایٹمی ڈیل – دال میں کچھ تو کالا ہے – تعمیر پاکستان رپورٹ

پاک-سعودی ایٹمی ڈیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دال میں کچھ تو کالا ہے

تعمیر پاکستان رپورٹ

بی بی سی نیوز نائٹ نے پاکستان اور سعودیہ عرب کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک مبینہ ڈیل کے بارے میں 6 نومبر کو ایک نیوز سٹوری چلائی جس میں یہ کہا گیا کہ ان کے پاس مصدقہ انٹیلی جنس رپورٹس ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان سعودیہ عرب کو ایٹمی ہتھیار منتقل کرنے پر رضامند ہوگیا ہے-اس ڈیل کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کا توڑ کرنا ہے-اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماضیکی نسبت اب سعودیہ عرب پاکستان سے ایسے ڈیوائسز کو منتقل کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے-http://www.bbc.co.uk/news/world-middle-east-24823846

Saudi Arabia’s undisclosed missile site

جیسے ہی یہ سٹوری بی بی سی نیوز نائٹ میں شایع ہوئی تو سب سے پہلے پاکستان کی وزرات خارجہ کے ترجمان نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ یہ رپورٹ ایک ٹیبل سٹوری سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے-پھر سعودی عرب کے وزارت خارجہ کی جانب سے بھی یہ بیان جاری کیا گیا کہ ایسی کوئی ڈیل پاکستان سے نہیں ہوئی ہے-

یہ سٹوری ایران اور فائیو پلس بلاک کے درمیان جنیوا میں ایرانی ایٹمی پروگرام پر ہونے والے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے شروع ہونے سے ایک رات پہلے بی بی سی نیوز نائٹ میں چلائی گئی جس کا ایک مقصد مغرب اور امریکہ کو یہ بتانا بھی ہوسکتا ہے کہ ریاض کے پاس ایران اور مغرب کے درمیان ڈیل کی صورت میں یہ آپشن بھی موجود ہے-

سائمن ہینڈرسن جوکہ امریکہ کے اہم صحافی شمار ہوتے ہیں انہوں نے اپنی تازہ سٹوری میں لکھا ہے کہ اس سٹوری کو یکسر رد کرنا اور اسے فیک قرار دیںا بہت مشکل ہے-ان کے خیال میں اوبامہ انتظامیہ بھی اس کو محض افواہ کہہ کرمسترد نہیں کرسکتی-

http://www.foreignpolicy.com/articles/2013/11/08/the_nuclear_handshake_saudi_arabia_pakistan

سائمن ہینڈرسن کے مطابق اس سٹوری میں جو بنیادی تھیم ہے وہ سعودی عرب کے اندر کافی مہینوں سے گردش کررہا تھا-اور یہ تھیم ہے کہ اگر مغرب ،امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی ممکنہ ڈیل طے پاجاتی ہے تو پھر سعودیہ عرب کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟مڈل ایسٹ پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پالیسیوں پر ریاض فرسٹریشن کا شکار نظر آتا ہے-

نیٹو کے سینئر عہدے دار جوکہ فیصلے کرنے میں اہم ترین کردار رکھتے ہیں نے امریکہ کے موقر جریدے فارن پالیسی کو بتایا کہ اگر پاکستان سے ایٹمی ہتھیاروں کی منتقلی سعودیہ عرب میں ہوتی ہے تو یہ اقدام سعودیہ کی جانب سے واشنگٹن کو ناخوش کرنے کا سبب بنے گا-

سائمن ہینڈرسن نے پاکستان اور سعودیہ عرب کے درمیان ایٹمی پروگرام میں تعاون اور مدد کرنے کے سلسلے کے آغاز کا سراغ لگانے کی سعی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

“پاکستان اور سعودیہ عرب کے درمیان ایٹمی پروگرام پر تعاون کی تاریخ 1970ء میں شروع ہوئی جب سعودی کنگ شاہ فیصل ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر پاکستان کے یورونیم افزدگی کے پروگرام کی مالی امداد کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی-پہلی مرتبہ پاکستان کی جانب سے یورونیم کی افزدگی کا پروگرام شروع کرنے کا انکشاف 1979ء میں پریس میں ہوا اور اس وقت پاکستان میں موجود غیر ملکی ڈپلومیٹس اور صحافیوں کو یقین تھا کہ یہ پروگرام صرف اور صرف سعودیہ عرب کے مالک تعاون سے چلایا جاسکتا ہے-

کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کے سابق سربراہ اور پاکستان کے ایٹم بم کے خالق کہلائے جانے والے سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر نے سعودیہ عرب کا 4 سے زیادہ مرتبہ دورہ کیا-اور ان دوروں میں وہ سعودی حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے-بلکہ ان کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ سعودیہ عرب نے ان کو شہریت کی پیشکش کی اور ان کو سعودیہ عرب کے ایٹمی پروگرام کا سربراہ بننے کی آفر بھی ہوئی-

جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے دور میں سعودیہ عرب سے پاکستان کے تعلقات میں مزید بہتری آئی اور اس زمانے میں سعودیہ اہلکار پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کہوٹہ کا دورہ بھی کرتےرہے-

یار رہے کہ 1999ء میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر سعودیہ وزیر دفاع پرنس سلطان پاکستان تشریف لائے تو ان کو کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا دورہ کرایا گیا اور اس موقعہ پر وزیر اعظم میاں نواز شریف ،جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان کے ہمراہ تھے-پرنس سلطان نے اس دورہ میں یورونیم افزدہ کرنے والے سینٹری فیوجز میں کہری دلچسپی ظاہر کی تھی-اس دورے میں سلطان بن عبدالعزیز کے بیٹے خالد بن سلطان بھی ہمراہ تھے جو 2013ہ تک نائب وزیر دفاع رہے اور وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے خاصے پرجوش تھے-یاد رہے کہ انہی سلطان بن عبدالعزیز کے بیٹے بندر بن سلطان ہیں- جو کہ انٹیلی جنس چیف بھی رہے اور وزیر داخلہ کے عہدے پر بھی فائز ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ سلفی جہادی گروپوں کے شام اور عراق میں نیٹ ورک کے بگ باس ہیں اور ان کے افریقہ اور چیچن مذھبی سلفی دھشت گرد نیٹ ورکس سے بھی تعلقات ہیں-اور یہ بندر بن سلطان تھے جنہوں نے امریکہ سے اسلحہ کی ڈیل کی منسوخی پر چین سے سی ایس ایس 2 مزائیل خریدنے میں کامیابی حاصل کی تھی-یہ بھی یاد رہنا چاہئیے کہ پرنس بندر بن سلطان امریکی صدر بش کے ایران اور شام میں جمہوریت لانے کے پروگرام کے زبردست حامی رہے اور اس پروگرام کو فنڈز بھی فراہم کرتے رہے-جب سعودیہ عرب کے مشرقی علاقوں میں شیعہ-وہابی تناؤ میں اضافہ ہونے لگا تو ان کو سعودی انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر جنرل لگادیا گیا اور انہوں نے ایران کے خلاف جارحانہ پراکسی کے منصوبے کی بھی نگرانی شروع کردی-

220px-Prince_Sultan_bin_Abdulaziz_02

پرنس سلطان بن عبدالعزیز

پرنس بندر بن سلطان جارج بش کے ساتھ جن کی وہ فیملی کا حصّہ خیال کئے جاتے تھے یہاں تک کہ ان کو بندر بش کہا جانے لگا تھا-

سعودیہ عرب ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بہت عرصے سے متحرک رہا ہے-ابھی عرب بہار کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا کہ 10 سال قبل برطانیہ کے معتبر روزنامے “گارڈین ” نے انکشاف کیا تھا کہ

“سعودیہ عرب ایران کے ایٹمی؛ پروگرام کا توڑ کرنے کے لیے تین ممکنہ آپشن پر غور کرہا ہے-

1-خود ایٹمی ہتھار بنانے کی صلاحیت حاصل کی جائے-

2-کسی ایک ایٹمی طاقت سے مشترکہ دفاع کا معاہدہ کيا جائے-

3-مڈل ایسٹ کو ایٹمی ہتھاروں سے ‌فری کرنے کا علاقائی معاہدہ کیآ جائے-

سائمن ہینڈرسن نے انکشاف کیا کہ فروری 2003ء میں برطانوی جریدے لندن ٹائمز کے نمائندے کو بلایا گیا اور اس کو ایک سینئر سعودی اہلکار نے خبر دی کہ ایران جیسے ہی ایٹمی بنالے گا تو اس کے دو ہفتوں کے اندر سعودیہ عرب بھی نیوکلئیر واد ہیڈز حاصل کرلے گا-

یہ بھی ریاض سے خبریں آئیں تھیں کہ سعودی عرب ایران کے ایٹمی پروگراام کا توڑ کرنے کے لیے ٹو ٹریک پالیسی اپنائے گا –ایک طرف ایٹمی ہتھار خریدے جائیں گے اور دوسری طرف سعودی عرب اپنے سول ایٹمی پروگرام کو ملٹری جہت بھی دے ڈالے گا-

سعودیہ عرب امریکی انتظامیہ کو بے خبر رکھکر 1988ء میں چین سے سی ایس ایس 2 مزائیل خرید چکا ہے-یہ مزائیل جین کی ایٹمی سٹرائک فورس کا حضہ تھے اور نیوکلائی وار ہیڈ لے جان کی صلاحیت بھی رکھتے تھے-امریکہ کو اس ڈیل کا اس وقت پتہ چلا جب سعودی حکام نے پرنس سلطان کے زاتی فارم سے ریاض کے جنوبی علافے میں بنے ایک فوجی اڈے پر ان مزآئیل کو نصب کرنے تک کی سٹیلائٹ کے زریعے سے تصاویر موصول ہوئیں-سعودیہ عرب نے یہ ڈیل دو سا

ل تک اپنے اتحادی مغرب اور امریکا سے چھپائے رکھی رکھی تھی-چین نے پاکستان کو ایٹم بم کا جو ڈیزائن فراہم کیا تھا وہ ایس ایس 2 مزائیل سے فٹ تھا –بعد میں پاکستان کے سائنس دانوں نے اس اپنے مزائیلوں کے مطابق فٹ کیا-

 css2

بی بی سی نیوز نائٹ میں جو سٹوڈیو کے اندر بحث ہوئی اس میں سعودیہ عرب میں 2006ء سے 2010ء میں برطانیہ کے سفیر رہنے والے ولیم پیٹی بھی شریک تھے-جوکہ برطانیہ کی وزرات خارجہ آفس میں مڈل ایسٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے ہیں-اس پروگرام میں جو رپورٹ پیش کی گئی انہوں سے اس سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی اس کو افواہ قرار دیا-

patey

ولیم پیٹی سابق سفیر برائے سعودیہ عرب

گرے سمور جوکہ ماس ڈسٹرکشن ویپن سے تحفظ دینے کے لیے کام کرنے والے سیکورٹی ادارے کے انچارج ہیں انہوں نے بھی اس رپورٹ کی صداقت پر انگلی نہیں اٹھائی اور ان کا کہنا تھا کہ انتہائی کلائمکس پوائنٹ پر سعودی عرب یہ انکشاف خود کرے گا کہ وہ پاکستان سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرچکے ہیں-

gray samore

گرے سمور

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا خاص طور پر اردو میڈیا نے درج بالا حقائق جو اس سٹوری سے وابستہ تھے ان کا زکر ہی نہیں کیا-اور نہ ہی پاکستان-سعودی عرب کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی مبینہ ڈیل کے پس منظر پر کوئی بات کی-

ویسے بھی پاکستان کی حکومت اور سعودی عرب نے آج تک اپنے باہمی فوجی تعلقات کی نوعیت بارے عوام کو بے خبر رکھا ہے-جبکہ سعودی حکمران خاندان کی سیکورٹی ،سعودی عرب کے سیکورٹی سیٹ اپ اور سعودی عرب کے اندورنی و بیرونی انٹیلی جنس سیٹ اپ کی تشکیل میں پاکستان کی ملٹری ،آئی ایس آئی کا اہم کردار بتایا جاتا ہے-

جبکہ اس نیوز سٹوری کو ظاہر کرنے والے بی بی سی نیوز نائٹ پروگرام کے ہوسٹ نے سعودیہ عرب اور پاکستان کی جانب سے اس سٹوری پر جو رد عمل دیا اس کے جواب میں اگلے دن وارک رابن نے جو جوابی آرٹیکل لکھا اس میں مزید شواہد اس ڈیل کے حوالے سے پیش کئے اور ایک پاکستانی میجر جنرل جوکہ پاکستانی ایٹمی ہتھاروں کے پروگرام سے منسلک رہے جن کا نام فیروز حسن ظاہر کیا گیا ہے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے سعودی عرب کا تعاون ہمیشہ سے اہم رہا ہے-جبکہ شاہ عبداللہ نے آج سے کئی سال پہلے صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ مڈل ایسٹ آتش فشاں کے دھانے پر کھڑا ہے اور ایسے میں سعودیہ عرب کو خطے میں ایران کی بالادستی روکنے کے لیے ایٹم بم بنانا ہوگا-رابن مارک نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان کی 6 نومبر کی سٹوری کو نہ تو لندن میں سعودی سفارت خانے سے جاری ہونے والا بیان جھٹلاتا ہے اور نہ ہی پاکستانی حکام کی تردید اسے جھوٹا ثابت کرتی ہے-

http://www.bbc.co.uk/news/world-middle-east-24855902

پاکستانی مین سٹریم میڈیا نے بی بی سی نیوز نائٹ کے پروگرام کے میزبان رابن مارک کے اس آرٹیکل کا زکر ہی گول کردیا-اور خود آغی ایس پی آر نے بھی خاموشی آختیار کئے رکھی-جس سے یہ تو اندازہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے-

http://dawn.com/news/1054796/pakistan-denies-reports-saudis-funded-nuclear-program

یاد رہے کہ اس سے قبل سعودیہ عرب کی جانب سے پاکستان میں شامی باغی افواج کی تربیت کے لیے بڑے بیس کیمپ مانگے جانے اور انسٹرکٹر بھرتی کرنے کا انکشاف بھی ہوا تھا جس پر تاحال پاکستانی حکام نے خاموشی اختیار کررکھی ہے –اور پاکستانی میڈیا بھی خاموش ہے-

پاکستان کی موجودہ حکومت اور پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کا سعودیہ عرب کے ساتھ پرانے اور نئے وینچرز پر پاکستان کی سیاسی اور سماجی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کے اندر مسلم مسالک کے درمیان سول وار کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں-اور ساتھ ساتھ حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی سلفی نواز پالسیوں کے باعث اس ملک کی بریلوی اہل سنت اور شیعہ مسلم مسالک کی ریاست کے بارے میں رائے منفی ہوتی جارہی ہے اور اس سے خود ریاست کے اندر اداروں میں بھی مسلکانہ بنیاد پر تقسیم گہری ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے-

پاکستان کی ریاست جو پہلے ہی شیعہ،بریلوی ،کرسچن ،احمدی ،ہندؤ اور دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی سے اتفاق نہ رکھنے والے سیکولر افراد کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے سعودیہ عرب کے ساتھ انتہا پسندانہ وینچرز میں شریک ہوکر ان برادریوں میں اور زیاہ احساس عدم تحفظ پیدا کرنے کا سبب بنے گی-

پاکستان میں اس وقت مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے اندر کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جو سعودیہ عرب اور پاکستان کی ملٹری انتہا پسندانہ مشترکہ سرگرمیوں پر مبنی پروجیکٹس کی مخالفت کرتی ہو-اور وہ اسلام آباد پر سعودیہ عرب کے غیر معموی اثر رسوخ اور مداخلت کے خلاف واضح موقف کی حامل ہو-جبکہ اس وقت بریلوی مکتبہ فکر کی ترجمان سنّی اتحاد کونسل اور وحدت المسلمین جوکہ شیعہ کمیونٹی کی اکثریت کی ترجمانی کررہی ہیں نے سعودی عرب کی پاکستان میں مداخلت پر آواز اٹھائی ہے-مگر ان کی آواز تاحال کمزور ہے کیونکہ ریاست اور مین سٹریم میڈیا سنّی اور شیعہ کمیونٹی کی سیاسی سوچ سے زیادہ تکفیری ،سلفی دیوبندی سوچ کی ترجمانی کرنے والی آوازوں کو زیادہ جگہ اور اہمیت دے رہا ہے اور یہی حال ریاست کا بھی ہے-

Comments

comments

Latest Comments
  1. SYED PATNI
    -