حکیم الله محسود کی ہلاکت میں نواز شریف حکومت کا کردار اور سیاست بازی – از سلیم صافی

ns

معاف کیجئے لیکن حکیم اللہ محسود کے معاملے پر حکومتی احتجاج سیاست بازی کے سوا کچھ نہیں۔ شواہد بتاتے ہیں کہ حالیہ دورہ امریکہ میں صدر ابامہ کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے اعلانیہ اور خفیہ تعاون جاری رکھیں گے

اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف حکومت اور پاکستانی فوج کی قیادت نے فیصلہ کر لیا تھا کہ تحریک طالبان کی قیادت سے بات چیت ایک بے مقصد کوشش ہے کیونکہ طالبان پاکستانی آئین اور جمہوری اداروں کی حاکمیت تسلیم کرنے سے کھلا انکار کر چکے اور دہشت گردی کی کاروائیوں کو بھی ترک نہیں کیا – جس امریکی ڈرون حملے میں حکیم الله محسود دیوبندی ہلاک ہوۓ وہ پاکستانی فوج اور حکومت کے تعاون کے بغیر نہ ممکن نظر آتا ہے – اس لئے حکیم الله کی ہلاکت پر چودھری نثار، شہباز شریف وغیرہ کا احتجاج سیاست کے علاوہ کچھ نہیں

سیاست ہے اور پہلی بار چوہدری نثار علی خان نے ایسی زبردست سیاست کھیل دی کہ عمران خان کی طالبان سے مذاکرات کی سیاست کو دفن کر دیا (ایک روز قبل تک تحریک انصاف کہہ رہی تھی کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں،وقت ضائع کررہی ہے اور جلد پختونخوا حکومت طالبان سے خود مذاکرات کا آغاز کرے گی لیکن چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے بعد عمران خان صاحب نے فرمایا کہ چوہدری نثار علی خان نے اخلاص کے ساتھ کام کیا تھا۔ اگلے روز مذاکرات شروع ہونے تھے لیکن ڈرون نے کام خراب کردیا)۔ کہتے ہیں کہ امریکہ نے سازش کی حالانکہ سازش خفیہ طریقے سے کی جاتی ہے،تو کیا امریکہ نے میاں نوازشریف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مزید ڈرون حملے نہیں کرے گا؟نہیں۔ میاں نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد بھی اسی شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ ہوا تھا، اس میں بھی لوگ مرے تھے تب حکومت پاکستان نے یہ شدید ردعمل ظاہر کیوں نہیں کیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ امریکہ نے حکیم اللہ محسود کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر اور حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ نے پانچ کروڑ روپے مقرر کی تھی۔ کیا حکومت نے یہ فیصلہ واپس لےلیا تھا؟نہیں، بلکہ جس وقت وہ مارے گئے اس وقت بھی ان کے سر کی یہ قیمت مقرر تھی

کیا طالبان کے ساتھ جنگ بندی ہوئی تھی؟نہیں، بلکہ جب میجر جنرل ثناء اللہ کو نشانہ بنا کر طالبان نے ذمہ داری قبول کی تو ان سے سوال کیا جاتا رہا کہ اس سے مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔ طالبان جواب دیتے کہ ہمارے ساتھ نہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور نہ جنگ بندی ہوئی ہے۔ کیا واقعی مذاکراتی عمل کا آغاز ہو گیا تھا؟ نہیں،کیونکہ دوسرے فریق (طالبان) کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے حکیم اللہ محسود کے خلاف کارروائی کے دن کی صبح بھی یہ بیان جاری کیا تھا کہ ان کے ساتھ حکومت کی طرف سے کسی نے رابطہ نہیں کیا گیا۔ اگر حکومتی دعویٰ درست ہے تو پھر قوم کو بتایا جائے کہ شمالی وزیرستان بھجوائے جانے والے مذاکرات کار کون تھے اور طالبان کے کس لیڈر سے ان کی کوآرڈینیشن ہوئی تھی۔ نہ جانے ہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ آج پاکستان کے دہشتستان بننے کی اصل وجہ منافقت ‘ جھوٹ اور تضادات پر مبنی پالیسیاں ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ قوم کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے،ان معاملات کو خفیہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک بھیانک کنفیوژن کی فضا بن گئی ہے۔ یہ قوم کی زندگی اور موت کے معاملات ہیں لیکن ان کو ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے۔ سچ بولنے کے بجائے اس سے سیاست اور صحافت چمکائی جاتی رہی۔

ہمارے پالیسی سازوں نے اپنے گماشتوں کو لگارکھا تھا جو قوم کو یہ باور کرارہے تھے کہ بیت اللہ محسود امریکی ایجنٹ ہیں ۔ تب طعنے دیئے جارہے تھے کہ امریکی انہیں ڈرون کا نشانہ کیوں نہیں بناتے۔ جب انہیں نشانہ بنایا گیا تو پھر حکیم اللہ محسود کے بارے میں یہ مشہور کردیا کہ وہ امریکی ایجنٹ ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو افغان طالبان کی جنگ کو تو حق بجانب قرار دے رہے ہیں لیکن حکیم اللہ محسود جو ملامحمد عمر کو اپنا امیرالمومنین مانتے تھے‘ کو امریکہ اور ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ شاید صحافت میں اس عاجز کی تنہا آواز تھی جو متوجہ کرتی رہی کہ یقینا افغان طالبان پاکستان میں خود کارروائیاں نہیں کرتے لیکن پاکستانی طالبان اپنے آپ کو ان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ تکنیکی طور پر اور کارروائیوں کے لحاظ سے بعدالمشرقین ہو سکتا ہے لیکن نظریاتی اور سماجی طور پر افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہیں۔ میں سوال اٹھاتا تھا کہ اگر پالیسی سازوں کے ترجمانوں اور قوم کو کنفیوژ کرنے والے سیاستدانوں کا موقف درست ہے تو پھر افغان طالبان کا ایک بیان دکھایا جائے کہ جس میں انہوں نے پاکستانی طالبان سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہو لیکن مجھے جواب دیا جاتا کہ میں ان کو افغانی طالبان کا پاکستانی طالبان کے حق میں بیان دکھا دوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ حکیم اللہ محسود کے خلاف کارروائی کے بعد افغان طالبان نے اپنی پوزیشن خود واضح کر دی۔ اس واقعے پر افغان طالبان کے ترجمان نے سرکاری سطح پر جو اعلامیہ جاری کیا ہے‘ اسے یہاں من وعن نقل کررہا ہوں لیکن اس سے قبل یہ واضح کرتا چلوں کہ گزشتہ گیارہ سال کے دوران پاکستانی طالبان سے متعلق یہ پہلا بیان ہے۔ ملامحمد عمر اخوند کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 2 نومبر کو جاری کردہ یہ بیان اردو‘ پشتو‘ انگریزی اور عربی زبانوں میں ای میل کے ذریعے بھی میڈیا کو ارسال کیا ہے اور اسے افغان طالبان کے ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

ملاحکیم اللہ محسود کی شہادت کے بارے میں امارت اسلامیہ کا اعلامیہ

af

نہایت المناک خبر ملی ہے کہ جمعہ کے روز (یکم نومبر 2013ء) کو شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے غیور قائد اور دلیر مجاہد ملاحکیم اللہ محسود امریکی بزدلانہ حملے میں شہید ہوئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
امریکہ کے اس وحشت ناک عمل کی امارت اسلامیہ افغانستان شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ ملاحکیم اللہ محسود کی شہادت کو عظیم زیاں تصور کرتی ہے اور اسی وجہ سے موصوف شہید کے خاندان‘ رشتہ داروں اور تمام ہمسفر ساتھیوں کو دل کی گہرائیوں سے تعزیت پیش کرتی ہے۔ شہادت مسلمانوں کا سب سے عظیم مقصد اور بڑی آرزو ہے۔ مجاہدین کو شہید کرنے سے امریکی اپنے مذموم مقاصد کے حصول تک پہنچ نہیں سکتے۔ ایک عشرے سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے کہ امریکی وحشی افواج نے ہمارے ملک اور قبائلی سرحدی علاقوں میں وسیع پیمانے پر خواتین‘ بچوں‘ بوڑھوں اور عام شہریوں کا قتل عام شروع کیا ہے اور اغیار کے متعدد ایجنٹ تماشا کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں کسی قسم کا عملی اور حقیقی ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ امارات اسلامیہ حکومت پاکستان اور عوام کو بتاتی ہے کہ امریکی استعمار کی اس نوعیت کی جارحیت اور وحشی حملوں کے سدباب کے لئے ہر وقت سے زیادہ کوشش کریں تاکہ افغانستان اور پاکستان کے مظلوم عوام جنہیں اس طرح کی وحشتوں کا سامنا ہے ‘ امریکی شر سے بچ کر خود ہی اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کریں۔
امارت اسلامیہ افغانستان
28 ذوالحجہ 1434ء
2 نومبر 2013ء‘‘

مجھے یقین ہے کہ گزشتہ گیارہ سال کے دوران مجھ جیسے عاجزوں پر ملک دشمنی کے فتوے لگانے والے اور افغان طالبان کو پاکستانی طالبان سے یکسر متضاد اکائی ثابت کرنے والے سابق فوجی دانشور اور سیاست و صحافت میں موجود پالیسی سازوں کے ترجمان اب بھی نہ شرمندہ ہوں گے اور نہ قوم کو کنفیوز کرنے پر معافی مانگیں گے۔ اب وہ نئے مفروضوں‘ نئی افواہوں اور نئی سازشی تھیوریز کے ساتھ میدان میں کودیں گے لیکن جہاں تک اپنا تجزیہ ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حکیم اللہ محسود کے منظر سے ہٹ جانے کی وجہ سے طالبان کو غیرمعمولی فائدہ ہوگا۔ ایک تو انہیں نوجوانوں کے جذبات کو مہمیز لگانے کیلئے ایک نیا شہید مل گیا۔ غازی عبدالرشید ‘ مولانا نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے ساتھ اب نئی نسل کو حکیم اللہ محسود کی صورت طالبان کو نیا ہیرو شہید مل گیا۔ حکیم اللہ محسود کی بعض سرگرمیوں اور افغان حکومت کے ساتھ ان کے بڑھتے ہوئے روابط کی وجہ سے پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان فاصلے پیدا ہو رہے تھے لیکن افغان طالبان کے ردعمل نے ثابت کردیا کہ نہ صرف وہ فاصلے کم ہوں گے بلکہ اب مزید قربت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی طرح حکیم اللہ محسود کے بعض رجحانات کی وجہ سے پاکستانی طالبان کے صفوں میں بھی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ ان کے دست راست لطیف اللہ محسود کی امریکیوں کے ہاتھوں ایسے وقت میں گرفتاری کہ وہ افغان انٹیلی جنس کے ساتھ تھے ‘نے افغان حکومت کے ساتھ ان کے روابط کو آشکار کردیا تھا اور تحریک طالبان پاکستان کے اکثر رہنما اس پر شدید برہم تھے ۔مولانا عصمت اللہ معاویہ اور اسی نوع کے بعض لوگ راستے الگ کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن اب وہ سب اختلافات ختم ہوتے نظر آرہے ہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ ایسے امیر کا تقرر کیا جائے گا کہ جس پر سب دھڑے متفق ہوں ۔

نوٹ: روزنامہ جنگ میں چھپنے والے مضمون میں معمولی ترمیم اور اضافی معلومات کے ساتھ

Source: http://jang.com.pk/jang/nov2013-daily/05-11-2013/col3.htm

پاکستانی طالبان نے حکیم الله محسود کی ہلاکت کا بدلہ نواز شریف سے لینے کی دھمکی دے دی – عامر میر

Taliban to target Punjab and Sharifs, agencies warn all

Amir Mir
Thursday, November 07, 2013

ISLAMABAD: Security agencies have warned the government high-ups of a severe backlash from the Tehrik-e-Taliban Pakistan in the aftermath of Hakimullah Mehsud’s killing which may entail targeting the Punjab, the central PML-N leadership as well as the ruling Sharif family.

According to well-informed sources in the security agencies, the TTP leadership has decided to avenge the killing of their Ameer in a big way by shifting the focus of their terrorist activities to the urban and central Punjab.

The Taliban elements rightly or wrongly believe that the government had a role in the November 1 killing of Hakimullah Mehsud in a US drone attack and whatever stance Ch Nisar Ali Khan has taken with regard to the US was actually meant to deceive the Taliban and the people of Pakistan.

While Nisar has ruled out any Pakistani involvement in the drone strike that killed Hakimullah, the TTP leadership alleges that the ground intelligence about his presence in the secret Shura meeting of the TTP was provided to the Americans by the Pakistani authorities.

The Taliban are pointing the finger of suspicion at the government despite the fact that the Sharif government had been trying to woo the Taliban into holding peace talks since assuming power after the 2013 elections.

Describing Hakimullah’s killing as a major setback for the Pakistani Taliban, a senior TTPcommander Maulana Azam Tariq has already declared that their ameer had to die because of the hypocrisy of the Pakistani rulers who were actually betraying the Taliban under the garb of peace talks. On his part, while blaming the Pakistan government for the death of Hakimullha, the TTP spokesman Shahidullah Shahid has warned that the Taliban would soon start targeting the ruling PML-N leadership for its alleged support to the United States in the region. He further warned that the government would have to pay a heavy price for playing a double game with the TTP, which led to the demise of Hakimullha Mehsud.

In this background, the security agencies have informed the government high-ups that the TTP leadership has already dispatched a 12-member fidayeen squad to Punjab with the prime aim of targeting the important government functionaries including the PML-N leadership, especially the Sharif brothers and their immediate family members.

Most members of the fidayeen squad are believed to be Pasthuns from the Waziristan belt who would be informed about their respective targets in Punjab as soon as the new TTP ameer is chosen.

In fact, Punjab has seen less incidents of terrorism in recent years as compared with the other provinces, amid accusations that the PML-N government had an unannounced deal with some powerful jehadi leaders like Malik Mohammad Ishaq of the Lashkar-e-Jhangvi (LeJ).

Under the Shahbaz government’s policy to appease Taliban-linked sectarian-cum-jehadi leaders, many of the militant groups are being allowed by the Punjab government to operate freely across the province. Shortly before being killed by a fanatic police man in Islamabad, former Punjab Governor Salman Taseer had bitterly criticized the Shahbaz government for allowing Rana Sanaullah, Punjab’s Provincial Law Minister, to campaign for a Jhang by-election together with Maulana Muhammad Ahmad Ludhianvi, ameer of the banned Sunni-sectarian Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP), in an official jeep escorted jointly by the Punjab police and militants. “The Sharifs are creating a potential bomb in Punjab,” Taseer had warned. But Rana Sanaullah defended his “political right,” arguing not all members of banned groups were terrorists.

Interestingly, following the Lahore terror attacks on the Manawan police training centre and the provincial headquarters of ISI in March 2010, Shahbaz Sharif had appealed to the Taliban to “spare Punjab “because the PML-N shared the Taliban’s anti-American stance.

“General Pervez Musharraf had planned a bloodbath of innocent Muslims at the behest of others only to prolong his rule. However, we had opposed his policies and rejected any dictation from abroad,” Shahbaz had told a gathering at Jamia Naeemia in Lahore after the attacks. “If the Taliban are also fighting for the same cause, then they should not carry out acts of terror in Punjab,” he had pleaded. And quite surprisingly, the militants had stopped conducting terrorist activities in Punjab following Shahbaz Sharif’s appeal.

However, all this seems to be changing in the backdrop of Hakimullha’s killing after which the Taliban are planning to shift their focus of terrorism to Punjab and the Punjab based PML-leadership.

Earlier, on August 15, 2013, the TTP had threatened to target Nawaz Sharif and Shahbaz Sharif in case the GHQ attack mastermind Aqeel alias Dr Usman was hanged in the Faisalabad central prison as per the schedule on August 23, 2013. A statement released to the media by the TTP spokesman had stated that a squad of suicide bombers had been constituted and if Dr Usman is hanged, two key figures of the PML-N would be targeted to avenge the hanging. Aqeel alias Usman’s execution was subsequently deferred by Prime Minister Nawaz Sharif for an indefinite period.

http://www.thenews.com.pk/Todays-News-13-26523-Taliban-to-target-Punjab-and-Sharifs-agencies-warn-all

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Hasan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Sarah Khan
    -