تحریک طالبان کا اہل تشیع کو دھمکی آمیز خط -مجاہد حسین

CJP LEJ TTP SSPEditor’s note: We are cross=posting an Urdu article by Mr. Mujahid Hussain which discusses Takfiri Deobandi terrorists’ threatening letter to Pakistan’s Shia Muslims asking them to convert to Sunni Islam or be ready to face dire consequences. The letter was recently published in Jang Group’s newspaper The News. While Shias are being killed everywhere, certain pro-establishment liberals (also known as Siph-e-Sahaba liberals including Raza Rumi, Ali Chishti etc) want to file police reports against Shias and other pro rights bloggers and journalists. If they are such heavy weights and want to take out warrants on LUBP, how about doing an FIR on the Takfiri Deobandi militants? Why are they acting as sycophants of the pro Taliban establishment? Clearly the judiciary is controlled by this corrupt elite, no killer has ever been brought to justice.

https://lubpak.com/archives/271855

https://lubpak.com/archives/271215

https://lubpak.com/archives/271369

https://lubpak.com/archives/261927

جون دوہزار نو کی تیرہ تاریخ کو پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار دی نیوز میں تحریک طالبان کی طرف سے مسلم خان کے دستخط کے ساتھ ایک خط نما اشتہار شائع ہوا جس میں پاکستان کے اہل تشیع کو کہا گیا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنے کفریہ عقائد کو چھوڑ دیں بصورت دیگر شیعہ مردوں کو قتل، اُن کی بیویوں کو لونڈیاں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے گا۔ کراہت آمیز خط کے مندرجات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کس قسم کے مسلمان ہیں اور دین کے بارے میں اُن کے علم کی سطح کتنی پست ہے۔ پورے ملک میں سے کوئی ایک آواز بھی اس خوفناک خط کی مذمت میں نہ اُٹھی۔ عدلیہ سمیت پورے ملک کے دانش وروں کو سانپ سونگھ گیا اور اگلے دن یہ خط ”پرانا” ہوگیا۔ عدلیہ اور میڈیا کے بلند بانگ ناصح اور شاندار کردار خوف یا روایتی تعصب کے نیچے دب گئے اور یوں پورے پاکستان نے دیکھ لیا کہ دنیا میں عدل و انصاف اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے والے زبردست مسلمان ایک دوسرے مکتبہ فکر کے بارے میں کھلی چتاونی کو نظر انداز کر گئے۔ اب اس خط میں درج دھمکیاں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں اور بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ کراچی پہلے ہی فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے اور پنجاب میں بھی شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

 

Fatwa

 

پاکستان میں فرقہ پرستوں کو تین دھائیوں میں طاقت اور دولت فراہم کی گئی ہے اور اِنہیں کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف حملوں کے علاوہ افغانستان میں ”تزویراتی گہرائی” کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی فوج کو القاعدہ، طالبان اور پاکستان کے فرقہ پرستوں کے گٹھ جوڑ کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کرنے والوں کے ساتھ پوری فوج نہیں کھڑی تھی۔ بعد میں معلوم ہونے لگا کہ اگرچہ نظم وضبط کی پابند فوج کو اپنی اعلیٰ قیادت کا حکم تسلیم کرنا پڑتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ سب ہی ایسے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرلیں۔ مشرف پر دو قاتلانہ حملے ہوئے جس میں درجنوں افراد مارے گئے اور حملہ آوروں کو مدد فوج کے اندر سے فراہم کی گئی۔ اب اِن سابق فوجی ملزمان کو سزائیں دی جارہی ہیں۔ مہران حملے سے لے کر کامرہ بیس حملے اور آئی ایس آئی کے لاہور، پشاور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان دفاتر تک پر حملے میں فوج کے مختلف شعبوں میں ملازم جنونی شامل تھے۔ فوج کے کمانڈو ونگ کے سابق سربراہ میجر جنرل علوی کے قتل میں شامل افراد کی ابھی تک فہرست سامنے نہیں آئی جب کہ جنرل علوی کا لکھا ہوا آخری خط برطانیہ کے ایک اخبار نے شائع کردیا جس میں فوج کے اہم ترین عہدوں پر موجود افراد کی نشاندہی کی گئی تھی۔

صرف ایک ٹی وی چینل کے متنازعہ اینکر نے پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل وغارت کا ذمہ دار سعودی عرب کو قرار دیا اور ایران کو بھی تھوڑا سا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ باقی ٹی وی دانش ور سوائے تاسف بھری گفتگو کے کچھ بھی نہ کہہ سکے اور اس بات پر متفق نظر آئے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل نہیں کرسکتا۔ لیکن معاملہ محض مسلمانی سے کہیں آگے جا چکا ہے کیوں کہ جو جماعتیں اس قتل وغارت میں مصروف ہیں وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو اسلام کی پرچارک سمجھتی ہیں اور پاکستان کی عوام کی اکثریت کو اِن کے تصور اسلام سے کوئی شکوہ نہیں۔ کہیں کسی ایک بھی گوشے سے ایسی کوئی آواز نہیں اُبھر سکی کہ اس طرح کے قتل عام کی سر عام ذمہ داری لینے والی لشکر جھنگوی اور اس کے پاکستان خصوصاً پنجاب میں ہمدردوں اور ساتھیوں کو سامنے لایا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ کئی درجن شیعہ افراد کا اقبالی قاتل ملک اسحاق پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے ساتھ یکساں تعلقات کا حامل ہے اور اگر اس کو پنجاب میں صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی حمایت حاصل ہے تو مرکز میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے ساتھ اس کے گہرے مراسم ہیں اور کئی وفاقی وصوبائی وزراء اور اعلیٰ عہدیدار اس کو بھتہ دیتے ہیں۔ یہی صورت حال پاکستان میں سرگرم سپاہ صحابہ، جیش محمد، انصار الامہ اور لشکر طیبہ کے ساتھ ہے جو اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں تاجروں اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والوں سے تحفظ فراہم کرنے سے لے کر نقصان نہ پہنچانے کے وعدے کے عوض مالی تعاون حاصل کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ میڈیا کی نظروں میں ہے لیکن کوئی بھی اس کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ میڈیا مالکان متشدد مذہبی و مسلکی تنظیموں کو بھتہ دیتے ہیں جب کہ فوجی ادارے اِنہیں ”اثاثہ” قرار دے کر عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہر باخبر ادارہ چاہے وہ نجی ہو یا سرکاری ایسی تمام تنظیموں اور اِن کے قاتل گروہوں کو جانتا ہے جو پاکستان کی ریاست کو کھوکھلا بنا رہے ہیں لیکن کبھی بھی ایسی کوشش کا حصہ نہیں بنے گا جس کا مقصد پاکستان کو مذہب کے نام پر تشدد سے پاک کرناہو۔ اس کی واضح ترین مثال پاکستانی فوج کا خفیہ بازو آئی ایس آئی ہے جس کے کشمیر اور افغان سیل میں کام کرنے والے اِن تنظیموں کو مضبوط بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔ بہت سے سادہ دل یہ سوال کرتے ہیں کہ پھر یہ متشدد لوگ فوج پر ہی کیوں حملہ کردیتے ہیں۔ اس کا جواب بہت سیدھا اور آسان ہے، جو لوگ ایسی تنظیموں کو طاقت پہنچاتے ہیں وہ خود فوج کے اجتماعی تصور ریاست کو نہیں مانتے اور پاکستان کی فوج کو مغرب کی پٹھو فوج قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حزب التحریر سے وابستہ حاضر سروس بریگیڈئر اعلی فوجی قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے فوج کے اندر رابطے تلاش کرتا ہے تو کامیاب رہتا ہے۔ جب پرویز مشرف پر حملہ کرنا مقصود ہو تو القاعدہ اور طالبان کو فوج کے اندر درجنوں افراد تیار ملتے ہیں، جب مہران بیس پر حملے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو نیوی کے حاضر سروس ملازمین قطار در قطار کھڑے انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔

اگر پاکستان کے متفقہ طور پر منظم ترین قرار دیئے گئے ادارے میں صورت حال اس قدر گھمبیر ہے تو دوسرے اداروں کے بارے میں کیا توقع کی جاسکتی ہے جہاں ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ملازم ہے لیکن معمولی رشوت کے عوض ملازمت پر حاضر نہیں ہوتی اور تنخواہ و دیگر مراعات حاصل کرتی رہتی ہے؟ پاکستان کی ریاست کو اس کے مہم جووں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ مہم جو فوج کے اندر، سیاسی و مذہبی جماعتوں میں، جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی شکل میں اور ریاست کے دوسرے اداروں میں طاقت کے حامل تھے اور ہیں۔ اب ملاں بھی ایک تیسری اور فوج کی ہی طرح کی منظم قوت کے طور پر ساتھ شامل ہے جو بعض عرب ممالک کی مذہبی و مسلکی فکر کو پاکستان میں پھیلانے کے عوض مالی مدد حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کے تمام خدوخال پاکستان کی ریاست کے لیے مہلک ہیں اور بیرونی دنیا کے لیے بھی خطرناک اشارہ ہیں۔ اقلیتیں تشدد پسندوں کے رحم وکرم پر ہیں جب کہ کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں آئے روز خون بہہ رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں کسی بھی پلیٹ فارم پر کوئی بھی اس حوالے سے بات کرنے کو تیار نہیں۔
Source:

Comments

comments