طالبان کو سیاسی حمایت اور حثیت فراہم کرنے والی تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز – از حق گو

PAKISTAN-POLITICS-VOTE

پنجاب میں الیکشن مہم پورے عروج پر ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان میں تین روشن خیال اور ا عتدال پسند جماعتیں دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے عتاب کا نشانہ بنی ہوئیں ہیں – پیپلز پارٹی ہو متحدہ قومی موومنٹ ہو یا اے این پی ہو سب ہی دشت گردوں کے ان گنت حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں وجہ صرف اور صرف ان کی روشن خیالی، ا عتدال پسندی اور ان کے لیڈرز کا طالبان اور دہشت گردی کے خلاف جرات مندانہ موقف ہے –

گزشتہ چند دنوں کے دوران طالبان کی نسبتاً حامی سمجھے جانے والی جماعت جمعیت علما اسلام فضل الرحمان کے امیدواران پر بھی حملے ہوے ہیں ، جس میں متعدد لوگ جان سے گیے ہیں ، اسی جماعت کے امید وار منیر اورکزئی جو حملے کا نشانہ بنے ہیں ان کا کزن فضل سعید حقانی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے کرّم ایجنسی میں شیعہ آبادی پر ہونے والے حملوں کے لئے خود کش بمباد بھیجے تھے ، جمعیت پر ہونے والے حملوں کے بعد یہ بات زیادہ صاف ہوگیی ہے کہ طالبان اپنی نظریاتی حمایت کرنے والی جماعتوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں ، اور دراصل ان کی جنگ جمہوری نظام کے خلاف ہے –

جناح کے پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کا دعوا کرنے والی جناب عمران خان ، چند ایک سیاسی حملوں کے بعد اس حد تک دفاعی پوزیشن میں چلے جاتے ہیں کہ ان کو ایک وڈیو پیغام کی وساطت سے اپنا ایمان ثابت کرنا پڑتا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا اعلان بھی کے وہ احمدیوں کو غیر مسلم اور اقلیت مانتے ہیں باوجود اس کے کہ انیس سو چالیس میں قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان کو مرتب کرنے والے اور بعد میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان بھی احمدی تھے ، عمران خان صاحب کے اس وڈیو پیغام کے بعد ان کی تحسین میں آنے والے طالبان نواز علما کے بیانات اور تعریفیں معمالے کو اور گھمبیر بنا رہے ہیں

اب جب کہ تحریک انصاف نے طالبان کو نظریاتی حمایت فراہم کر دی تھی یہ کہہ کر کے طالبان کی دہشت گردی دراصل امریکی ڈرونز اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ردعمل ہیں ، مسلم لیگ نواز نے اس سے بھی کیی گنا آگے جا کر سپاہ صحابہ ،لشکر جھنگوی کے تکفیری دہشت گردوں کو الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ جاری کر دیے ہیں-عابد رضا گجر اور عباد ڈوگر جو کہ لشکر جھنگوی کے بد نام زمانہ دہشت گرد ہیں ان کو ٹکٹ دینے کے ساتھ ساتھ نواز لیگ کئی جگہ پر سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر چکی ہے -عابد رضا ڈوگر جو کہ القائدہ کے دہشت گرد امجد فاروقی کے قریبی ساتھیوں میں تھا اور دہشت گردانہ کردار کے حامل ماضی کی وجہ سے پانچ سال سلاخوں کے پیچھے گزر چکا تھا اس کو ٹکٹ دینا نواز لیگ کی دہشت گرد نواز پالیسیز کی نشاندہی کرتا ہے اور دوسری جانب عباد ڈوگر جس نےآسیہ بی بی کے کیس میں سبق گورنر پنجاب شہید سلمان تاثیر کی سر کی قیمت دو کروڑ لگایی تھی –

اهل سنت والجماعت جو کہ لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کے نیا نام ہے اس کا لیڈر ملا لدھیانوی بھی پور زور شور اور آزادی کے ساتھ اپنی الیکشن مہم چلا رہا ہے ، اوراس  کا کہنا ہے کہ ” اپنے علاقے کی مسجد میں میں صرف چند لوگوں کے سامنے اپنے شیعہ مخالف نظریات کا اظہار کر سکتا ہو جب کہ اسسمبلی میں جا کر میں پوری دنیا اور ملک کے سامنے اپنےشیعہ مخالف تکفیری نظریات کا اظہار کروں گا – ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں دس دہشت گرد کالعدم جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پچپن دہشت گرد الیکشن میں حصّہ لے رہے ہیں باوجود اس کے کہ انٹلجنس ایجنسیز نے الیکشن کمشن اور مطلقہ محکموں کو ان کے نام اور ان کے بارے میں باقی تمام معلومات فراہم کر دی تھی کہ یہ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں – اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ بھی اسی اخبار میں شایع کی گیی ہے جس کے مالک نجم سیٹھی جو خود کو ایک لبرل کہلواتے ہیں اور جو کہ اس وقت نگران وزیر ا علی پنجاب بھی ہیں ، او رن کی موجودگی میں یہ تمام دہشت گرد الیکشن لڑنے کے اهل ہوگے اور وہ ، پنجاب ا انتظامیہ اور الیکشن کمشن سوتے رہ گیے جب کہ دہشت گرد اسسمبلی میں جانے کے لئے اپنے تمام راستے صاف کر چکے ہیں –

حلیہ سرویز کے مطابق دہشت گردوں کی سرپرست جماعت مسلم لیگ نواز اگر وفاق میں اپنی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت بنا بھی لیتی ہے تو کیا ایک پارٹی جو پنجاب ، وفاق اور بلوچستان میں حکومت کر رہی ہوگی اس کی طرز حکومت سے سول ملٹری اختیارات میں طاقت کا توازن پیدا ہو سکے گا؟ اور اگر کسی اپ سیٹ کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت بن جاتی ہے تو کیا یہ طالبان نواز جماعتیں پاکستانی ایسٹابلشیمت کے طالبان سے تعلقات کے ہوتے ہوے افغانستان میں قیام امن کے لیا کوئی ٹھوس اقدامات اٹھا سکیں گی؟ پیپلز پارٹی دیہی سندھ اور ایم کیو ایم شہری سندھ میں مل کے شاید حکومت بنا لیں مگر خیبر پختونخواہ میں میدان لگنا پھر بھی باقی ہے – اور امکان بھی یہی ہے کہ وہاں بھی کوئی دایں بازو کا اتحاد ہی حکومت بناے گا جو کہ پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کرے گا اس بات کو مدنظر رکھ کے کہ دو ہزار چودہ میں امریکا کو افغانستان سے نکلنے کے لئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کی ضرورت ہوگی –

یہ سب کہنا شاید قبل از وقت ہوگا مگر حالت اور قراین دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ دائیں بازو کی رجعت پسند قوتوں کے لئے الیکشن جیتنا زیادہ آسان ہے یا آسان بنا دیا گیا ہے – جو معاملہ بے نظیر بتو کی شہادت سے شرو ع ہو کر کیری – لوگر – برمن ایکٹ کے بعد ریمنڈ دیوس سے ہو کر میمو گیٹ اور پھر وزیر ا عظم کی نا اہلی تک پہنچا اس سب کے بعد تو صرف اچھی خبر ایک ہی نظر آتی ہے کہ ہفتے کے دن ہونے والے انتخابات کے بعد ملکی تاریخ میں پہلے بار اقتدار ایک منتخب جمہوری حکومت سے ایک منتخب جمہوری حکومت کے حوالے کیا جائے گا – لیکن بری خبر یہ کہ کے پاکستان شاید اس دایں طرف کے خطرناک
اور اہم موڑ کے اثرات کا متحمل نا ہو سکے

THIS POST IS ADAPTED FROM DR. MOHAMMED TAQI’s ARTICLE IN THE DAILY TIMES:
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2013%5C05%5C09%5Cstory_9-5-2013_pg3_2
While the PTI has afforded the Taliban ideological space by consistently rationalising their terrorism as a ‘just’ and/or inevitable response to the US War on Terror, Nawaz Sharif’s Pakistan Muslim League (PML-N) has given the Takfiris of the banned terrorist outfit Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP) political space via electoral seat adjustments, and in some instances, party tickets, for example to Chaudhry Abid Raza Gujjar and Sardar Ebad Dogar, as well. According to a newspaper report, Abid Raza is “A Lashkar-e-Jhangvi-linked alleged terror suspect who has already spent five years in jail on murder charges and had known links with a slain al Qaeda linchpin Amjad Hussain Farooqui,” while Ebad Dogar, in addition to ties with the SSP, is notorious for having offered a Rs 20 million bounty on the late governor Punjab Salmaan Taseer’s head in the Asia Bibi blasphemy case.

Comments

comments

Latest Comments
  1. can you buy facebook likes
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.