مذہب ، ریاست اور معاشرہ – از وسیم الطاف
موجودہ دور کے تمام ترقی یافتہ ممالک کا نظام سیکولر جمہوریت پہ قائم ہے -ریاست نہ تو مسیحی ہے نہ ہندواور نہ یہودی بلکہ یہ سب کے لیے ہے اور مذہب کا ریاستی امور میں کوئی عمل دخل نہیں –اب جب ہم ریاست کو مشرف بہ اسلام کر دیتے ہیں تو وہ ہر شہری کو اسلام کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے چنانچہ کوئی غیر مسلم کسی کلیدی عہدے کے لیے محض مذہب کی بنیاد پر نا اہل ہو جاتا ہے – آئین و قوانین بھی ویسے ہی بننے لگتے ہیں جو ایک خاص مکتبہ فکر سے مطابقت رکھتے ہوں –
ان حالات میں ہر شہری کوشش کرتا ہے کہ ویسا ہی طرز زندگی اختیار کرے جو ریاستی پالیسی سے لگا کھاتا ہو لہٰذا معاشرے سے وہ تمام تنوع تحلیل ہونے لگتا ہے جو کسی بھی معاشرے کو فعال اور خوبصورت بناتا ہے -اس کے بر عکس اگر ہم ان ریاستوں کا جائزہ لیں جہاں ریاستی امور میں مذهب کا کوئی کردار نہیں تو ہمیں بے پناہ تنوع اور pluralism نظر آے گا جو معاشروں کی ترقی ،تہذیب و تمدن اور برداشت میں بنیادی عامل ہے –
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ریاست ہاے متحدہ امریکہ کا نام کرسچین ریپبلک آف امریکہ یا بھارت کا نام ہندو ریپبلک آ ف انڈیا رکھ دیا جاتا اور وہاں کا آئین اور قوانین بھی ویسے ہی ہوتے جیسے ہمارےہاں ہیں تو ان معاشروں کے رویوں پہ کیا اثرات مرتب ہوتے -امریکہ اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو اگر ہر تقریب سے پہلے بائبل اور گیتا کے اقتباسات سننا پڑتے تو وہ کیا محسوس کرتے -ریاست سے ان کی وفاداری کس حد تک برقرار رہتی اور اگر حضرت عیسیٰ عیلہ اسلام کو الله کا بیٹا نہ ماننے پر توہین رسالت کا قانون نافذ کر دیا جاتا تو کیسا ہوتا –
ترقی یافتہ معاشروں کی خوبصورتی یہی ہے کہ وہاں مذہب کو ریاستی امور سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے- -گرجا ہو مسجد ہو یا مندر’ ریاست کی نظر میں ایک جیسی تکریم کے مستحق ہیں اور کسی کو بھی کسی پہ کوئی فوقیت نہیں -ریاستی امور میں ایک مرتبہ مذہب کو داخل کر دیا جاے تو وہ اپنا اثر و رسوخ پھیلاتا ہی چلا جاتا ہے اور آج عالم یہ ہے کہ پولیو مہم ہو’ یو ٹیوب کا استمعال یا حقوق نسواں’ ہر کام کی نوک پلک درست کرنے میں مولوی حضرات قوم کی رہنمائی فرماتے ہیں –
ہیپاٹائٹس اور دیگر متعدی امراض کا علاج بذریہ وظائف و دم درود tv پر سوٹ بوٹ والے اینکر بتا رہے ہوتے ہیں -یہ مسائل صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ وہ تمام ممالک جن کے ناموں کے ساتھ اسلام یا اسلامی کا لاحقہ لگ چکا ہے وہاں یہ سب بدرجہ اتم موجود ہیں-
مثال کے طور پر ایران میں مولوی حضرات خواتین کی بے حیائی کو زلزلوں کی بنیادی وجہ بتارہے ہیں -سعودی عرب کے مولوی ابھی یہ نہیں طے کر سکے کہ عورت کن حالات میں گاڑی چلا سکتی ہے –
معاشرتی رویوں کا انحصار ریاستی رویوں پہ ہے اگر ریاست سب شہریوں کو ایک نظر سے دیکھے گی تو افراد بھی ایک دوسرے کے لیے عزت اور احترم کے جذبات رکھیں گے اور ریاست بھی مستحکم ہو گی -اور اگر مذہب کا ریاستی امور میں عمل دخل بڑھتا رہے تو ایک وقت آتا ہے کہ نہ تو مذہب رہتا ہے نہ معاشرہ اور نہ ریاست –
Comments
Latest Comments
Completely disagree. “Juda ho deen siyasat se to reh jati ha changezi”. It is not the matter that a state should be Islamic (relgious) or not, matter is “head of state should act & run the state as per the principles set by Islam”. There is no doubt that Islam is a complete religion, problem arises when it is limited to just “islamic names” or few laws.
As for as “Toheen-e-Risalat” is concern, if any Muslim disgraced any of 124000 messengers (Holy Christ), he will not be a Muslim any more, there is no need for any such law for a Muslim.