کیا پنجاب حکومت لشکرِ جھنگوی کے خلاف آپریشن کر پائے گی؟ – از حسن نقوی

New-Picture-18

ملکِ خداداد میں فرقہ واریت، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا بازار ضیاء الحق کے زبردستی کے نفاذِ اسلام سے شروع ہوا۔ ایک ایسا سلسلہ جو کسی طور

تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ مسلمانوں کو ’’مسلمان‘‘ بنانے کے نام پر قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔ شیعوں کی نسل کشی کے علاوہ احمدیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں پر بھی قاتلانہ حملے کیے جا رہے ہیں۔ امن کے گہوارے کو خون سے نہلایا جا رہا ہے۔ اس خون کی ہولی میں بوڑھوں، عورتوں اور معصوم بچوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور فرقہ واریت کا عفریت اس خون پر ناچ رہا ہے۔
سوویت یونین اور بھارت کے خلاف محاذ قائم کر کے ہم نے خود اپنے گھر کو آگ لگائی ہے۔ جہاد کے نام پر تیار کیے گئے اسلحہ بردار اب اپنے ہی بھائیوں پر اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں۔ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے اور اپنے تئیں جہاد پر عمل پیرا ہے۔ خصوصاً کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہزارہ کے معصوم لوگ انتہائی بے ضرر ہیں اور کسی قسم کی اشتہال انگیزی یا دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ پھر بھی جانے کیوں ان کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ابھی دس جنوری کو کوئٹہ کے علمدار روڈ پر قتلِ عام میں جاں بحق ہونے والوں کے کفن بھی میلے نہ ہوئے تھے کہ ایک بار پھر سو سے زائد میتوں کے منہ دیکھنے سے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ یہ معصوم لاشے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ دہشت و عفریت کا یہ کھیل اسلام کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔ ملک میں نفاذِ اسلام کے معاملے کو سرکاری سطح پر زیرِ بحث لا کر اس مسئلے کو ہوا دی گئی ہے۔ حالانکہ اسلام کی تعبیر کا اختلاف تو نیا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو پیغمبرؐ کی وفات کے بعد سے ہی منظرِ عام پر آ گیا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ حق تنہا پیغمبر کو حاصل ہے کہ اس کی بات بغیر کسی حیل و حجت کے مان لی جائے۔ اُمت نے پوری مسلم تاریخ میں یہ حق کسی غیرپیغمبر کو نہیں دیا ہے۔ ہر ایک نے اسلام کو اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق سمجھا اور عمل کیا۔ لوگوں نے تقریباً سبھی اماموں سے اختلاف کیا اور ان کی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کیا کہ ان کی ہر بات جانب من اللہ قرار دی جائے۔
جب ماضی کی طرف نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اسلاف میں اسلام کی تعبیر کے معاملے میں اختلاف معمولی نہیں تھا، حرام و حلال کا تھا۔ اہلِ مدینہ اور اہلِ عراق کا اختلاف زمین و آسمان کا اختلاف تھا۔ مدینہ کے ایک عالم ربیعہ بن ابی عبدالرحمن مدنی کچھ عرصہ عراق رہے اور پھر عراق چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا آپ نے اہلِ عراق کو کیسا پایا؟ ان کا جواب تھا جو ہمارے ہاں حلال ہے وہ ان کے نزدیک حرام اور جو ہمارے لیے حرام ہے، وہ ان کے نزدیک حلال۔ معلوم ہوتا ہے ہمارے لیے ایک نبی آیا اور ان کے لیے کوئی دوسرا۔ اسلام کی تعبیر کا یہ اختلاف آج بھی ہے اور اس سلسلے کو تاقیامت روکا نہیں جا سکتا۔
اگرچہ اسلام کے نفاذ پر پوری قوم متفق ہے مگر اسلام کی تعبیر کے معاملے پر قوم میں زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ضیاء الحقی اسلامائزیشن نے مسئلہ یہ پیدا کیا کہ اسلام کی کون سی تعبیر سرکاری سطح پر نافذ کی جائے۔ ایک فرقے کی تعبیر دوسرے فرقے کو قبول نہیں۔ اس مسئلے کا حل صرف اور صرف سیکولرازم میں ہے۔ سیکولرازم کو اکثر اوقات بے دینی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ سیکولرازم سے مراد یہ ہے کہ ریاست کا ہر فرد مذہب کے معاملے میں آزاد ہے وہ جو چاہے نظریات رکھ سکتا ہے۔ مگر اسے دوسرے کے نظریات کا بھی احترام کرنا ہوگا۔
ماضی میں اسی سیکولرازم کی مثال ہمیں اورنگ زیب عالمگیر کی شکل میں ملتی ہے۔ امورِ مملکت میں اورنگ زیب عالمگیر نے شیعہ سنی فرقوں اور دوسرے مذاہب مثلاً بدھ اور ہندو رعایا کے لائق اور عقلمند افراد کی خدمات سے استفادہ کیا۔ جب ایک وفادار ملازم نے اپنے سنی مسلمان ہونے کی بنیاد پر اپنے لیے شیعہ مسلمان اور بدھ مذہب کے پیروکار کی جگہ بڑا عہدہ طلب کیا تو اورنگ زیب عالمگیر نے جواب دیا کہ ’’دُنیا کے کاموں میں مذہب کا واسطہ کیا معنی رکھتا ہے اور امورِ انتظامی میں تعصب کا کیا دخل۔‘‘
ملکِ خداداد میں بھی امن اسی صورت لایا جا سکتا ہے کہ ’’اپنا مسلک چھوڑو، نہ دوسرے کے مسلک کو چھیڑو‘‘ ۔ اس سلسلے میں جو کرنے کے کام ہیں وہ یہ ہیں کہ سب سے پہلے ایسے مدارس پر کڑی نگاہ رکھی جائے جو دہشت کی تربیت دیتے ہیں۔ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ انہیں چندہ کہاں کہاں سے وصول ہوتا ہے۔ بیرونی امداد کو بند کیا جائے۔ اسی طرح مدارس کو اسلحہ سے پاک کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر ریاست کی قوت کو مذہبی تفرقے کمزور کر دیں گے تو اس کمزوری سے بالآخر فائدہ علیحدگی پسند گروہ اُٹھائیں گے یا پھر پڑوس کے ملک اور عالمی طاقتیں۔ ناپاک ارادے بلوچستان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے پہلے ہی دیکھ رہے ہیں۔
ملک کے اندر فسادات میں ملوث جماعتیں مثلاً لشکرِ جھنگوی، سپاہِ صحابہ، جیشِ محمد اور طالبان پر نہ صرف یہ کہ پابندی لگائی جائے بلکہ ان کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن بھی کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو، بالخصوص تحریکِ انصاف کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور دہشت گردوں سے مذاکرات پر حکومت کو مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک مظاہرین کا صوبہ بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبے کا تعلق ہے، تو یہ لوگ نہایت معصوم ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ فوج اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس وقت تقریباً 80 فیصد بلوچستان F.C. کے کنٹرول میں ہے اور F.C. کی کمان کس کے ہاتھ میں ہے، یہ سب کو پتہ ہے۔
لشکرِ جھنگوی جس نے ہزارہ کے اہلِ تشیع پر خوفناک حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، اس کا قلع قمع ضروری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ طالبان خان نے بھی لشکرِ جھنگوی کی مذمت کی۔ رحمان ملک نے واضح کر دیا ہے کہ لشکرِ جھنگوی کا اصل گڑھ پنجاب ہے۔ تو کیا اب پنجاب حکومت ان ظالمان کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے؟

Comments

comments

Latest Comments
  1. Fazil Barelvi
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.