دیوبندی و وہابی عقیدے کے لوگ پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں، شاہد غوری

Mohammed Ghauri

THE FOLLOWERS OF DEOBANDI AND WAHHABI FAITH COMMIT TERRORIST ACTS

The central leader of Pakistan Sunni Thereek (PST) Mohammed Shahid Ghauri interviewed with Islam times. He stated that, the banned organization of Sipah Sahaba (ASS or SSP) started operating initially as Millat e Islamia, when this was banned now they have started operating as Ahle Sunnat Wal Jammat (ASWJ).

 

Here is a video where Ludhianvi is telling his followers that they will get around the ban by simply changing the name.

https://vimeo.com/58738710

اسلام ٹائمز: پی ایس ٹی کے مرکزی رہنما نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کالعدم سپاہ صحابہ پر پابندی لگائی گئی اس نے ملت اسلامیہ کے نام سے کام کرنا شروع کردیا، اس نام پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے اہلسنت و الجماعت کے نام سے فعالت شروع کردی، تو یہ حکومت کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے، حکومت کو چاہئیے کہ کالعدم تنظیموں کی فعالیت کو روکے۔

پاکستان سنی تحریک کے مرکزی رہنما محمد شاہد غوری 1994ء سے سنی تحریک سے وابستہ ہیں۔ بنیادی طور پر آپ کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔ مرکزی رہنما کی حیثیت سے آپ پاکستان سنی تحریک میں انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے محمد شاہد غوری سے مرکزی آفس پاکستان سنی تحریک مرکز اہلسنت میں ایک نشست کی جس میں ان کے ساتھ کوئٹہ، کراچی سمیت پاکستان میں جاری بدامنی، گورنر راج بلوچستان، سانحہ کوئٹہ سمیت دیگر اہم موضوعات پر ایک انٹرویو کیا گیا۔ جو قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سنی تحریک کا تعارف کریں، نیز کیا ضرورت پیش آئی کہ سنی تحریک جو کہ ایک مذہبی جماعت تھی اسے سیاسی جماعت میں ڈھالنا پڑا؟
محمد شاہد غوری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنی تحریک کا قیام 1990ء میں عمل میں آیا۔ یہ اہلسنت بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی ایک خالصتاََ مذہبی جماعت تھی۔ اس کے قائد شہید محمد سلیم قادری تھے۔ 1990ء میں جب بدعقیدہ، بدمذہب لوگ جو کہ آج بھی مسلمانان عالم کیلئے باعث شرم و بدنامی اور ننگ و عار بنے ہوئے ہیں، جو کشمیر میں جہاد کے نام پر، افغانستان میں طالبان و جہاد کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں، وہی دہشت گردی پورے پاکستان میں، ہر شہر میں یہ دہشت گردی کی جاتی رہی، دیوبندی و وہابی عقیدے کے لوگ اتنی پرتشدد کارروائیاں کرتے تھے، ماضی کا ریکارڈ بھی موجود ہے اور حال کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔ اہلسنت و جماعت کی مساجد کہ جہاں ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم صلواة و سلام آنحضرت (ص) پر بھیجنا اپنا فخر سمجھتے ہیں جو کہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ اسی طرح جشن عید میلادالنبی (ص) منانا، حضرت غوث پاک کے ایام منانا، محفل نعت و میلاد منعقد کرنا، نذر و نیاز کرنا، جنازوں پر فاتحہ کرنا وغیرہ ان سب کاموں کو یہ بدعقیدہ لوگ شرک سمجھتے ہیں۔

ان پرتشدد ذہنیت کے مالک لوگوں نے اہلسنت و جماعت کی پورے پاکستان میں موجود ہزاروں مساجد پر قبضے کرنا شروع کر دیئے۔ جبکہ اہلسنت و جماعت کی جانب سے ہمیشہ امن و محبت کا پیغام دیا جاتا تھا اور دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ ہماری مساجد ہوں، چاہے وہ ہمارا دارالعلوم ہو، ہماری خانقاہیں ہوں یا مزارات ہوں یا دیگر ادارے ہوں، ہر جگہ سے پیغام امن و محبت دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ تشدد پسند گروہ مزارات اولیاء کا بھی منکر ہے۔ ہم شروع سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم امن پسند لوگ ہیں، ہمارا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہم نے کبھی ڈنڈا اٹھایا، نہ ہم نے کبھی اسلحہ اٹھایا، نہ کبھی تشدد کی بات کی۔ ہمارا کہنا یہ ہے اور پوری دنیا کا قانون ہے اور عقل بھی یہی کہتی ہے کہ کسی کی بھی عبادت گاہ پر کوئی قبضہ نہیں کر سکتا۔ اب اس پرتشدد گروہ کا عقیدہ جو بھی ہو وہ اس پر چلیں مگر کم از کم ہمارے عقیدے کو نہ چھیڑا جائے۔ یہ ایک بنیادی وجہ بنی سنی تحریک کے قیام کی۔ مگر اس پرتشدد گروہ نے اس اصول و نظریئے کو اپنانے کے بجائے پورے پاکستان میں دہشت گردی شروع کردی۔

اسی طرح اس مکتب فکر کی ایک جماعت کالعدم سپاہ صحابہ جس نے بالعموم اہل تشیع مکتب فکر کے خلاف، ماتم کرنے والوں کے خلاف ایک محاذ قائم کیا ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اہلسنت کے ساتھ بھی ان کا یہ طریقہ کار رہا ہے۔ اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ پرویزی ہیں، اہلحدیث ہیں، قادیانی ہیں، ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے، ہر آدمی کو اپنے ایمان و عقیدے کے مطابق عمل کرنے کی آزادی ہے۔ ہر کسی کو اپنے دین و مذہب، مسلک پر چلنے کی آزادی حاصل ہے۔ مگر کسی کو بھی ایک دوسرے کے مسلک و عقیدے میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔ تو اس وقت جب بہت زیادہ پرتشدد واقعات ہونے لگے تو قائد سنی تحریک محمد سلیم قادری انفرادی طور پر بڑی کوشش کرتے تھے کہ مساجد کو بچایا جائے، مزارات اولیاء کا تحفظ کیا جائے۔ اسی طرح مزارات اولیاء پر جو خرافات ہوتی ہیں ان کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ تو بہت مجبور ہوکر ایک دفاعی تنظیم کا قیام سنی تحریک کے نام سے عمل میں لایا گیا مسجد کی حفاظت کیلئے، خانقاہوں کے تحفظ کیلئے، تحفظ مزارات اولیاء کیلئے۔

جب گیارہ سالہ جدوجہد میں پورے پاکستان میں سنی تحریک کا قیام عمل میں آگیا اور لوگوں نے جوق در جوق ان میں شمولیت اختیار کی تو اس کا راستہ روکنے کیلئے اٹھارہ مئی 2001ء کو محمد سلیم قادری کو انہیں کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے بلدیہ ٹاﺅن میں اس وقت شہید کر دیا جب وہ گھر سے نکل کر جامع مسجد رحمت میں نماز جمعہ پڑھانے جا رہے تھے۔ اس سے قبل 1998ء میں ہمارے دو مرکزی رہنماﺅں سلیم رضا اور عبدالوحید قادری کو شہید کیا گیا۔ گیارہ اپریل 2006ء کو سانحہ نشتر پارک میں 12 ربیع الاول کے جلسہ میں انہیں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں میں سنی تحریک کے سربراہ محمد عباس قادری سمیت افتخار محمد بھٹی، محمد اکرم قادری، ڈاکٹر عبدالقدیر عباسی بھی شامل تھے۔ 2001ء میں محمد عباس قادری کی سربراہی میں سنی تحریک کی جدوجہد میں مزید تیزی آگئی۔

اس صورتحال میں ہمارے لئے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردی گئیں، جھوٹے مقدمات قائم کرنا شروع کر دئیے گئے، تھانہ کچہری میں الجھایا جانے لگا، ایڈمنسٹریشن کے معاملات میں رکاوٹیں آنے لگیں، طاقت رکھنے کے باوجود کہیں ہماری شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ جب کہ ہمارے مخالفین کو سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے اہمیت دی جاتی تھی یا لوگ ان سے ڈرتے تھے، ہمارے حقوق پامال کئے جاتے تھے۔ تو اس گھمبیر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سربراہ سنی تحریک محمد عباس قادری نے ایک پیغام دیا تمام علماء کرام، مشائخ عظام، ذمہ داران، کارکنان کو کہ کیا ہمیں سیاست میں حصہ لینا چاہئیے یا نہیں۔ قائد سنی تحریک محمد سلیم قادری کی پہلی برسی کے موقع پر نشتر پارک میں یہ اعلان کیا گیا کہ ہم علماء کرام و مشائخ عظام سے مشاورت کریں گے کہ ہمیں سیاست میں آنا چاہئیے کہ نہیں۔ تو اس موقع پر اکثریتی رائے یہ تھی کہ ہمیں سیاست میں آنا چاہئیے۔ تو یوں 2002ء میں باقاعدہ ہم نے سیاست میں قدم رکھا۔ 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں ہم نے حصہ لیا مگر ہم کوئی صوبائی و قومی نشست حاصل نہیں کر سکے۔

اسی طرح 2005ء میں ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا مگر اس کا ہم نے تقریباََ بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ہمیں سیاسی جماعتوں خصوصاََ متحدہ قومی موومنٹ کی بہت زیادہ مخالفت کا سامنا تھا، تشدد کا سامنا تھا، ٹارگٹ کلنگ میں ہمارے لوگ بہت زیادہ شہید ہونے لگے۔ اس کے بعد 2006ء کو سانحہ نشتر پارک آپ کے سامنے ہے، جس میں سنی تحریک کی پوری اعلیٰ قیادت شہید ہوگئی۔ اس وقت لوگ اور مخالفین یہ سمجھ رہے تھے اب سنی تحریک ختم ہوجائے گی، اب جشن عید میلادالنبی (ص) کی رونقیں ختم ہوجائیں گی۔ مگر آپ نے دیکھا کہ جشن عید میلادالنبی (ص) منانے کا جذبہ ہر لمحہ بڑھ رہا ہے، کسی قسم کا خوف و ڈر ہم محسوس نہیں کرتے۔ عید میلادالنبی (ص) نشتر پارک کے شہداء کے چہلم کے موقع پر سنی تحریک کی سپریم کونسل نے ثروت اعجاز قادری کو سنی تحریک کی سربراہی سونپی، جس سے سنی تحریک کے خاتمہ کا خواب دیکھنے والوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

اسلام ٹائمز: مذہبی جماعتیں نشستوں کے حصول کے اعتبار سے انتخابی سیاست میں خاطر خواہ کامیاب حاصل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہیں، آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہے؟
محمد شاہد غوری: بدقسمتی سے پاکستان کے فیصلے پاکستان سے باہر ہوتے ہیں، اسی وجہ سے پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، سب نے سب بیرونی ایجنڈے پر کام کیا اور اب بھی کر رہی ہیں۔ پاکستانی عوام کی امنگوں کے خلاف فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ہم نے تین انتخابات میں حصہ لیا اور مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوتے ہیں۔ یہ بیرونی ایجنڈا بھی اس میں شامل کہ حقیقی مذہبی جماعتوں کو آگے نہیں آنے دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملکی ادارے بھی نہیں چاہتے کہ مذہبی جماعتیں آگے آئیں۔ شاید ان کی یہ سوچ ہوکہ مذہبی لوگ آگئے تو فلاں چیز پر پابندی لگ جائے گی، فلاں پر پابندی ہوجائے گی۔ دیکھیں ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں ہے کہ جو پاکستان میں شراب خانے کھلنے کے خلاف ہو۔ کسی کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ ایک بھی اس کے خلاف نہیں ہے کہ فحاشی و عریانی کو ختم ہونا چاہئیے۔

بیرونی ایجنڈے کے تحت پوری نسل کو بے راہ روی کا شکار کیا جا رہا ہے مگر کوئی اس پر آواز بلند نہیں کرتا۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو اپنے آپ کو لبرل سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو پڑھا لکھا سمجھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دین سے دور ہوگئے ہیں، یہ طرز عمل و فکر نسلوں کی تباہی کا باعث ہے۔ اس میں مذہبی جماعتوں کی نااہلی بھی شامل ہے۔ بہت سی مذہبی جماعتیں طالبان کی حمایت بھی کرتی ہیں، کچھ کشمیر جہاد کی سپورٹ کر رہی ہیں۔ بہت ساری سیاسی جماعتیں افغانستان کو سپورٹ کر رہی ہیں، بہت سی سیاسی جماعتیں طالبان کے نام سے جو دہشت گرد موجود ہیں ان کو سپورٹ کر رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: پہلے مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر بنتی تھیں، ان کے ناموں سے مسلک نمایاں نہیں ہوتا تھا، مگر اب جماعتیں مسلک کی بنیاد پر بن رہی ہیں جیسے خود آپ کی جماعت سنی تحریک۔ اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہئیں گے؟
محمد شاہد غوری: دیکھیں پہلے اسلام کے نام پر جنہوں نے جماعتیں بنائیں، مگر انہوں نے اسلام کے نام پر کیا دیا۔ اسلام کے نام پر وہ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اسلام کے نام پر جماعت بناکر وہ دہشت گردی کر رہے ہیں، بم دھماکے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں، اسلام کے نام پر وہ انسانیت سوز جرائم کر رہے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ صرف اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں جبکہ ان کا ہدف اسلام نہیں ہے۔ دیکھیں ہم نے جھوٹ نہیں بولا، لوگوں کو گمراہ نہیں کیا اسلام کے نام پر۔ ہم نے اسلام کا نام استعمال نہیں کیا کہ جس طرح دوسری نام نہاد مذہبی جماعتوں نے اپنے مفاد کے حصول کیلئے اسلام کو استعمال کیا۔ تو لہٰذا ہم نے اگر اپنے مسلک کے نام پر، اپنے مسلک کے دفاع کے نام پر اگر تنظیم بنائی تو جھوٹ نہیں بولا۔ اگر ہم نے سنی تحریک بنائی تاکہ مساجد، مدارس، مزارات و خانقاہوں کا دفاع کریں تو اس میں غلط کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہم عوامی مسائل کے حل کیلئے بھی آواز اٹھاتے ہیں، جدوجہد کرتے ہیں، سول اپوزیشن کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں اس حوالے سے ہم سب کے ساتھ ہیں، ہم جمہوری عمل کا حصہ ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم کسی قسم کی فرقہ واریت میں ملوث نہیں ہیں بلکہ اس کی شدت کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حالیہ ہونے والے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟ کیا یہ شیعہ سنی مسلمانوں کو لڑانے کی سازش تو نہیں؟ نیز بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟
محمد شاہد غوری: کچھ عرصہ قبل ایران جانے والے زائرین کو بسوں سے اتار کر شہید کیا گیا، اسی طرح حالیہ سانحہ کوئٹہ میں اہل تشیع کو قتل کیا گیا۔ دہشت گردی کہیں بھی کسی بھی شکل میں ہو، چاہے اس کا شکار غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، قابل مذمت ہے اور اس کا خاتمہ ہونا چاہئیے۔ دہشت گرد عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، ان کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ تو یہ جو سانحہ کوئٹہ اہل تشیع حضرات کے ساتھ پیش آیا ہے یہ ایک گھناﺅنی سازش تھی۔ یہ انتہا پسندی و دہشت گردی کا بہت بڑا واقعہ ہے۔ آپ نے گورنر راج کا پوچھا، یقینا ایسی نااہل حکومت ہو تو اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئیے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جہاں جرائم و دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جا رہا ہو، مثلاََ سندھ کیلئے بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ جہاں جرائم کو کنٹرول نہیں کیا جا رہا ہے، کراچی میں بدامنی عروج پر ہے تو ایسی حکومت کا کیا فائدہ۔ تو سانحہ کوئٹہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا، پھر اس پر پوری پاکستانی قوم متحد ہوگئی تھی، تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے اس دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کی۔ ہم نے بھی مذمت کی، ان کے احتجاج میں شریک بھی ہوئے۔ دیکھیں اہل تشیع ہوں یا دیوبندی وہابی، اگر ہمارا کسی سے نظریاتی اختلاف ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم انسانیت سے بھی اختلاف کریں۔ لہٰذا ہم نے اس سانحہ کی مذمت بھی کی، ان کے احتجاج میں شرکت بھی کی، ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیے ان کی روک تھام ضروری ہے۔

2006ء میں سانحہ نشتر پارک ہوا، تمام جماعتوں، تمام مذاہب، تمام مسالک و مکاتب فکر نے ہم سے اظہار تعزیت کی، ہم سے اظہار ہمدری کیا، ہمارے غم میں شریک ہوئے تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور ہم یہ کردار ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ جو بھی جماعتیں، جو بھی لوگ چاہے وہ کسی بھی مسلک و مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں اگر وہ دہشت گردی کے خلاف پرعزم ہیں تو اس اہم ایشو کے حل کرنے کیلئے ان کے ساتھ ہیں۔ جہاں تک بات گورنر راج کی ہے تو دیکھیں ایسی حکومت ایسا وزیراعلیٰ جو بولتا کچھ ہے اور اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے، اس کے ذہن میں کچھ ہوتا ہے مگر کہہ کچھ اور جاتا ہے، جس کی بات کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ اس کی حرکتوں پر پہلے بھی جب وہ وزیراعلیٰ تھا، میڈیا میں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور آج بھی اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ایسے نااہل لوگ جو دہشت گردی کو کنٹرول نہیں کر سکیں، ان کے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ احتجاج تھا کہ وہاں پر فوج بلائی جائے، کراچی میں بھی فوج بلائی جائے، آپریشن ہو تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں جو ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ ابھی بھی اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے، بہت زیادہ سختی کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں کو لگام دی جا سکے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ کوئٹہ کے خلاف ہونے والی احتجاجی تحریک کا مرکزی مطالبہ تھا کہ کوئٹہ میں فوج بلا کر دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کوئٹہ اور کراچی میں فوجی آپریشن ہونا چاہئیے؟
محمد شاہد غوری: دیکھیں جب سوات کے اندر فوجی آپریشن ہوا، سوات کے اندر روزانہ قتل و غارت گری ہو رہی تھی، خود ہمارے ایک سو چوالیس علماء کرام کے گلے کاٹے گئے۔ پیر سمیع اللہ چشتی کو نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ دہشت گردوں نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی تدفین کے دو روز بعد ان کی لاش کو قبر سے نکال کر درخت سے لٹکایا اور اس پر فائرنگ کی۔ اس طرح کے واقعات وہاں پر رونما ہوئے ہیں۔ درجنوں مزارات کو بم دھماکوں سے تباہ کیا گیا، وہاں پر بھی ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ فوجی آپریشن کیا جائے۔ تو آپ نے دیکھا کہ جب وہاں فوجی آپریشن ہوا تو امن و امان قائم ہوا، لوگوں کی آمد و رفت وہاں بڑھ گئی ہے۔ اگر سوات سمیت خیبر پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں ان کو نہیں روکا جاتا فوجی آپریشن کے ذریعے یا پاک فوج وہاں یہ کردار ادا نہیں کرتی تو نجانے کیا حال ہوتا۔

دہشت گرد اس حد تک پروان چڑھ گئے تھے کہ وہ جی ایچ کیو کے اندر گھس گئے تھے، وہ پی این ایس مہران میں گھس گئے، کوئی ادارہ ان سے محفوظ نہیں تھا، مناواں پولیس ٹرینگ سینٹر میں گھس کر پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ اسی طرح سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا۔ مساجد و مزارات کو دھماکوں سے اڑایا گیا، اسکولوں، کالجوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، تو اگر کہیں سول حکومت بدامنی پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو یقینا فوج کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ یہی صورتحال آج پورے بلوچستان کی ہے، کراچی کی ہے۔ تو اس صورتحال میں جو شہری پاکستان سے محبت کرتا ہوگا، اپنے شہر میں امن و امان چاہتا ہوگا وہ تو فوج کو مدد کیلئے پکارے گا۔

اسلام ٹائمز: بدقسمتی سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مذہبی عناصر ملوث پائے جاتے ہیں۔ کیا یہ دین اسلام کی نیک نامی کے خلاف عالمی سازش کو حصہ تو نہیں ہے؟
محمد شاہد غوری: بالکل ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں اور واضح طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ امریکی و مغربی ممالک کی سازشوں کو حصہ ہے، ان کے ساتھ دینے کیلئے کچھ ضمیر فروش لوگ اور عناصر ہیں جو دین اسلام کو فروخت کئے ہوئے ہیں، ضمیر فروش لوگ ہیں جنہوں نے دین اسلام اور جہاد کا نام استعمال کرکے دین اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آج دہشت گردی تو پاکستان میں ہو رہی ہے مگر بیرون ملک خصوصاََ مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آج ان پاکستانیوں کو کن ذلت و رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو وہاں روزگار، حصول علم و دیگر مقاصد کیلئے وہاں گئے ہوئے ہیں۔ تو یہ اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ بیرونی مداخلت ختم ہونا چاہئیے، حکومت، ادارے، فوج، ملکی سلامتی کے حساس ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ فیصلے امپورٹ ہونے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئیے۔ دہشت گردوں کا تعلق کسی سے بھی ہو ان کا خاتمہ ہونا ضروری ہے، اسلحہ سے بھی پورے پاکستان کو پاک کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کالعدم تنظیمیں پابندی کے باوجود کام کر رہی ہیں، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
محمد شاہد غوری: دیکھیں ہم اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، حکومت سے شکایت کرتے ہیں، اب ہم اس کے علاوہ کیا کریں، کیا ہم بھی دہشت گردوں کی طرح اسلحہ اٹھالیں۔ یہ تو حکومت کی نااہلی ہے، وزارت داخلہ کی نااہلی ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ پر پابندی لگائی اس نے ملت اسلامیہ کے نام سے کام کرنا شروع کردیا۔ اس نام پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے اہلسنت و الجماعت کے نام سے فعالت شروع کر دی۔ تو یہ حکومت کی نااہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ کالعدم تنظیموں کی فعالیت کو روکے۔

اسلام ٹائمز: جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر قاری عثمان نے اپنے بیان میں کہا کہ سنی تحریک دیوبندی بریلوی اختلافات کو بڑھانے کی بات کر رہی ہے، اسے عید میلادالنبی جیسے مقدس موقع پر سیرت آنحضرت جیسے پاکیزہ عنوان سے ہٹ پر کراچی جو پہلے ہی مقتل بنا ہوا ہے اسے مزید بحرانوں میں نہیں ڈالنا چاہئیے۔ عبداللہ شاہ غازی (رہ) سے متصل مسجد پر قبضہ کا بھی تذکرہ کیا۔ آپ کا کیا مؤقف ہے؟
محمد شاہد غوری: اصل میں انہیں اس قسم کے بیان کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت عبد اللہ شاہ غازی (رہ) کے مزار پر بیس سال سے ایک ایسا امام تعینات ہے جو کہ مزارات اولیاء کا منکر ہے۔ وہ مزارات پر حاضری دینے والوں کو، آنے والوں کو کفر و شرک سے تشبیہ دیتا ہے۔ عبداللہ شاہ غازی (رہ) سے متصل مسجد یقینا مزار کی مسجد ہے، اس کی حدود میں ہے۔ ایسا شخص جو مزارات اولیاء کو ماننے والا نہ ہو، اس کا منکر ہو اور اس کو شرک و بدعت کہتا ہو یا ان کو گناہ تصور کرتا ہو اور آنے والوں کو کافر کہتا ہو، تو اس کا مزار پر کیا کام ہے۔ ایسے شخص کا ایسی جگہ تقرر کیا جائے جہاں اس کے عقیدے کے ماننے والے ہوں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ یہاں اہلسنت کے ایک ایسے شخص کا تقرر کیا جائے کہ جو مزارات اولیاء اور بزرگان دین کا ماننے والا ہو۔ اس میں ہم نے کون سے ایسی غیر قانونی بات کی ہے۔ اس سلسلے میں تقرر بھی ہوگیا تھا، حکومت نے ہماری باتوں کو سمجھ لیا تھا۔ مگر انہوں نے سیاسی ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے حکومت پر دباﺅ ڈالا اور واپس اس کا ٹرانسفر کروا دیا۔ اس لئے ہم نے اس پر احتجاج کیا کہ جو ہمارا حق ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں جاری بدامنی کی آپ کیا وجہ سمجھتے ہیں؟
محمد شاہد غوری: کراچی میں بدامنی کی وجہ اجارہ داری کی جنگ ہے۔ جو جو سیاسی جماعتیں کراچی میں ہیں، جو کراچی پر اپنا حق جتانا چاہتی ہیں۔ انہیں انسانیت کی پروا کرنی چاہئیے۔ انہیں انسانی جان کی حرمت کا خیال رکھنا چاہئیے۔ میں پیغام بھی دینا چاہتا ہوں کہ اس طرح کے حالات پہلی بار نہیں ہوئے کراچی میں۔ کسی کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ جو جیسا کر رہا ہے اس کے ساتھ بھی ایسا سلوک ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں اور اللہ اور اس کے آخری رسول (ص) پر ایمان و یقین رکھتے ہیں تو قتل و غارت گری سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ جس کا جو حق ہے اسے دبانے کے بجائے اس کو اس کا حق دینا چاہئیے۔ ہم پر بھی لوگ دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں۔ ہمارے اس مرکز اہلسنت میں جہاں آپ تشریف فرما ہیں اور انٹرویو لے رہے ہیں اس کے بالکل برابر میں ایک چرچ ہے، دیوار سے دیوار ملی ہوئی ہے۔ یہ چرچ ہمارے مرکز بننے سے پہلے سے ہے۔ آپ چرچ میں جاکر پادریوں سے ملیں یا چرچ کے دیگر لوگوں سے ملیں، ان سے پوچھیں کہ ان بائیس سالوں میں پاکستان سنی تحریک سے آپ کو کوئی تکلیف ہوئی ہے، کبھی آپ کو کوئی پریشانی ہوئی ہے۔

اگر جب ان کے ساتھ کوئی مسائل پیش آتے ہیں تو ہم ان کو حل کر سکتے ہیں تو ہم انہیں حل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ایک پڑوسی ہونے کے ناتے ہم ان کی ڈھال ہیں جو کہ ہمارا اسلامی فریضہ ہے۔ نہ میں چرچ میں جاکر عبادت کرتا ہوں نہ وہ ہماری مسجد میں آکر عبادت کرتے ہیں مگر ہیں تو پاکستانی ہیں تو انسان۔ یہ بھی پاکستان کے شہری ہیں یہیں کھاتے کماتے ہیں، اور شہریوں کی طرح یہیں کا روپیہ پیسہ استعمال کرتے۔ لہٰذا ہم سب پاکستانیوں کو مل کر ملکی استحکام کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی اور ہم سب کے ساتھ ہیں سوائے ان سازشی عناصر کے جنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، ملک کو برباد کیا ہوا ہے، عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے کسی طرح بھی ہم ان کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم تمام محب وطن لوگوں کے ساتھ ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلام ٹائمز: حضرت رسول خدا (ص) کی ولادت با سعادت کے مقدس مہینے ربیع الاول میں آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
محمد شاہد غوری: میرا بس یہی پیغام ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، ہم خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں کہ جو حضور اکرم (ص) سے محبت کرتے ہیں، اللہ بھی اپنے حبیب (ص) سے بے انتہا محبت فرماتا ہے اور اس کا حکم بھی دیتا ہے، اس دنیا کا وجود بھی صرف اس وجہ سے ہوا ہے، آج دنیا قائم صرف اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب (ص) کا نام بلند کرنا تھا، اس کی پہچان کروانی تھی۔ اللہ کو ہماری عبادات کی ضرورت نہیں ہے، لاکھوں کروڑوں فرشتے روزانہ پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے حبیب (ص) کے صدقے میں مسلمان اور عاشق رسول (ص) بنایا ہے تو اگر ہم کچھ نہ کریں تو کم از کم حضور اکرم (ص) کی وہ عملی حیات طیبہ جو نبوت سے پہلے کی چالیس سالہ زندگی تھی، نبوت کے بعد کی تیئس سالہ زندگی تھی، ہم اس پر عمل کر لیں، اس کی تقلید کر لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم دنیا کی بہترین قوم بن جائیں گے۔

Related Links:

http://tribune.com.pk/story/438715/road-to-peace-ishaq-made-vice-president-of-banned-aswj/

http://tribune.com.pk/story/356280/defunct-ssp-chief-maulana-ludhianvi-detained-by-islamabad-police/

http://islamtimes.org/vdci3warzt1ap32.s7ct.html

High Time for Deobandi/Salafi/Wahabi to Think – by Zahoor Hyder

Comments

comments

Latest Comments
  1. Fazil Barelvi
    -
  2. Fazil Barelvi
    -
  3. Ali Erfani
    -
  4. Fazil Barelvi
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.