Related post: Resistance to #ShiaGenocide in Pakistan is a human right, in fact a moral duty!
Summary: Joint Sunni and Shia fatwa allows suicide attacks on Taliban and Sipah-e-Sahaba terrorists to save humanity. Renowned moderate Deobandi (Sunni) scholar Maulana Hasan Jan of Peshawar (Pakistan) and Shia scholar Ayatollah Abul Fazl Burqei of Qum (Iran) issued a joint fatwa against Takfiri Deobandi terrorists (of Taliban and Sipah-e-Sahaba) who have killed not only thousands of Sunni and Shia Muslims in Pakistan, Afghanistan and other countries but they have also killed dozens of Ahmadis, Christians, Hindus, Jews and a significant number of diplomats, NGO officials, government servants and army soldiers etc. The fatwa declares the Taliban and Sipah-e-Sahaba as mischief spreaders on earth and citing the Quran urges the Pakistani State and all Muslims, Sunni and Shia, to take punitive action against the Taliban and Sipah-e-Sahaba terrorists. The fatwa declares that it is Islamically permissible to attack, including suicide attack, to eliminate the Taliban and Sipah-e-Sahaba terrorists in order to save innocent humanity from their terrorist activities. The fatwa urges Sunni and Shia Muslims to maintain unity against Takfiri Deobandi terrorists. It declares that Takfiri Deobandis (Taliban and Sipah-e-Sahaba) are criminals and terrorists, and must not be misrepresented as Sunni Muslims.
It may be noted that Ayatollah Burqei passed away last year while Maulana Hasan Jan was killed by Takfiri Deobandi terrorists in 2007. The fatwa was jointly signed by both clerics in 2007 a few weeks before Maulana Jan’s assassination in Peshawar. It was not released during life time of the clerics in view of their personal safety and security.
تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے اجتماع اور دفاتر پر فدائی حملے جائز ہیں تاکہ بے گناہ انسانوں کو ان کے مظالم سے بچایا جا سکے
طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے خلاف ایران کے آیت الله برقعی قمی اور پاکستان کے مولانا حسن جان دیوبندی کا مشترکہ فتویٰ
آیت الله سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی قمی کا گزشتہ سال ایران انتقال ہوا انتقال سے چند سال قبل ان سے پاکستان کے مولانا حسن جان آف پشاور نے رابطہ کیا اور امت مسلمہ کی وحدت اور جنوبی ایشیا میں نو وارد تکفیری فتنہ کے بارے میں خط و کتابت کا آغاز کیا
ذیل میں ہم آیت اللہ برقعی اور مولانا حسن جان کا مشترکہ فتویٰ پوسٹ کر رہے ہیں جو ان دونوں حضرات کی حفاظت کے پیش نظر ان کی زندگیوں میں نشر نہیں کیا گیا اس فتویٰ کا متن پشاور کے ایک نامور عالم دین نے ہمیں ارسال کیا ہے جن کا نام ہم ان کی حفاظت کے پیش نظر مشتہر نہیں کر رہے
مولانا حسن جان کو تکفیری دیوبندی دہشت گردوں نے آج سے چند سال قبل پشاور میں شہید کر دیا تھا جبکہ آیت الله قمی کے خلاف جھوٹی مہم چلی گئی تاکہ ان دونوں حضرت کی وقعت اور رسوخ میں کمی کی جا سکے اگرچہ سنی اور شیعہ کے دشمنوں نے مولانا حسن جان کو شیعہ مشہور کیا اور آیت اللہ برقعی کے سنی ہونے کا جھوٹا قصّہ مشہور کیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ دونوں جلیل القدر عالم اپنی وفات تک اپنے مسلک پر قائم رہے اور اس کے ساتھ ساتھ سنی شیعہ اتحاد اور تکفیری دہشت گردوں کے خلاف بھی ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے رہے
سوال
کیا فرماتے ہیں علما دین بابت شیعہ اور سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تکفیر کے بارے میں اور ان پر خود کش و دیگر متشدد حملوں کے بارے میں – آجکل پاکستان، افغانستان و دیگر ممالک میں سنی بریلوی مسلمانوں کی مساجد ، اولیااللہ کے مزارات، سنی بریلوی اور اعتدال پسند دیوبندی و سلفی علماء پر حملے کیے جا رہے ہیں شیعہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہے ہے حملہ کرنے والوں کا تعلق تکفیری دیوبندی مسلک سے ہے جو طالبان، سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی کے نام سے شیعہ و سنی بریلوی مسلمانوں کو کافر و مشرک قرار دیتے ہیں اور ان پر خود کش حملے کرتے ہیں تکفیری دیوبندیوں کے یہی لوگ دیگر بے گناہ لوگوں جیسا کہ احمدیوں، مسیحیوں، ہندوؤں، یہودیوں و دیگر کے خلاف بھی اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں اور نادان کمسن لڑکوں کو خود کش حملہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں، یہ لوگ لڑکیوں کے تعلیمی اداروں پر بھی حملے کرتے ہیں، پاکستانی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کو اغوا کر کے ان کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرتے ہیں، پاکستان میں موجود بیرونی ممالک کے سفارتکاروں پر حملے کرتے ہیں، مفاد عامہ کے لیے کام کرنے والی قومی اور خارجی تنظیموں پر حملے کرتے ہیں، ایسے افراد اور ان کی حمایت و معاونت کرنے والوں کے بارے میں علماء دین کیا فرماتے ہیں
جواب
قرآن کے مطابق جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک بے گناہ شخص کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی
تکفیری دیوبندیوں کا جو گروہ طالبان، سپاہ صحابہ ، لشکر جھنگوی کے نام سے سر گرم عمل ہے اس کا سنی مسلمانوں یا سنی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں یہ لوگ اصل میں خارجی و تکفیری ہیں اور قران کی رو سے ان پر مفسدین فی الارض کا اطلاق ہو گا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے گروہ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پکڑ کر ان کو قران کے مطابق سخت سزا دے ان کے ہاتھ اور پیر مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں اور یہی سلوک ان لوگوں سے کیا جائے جو تکفیری دیوبندیوں کے جرائم کی حمایت یا پردہ پوشی کرتے ہیں اگر ریاست تکفیری دیوبندیوں کو سزا دینے سے قاصر ہے تو جمہور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ان کو خود سزا دیں اور ان کو گرفتار کر کے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں جیسا کہ قران میں مفسدین فی الارض کی سزا ہے سنی اور شیعہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں کیوں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی امت کو وحدت کو قائم رکھنا چاہیے – تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے اجتماع اور دفاتر پر فدائی حملے کیے جا سکتے ہیں تاکہ بے گناہ انسانوں کو ان کے مظالم سے بچایا جا سکے لیکن اس بات کا خاص خیال رہے کہ کوئی ایک بے گناہ فرد بھی ان پر حملوں میں نقصان نہ اٹھاۓ اس صورت میں ان پر حملہ حرام ہو گا
لیکن تکفیری دیوبندی جلسوں اور چیدہ چیدہ دہشت گردوں اور ان کے رفقاء اور حامیوں پر حملے کرنا افضل عبادت ہے جس کی جزا جنت میں افضل درجہ ہے انشا الله
یہ ہر سنی اور شیعہ مسلمان کا فرض ہے کہ تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے مشترکہ کوشش کرے اور ہر ممکن تدبیر اور اسباب سے ان کو جہنم واصل کرے
ایسا کرنا انسانیت کی خدمات اور افضل ترین عبادت ہے جو مرد اور عورت تکفیریوں کا خاتمہ کرنے میں شہید ہوتا یا ہوتی ہے آخرت میں اس کا شمار صدیقین، صالحین اور شہدا کے ساتھ ہو گا انشاللہ
پاکستان اور دیگر ممالک میں قانونی طور پر کام کرنے والے سفارتکار اسلامی ریاست کے مہمان ہیں ان کا احترام اور حفاظت ہم پر فرض ہے اور ان کو نقصان پہںچانا حرام اور غیر اسلامی ہے اسی طرح صحت ، تعلیم اور مفاد عام کے لیےکام کرنے والے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں، افراد ، عمارت اور تنظیموں کو نقصان پہنچانا یا انہیں ہراساں کرنا غیر اسلامی اور فسادی عمل ہے – اسلامی ریاست میں بسنی والی تمام مذھبی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ احترام اور محبت کا برتاؤ ہونا چاہیے سنی، شیعہ،احمدی، مسیحی، یہودی، ہندو، سکھ و دیگر گروہوں پر حملے کرنے والے ریاست کے باغی ہیں اور ان کے ساتھ فساد فی الارض کا سلوک کیا جائے
تاریخ اسلام کا تنقیدی جائزہ لینا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن عمل ہے اسلاف سے جو غلطیاں ہویں انہیں چھپانا ایک قبیح عمل ہے لیکن ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین سے بھی گریز کیا جانا چاہیے جو سنی اور شیعہ علما ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ جاری کرتے ہیں یہ حضرت بذات خود الله کے دین میں رخنہ ڈال رہے ہیں اور بذات خود دائرہ ایمان سے خارج ہیں، مسلمان حضرات دینی امور میں ایسے گمراہوں ضالین سے رجوع نہ کریں اور نہ ہی انہیں کسی مدرسہ یا مسجد کی نظامت یا امامت کی ذمہ داری دی جانی چاہیے الا یہ کسی عالم دین کے سامنے توبہ کریں اور اپنے فسق کی معافی مانگیں
واللہ تعالیٰ اعلم
آیت الله العظمی سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی قمی
قم مقدس ایران
مولانا حسن جان
پشاور پاکستان
٢٨ رجب ١٤٢٨ ہجری
شریعت کی رو سے وضاحت
بدقسمتی سے صحابہ کرام کے بعد کی پہلی ہی نسل فتنہ کبریٰ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ حضرت عثمانؓ کے عہدِ حکومت کے اواخر میں یہ فتنہ شروع ہوا۔ باغی جماعت نے پہلے آپ کی تکفیر کی پھر آپ کا خون بہایا۔ خوارج کی جماعت اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کے کفر کی قائل تھی۔ ان مسلمانوں میں صحابہ و تابعین کی عظیم جماعت بھی شامل تھی۔ وہ اپنے مخالفین سے قتال واجب سمجھتے تھے اور ان کی جان و مال اور ان کی عورتوں کو مالِ غنیمت کے طور پر اپنے لئے حلال تصور کرتے تھے۔ وہ مشرکین کو تو کلام اللہ کے سننے کی بنیاد پر پناہ دینے کو تیار تھے، لیکن اپنے مخالف مسلمانوں کے لئے ان کے دل میں کوئی جگہ نہ تھی۔ حضرت علیؓ کی ایما پر حضرت عبداللہ ابنِ عباس کی ان کے ساتھ گفت و شنید کے بعد ان کے بعض افراد کے نظریے میں کچھ لچک پیدا ہوئی، لیکن من حیث المجموع وہ اپنے تکفیری وقتال نظریے پر مصر رہے۔
خدا اور اس کے رسول نے ملت اسلام کے جو امتیازی نشانات بتائے ہیں ان کے لحاظ سے کون شخص سرحد اسلام کے اندر ہے اور کون اس سے باہر نکل گیا ہےْ۔اس غرض کے لیے جو چیزیں ہم کو بنائے اسلام کی حیثیت سے بتائی گئی ہیں وہ یہ ہیں
‘‘اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرے اور زکواۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے اور بیت اللہ کا حج کرے اگر وہاں تک پنچنے کی استطاعت رکھتا ہو’’ (مسلم۔ابو داود۔ترمذی۔نسائی)
‘‘مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکواۃ دیں۔ جب وہ ایسا کردیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں بچا لیں گے الا یہ کہ اسلام کا کوئی حق ان کے خلاف قائم ہو اور ان کا حساب عزو جل کے ذمے ہے’’ (بخاری،احمد۔مسلم)
بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کُچھ رقم نبی کی خدمت میں بھیجی اور حضور نے اسے چار آدمیوں پر تقسیم کر دیا ۔ اس پر حاضرین میں سے ایک شخص بول اُٹھا ‘‘یا رسول اللہ خدا سے ڈرائیے’’۔ حضور نے فرمایا ‘‘افسوس تیرے حال پر ۔ روئے زمین پر بسنے والوں میں سے مجھ سے زیادہ کس کو سزاوار ہے کہ خدا سے ڈرے؟’’۔ حضرت خالد اس موقع پر موجود تھے ۔انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اسے قتل نہ کر دوں۔ فرمایا ‘‘نہیں شاید کہ وہ نماز پڑھتا ہو’’ ۔ انہوں نے عرض کی کہ کتنے ہی نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں۔ آپ نے فرمایا ‘‘مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دل کھول کر اور پیٹ چاک کر کے دیکھوں’’
اسی طرح ایک روایت ہے کہ انصار میں سے ایک صاحب ایک مرتبہ نبی سے راز میں بات کر رہے تھے ۔اتنے میں حضور نے باآواز بلند فرمایا ‘‘کیا وہ شخص لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتا؟’’ انصاری نے عرض کی ‘‘جی ہاں یا رسول اللہ ، مگر اس کی شہادت دکا کوئی اعتبار نہیں’’۔ حضور نے فرمایا ‘‘کیا وہ محمد کو اللہ کا رسول نہیں مانتا؟’’۔ انصاری نے پھر عرض کی ‘‘ جی ہاں اقرار تو کرتا ہے مگر اس کی شہادت کا کوئی اعتبار نہیں’’ ۔ حضور نے پھر فرمایا ‘‘کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟’’ ۔ انہوں نے عرض کی ‘‘جی ہاں ، پڑھتا ہے، مگر اس کی نماز کا کوئی اعتبار نہیں’’۔ اس پر حضور نے فرمایا ‘‘ایسے لوگوں کو قتل کرنے سے اللہ نے مجھے منع فرمایا ہے’’
نبی کریم نے نہایت سختی کے ساتھ تکفیر سے منع فرمایا ہے اور یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو شخص کسی کو کافر کہے گا درآنحالیکہ وہ حقیقت میں کافر نہ ہوا تو وہ کفر کا فتویٰ خود تکفیر کرنے والے کی طرف پلٹ آئے گا۔ ‘‘جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہے گا تو یہ قول دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور پڑے گا’’ بخاری
جس شخص نے کسی کو کافر یا دشمن خدا کہہ دیا درآنحالیکہ وہ شخص ایسا نہ تھا تویہ قول خود قائل پر ضرور پلٹ جائے گا’’ مسلم
‘‘جس نے کسی مومن پر لعنت کی اس نے گویا اسے قتل کر دیا اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی اس نے گویا اُسے قتل کر دیا ’’بخاری
حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک سریہ میں ایک شخص نے مسلمانوں کو دیکھ کر کہا السلام علیکم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔ مگر ایک مسلمان نے یہ گمان جان کر کہ اس نے محض جان بچانے کے لیے کملہ پڑھا ہے اسے قتل کر دیا۔ نبی کو اس کا علم ہوا تو حضور اس پر سخت ناراض ہوئے اور اس مسلمان سے باز پرس کی ۔اس نے عرض کی یا رسول اللہ اس شخص نے محض ہماری تلوار سے بچنے کے لیے کلمہ پڑھ دیا تھا۔ اس پر سرکار دو جہان نے فرمایا ‘‘کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟’’
ایک صحابی نے پوچھا کہ اھر ایک شخص مجھ پر حملہ کر کے میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور جب میں اس پر حملہ کروں تو وہ کلمہ پڑھ لے تو کیا ایسی حالت میں ، میں اس کو قتل کرسکتا ہوں؟ حضور نے فرمایا ‘‘نہیں’’ صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللہ اس نے تو میرا ہاتھ کاٹ دیا۔ آپ نے فرمایا اس کے باوجود تم اس کو نہیں مار سکتے ۔ اگر تم نے اس کو مارا تو وہ اس مرتبے پر جس میں تم اس کے قتل سے پہلے تھے اور تم اس مرتبے میں ہو جاو گے جس میں وہ لا الہ الا اللہ کہنے سے پہلے تھا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمایا اگر کوئی شخص کسی کافر پر نیزہ تانے اور جب سنان اس کے حلق تک پہنچ جائے اس وقت وہ لا الہ الا اللہ کہہ دے تو مسلمان کو لازم ہے وہ وہ فورا اپنا نیزہ واپس کھینچ لے۔
حکم، ظاہر پر لگایا جاتا ہے نہ کہ پوشیدہ امور پر یہ ”اطلاق“ واضح ہو جانا چاہیے کہ ”اصولِ اہلسنت کی رو سے حکم صرف ظاہر پر لگتا ہے“. فقہائے اسلام کے ہاں یہ قاعدہ بیان ہوتا ہے: لَنَا الْحُکْمُ عَلَی الظَّاہِرِ، وَرَبُّنَا یَتَوَلّٰی السَّرَائِرَ یعنی:ہمارا کام ہے کہ ظاہر پر حکم لگائیں۔ رہ گئے وہ امور جو ہم پر پوشیدہ ہیں، تو اُن کا فیصلہ کرنا ہمارے پروردگار کام ہے۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ صبح سویرے ہم نے قبیلہ جہینہ کے ایک گوت ”حرقات“ پر چڑھائی کر دی۔ میں نے (اُن میں سے) ایک آدمی کو جا لیا، تو اُس نے بول دیا: ”نہیں کوئی عبادت کے لائق، مگر اللہ“۔ میں نے نیزہ مار کر (اُس کا کام تمام کر دیا)۔ میرے نفس میں اِس سے خلجان پیدا ہوا تو میں نے نبی سے اس کا ذکر کیا۔ تب رسول اللہ نے فرمایا: ”کیا، اُس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور تم نے اُسے قتل کر ڈالا؟“ اسامہؓ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اُس نے ہتھیار کے ڈر سے یہ الفاظ کہہ دیے تھے۔ آپ نے فرمایا: اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہ حَتّیٰ تَعْلَمَ اَقَالَہَا اَمْ لَا ”تو تم نے اُس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ یہ کلمہ اُس نے (دل سے) کہا تھا یا نہیں؟“ اسامہؓ کہتے ہیں: نبی اپنے یہ الفاظ دہراتے ہی جا رہے تھے، یہاں تک کہ میرا دل چاہا کہ کاش میں آج ہی ایمان لایا ہوتا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لا الٰہ الا اللہ)
یہ اور اِسی طرح کے اَن گنت شرعی دلائل کی بنیاد پر علمائے اہل سنت کے ہاں یہ ایک قطعی قاعدہ ہے کہ حکم صرف اُس چیز پر لگایا جائے گا جو ایک آدمی سے ظاہر ہو۔ رہ گیا دلوں کا معاملہ اور وہ امور جو ہم پر ظاہر نہیں، تو یہ مسئلہ اللہ کے سپرد کر رکھا جائے گا اور ہرگز ہرگز اپنے ہاتھ میں نہ لیا جائے گا۔ کوئی شخص کتنا بڑا نفاق اپنے اندر چھپائے بیٹھا ہے، یہ دیکھنا اور اِسکا فیصلہ کرنا اللہ رب العزت کا کام ہے۔
کئی ایک باتیں ایسی بھی ریکارڈ پر ہیں کہ کسی منافق نے کھلم کھلا ایک کفریہ قول یا رویہ ظاہر کیا (اور اُس کو جاننے کیلئے وحی واحد ذریعہ نہ رہا)۔ نیز اپنے اُس کفریہ قول یا رویہ پر اُس کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ بھی ہرگز ریکارڈ پر نہیں۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری میں عبد اللہ بن اُبی کا یہ رویہ کہ :جب رسول اللہ ایک گدھے پر سوار عبد اللہ بن اُبی کے پاس پہنچے تو وہ بے لحاظ بکنے لگا: اِلَیْکَ عَنِّیْ، وَاللّٰہِ لَقَدْ آذَانِیْ نَتْنُ حِمَارِکَ ”پرے ہٹو، واللہ تمہارے گدھے کی سڑاند میرے ناک میں دم کر رہی ہے“۔ تب انصارؓ میں سے ایک صحابیؓ سے نہ رہا گیا اور وہ عبد اللہ بن اُبی کو مخاطب کر کے بولا: وَاللّٰہِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللّٰہِ اَطْیَبُ رِیْحاً مِنْکَ ”واللہ! رسول اللہ کا گدھا بو میں تم سے کہیں بہتر ہے“۔ تب عبد اللہ بن اُبی کے قبیلے کا ایک آدمی عبد اللہ بن اُبی کیلئے طیش میں آیا اور اُس انصاریؓ کو گالیاں بکنے لگا۔ اِس پر ہر دو کے قبیلے کے لوگ اپنے اپنے آدمی کیلئے بھڑک اٹھے اور دونوں گروہوں کے مابین کھجور کی چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مار پیٹ ہونے لگی۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلح، باب ما جاءفی الاِصلاح بین الناس اِذا تفاسدوا)
غرض بعض افراد سے اِس قسم کے کفریہ افعال اور رویے کھلم کھلا سرزد ہونے کے باوجود ___ بعض شرعی مصالح کے پیش نظر ___ اُن لوگوں کی تکفیر سے احتراز برتا گیا اور دنیوی امور میں اُن کا حکم ایک مسلمان کا سا رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ایک علیحدہ نص کے ذریعہ سے جب تک اُن کی نمازِ جنازہ سے نہ روک دیا گیا، آپ نے اُن کا جنازہ پڑھنا تک موقوف نہ کیا۔
اب اہل سنت والجماعت کےکبار اہل علم کے تکفیر مسلم کے باب میں اقوال دیکھیں
امام شافعی
”اقبل شہادة اہل الا ھواء الا الخطابیة ؛ لانھم یشھدون بالزورلموافقیھم ”(٣) میں تمام اہل بدعت کی شہادت قبول کروں گا سوا خطابیہ کے کہ وہ اپنے حامیوں کے لئے جھوٹی قسم جائز سمجھتے ہیں۔
ابو الحسن اشعری کا نظریہ
زاہربن احمد سرخسی متوفیٰ ٣٨٩ ہجری ابو الحسن اشعری کا قریبی دوست تھا اس کا بیان ہے کہ ابو الحسن اشعری نے اپنی وفات کے وقت اپنے اصحاب و پیرو کاروں کو جمع کیا اور ان سے کہا : ”اشھد وا علی اننی لا اکفر احدا من اہل القبلة بذنب، لانی رایتھم کلھم یشیرون الی معبود واحد والاسلام یشملھم ویعمھم”. گواہ رہنا کہ میں نے اہل قبلہ میںسے کسی کو گناہ کی وجہ سے تکفیر نہیں کیا اس لئے کہ میں نے دیکھا یہ سب معبود واحد کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور اسلام ان سب کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے ۔
جمہور فقہاء و متکلمین کا نظریہ
جمہور فقہاء و متکلمین کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو تکفیر نہیں کیا جا سکتا
ابن تیمیہ کا فتویٰ
حضرت امام ابو حنیفہ ، شافعی اور دیگر علماء خطابیہ کے علاوہ باقی اہل بدعت کی گواہی قبول کرتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز قرار دیتے ۔ آئمہ دین کسی مجتہد کو علمی مسائل میں خطاکی وجہ سے فاسق یا کافر قرار نہ دیتے اور نہ ہی مجتہد ین کو خطا کی وجہ سے کافر قرار دیتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے خوارج کو تکفیر نہ کیا جب کہ وہ عثمان،علی اور ان کے پیروکاروں کوکافرسمجھتے تھے۔
ابو حنیفہ ثانی حضرت امام زین العابدین ابن نجیم المصری الحنفی کا فتویٰ
خلاصتہ الفتاوی وغیرہ کتابوں میں لکھا ہے کہ جب کسی مسئلہ میں کئی وجوہ کفر کی اور صرف ايک ہی وجہ اسلام کی ہو تو مفتی کو اس وجہ کی طرف مائل ہونا چاہے جو تکفیر کی منع کرتی ہے کیوں کہ مسلمان کے بارے میں حسن ظن سے کام لینا چاہے بزازیہ میں يہ بات زائد لکھی ہے کہ اگر وہ شخص خود ہی کفر کی وجہ کو متعین کر دے تو پھر اس کو تاویل کفرسے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔
حضرت ملا علی قاری الحنفی رحمہ اﷲ تعالی کا فتویٰ
اور صاحب المضمرات نے ذخیرہ سے نقل کیا ہے کہ اگر ايک مسئلہ میں کئی پہلو کفر کے اور صرف ايک ہی پہلو عدم کفر کا ہو تو مفتی کو وہ پہلو لینا چاہيے جو تکفیر کو منع کرتا ہے کیوں کہ اسی میں مسلمان کے حق میں حسن ظن رہ سکتی ہے۔پھر فرمایا کہ اگرقائل کی نیت وہ پہلو ہے جو اسلام کا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر اس کی مراد وہ پہلو ہے جو کفر ہے تو اس کو مفتی کا فتوی فائدہ نہیں دے گا ایسے شخص کو توبہ اور اسلام کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا اور اس کا اس کی بیوی سے از سر نو پھر نکاح کیا جائے گا۔
تکفیر مسلم کے لئے سب سے پہلے رسول اللہ کی ان احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے
٭ جس کسی نے کسی مومن کی تکفیر کی تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے اس کا قتل کردیا۔ ( بخاری،احمد)
٭ اگر کوئی اپنے بھائی (مسلمان) کو کافر کہے تو ان میں سے کوئی ایک کفر کی زد میں آجائے گا۔
امام غزالیؒ نے” فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ“ میں لکھا ہے کہ:
”اصل ایمان تین ہیں: اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان اور آخرت پر ایمان۔ اس کے علاوہ فروع ہیں۔ جاننا چاہیے کہ فروع میں اصلاً کسی کی تکفیر نہیں کی جاسکتی، سوائے ایک مسئلے کے اور وہ یہ کہ کوئی شخص اصولِ دین میں سے کسی چیز کا جو رسول اللہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہو، انکار کرے۔“
اپنی ایک دوسری کتاب ”الاقتصاد فی الاعتقاد“ میں غزالی نے لکھا ہے کہ: ”غلطی سے ایک ہزار کفار کو چھوڑدینا یہ اس کے مقابلے میں ہلکا ہے کہ غلطی سے ایک مسلمان کا خون بہا یا جائے“فیصل التفرقۃ میں انہوں نے یہ بامعنی بات لکھی ہے کہ تکفیر میں تو خطرہ ہے لیکن سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
شرح عقائدنسفی (ص 121)میں اہلِ سنت والجماعت کا یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ شرح مواقف میں ابوحنیفہؒ کا موقف لکھا گیا ہے کہ وہ اہل قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتے تھے۔
علامہ سبکی کا قول خاص طور پرتوجہ کے قابل ہے، فرماتے ہیں:
”جب تک ایک شخص لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ میں یقین رکھتا ہو، اس کی تکفیر کرنا مشکل ہے۔“
امام ابوحنیفہ سے یہ بات مروی ہے اور ملاَّ علی قادریؒ نے شرح فقہ اکبر میں لکھا ہے کہ اگر کسی میں ۹۹ وجوہ کفر کی پائی جائیں لیکن صرف ایک وجہ اس کے خلاف پائی جائے تو ایسے شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ (ص:146(
اس مسئلے کے ذیل میں مولانا حسین احمد مدنی نے نقوش حیات (۱/۶۲۱)میں مولانا رشید احمد گنگوہی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے انوار القلوب میں لکھا کہ:اگر۹۹۹ وجوہ بھی کفر کی ہوں تب بھی کسی اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
تاریخ اسلام کا تنقیدی جائزہ لینا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن عمل ہے اسلاف سے جو غلطیاں ہویں انہیں چھپانا ایک قبیح عمل ہے لیکن ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین سے بھی گریز کیا جانا چاہیے جو سنی اور شیعہ علما ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ جاری کرتے ہیں یہ حضرت بذات خود الله کے دین میں رخنہ ڈال رہے ہیں اور بذات خود دائرہ ایمان سے خارج ہیں، مسلمان حضرات دینی امور میں ایسے گمراہوں ضالین سے رجوع نہ کریں اور نہ ہی انہیں کسی مدرسہ یا مسجد کی نظامت یا امامت کی ذمہ داری دی جانی چاہیے الا یہ کسی عالم دین کے سامنے توبہ کریں اور اپنے فسق کی معافی مانگیں
واللہ تعالیٰ اعلم
آیت الله العظمی سید ابوالفضل ابن الرضا برقعی قمی
قم مقدس ایران
مولانا حسن جان
پشاور پاکستان
٢٨ رجب ١٤٢٨ ہجری
Comments
comments
Mashallah.
Long live Sunni Shia unity.
Down with Takfiri terrorists.
I am ready to lay down my live to save Pakistan and innocent human beings from Takfiri Deobandi terrorists. Inshallah.
Moulana Hasan Jan Shaheed was a great Aalim. He was brutally killed by Sipah-e-Sahaba terrorists in Peshawar.
May Allah bless these two great Ulama.
Even Jews resisted genocide by Hitler and his Nazi apparatus. Resistance to genocide is a human right.
http://criticalppp.com/archives/227386
A conversation on Twitter:
A: طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گردوں پر خود کش حملے کیے جا سکتے ہیں – سنی شیعہ مشرکہ فتویٰ http://shar.es/G5dUO
B: Two, or three wrongs do not make a right. Stupidity + stupidity = stupidity.
A: Did you read comment no. 3 on that post?
B: Je; I did. Hence I said: stupidity + stupidity = stupidity :-/
A: Resistance to genocide is a stupidity? Ask a Shia, Tutsi or a Jew, perhaps!
B: Nope; that wasn’t what I meant. What I meant was that such acts as individuals are stupidity in an organized state.
A: Nazi led Germany and Hutu led Rwanda too were organized states. Salafist-Deobandi dominated Pakistan is no different.
50 Sunni Muslim scholars issue fatwa against Taliban
October 13, 2012
At least 50 Islamic scholars belonging to ‘Sunni Ittehad Council’ on Thursday declared Taliban’s attack on Pakistani children’s rights activist Malala Yousafzai as un-Islamic, DawnNews reported.
Sunni Ittehad Council represents ‘Barelvi‘ sect of Islam which is influenced by Sufism and defends the traditional Sufi practices from the criticisms of Islamic movements like the ‘Deobandi’, ‘Wahhabi’ and ‘Ahl al-Hadith’.
The scholars issued a combined ‘fatwa’ (Islamic ruling) in Lahore which said that the Taliban’s (and Sipah-e-Sahaba, comprising Takfiri Deobandis) interpretation of Islam was incorrect and was deviant from the actual interpretation of the Shariah.
The fatwa added that Taliban were misguided and their mindset was driven by ignorance.
“Islam does not stop women from acquiring education and by attacking Malala the Taliban have crossed the limits of Islam,” the fatwa added.
“Prophet Muhammad (pbuh) had regarded the sanctity of Muslim’s life and property more important than the sanctity of the ‘Kaaba’ (sacred Muslim place),” adding that the fatwa stated, “Murder of one innocent human being is equivalent to murder of entire humanity.”
The Islamic ruling added that United States was the enemy of Islam and Pakistan; any kind of cooperation with the US was not in compliance with the Shariah.
In response to Taliban’s interpretation of killing females for the greater good of the religion, the scholars said that Islam discourages killing of the females. Adding that, they said, “Even apostate women are not allowed to be killed in Islam.”
The assassination attempt on the life of the young National Peace Award winner has drawn widespread condemnation from the government, political parties and civil society groups, terming it a bid to silent voice for peace and education.
The banned militant organisation Tehrik-i-Taliban Pakistan (TTP) had issued a statement Wednesday, using Islamic Shariah to defend the attack.
Pakistani Taliban had said that although they do not believe in attacking women, “whom so ever leads a campaign against Islam and Shariah is ordered to be killed by Shariah.”
TTP spokesman Ehsanullah Ehsan had argued that it is “not just allowed … but obligatory in Islam” to kill such a person involved “in leading a campaign against Shariah and (who) tries to involve whole community in such campaign, and that personality becomes a symbol of anti-Shariah campaign.”
Malala had won international recognition for highlighting Taliban atrocities in Swat with a blog for the BBC three years ago, when the Islamist militants burned girls’ schools and terrorised the valley.
Her struggle resonated with tens of thousands of girls who were being denied an education by the militants across northwest Pakistan, where the government has been fighting the local Taliban since 2007.
http://canindia.com/2012/10/50-muslim-scholars-issue-fatwa-against-taliban/
There are very few attacks on Taliban and Sipah-e-Sahaba (Takfiri Deobandis) by Sunni-Shia-Unity.
Media must not represent Takfiri Deobandis as representative of Sunni sect.
http://criticalppp.com/archives/71673
Thousands of Sunni Muslims in Karachi, Lahore, Peshawar have been killed by Takfiri Deobandis who have also killed thousands of Shias, dozens of Ahmadis, Christians, Hindus etc.
This is not Sunni vs Shia. This is Pakistan vs Taliban, Pakistan vs Sipah-e-Sahaba, Pakistan vs Takfiri Deobandis.
Thanks to LUBP, now i know about this
Again LUBP is serving as satan. whats the authentication of this news. Where is the prove. How poorly you are administrating news. Show me the fatwa. What you want to prove by spreading wrong news and confusion. Be aware from this site of fake news. There is nothing any thing which they are showing
Planted/remote control bomb hi kafi hay , suicide kerne ki zaroorat nahi. Lets identify SSP mosques and start cleaning the dungs:P
I am wary of any Fatwas suggesting suicide attacks of any kind, even on Taliban and Sipah-e-Sahaba terrorists; but any movement to unite Sunni and Shia Muslims against Takfiri Deobandis (Taliban and Sipah-e-Sahaba) is long overdue! Takfiri Deobandis are not true Sunni Muslims. It has never been Sunni vs Shia.
Last time we have been said that Deobandi cleric from Peshawar Hasan Jan was killed by Taliban for not endorsing ‘Suicide Attacks” and now he has issued this fatwa posthumously from the grave. Better from the grave than never
I don’t think violence is the answer or even acceptable. I think unity is the answer but problem is Shias themselves are not united. Plus Shias should strive for a secular society but it appears that Shia ulema themselves are as opposed to a secular system as their counterparts from among Brelvis and Deobandis.
@Hasan Ali
Your name is good but your comment suggests you are more like Muawiya Yazid. Anyway, Maulana Hasan Jan’s fatwa explicitly forbids attacks, including suicide attacks, on innocent human beings. He has only conditionally permitted attacks on Takfiri Deobandis in order to save innocent humanity from their terrorist actions.
If we can support drone attacks which kill Takfiri Deobandi terrorists hiding in FATA, why should not we support Maulana Hasan Jan Deobandi and Shi Ayatollah’s fatwa of attacks on Takfiri terrorists?
Great fatwa, much needed. If we the people will not make an effort to save ourselves from terrorism and genocide, who will?
Hazrat Ali, in battle of Siffin with rebel war lord Muawiya, stood before his soldiers and delivered a short but forceful address, the contents of which were as follows:
“These people have started oppression, and opened the door of conflict and welcomed you with hostility. They are hungry for war and are demanding war and bloodshed from you. They have denied you water. Now you have to choose between the two paths. There is no third course. Either accept the humiliation and oppression or remain thirsty as you are, or satisfy your thirsty swords with their dirty bloods so that you may quench your thirst with the sweet water. Death is to live a defeated and disgraceful life; and Life is to be victorious even at the cost of death. Verily, Muawiyah has gathered around him some ignorant and misguided mob; and is taking advantage of their ignorance, so that they are making their necks targets of the arrows of death.”
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=469303159788455&set=a.237179356334171.75866.236915603027213&type=1
فارسی زبان کی مشہور کہاوت “تنگ آمد بہ جنگ آمد” کے مطابق اب کوئٹہ میں وہ وقت آگیا ہے جب اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ناگزیر ہو چکا ہے البتہ شیعیان حیدر کرار کے نشانے پر بے گناہ اہلسنت برادران نہیں ہوں گے بلکہ ہمارا ہدف تکفیری دھشتگرد، ان کے سر پرست اور ان کے ٹھکانے ہوں گے۔
اب دشمن دین کو ہم دیں گے سزا
اب کریں گے ہم بھی کچھ غم کی دوا
اب ظلم و ستم کی ہر بستی کو آگ لگا کر راکھ کریں گے
اب کفر کے سب مینار گرا کر سینہ باطل چاک کریں گے
اب آل محمد کے دشمن کو سپرد خاک کریں گے۔۔۔۔
https://www.facebook.com/Karbala.e.Quetta/posts/468858303166274
Shia and Sunni will unite to kill Taliban, Sipah-e-Sahaba terrorists (aka Takfiri Deobandis). Inshallah in every city and town of Pakistan.
If you think there is no difference between shia and sunni, why you are talking about unity.
What about kafir shia terrorist organizations such as sipahe Muhammad , tehreek e nifaaze shariate jafria? what they are doing ? They are killing sunii alim and leaders, attacking sunni madaris. Why not to condemn them. May your thoughts and ideologies are as they have and you are with them.
Ashabe Muhammad SAWW zindabad.
jo shia ulma or khomeni ahle-Sunnat ko kafir samajhtay hain, tu darasal kufr ka fatwa khomeni or uski teelamat k man nay walo per bhi lagna chahiya
طالبان و سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گردوں پر فدائی حملےجائز ہیں – سنی شیعہ علما کا مشترکہ فتویٰ
epqryc http://www.gzj86khsi67rv01x0gu398w641xyp987s.org/
aepqryc
[url=http://www.gzj86khsi67rv01x0gu398w641xyp987s.org/]uepqryc[/url]
エルメス 風鞄
ヴィトン 靴メンズ
バレンシアガ 靴 赤 neo
ザノースフェイス ジェスター
iwc マーク17 買取
タイメックス 中学生 nts
オリエント フラッシュ 中古
ハミルトン ビロウゼロ ベルト
アニエスベー to b 店舗
Amigo Speaks so highly of the attention she gets all around us the young woman can bring your girlfriend safest wow gold. Visitors stare, quit the girl, position..they may be lovely!
Du har verkligen gjort mig att tänka med detta material. Du skriver stil samt ditt skrivande skicklighet är utmärkt. Jag fick läsa din artikel och hoppas att läsa mer.
Jag älskar den här informationen du har skrivit här. Det är insiktsfull och intressant. Jag kommer tillbaka för mer så fort jag kan. Tack.
Ohälsosam totalekonomi har orsakat denna stabila eskalera om vikten av guld, och här är där, populariteten främja guld objekt till pengar för att få guld företag har börjat fälla för. Det finns vanligtvis inkomst om guld företag som erbjuder fina avgifter för dina smycken som deras potentiella kunder ger för alla dem, oftast från 80% i hela sitt värde. Med detta sagt, det finns många företag som förorena branschen genom att göra dollar när det gäller guld bedrägeri. Skickligt utvecklat kommer sannolikt inte vägra att vi nu har anomala geneva Chamonix överföringar med företag de vill kunna short sina kunder om den faktiska värderingen på sin prydnad. Du kanske kan förhindra att lära sig att vara en lidande inuti en dollar är avsedda för guld utbyte när du är aktuell tillsammans med vara medveten om väsentligheter från värderingen om guldet.