Say No to Martial Law – by Hamid Mir

زیادہ پرانی بات نہیں۔ 27/اگست 2005ء کو امریکی ریاست لوسیانا کے ساحلوں پر ایک سمندری طوفان کا آغاز ہوا۔ سمندر کا پانی ساحلوں سے نکل کر شہروں میں داخل ہوگیا زیادہ نقصان لوسیانا، مسی سیپی اور فلوریڈا میں ہوا۔ جہاں ہزاروں عمارتیں اور مکان تباہ ہوگئے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ اس سمندری سیلاب کوکترینہ کا نام دیا گیا۔ امریکی فوج کے 22ہزار جوانوں کوکترینہ سیلاب سے نمٹنے کا فریضہ سونپا گیا ۔ طوفان سے متاثرہ ایک بڑے شہر نیو آرلنیز میں لوٹ مار، قتل و غارت اور عورتوں سے زیادتی کے واقعات شروع ہوگئے۔ لہٰذا امریکی حکومت کو نیو آرلنیز میں ایمرجنسی نافذ کرنی پڑی جسے امریکی میڈیا نے مارشل لا قرار دیا کیونکہ پولیس کے اختیارات فوج کے سپرد کردئیے گئے اور چند دن کے لئے نیو آرلنیز میں کرفیو کا اعلان کرکے لوٹ مار کرنے والوں کوگولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔

کترینہ سیلاب میں 1800 امریکی مارے گئے اور 81/ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکی قوم کیلئے سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث پھیلنے والی تباہی سے زیادہ پریشانی کی بات اس سانحے کے دوران شروع ہونے والی لوٹ مار تھی کیونکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ گینگ بنا کر ناصرف بینکوں اور شاپنگ سینٹرز کو لوٹ رہے تھے بلکہ کترینہ آفت کے باعث بے گھر ہونے والی عورتوں اور بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لگے۔


امریکی حکومت نے فوج کی مدد کے لئے مزید 50ہزار نیشنل گارڈز کو متاثرہ علاقوں میں بھیج دیا۔ اس موقع پرامریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے سیاسی مخالفین نے سیاست کرنے کی بجائے اس قومی سانحے میں حکومت کی بھرپور مدد کی اور بش نے بھی اپنے مخالفین کو سیاسی اداکار قرار دے کر ان کی نیت پر شک نہیں کیا۔ ایک ماہ کے اندر اندر نیو آرلنیز میں صورت حال پر قابو پالیا گیا۔

اس کامیابی کو صرف فوج کی کامیابی قرار نہیں دیا گیا بلکہ یہ پوری امریکی قوم کی کامیابی تھی کیونکہ تمام ریاستی اداروں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا۔ فوج کا کردار اس لئے نمایاں تھا کہ فوج کے پاس غیرمعمولی حالات سے نمٹنے کے لئے وسائل بھی ہوتے ہیں اور تربیت بھی ہوتی ہے۔ امریکی فوج نے صدر بش کے حکم پر نیو آرلنیز کا کنٹرول سنبھالا اور حالات ٹھیک ہونے پر نیو آرلنیز سے واپس چلی گئی۔ بالکل ویسے ہی جیسے دوسری جنگ عظیم کے دوران 1941ء سے 1944ء تک صدر روز ویلٹ نے ہوائی میں مارشل لا کا اعلان کرکے اس ریاست کو فوج کے سپرد کردیا تھا اور جب جنگ ختم ہوگئی تو مارشل لا ختم کردیا گیا۔

امریکہ میں غیرمعمولی حالات کے دوران کبھی ایمرجنسی اور کبھی مارشل لا کے نام پر فوج نے امن وامان کی صورت حال بہتر بنانے کے لئے متعدد بار اہم کردار ادا کیا لیکن کبھی کسی امریکی سیاستدان نے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت نہیں دی کیونکہ امریکہ میں قانون کی بالادستی ہے۔ امریکہ کا صدر قانون توڑے تو اس کا انجام بل کلنٹن جیسا ہوتا ہے اور اگر کوئی فوجی جرنیل ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے تو اس کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جوکچھ عرصہ قبل جنرل میکرسٹل کے ساتھ ہوا۔ ہم پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت امریکہ کو بہت برا سجھتی ہے لیکن امریکیوں سے کوئی اچھی بات سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

اگست 2010ء میں پاکستان کو بھی ویسی ہی قدرتی آفت کا سامنا ہے جیسی آفت کا سامنا امریکہ کو اگست 2005ء میں تھا۔ امریکہ پر مشکل وقت آیا توکویت نے اس کیلئے 500 ملین ڈالر، قطر نے 100 ملین ڈالر، متحدہ عرب امارات نے 100 ملین ڈالر، بھارت اور چین نے 5ملین ڈالر، پاکستان نے ڈیڑھ ملین ڈالر اور بنگلہ دیش نے ایک ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔ امریکہ کی سیاسی قیادت نے اس غیرملکی امداد پر انحصار نہیں کیا بلکہ اپنے لئے خود وسائل پیدا کرنے پر توجہ دی اور اس مشکل وقت میں امریکیوں کی سب سے بڑی طاقت انکی قومی یکجہتی تھی۔

ستمبر 2005ء میں جب ایک وحشی انسان نے ایک سات سالہ بے گھر بچی کے ساتھ نیو آرلنیز میں زیادتی کی تو کسی امریکی نے یہ نہیں کہا کہ اسے اپنے امریکی ہونے پر ندامت ہے بلکہ امریکی میڈیا نے قانون کو فوری طور پر حرکت میں لانے کا مطالبہ کیا۔ جیسی لوٹ مار نیو آرلنیز میں ہوئی ویسی لوٹ مار ہمیں آج کل پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن ہم اس نازک گھڑی میں قانون کو حرکت میں لانے کی بجائے ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں اور یہ بحث کررہے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لا ہونا چاہئے یا جمہوریت؟ حالیہ سیلاب کے دوران پاکستانی فوج نے وہی کردار ادا کیا ہے جو 2005ء کے کترینہ طوفان میں امریکی فوج نے ادا کیا تھا بلکہ میں تو اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر یہ بھی کہوں گا کہ پاکستانی فوج کے جوان اپنی ڈیوٹی سے بڑھ کر ڈیوٹی کررہے ہیں۔ اس کیوجہ یہ نہیں کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسکی وجہ ان کی حب الوطنی اور دکھی انسانوں کی خدمت کا جذبہ ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جب بحیثیت ایک مددگار ادارے کے فوج پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے

لیکن اس موقع پر فوج سے مارشل لا کی طرزکے اقدام کا مطالبہ فوج کے ساتھ کوئی نیکی نہیں۔ جیسے ہی فوج دوبارہ سیاست میں آئی تو اس کے لئے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے شروع ہوجائیں گے۔ پھر یہ بحث بھی شروع ہوجائے گی کہ1971ء میں پاکستان ٹوٹا تو فوج کی حکومت تھی، 1983ء میں سیاچن پر قبضہ ہوا توفوج کی حکومت تھی اور 2004ء میں ڈرون حملے شروع ہوئے تو فوج کی حکومت تھی۔ قدرتی آفت کی اس گھڑی میں فوج کو متنازع نہ بنایا جائے بلکہ متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے فوج کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔

اس مشکل گھڑی میں اگر صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرلیتے تو کوئی مارشل لا کی بات کرتا نہ قومی حکومت کا شوشہ چھوڑتا۔ صدر اور وزیر اعظم سیاسی قوتوں کو متحد کرنے میں ناکام رہے۔ یہ جمہوریت کی ناکامی نہیں بلکہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ہمیں حکومت کی سیاسی ناکامیوں پر تنقید ضرورکرنی چاہئے لیکن مارشل لا کا مطالبہ کرکے پاکستان کو ایک ناکام ریاست کی طرف ہرگز نہیں دھکیلنا چاہئے۔ خدانخواستہ ایک اور مارشل لا کے بعد کم ازکم بلوچستان کا ہمارے ساتھ رہنا بہت مشکل ہوگا جہاں فوجی جوان اور افسران ابھی تک وردی پہن کر بازاروں میں نہیں جاسکتے ۔ بلوچستان میں ایک اور مارشل لا ناقابل قبول ہوگا اس لئے آئین اور قانون کی بالادستی کی طرف بڑھئے کیونکہ یہی راستہ قوم کی مضبوطی کا راستہ ہے

Source: Daily Jang

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sakin
    -