State sponsored terrorism in Indian Occupied Kashmir – by Abdul Nishapuri
State sponsored terrorism in Indian Occupied Kashmir remains an ugly blot on the face of democracy in India.
The Kashmir dispute is the oldest unresolved international conflict in the world today. India’s forcible occupation of the State of Jammu and Kashmir in 1947 along with Pakistani pashtuns’ march to the valley led to the dispute.
The United Nations recognizes Kashmir as a disputed territory. It is a fact that all the principles on the basis of which the Indian subcontinent was partitioned by the British in 1947 justify Kashmir becoming a part of Pakistan: the State had majority Muslim population, and it not only enjoyed geographical proximity with Pakistan but also had essential economic linkages with the territories constituting Pakistan.
In 1947, India and Pakistan went to war over Kashmir. During the war, it was India which first took the Kashmir dispute to the United Nations on 1 January 1948. The following year, on 1 January 1949, the UN helped enforce ceasefire between the two countries. The ceasefire line is called the Line of Control. It was an outcome of a mutual consent by India and Pakistan that the UN Security Council (UNSC) and UN Commission for India and Pakistan (UNCIP) passed several resolutions in years following the 1947-48 war. The UNSC Resolution of 21 April 1948–one of the principal UN resolutions on Kashmir—stated that “both India and Pakistan desire that the question of the accession of Jammu and Kashmir to India or Pakistan should be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite”. Subsequent UNSC Resolutions reiterated the same stand. UNCIP Resolutions of 3 August 1948 and 5 January 1949 reinforced UNSC resolutions. (Source: Pakistan Mission to the UN)
UN Resolution
Here is a link to the text of the UN Resolution 47 (1948) on Kashmir, which notes “with satisfaction that both India and Pakistan desire that the question of the accession of Jammu and Kashmir to India or Pakistan would be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite”
Also of interest is Wajahat Ahmad’s article at Counter Currents.
Latest Development – 7 July 2010
Source: BBC News
A curfew is being strictly enforced in parts of Indian-administered Kashmir after a wave of violence between protesters and police over the past month. Police and paramilitaries have been deployed in the capital Srinagar where three civilians died in police firing on Tuesday. Anantnag, Pulwana and Kakapora towns are also under curfew.
At least 14 civilians have died in clashes with forces since June. Many of the deaths have been blamed on the paramilitary Central Reserve Police Force (CRPF).
Life in Srinagar has come to a standstill, and movement of people has been restricted in other affected towns, says the BBC’s Altaf Hussain in Srinagar.
Our correspondent says that the curfew in Anantnag has now been in place for eight consecutive days – since three people were killed by police there last week – and there is no sign of the tension diminishing.
A police spokesman said the authorities have decided to deploy the army in some sensitive areas, but no soldiers are out on the streets yet.
Most of the Muslim-majority Kashmir valley has either been under a curfew or shut down for the past few weeks because of protests over the killing of civilians by the police and paramilitary forces.
Chief Minister Omar Abdullah has defended the security forces, saying they could not be expected constantly to show restraint when they were so often pelted with stones.
The killings of civilian protesters, most of them teenagers, have angered many in the valley. One newspaper headline described 2010 as the “year of teenage killings” in Kashmir.
Even the pro-India People’s Democratic Party (PDP) has accused the government of declaring war on its own people, our correspondent reports. Hundreds of thousands of troops are based in Kashmir to fight a two-decade insurgency against Indian rule.
———-
Two latest video clips from Indian Occupied Kashmir
(Warning: Some graphic scenes; viewers discretion is requested)
Blood bath in Kashmir
Kashmir shoot on sight- BBC Urdu Video- 6 July,2010
Six killed, 73 njured as police open fire in Srinagar
کشمیر: دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم
ریاض مسرور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
ونڈوز میڈیا یا ریئل پلیئر میں دیکھیں/سنیں
(کشمیر میں جھڑپوں اور احتجاج کے مناظر۔ کچھ سین بعض ناظرین کے لیے ناخوشگوار تاثر چھوڑ سکتے ہیں۔)
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ایک خاتون سمیت چار افراد کی ہلاکت کے بعد حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے ہیں۔
حکام نےمنگل کو ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا ہے اور شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
کشمیر میں ایک بار پھر عوام سکیورٹی فورسز کے نرغہ میں ہیں
اس سے پہلے ہلاکتوں کی خبر پھیلتے ہی وادی کے بیشتر اضلاع میں ہڑتال کی گئی اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت نے سکیورٹی پابندیوں کو سخت کردیا ہے اور شاہراہوں پر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
چاروں ہلاکتیں دو کلومیٹر کے دائرے میں ہوئی ہیں۔ پہلا واقعہ سرینگر کی نواحی بستی ٹینگ پورہ کے قریب پیش آیا۔
ٹینگ پورہ کے سترہ سالہ نوجوان کی مبینہ طور حراستی ہلاکت کے خلاف منگلوار صبح لوگوں نے مظاہرے کیے۔ مظاہرین پر پولیس نے براہ راست فائرنگ کی اور تین افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم راستے میں تیس سالہ فیاض احمد وانی نے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا۔
وانی کے رشتہ دار جاوید احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ فیاض احمد کے سر میں گولی لگی تھی۔
ٹینگ پورہ کے پڑوس میں داندر کھاہ کے پاس خواتین مظاہرین پر بھی پولیس نے فائرنگ کی جس میں پچیس سالہ لڑکی، فینسی ماری گئی۔ اس کے فوراً بعد حکومت نے پورے شہر میں کرفیو نافذ کردیا۔ علیٰحدگی پسندوں کی طرف سے مظاہروں کی کال کے پیش نظر شہر میں پہلے ہی تناؤ تھا اور حکومت نے تمام تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان کیا تھا۔ ہلاکتوں کا نکشاف ہوا تو شہر میں مزید پولیس فورس کو تعینات کیا گیا۔
اس واردات سے متعلق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سرینگر کے جنوب میں بائی پاس شاہراہ پر واقع ٹینگ پورہ اور گنگ بُگ بستیوں کے چند نوجوان سوموار کی شام سڑک پر پتھراؤ کررہے تھے کہ نیم فوجی دستوں نے ان کا تعاقب کیا اور چند لڑکوں کو گرفتار کیا۔
پوچھ تاچھ کے بعد سترہ سالہ مظفر احمد کے بغیر سب کو چھوڑ دیا گیا۔ رہا کئے گئے ایک نوجوان کے چاچا سجاد احمد نے بی بی سی کو بتایاہے کہ ’جب مظفر لاپتہ ہوگیا تو ہم نے رات بھر سڑک پر احتجاج کیا۔ سینئر پولیس افسر بھی موقعہ پر آئے، اور انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ ہم رات بھر وہیں رہے۔‘
سجاد کا کہنا ہے کہ ’ منگل کو صبح سویرے چند نوجوان ندی کے کنارے بیٹھے تھے کہ انہوں نے فورسز اہلکاروں کو مظفر کی لاش ندی میں پھینکتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے شور مچایا اور لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین پر پولیس نے راست فائرنگ کی جس میں دو بیٹیوں کا باپ فیاض وانی مارا گیا۔‘
فیاض سرکاری ملازم تھا اور فٹ بال و کرکٹ کھیلوں میں مہارت کے لیے لوگو اسے ’بادشاہ خان‘ کہتے تھے۔
مقامی شہری شبیر احمد نے بتایا کہ فیاض کی ہلاکت کے بعد ٹینگ پورہ، گنگ بگ اور بٹہ مالو کے باشندوں نے زبردست احتجاج کیا۔ شبیر کے مطابق فورسز اہلکاروں نے بستیوں پر دھاوا بول دیا اور مکانوں کے شیشے توڑ دیے اور لوگوں کو زد و کوب کیا۔
پولیس کارروائی میں احتجاجی جلوس کی عکس بندی کررہے کئی میڈیا فوٹوگرافر بھی زخمی ہوگئے ہیں۔ فوٹو گرافرس ایسوسی ایشن کے صدر فاروق خان سمیت کم از کم دس صحافیوں کو چوٹیں آئی ہیں۔
ایک بھارتی ٹی وی چینل کے لیے کام کررہے کیمرہ مین نے دعویٰ کیا کہ اس نے پولیس اہلکار کو فیاض پر راست فائرنگ کی عکس بندی کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ٹیپ کا مشاہدہ کرینگے۔
پولیس ایکشن میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے ہیں
انسپکٹر جنرل آف پولیس فاروق احمد نے بی بی سی کو فون پر بتایاکہ ’ ہم اس معاملہ کی تفتیش کررہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے کہ مظفر کی موت پانی میں ڈوب جانے سے ہوئی ہے یا کسی اور وجہ سے۔ ہم فائرنگ کے واقعہ کی بھی تحقیات کررہے ہیں۔‘
اس واقعہ کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ٹینگ پورہ کے پڑوس میں داندر کھاہ کے پاس خواتین مظاہرین پر بھی پولیس نے فائرنگ کی جس میں پچیس سالہ لڑکی، فینسی ماری گئی۔ اس کے فوراً بعد حکومت نے پورے شہر میں کرفیو نافذ کردیا۔ علیٰحدگی پسندوں کی طرف سے مظاہروں کی کال کے پیش نظر شہر میں پہلے ہی تناؤ تھا اور حکومت نے تمام تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان کیا تھا۔ ہلاکتوں کا نکشاف ہوا تو شہر میں مزید پولیس فورس کو تعینات کیا گیا۔
شہر کے سینئر پولیس افسر شوکت شاہ نے بتایا کہ ’تناؤ کی صورتحال ہے لیکن ہم لوگ تیار ہیں۔‘
قابل ذکر ہے کہ وزیر اعلیٰ، جو جموں کشمیر کے وزیرداخلہ بھی ہیں، نے کل ہی کہا تھا کہ نہتے نوجوانوں کی ہلاکت کو’برداشت‘ نہیں کرینگے۔
واضح رہے پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ذریعہ فائرنگ اور آنسو گیس کے استعمال سے پچھلے ایک ماہ کے دوران تازہ ہلاکتوں سمیت سولہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
چار جولائی کو حکومت نے تمام اضلاع سے کرفیو ہٹالیا تھا اور توقعہ تھی کہ حالات بحال ہو جائیں گے۔ لیکن اننت ناگ مارچ کے خلاف سوموار کو پھر سے سخت کرفیو نافذ کیا گیا۔ علیٰحدگی پسندوں نے طلبا و طالبات سے اپیل کی تھی کہ وہ منگل کو وردی پہن کر مظاہرے کریں جس پرحکومت نے تعلیمی اداروں میں چھٹی کا اعلان کیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2010/07/100706_kashmir_update_riaz.shtml
کشمیر میں فوج طلب، ذرائع ابلاغ پر پابندی
ریاض مسرور
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
کشمیر میں حالیہ عوامی احتجاج کے دوران اب تک انیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری عوامی احتجاج کو دبانے اور کرفیو کے باوجود ہنگاموں کو روکنے میں پولیس اور نیم فوجی ملیشیاء سی آر پی ایف کی ناکامی کے بعد بدھ کی صبح سرینگر اور دوسرے حساس قصبوں میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور میڈیا اہلکاروں کے کرفیو پاس کالعدم قرار دے کر ان کی نقل و حرکت پر پابند عائد کر دی گئی۔
منگل کے روز سرکاری فورسز کی کارروائی میں ایک خاتون سمیت مزید پانچ نوجوانوں کی موت کے بعد وادی میں زبردست کشیدگی پھیل گیا جس کے بعد حکام نے کرفیو نافذ کردیا۔
تاہم جگہ جگہ لوگوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کرکے سڑکوں پر مظاہرے کیے۔ بعد ازاں رات کو دیر گئے حکومت نے فوج سے مدد طلب کرلی۔
سرینگر میں فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان کرنل وِنیت سود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سرینگر کے بشیتر علاقوں میں ہلاکتوں کے بعد حالات بے قابو ہوگئے تھے، اس لئے حکومت نے ہم سے تعاون کے لئے کہا ہے۔ ہم نے شہر کی بستیوں میں فوج کو تعینات نہیں کیا ہے، بلکہ گشتی دستوں کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔‘
بدھ کی صبح سرینگر کے پارم پورہ، ٹینگ پورہ، راولپورہ، اولڈ ائرپورٹ روڑ، اور پرانے شہر کے بعض علاقوں میں فوج نے فلیگ مارچ کیا۔ شمالی قصبہ بارہمولہ میں پہلے ہی فوج طلب کی گئی تھی۔
سرکاری ذرائع
بدھ کی صبح سرینگر کے پارم پورہ، ٹینگ پورہ، راولپورہ، اولڈ ائرپورٹ روڑ، اور پرانے شہر کے بعض علاقوں میں فوج نے فلیگ مارچ کیا۔ شمالی قصبہ بارہمولہ میں پہلے ہی فوج طلب کرلی گئی تھی۔
دریں اثنا مقامی اور غیرمقامی میڈیا اداروں سے وابستہ صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کیمرہ مینوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے کرفیو کے دوران جو اجازت نامے (کرفیو پاس) جاری کیے تھے، ڈپٹی کمشنر کے ایک حکمنامہ میں ان اجازت ناموں کو کالعدم قرار دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
میڈیا پر پابندی کے بعد شہر کی سڑکوں پر سناٹا چھاگیا ہے اور شاہراہوں پر صرف فوج اور نیم فوجی دستوں کی ہی نقل و حرکت ہے۔ حکومت نے موبائل فون پر پیغام رسانی (ایس ایم ایس) کی سہولت بھی معطل کردی ہیں۔ وادی میں ایس ایم ایس کے ذریعہ صورتحال کی تشہیر میں کم از کم دس میڈیا ادارے سرگرم تھے۔ تمام مقامی ٹی وی چینلز پر روزانہ خبروں کے ایک گھنٹہ کے بلیٹین کودس منٹ تک محدود کردیا گیا ہے۔
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کو احتیاط برتنے کو کہا گیا ہے
کشمیر ایڈیٹرس گِلڈ کے ترجمان اور ہفتہ روزہ ’چٹان‘ کے مدیر طاہر محی الدین نےاس پابندی پر حیریت کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں : ’یہ تو ایمرجیسنی حالات کا ثبوت ہے۔ ایک طرف فوج طلب کی جارہی ہے اور دوسرے طرف میڈیا پر پابندی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حالات مکمل طور پر بے قابو ہیں۔‘
واضح رہے اُنیس سو نوّے میں جب حکومت ہند کے خلاف عوامی مزاحمت اور مسلح شورش کا آغاز ہوا تو اُسوقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی کرفیو نافذ کیا تھا۔ کئی ہفتوں تک حالات بحال نہیں ہوئے تھے تو فوج طلب کی گئی تھی اور اخبارات کی اشاعت تین ہفتوں تک معطل رہی تھی۔
دریں اثنا میڈیا اداروں پر پابندی کے خلاف صحافیوں اور میڈیا اداروں کی عالمی تنظیم ’انٹر نیشنل فیڈیریشن آف جرنلسٹس‘ نے کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کو افسوس ناک قرار دی ہے۔
نئی دلّی سے فیڈریشن کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو فون پر بتایا: ’یہ بہت سنگین صورتحال ہے، ہم اس سلسلے میں ایک رپورٹ تیار کررہے ہیں۔‘
منگل کو سرینگر کی نواحی بستی ٹینگ پورہ میں دو نوجوانوں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہروں کے دوران نیم فوجی دستوں نے گیارہ صحافیوں کو زدو کوب کیا تھا۔ پچھلے تین سال میں ایسی کاروائیوں کے دوران درجنوں فوٹو جرنلسٹ زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے جون میں شمالی کشمیر کے مژھل سیکڑ میں فوج نے تین مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقامی پولیس نے انکشاف کیا کہ تینوں نادی ہل کے رہنے والے عام شہری تھے اور انہیں فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اس پر پوری وادی میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بارہ جون کو سرینگر میں مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی میں سترہ سالہ طفیل احمد متو ہلاک ہوگئِے تھے۔ تب سے اب تک ایک پچیس سالہ خاتون سمیت اُنیس افراد مظاہرین کے خلاف پولیس یا نیم فوجی دستوں کی فائرنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ بیشتر اموات نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے ان ہلاکتوں کو فورسز کی طرف سے ذاتی دفاع کی کوشش کا نتیجہ قرار دیا ہے اور پتھراؤ کرنے اور احتجاج کرنے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2010/07/100707_kashmir_army_media.shtml
’ کشمیر میں وسیع پیمانے پر تشدد ہوا‘
یہ پیغام ایک ایسے وقت افشا ہوا ہے جب کشمیر میں گزشتہ چند ماہ سے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے
وکی لیکس پر شائع ہونے والے ایک خفیہ سفارتی پیغام کے مطابق انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر تشدد کے شواہد امریکی سفارت کاروں کو بھیجے تھے۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خطے میں منظم اور وسیع پیمانے پر تشدد بھارت کی منظوری سے ہو رہا ہے۔
امریکہ کا یہ خفیہ سفارتی پیغام برطانوی اخبار دی گارڈین نے شائع کیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیم آئی سی آر سی یعنی انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے سنہ دو ہزار دو اور چار کے دوران کشمیر میں حراستی مراکز کے دوروں میں مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے لگانے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی کے دیگر واقعات کا انکشاف کیا تھا۔
اس سفارتی پیغام پر ابھی تک امریکہ، بھارت اور آئی سی آر سی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے انڈین ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا ہے کہ تشدد کے الزامات اس وقت سے متعلق ہیں جب ان کی جماعت نے ابھی اقتدار نہیں سنبھالا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کی حمایت نہیں کرتے۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تازہ انکشافات بھارتی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہوں گے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت سامنا آئے ہیں جب کشمیر میں حالات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔
تشدد کی اقسام
بجلی سے کرنٹ لگانا، جنسی طور پر ہراساں کرنا، پانی سے تشدد، ٹانگوں کو ایک سو اسی ڈگری زاویے تک پھیلا دینا، ٹانگوں کے پھٹوں کو مسلنا اور چھت سے لٹکا دینا
تشدد کے الزامات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب حالیہ مہینوں کے دوران کشمیر میں کشیدگی عروج پر ہے اور بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج اور کئی بار کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔
آئی سی آر سی نے امریکی سفارت کاروں کو بتایا کہ انھوں نے حراستی مراکز کے ایک سو ستتر دورے کیے اور وہاں زیر حراست ایک ہزار چار سو اکیانوے افراد سے ملاقات کی۔
تنظیم کے مطابق بدسلوکی کے حوالے سے آٹھ سو باون کیس سامنے آئے۔
ایک سو اکہتر افراد نے کہا کہ انھیں مارا پیٹا گیا ہے اور چھ سو اکیاسی پر ایک یا چھ مختلف طریقوں سے تشدد کیا گیا۔
تشدد کی ان اقسام میں بجلی سے کرنٹ لگانے، جنسی طور پر ہراساں کرنا، پانی سے تشدد، ٹانگوں کو ایک سو اسی ڈگری زاویے تک پھیلا دینا، ٹانگوں کے پھٹوں کو مسلنا اور چھت سے لٹکا دینا شامل ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ برحال سنہ انیس سو نوے سے صورتحال بہت زیادہ بہتر ہے اور ان سکیورٹی فورسز کے بلا امتیاز دیہات پر چھاپے مارنے اور وہاں کے مکینوں کو حراست کے کیسز اب سامنے نہیں آئے ہیں۔
آئی سی آر سی کے ترجمان الیکسی ہیب نے کہا ہے کہ ان کی تنظیم معاملے پر غور کر رہی ہے، تاہم آئی سی آر سی امریکی کی سفارتی خط و کتابت پر تبصرہ نہیں کرے گا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2010/12/101217_wikileaks_kashmir_tortured_zz.shtml