Farrukh Sohail Goindi’s letter about Syed Talat Hussain


یہ سطور میں نے جناب فرخ سہیل گوئندی کا خط پڑھ کرلکھیں‘ جو انہوں نے میرے چند گزشتہ کالموں کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ اس طویل خط کا کچھ حصہ پیش خدمت کر رہا ہوں۔

محترم نذیر ناجی صاحب
السلام علیکم

میرا آپ کا تعلق ایک تاریخ نویس کے ناتے سے ہے‘ جو کہ روزمرہ کی تاریخ کو مرتب کرنے میں مصروف ہیں۔ اس عرصے میں میرے نظریات اور سیاسی دلچسپیوں نے مجھے شرق اوسط خصوصاً ترکی‘ فلسطین اور لبنان کی سیاست اور عوامی تحریکوں کے مطالعے اور کبھی کبھی ان تحریکوں میں شامل ہونے پرمائل کیا ہے۔

میں اپنے دوست جناب ہاورڈ زن جو امریکہ کے معروف تاریخ دان تھے‘ کے نظریہ تاریخ پر یقین رکھتا ہوں کہ انسانی تاریخ درمیانے درجے اور چھوٹے طبقات کی سائنسی‘ سیاسی اور سماجی کنٹری بیوشن سے عبارت ہے نہ کہ حکمران طبقات کی۔ ہاورڈزن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”پیپلز ہسٹری آف یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ“ میں ثابت کیا ہے کہ امریکہ کی جمہوری اور سیاسی تاریخ اور سائنسی ایجادات اور ترقی‘ عوامی طبقات کی مرہون منت ہے۔

آپ بھی صحافت کے اس قافلے میں شامل ہیں‘ جو عوامی تاریخ نویسی کر رہے ہیں۔ ورنہ ہمارے نام نہاد مورخ تو دور جدید کی ”دربار مغلیہ کی تاریخ“ لکھ کر سماج کے نامور مورخ کہلاتے ہیں۔

آج ہی آپ کے کالم کے ذریعے میں صحافت اور شرق اوسط میں انگڑائی لیتی ہوئی سیاست کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔

ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہر وقت یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ آج میڈیا آزاد ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ میڈیا‘ جدید ٹیکنالوجی کے طفیل‘ جس نے دنیا کو گلوبل ولیج میں بدل دیا ہے‘ کا شاخسانہ ہے۔ مگر ہمارے ہاں کیمرے کے پیچھے اور سامنے دانش‘ تحقیق اور صحافیانہ ذمہ داری کم اور کاؤ بوائے ایڈونچرازم زیادہ ہو رہی ہے۔

عوام ان ایکٹروں کو سن اور دیکھ کر ”دنگ“ ہونے پر مجبور ہیں۔ میں آپ کی توجہ چند روز پہلے استنبول سے غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لے جانے والے فریڈم فلوٹیلا کی طرف مبذول کراؤں گا۔

ہمارے بھی ایک مجاہد اینکر جو کہ اپنے چینل کے اہم افسر بالا ہیں‘ اپنے دو جوینئرز کے ساتھ اس فلوٹیلا کے قافلہ امن میں بطور صحافی شریک ہوئے۔ لیکن ان کی رپورٹنگ کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ پاکستان میں ساڑھے سات سو امن پسندوں کی خبروں سے زیادہ ہمارے عظیم صحافی کے بارے میں زیادہ خبریں شائع ہوئیں۔ جبکہ شہید ہونے والے 9 امن پسندوں کے نام اس وقت تک سامنے نہیں آئے جب تک مغربی ذرائع نے انہیں ہم تک نہیں پہنچا دیا۔

میں اور میری شریک حیات ریما عبداللہ جو اس وقت بیروت میں ہیں‘ نے مجھے دوپہر سے پہلے فون پر اطلاع دی کہ اسرائیل نے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کر دیا ہے۔ مگر ہمارے صحافی کی طرف سے ہمیں کوئی خبر نہیں ملی۔ البتہ اس کا چرچا ضرور ہوتا رہا کہ ہمارے بہادر صحافی کو اسرائیلیوں نے گرفتار کر لیا ہے۔ حتیٰ کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف لاہور میں جو منظم مظاہرہ کیا گیا اور جس میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی‘ اس کی خبر بھی نمایاں نہ ہو سکی۔

ہم نے اس مظاہرے میں جناب طلعت حسین کے حوالے سے مختلف اور متضاد خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔ مگر جب وہ خبروں میں نمودار ہوئے‘ تو پھر بھی ان کی طرف سے کوئی رپورٹ سامنے نہیںآ ئی۔ جب وہ رہا ہو کر اردن کے فائیواسٹار ہوٹل میں آ گئے‘ جہاں ای میل‘ فیکس اور ٹیلی فون کی سہولتیں میسر ہیں‘ وہاں سے بھی ساڑھے سات سو امن پسندوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی تفصیل پاکستانی صحافی کے نقطہ نظر سے ٹیلی کاسٹ نہ ہو سکی۔ وہ لاہور آئے‘ تو ایئرپورٹ پر صحافی ساتھیوں کے سوال پر بتایا کہ ”رپورٹ میرے بریف کیس میں پڑی ہے۔“

جبکہ دوسری طرف وہ اپنی بہادری اور جرات پر قصیدے سنتے رہے اور اپنے چینل سے نشر کراتے رہے۔ انہوں نے پھولوں کے ہار بھی پہنے‘ جو سراسر غیرصحافیانہ فعل ہے۔ پاکستانی میڈیا میں فلسطین اور ساڑھے سات سو امن پسندوں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کے بارے میں برائے نام خبریں آ رہی تھیں جبکہ ہمارے ہیرو اینکر کے لاپتہ ہونے‘ دوبارہ مل جانے اور پھر پاکستان کے لئے روانگی کی خبریں لمحہ بہ لمحہ نمایاں طور پر نشر اور شائع ہو رہی تھیں۔

ان کے اپنے ہی ٹی وی چینل پر ان کے لئے ستارہ جرات کا مطالبہ بھی کر دیا گیا۔ معلوم نہیں آپ لوگوں نے صحافت کے نام پر ڈیوٹی کے لئے جانے والے ایک اینکر کو ہیرو کیسے بنا دیا؟ جس کام کے لئے وہ گئے تھے‘ وہ تو انہوں نے کیا ہی نہیں اور سفر کر کے اسرائیل کی قید میں جانے اور رہا ہونے کی جو زحمت انہوں نے فرمائی‘ وہ تو ساڑھے سات سو امن پسندوں نے بھی کی تھی۔

اتنی سی زحمت فرما کے آپ کے صحافی دوست نے جوش جذبات میں فرمایا کہ ”پاکستان کی سیاسی جماعتیں فلسطین کے حوالے سے خاموش رہی ہیں۔ میں نے اس کا آغاز کیا ہے۔“

ان کی خدمت میں کون یہ عرض کرے کہ فلسطینیوں کی جدوجہد 60 سال سے جاری ہے۔ اس میں پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے حصہ لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اسی جرم میں پھانسی چڑھے۔ کیونکہ 1973ء کی جنگ رمضان میں عالمی صیہونی تنظیموں نے ان کے خاتمے کی سازش تیار کر لی تھی۔ کیا آپ کے ہیرو کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کتنے پاکستانیوں نے‘ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے؟ پاکستان کے ترقی پسندوں نے کیا کچھ کیا ہے؟

انہیں مشورہ دیں کہ اپنے ساتھی آغا ندیم ہی سے پوچھ لیں ‘ جس نے ضیاالحق کی آمریت کے خلاف اپنے 6 بھائیوں کے ہمراہ جان ہتھیلی پر رکھ کر جدوجہد کی اور جب جلاد شیرون نے پی ایل او کی قیادت کو جہازوں میں بھر کے سمندر میں دھکیلا تھا تو اس وقت کتنے پاکستانی اس ظلم کے خلاف لڑ رہے تھے؟ انہی دنوں فیض صاحب بیروت میں بیٹھے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے تھے۔

اب میں آپ کے کالموں کے حوالے سے‘ اس اہم تاریخی تبدیلی کے بارے میں کچھ عرض کروں گا‘ جو رونما ہو رہی ہے۔

شرق اوسط میں دنیا کی تین قدیم اور عظیم تہذیبیں عرب‘ ترک اور ایرانی ایک نئی انگڑائی لے رہی ہیں۔ ترکی کہنے کو 7کروڑ کا ملک ہے لیکن اس کے ارد گرد کی ریاستوں میں موجود ترکوں کو شمار کریں‘ تو ان کی تعداد 35 کروڑ ہے۔ ترک قوم وسطی ایشیا اور کاکیشیا سمیت مسلمانوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ اکثریت میں شرح تعلیم سوفیصد ہے۔

یہ قومیں قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔ ان تینوں قدیم تہذیبوں کی طاقت‘ ان کی نیشنلزم میں ہے۔ ترکی اپنی معاشی طاقت‘ سماجی تنظیم‘ ٹیکنالوجی‘ جدیدیت اور جمہوریت کی طاقت کے ساتھ عرب دنیا میں کردار اداکرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے اور ایران کے ساتھ بھی تعلقات بڑھا رہا ہے۔

ترکی کے شرق اوسط میں ترکی کے نئے کردار کے لئے بہت بڑا واقعہ ہونے جا رہا ہے‘ یہ تاریخ کو ایک نیا رخ دینے کا موجب بنے گا۔ ترکی کے ایک منتخب وزیر اعظم جناب طیب اردوآن نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اگلے مرحلے میں وہ غزہ کے محصورین کو امداد پہنچانے والے قافلے میں شامل ہوں گے اور ان کے دفاع کے لئے ترکی کی بحری فوج ساتھ رہے گی۔

اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر واقعی یہ اعلان حقیقت میں بدل گیا اور وقت سے پہلے مغربی طاقتوں نے طیب اردوآن کو روکنے کی کوشش نہ کی‘ تو حالات کیا رخ اختیارکریں گے؟“

Jang, 10 June 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Ahmed Iqbalabadi
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. irfa urfi
    -
  4. aatif malik
    -
  5. Nazish
    -
  6. home renovations before and after
    -