70% of religious seminaries (madrassahs) in Pakistan belong to the Deobandi school of thought: Report
According to a report appeared in today’s Daily Express more than 1.9 million students are enrolled in 17000 religious seminaries (madrassahs) of which around 70% i.e. 12000 belong to Deoband school of thought, around 20% i.e. 3500 belong to Barelvi school of thought, around 2.2 % i.e. 380 belong to Ahl-e-Hadith, 2.3% i.e. 390 belong to Shias, and 2.38% i.e. 405 belong to Jamaat-i-Islami.
This report quoting some authentic sources from federal interior ministry claims that 90% madrassahs’ students arrested so far for their involvement in terrorists activities belong to a particular sect (which I believe is Deoband).
Source: Daily Express 7th April, 09
Comments
Latest Comments
پاکستان میں اسی کی دہائی میں جب ریاستی سرپرستی میں جہاد افغانستان شروع ہوا تو کئی مدارس نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعد میں کشمیر جہاد میں لڑنے کے لیے بھی زیادہ تر لوگ مدارس سے ہی ملتے رہے۔ لیکن موجودہ پاکستانی طالبان نے جب پرتشدد کارروائیوں کا آغاز کیا تو اس میں بھی بعض مدارس کی طرف ہی انگلیاں اُٹھتی ہیں۔
جنوبی پنجاب میں زیادہ تر مدارس جمیعت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے ہیں:تاج محمد لنگاہ
پاکستان سرائیکی پارٹی کے رہنما تاج محمد لنگاہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب میں زیادہ تر مدارس جمیعت علماء اسلام فضل الرحمٰن گروپ کے ہیں۔ ’جو طالبان افغانستان ہیں اور جو طالبان پاکستان ہیں وہ جے یو آئی سے ہیں۔ سپاہ صحابہ اور ان کا لشکر جھنگوی، ختم نبوت تحریک جو احمدیوں کی جانی دشمن ہے وہ اور جیش محمد یہ سب جے یو آئی ہیں۔ سرائیکی خطہ جو ہے وہ تنظیمی حساب سے جے یو آئی کا گڑھ ہے جو وہاں سے (صوبہ سرحد اور فاٹا) بھرتی کرنے کے لیے آدمی آتا ہے اُسے وہ چٹھی دیتے ہیں۔‘
لیکن مدارس کے ذریعے شدت پسندوں کی بھرتی کے تاثر کو جے یو آئی کے مقامی رہنما اور بھکر کے ایک بڑے مدرسےکے مہتمم مولانا صفیع اللہ رد کرتے ہیں۔ ’مدارس کے خلاف الزام تو لگتے ہیں لیکن ثبوت نہیں پیش کیا جاتا۔ تشدد مدارس میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تعلیم دی جاتی ہے۔‘ جب انہیں سوات کے مولاناا فضل اللہ اور طالبان رہنما بیت اللہ محسود کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ ان کا تعلق بھی تو مدارس سے ہے تو مولانا صفیع اللہ نے کہا کہ یہ دونوں ایک سازش کا نتیجہ ہیں انہوں نے مدارس کی بنیاد پر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
تاج محمد لنگاہ مولانا صفیع اللہ کے موقف کو چیلینج کرتے ہوئے بتایا کہ ملتان کے قریب مسہ کوٹھہ میں واقع ایک مدرسے نے سات سو بچے ملا عمر کے ساتھ لڑنے کے لیے افغانستان بھیجے اور جے یو آئی کے بلوچستان کے دو وزیر اس مدرسے کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنے آئے۔
مدارس میں جہاد کی تربیت نہیں دی جاتی البتہ مدارس سے جہاد کے لیے بچے چنے جاتے ہیں، مدارس کے استاد لڑکوں کو جہاد کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جس طرح تبلیغی جماعت والے راہ ہموار کرتے ہیں اس طرح مدارس بھی لڑکے تیار کرتے ہیں اور پھر جہادی نیٹ ورکس جا کر اپنا بیج بوتے ہیں
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
مدارس کے شدت پسندی میں ملوث ہونے کے بارے میں سیاسی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مدارس میں جہاد کی تربیت نہیں دی جاتی البتہ مدارس سے جہاد کے لیے بچے چنے جاتے ہیں، مدارس کے استاد لڑکوں کو جہاد کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جس طرح تبلیغی جماعت والے راہ ہموار کرتے ہیں اس طرح مدارس بھی لڑکے تیار کرتے ہیں اور پھر جہادی نیٹ ورکس جا کر اپنا بیج بوتے ہیں۔
تاج محمد لنگاہ کہتے ہیں کہ سرائیکی علاقے میں اہل حدیث مسلک کا بھی مضبوط نیٹ ورک ہے۔ ان کے مطابق اہل حدیث کو سعودی عرب والے پیسے دیتے ہیں اور یہ بہت امیر ترین لوگ ہیں۔ ’اہل حدیث باضابطہ سعودی عرب کی ایک سیاسی جماعت ہے۔۔۔ بھٹو دور میں یہ سوشلزم کے خلاف کام کرتی تھی اب جمہوریت کے خلاف کام کرتی ہے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی ہے۔‘
ڈیرہ غازی خان میں طالبات کے لیے اہل حدیث کا ایک بہت بڑا مدرسہ ہے۔ ایک بڑے کمپلیکس نما عمارت میں اٹھارہ سو طالبات کی تعلیم، رہائش اور خوراک کا بھی اہتمام ہے۔ اس مدرسے کی انتظامیہ کی رکن عامصمہ نورین نے بتایا کہ ان کے مدرسے کا الحاق حکومتی بورڈ سے ہے اور تمام سائنسی مضامین کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ’ہمارے ہاں بچیوں کی پڑھائی کسی حکومتی یا نجی سکول سے کم نہیں۔ نتیجہ بھی بہت اچھا آتا ہے۔‘
اہل حدیث اور سلفی مکتب فکر سے کشمیر جہاد میں سرگرم کالعدم لشکرِ طیبہ کی نظریاتی وابستگی بھی اِسی مسلک سے ہے۔ لیکن سلفی مدارس کی انتظامیہ کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے۔ تاہم وہ سیاسی طور پر مسلم لیگ نواز سے جڑے ہونے کی تصدیق کرتے ہی
پاکستان میں بیس ہزار سے زیادہ مدارس میں بیس لاکھ کے قریب طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں اور انہیں مفت تعلیم، کھانا اور رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ ایسے میں مدارس پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات کے متعلق بھی سوال اٹھتے ہیں کہ آخر اتنی بڑی رقم ان کے پاس آتی کہاں سے ہے؟۔ اس بارے میں عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مدارس کے لیے فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق زکوۃ کے علاوہ بیرون ملک سے انہیں بڑا پیسہ ملتا ہے اور رمضان میں مولوی حضرات جہاز بھر بھر کر سعودی عرب اس کام کے لیے بھی جاتے ہیں۔ ’مدارس کو ملنے والے پیسے کی جانچ پڑتال کا کوئی قانون ہے اور نہ کوئی حکومت ان سے پوچھ سکتی ہے۔‘ ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ قانون کے مطابق کہیں بھی مسجد اور مدرسہ اکٹھا نہیں کھولا جاسکتا اور بہاولپور کے ایک افسر نے اس پر عمل کرانے کے اقدامات کیے تو ان کا تبادلہ ہوگیا۔
مدارس کے لیے فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ زکواۃ کے علاوہ بیرون ملک سے انہیں بڑا پیسہ ملتا ہے اور رمضان میں مولوی حضرات جہاز بھر بھر کر سعودی عرب اس کام کے لیے بھی جاتے ہیں۔مدارس کو ملنے والے پیسے کی جانچ پڑتال کا کوئی قانون ہے اور نہ کوئی حکومت ان سے پوچھ سکتی ہے۔‘ ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ قانون کے مطابق کہیں بھی مسجد اور مدرسہ اکٹھا نہیں کھولا جاسکتا اور بہاولپور کے ایک افسر نے اس پر عمل کرانے کے اقدامات کیے تو ان کا تبادلہ ہوگیا
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
پاکستان میں آج کل جو جہاں چاہے مدرسہ کھول کر بیٹھ سکتا ہے اور اس طرح کی صورتحال پر کئی لوگوں کو اعتراض بھی ہے۔ مظفر گڑھ کے ایک سماجی کارکن اور کاروباری شخص شیخ راشد کہتے ہیں کہ نئے مدارس کے قیام کے لیے حکومت سے منظوری لینے کو لازم بنایا جائے۔ ’جہاں جس مولوی کا دل کرتا ہے وہ گلی محلے میں مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر بچوں سے بھیک منگواتا ہے۔ ایسے مدرسے پھر غلط کاموں میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا حکومت اور وفاق المدارس مشترکہ طور پر بورڈ بنائیں کہ جو مدرسے کھولے اس سے پوچھیں کے ان کے پاس وسائل ہیں یا نہیں۔
پاکستان میں یہ حقیقت ہے کہ بیشتر مدارس کا شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن کچھ مدارس ایسے ضرور ہیں جو جہادیوں کی تیاری، شدت پسندوں کو کسی نہ کسی طور پر سہولیات فراہم کرنے میں ملوث سمجھے جاتے ہیں۔ بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شدت پسندی میں ملوث کچھ ایسے مدارس بھی ہیں جنہیں قومی سلامتی سے متعلق کچھ ریاستی اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان کی سیاسی قیادت اور سکیورٹی اسٹیبلشمینٹ متفقہ طور پر شدت پسند گروہوں کے خلاف کوئی ٹھوس اور واضح پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوگی اس وقت تک شدت پسندی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/01/100110_punjab_ijaz2_zee.shtml