Hamid Mir Wars – by Danial Lakhnavi

کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر منٰی میں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کی موقع پرضعیف العمر بڑے میاں کنکریوں کے بجائے شیطانوں کے ٹیلے کوچپّل اٹھا اٹھآ کے ماررہے تھے کسی نے کھا ابّاجی! چپّل نہیں کنکریاں ماریں؟ ابّاجی نے تنک کر کہا، چپ کر بیٹا، مارنے دو  ، اس نے جوانی میں مجھ سے بڑے گناہ کروائے ہیں۔

کم وبیش وہی صورت حال جناب حامد میر کی ہے جو سلیم شہزاد کے بہیمانہ قتل کے موقع پر جی بھر کے دل کے پپولے تھوڑ رہے ہیں اور محترمہ عاصمہ جہانگیر کے سنگ آئی ایس آئی کے خلاف بڑھ چڑھ کر داد شجاعت دے رہے ہیں بلکہ سنا ہے کہ دونوں حضرات کے خلاف گیریژن ٹاؤن راولپنڈی میں بینر بھی آویزاں ہیں، اس بات پر عاصمہ جہانگیر کو تو شاید کوئی فرق نہ پڑتا ہو لیکں حامد میر ضرور اسے تمغہء شجاعت سے کم نہیں سمجھیں گے۔

اگرچہ اس وقت جناب حامد میر کے خلاف بولنا ایسا ہی ہے جیسے وکیلوں کی تحریک کے دوران قاضی حسین احمد کے یا سیاست میں ان کے موجودہ جانشین جناب عمران خان کے خلاف بولناکہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف ان کی حالیہ گوہرافشانی سے بہت سے لوگ متاثر ہیں۔

لیکن میں اتنا عرض کردوں کہ جناب حامد میر کی موجودہ ایکٹیوازم کو آئی ایس آئی کی جانب سے انٹرنیٹ پر ریلیز کی گئی اس فون گفتگو کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے جو خالد خواجہ کی موت کا باعث بنی تھی۔اس گفتگو کی آتھنٹک ہونے کی آئی ایس آئی نے تصدیق بھی کی تھی۔

محترمہ عائشہ صدیقہ نے اس آڈیو ٹیپ کی ریلیز اور حامد میر کے خلاف مہم کو آئی ایس آئی کی اندرونی تقسیم کا شاخسانہ قراردیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا

اس بات چیت کا افشاء بنیادی طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اندر ایک سے زیادہ گروپس کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے. اس وقت ایجنسیوں کے اندر اندر کم وبیش تین نظریاتی گروپسں موجود ہیں :
۱۔ اسلام پسند، ۲۔ مغرب نواز، اور ۳۔ چین کے حامی.

یہ گروپس اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے اوراپنے نقطہ ہائے نظر کے لیے لابنگ کرتے ہیں. اس کا مطلب یہ ہے کہ معلومات کا اعلٰی قیادت کو بہاؤ یا فراہمی ان گروپوں کے نظریاتی جھکاؤ سے مشروط ہے۔

سردست اتنا عرض کروں کہ مشتری ہوشیار باش!! حامد میر کسی بھی وقت پلٹی مار سکتا ہے اس لئے حامد میر کی جنگوں کا حصّہ بنتے ہوئے چوکنّے رہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے تمام صحافیوں بشمول حیات اللہ خان، موسٰی خان خیل اور بلوچستان کے شہید صحافیوں کے لئے ایک جامع تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کریں اورانٹیل جنس ایجنسیوں کے کسی بھی دھڑے کے لئے  کام کرنے والے اور انتہا پسندوں کو معلومات فراہم کرنے والے سب کو بے نقاب کریں۔

حامد میر کا انداز نہیں بدلا صرف ترجیحات بدلی ہیں شاید، کیوں کہ اس کے حالیہ کالمز بھی انٹیلی جنس کوارٹرز کی فیڈ کی گئی معلومات سے خالی نہیں ہیں۔ کیا صحافی برادری اپنے درمیان پلانٹڈ آپریٹیوز کی نشاندہی اور انٹیل جنس معلومات پر پلنے والی جونکوں کو بے نقاب کرسکیں گے۔ یا اپنی پیٹھ میں یوں ہی چھریاں گھونپتے رہنے کو برداشت کرتے رہیں گے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Pejamistri
    -
  2. Zalaan
    -
  3. Karimullah Mehsud
    -
  4. Uzair memon
    -
  5. zulekha kamran
    -
  6. zulekha kamran
    -
  7. sarfraz
    -