Raymond Davis sahib aur qiblah Hamid Gul – by Danial Lakhnavi


کل رات اپنے ناسٹلجیا کے تحت امجد خان مرحوم، آنجہانی سنجیو کمار، دھر میندر اور امیتابھ جی کی شاہکار فلم “شعلے” دیکھ رہا تھا، اس دوران بارہا نیوز چینل بھی دیکھتا رھتا جس میں ریمنڈ ڈیوس کی سلطنت سعودیہ کی توسیعی منصوبےکے تحت اس کا حصہ یعنی سلطنت پنجاب سے رہائی، اس پرچیں بہ چیں ہوتے مذہبی اور پنشن یافتہ عسکری احباب، لیگی عقابوں کی سٹپٹائی ہوئی حالت اور اپنی طرز کی اکلوتی سیاسی شخصیت رانا ثناء اللہ کی بوکھلاہٹ قابل دید تھی

فلم اور نیوز چینلز کے اس عجیب وغریب امتزاج نے دماغ پر جو اثر چھوڑا ہماری حالت یہ ہوئی کہ ھم رات کو عجیب طرح کے خواب دیکھتے رہے۔ اور فلم کےکرداروں کو پاکستان کے سیاسی تھیٹر کے مختلف چہروں سے خلط ملط کرتے رہے۔ ریمنڈ ڈیوس ایپی سوڈ پلس شعلے کے مکس اپ سے جو چیز ذہن میں ابھری وہ کچھ یوں تھے

شعلے کی سپر ہٹ جوڑی دھرمیندرا اور امیت جی کے مقابل مجھے پاکستان کی کوئی سیاسی جوڑی جچتی نظر نہیں آرہی تھی البتہ پاکستان کی ناگزیر اور لاجواب عسکری جوڑی جناب کیانی صاحب اور پاشا صاحب بڑے فٹ نظر آئے، سنجیو کماریعنی ٹھاکر کے کردارمیں اپنے بے دست وپا سیاسی حکمران نظر آئے، ہم تھوڑی کنفیوز تھے پر ہم نے چوہدری نثار کے اتّباع میں صدر زرداری کو چن لیا کہ ان کی خارجہ پالیسی اور خزانہ کے دونوں ہاتھ سلامت نہیں اور لاجواب جوڑی ان کے دست وپا بنے ہوئے ہیں

درج بالا اسکرپٹ کے تحت تو یہ وشال بھردواج کی “سات خون معاف” ٹائپ کی کوئی ڈارک کامیڈی نظر آتی ہے اس لئے پاکستانیت کےزیر اثراور ہٹ فلم کی فارمولا اسکرپٹ کے مطابق اس میں اینٹی امیرکن ازم کا تڑکا بہت ضروری تھا اس لئے امجد خان کا لارجر دین لائف گبر سنگھ کا رول امریکی سفیر کو دے دیا تھا فرق صرف یہ تھا کہ وکی لیکس کے زیر اثر ہماری لاجواب جوڑی کے ساتھ این ڈبلیو پیٹرسن گبر کے رول میں زیادہ سوٹ کررہی تھیں

اس ایبزرڈ قسم کے پولٹیکل ڈریم میں اسی رات کی ایک شیعہ وہابی دوست سے طویل ٹیلیفونک گفتگو کا بھی حصّہ تھا جو ایران کی محمود نژادی رجیم کے درون خانہ لرزتے اور بیرون خانہ گرجتے انقلاب کی تضحیک پر  بار بار جوش جذبات میں مجھے غیر پارلیمانی خطابات سےنواز رہا تھا

راقم الحروف کا واسطہ بارہااپنے ہم عمرذوالفقار علی بھٹو کے چند ایسے پرستاراحباب سے ہوتا رہتاہے جو بھٹو سے عقیدت کی حد تک لگاوَ رکھتے ہیں لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات بھٹو صاحب سے فار آل دی رانگ ریزنز محبّت کرتے ہیں۔ جیسے کہ وہ بھٹو صاحب کو روح اللہ خمینی، شاہ فیصل، قذافی، جمال ناصر کا ہم پلّہ بلکہ کچھ اسی طرح کا لیڈر سمجھتے ہیں، اور بھٹو صاحب کو بہت بڑے اینٹی امیرکن لیڈر سمجھتے ہیں، لیکن وہ سہولت سے یہ بات فراموش کر جاتے ہیں کہ بھٹو صاحب جب حیات تھے تو پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے ایران میں شاہ ایران کے خلاف برپا ہونے والی تحریک اور انقلاب (جو بعد میں چوری ہوگیا) کی مخالفت کی تھی، بھٹو صاحب آفٹر آل ایک سیاستدان تھے انقلابی نہیں، اور کوئی بھی عملیت پسند سیاست دان پاکستان میں اینٹی امیرکن ازم کو ایک سیاسی نعرے سے بڑھ کر استعمال کرنا افورڈ نہیں کرسکتا، اسی وجہ سے پاکستان میں اس طرح کے سیاسی نعرے وہی لگا سکتے ہیں جن کے پاس سیاسی میدان میں ہارنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو

اب ریمنڈ صاحب کو ہی لے لیجیئے اس کی گرفتاری کے بعد سے لے کر اس کی ڈرامائی رہائی تک کتنے بزرجمہر آنکھوں میں طرح طرح کے سپنے سجا کے سامنے آئے، آن کی آن میں آتش نمرود میں کئی عشاق کود پڑے ، لیکن ایک پٹھان دوست کے مطابق ان کا کوئی فوک شاعر اپنے محبوب سے کہتا ہے

تیرے عشق کے دریا میں کودپڑا تھا میں
جب ٹھنڈ لگی توپھر باہر نکل آیا

محمد حنیف کے مطابق جس سول سوسا ئٹی میں روئیداد خان جیسے لوگ ہوں وہ سول سوسائٹی بذات خود ایک سازش ہے

اسی طرح جس اینٹی امیرکن ازم میں آپ کو حمید گل کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے وہ بذات خود ایک مزاق ہے. اور غیض وغضب کےایسے مظاہرے، جلتے ہوئے لوکل میڈ امریکی جھنڈے، مولویوں اور جماعتیوں کی شعلہ برساتی، آگ اگلتی زبانیں امریکیوں کے ساتھ سودے بازے میں مشغول جرنیلوں کی بارگیننگ پاور تو بڑھا سکتے ہیں کوئی انقلاب نہیں لاسکتے

اب حمید گلوں، جاوید چوہدریوں،مہر بخاریوں،طلعت حسینوں، حامد میروں کو تو یہ سب کرنے کے پیسے ملتے ہیں ہمیں کیا ملے گا بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. aslam arain
    -
  2. Ali Arqam
    -
  3. Bukhari
    -
  4. Zalaan
    -
  5. rahnabard
    -
  6. S Imam
    -
  7. Faiqrizvi
    -
  8. Raymond Davis
    -
  9. irfan urfi
    -
  10. Zalaan
    -
  11. Abdul Nishapuri
    -
  12. paksh
    -
  13. paksh
    -