خوشا ! حمید گل بولے ۔ از وجاہت مسعود
خوشا ! حمید گل بولے… تیشۂ نظر
سبحان اللہ! خیال کی بلندی دیکھئے ، لہجے کا بانکپن ملاحظہ ہو، فراست کا نمونہ کہیے، تدبیر کی ندرت کہیے… زیب دیتا ہے اسے، جس قدر اچھا کہیے۔ لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) حمید گل کا تازہ بیان ملت کے سوکھے دھانوں پر گویا بارش کی ٹھنڈی پھوار بن کر اترا ہے۔ چھوٹے بڑے سب سر دھن رہے ہیں۔ جنہیں گھرکی دی ہے وہ بھی سناٹے میں ہیں اور جن کے بازوے شجاعت سے داد حمیت طلب کی ہے وہ بھی انگشت بدنداں ہیں۔ حمید گل ہماری تاریخ کا ایک طرفہ باب ہیں۔ افسوس یہ کہ 1992ء میں قبل از وقت فوجی خدمت سے سبک دوش ہو گئے۔
ملتان کور کی کمانڈ کر رہے تھے کہ واہ آرڈی ننس فیکٹری کی طرف مراجعت کا حکم ملا۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ سپہ سالار تھے۔ خود بھی عزائم بلند رکھتے تھے۔ تخت نشینی تو دور کی بات ہے ، تخت کی آرزوتک ایسی بری بلا ہے کہ اس نیام میں بھی دو تلواریں نہیں سما پاتیں ۔ حمید گل کے لئے صوبہ ملتان کی زرخیز دھرتی سے ٹیکسلا کی پہاڑیوں میں بھیجے جانا گویا دکن کی مہم پر جانا تھا۔ دربار کے راز اور آداب سمجھتے تھے۔ تیموری خون جوش کھا گیا۔ استعفیٰ لکھ بھیجا۔ ترنت قبول کیا گیا۔ جنرل صاحب نے مدت العمر میں بس یہی ایک غلطی کی۔ ورنہ آٹھ دہائیوں پر پھیلی جنرل حمید گل کی داستان حیات فتوحات اور کامرانیوں کا ایک بلا فصل سلسلہ ہے۔ آرمرڈ کور کے افسر تھے۔ مغربی محاذ پر آرمرڈ کور کی کارکردگی پر جنرل گل حسن نے بہت کچھ لکھ رکھا ہے اور جو تسمہ لگا رہ گیا تھا،
اسے میجر آفتاب احمد مرحوم نے اپنی تصانیف میں قطع کر دیا۔ ہمارے ممدوح حمید گل کا اس میں امتیاز یہ ہے کہ حضرت نے ملتان میں مرشدی ضیاالحق کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا تھا۔ ضیا الحق آرمرڈ کور کے سربراہ تھے اور حمید گل نائب۔ عسکری معاملات تو خویش خسرواں بہتر سمجھتے ہیں، بعد کے واقعات سے اتنا اندازہ ضرور ہوا کہ استاد اور شاگرد نے قوم کے اجزائے ترکیبی کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کی اور اس بدنصیب گروہ کی رہنمائی کے اصول باریک بینی سے طے کئے۔ استاد محترم 1977ء میں سریر آرائے سلطنت ہوئے تو شاگرد رشید حمید گل کو تقرب حاصل ہوا۔ دونوں نے باہم مشاورت سے افغان جہاد کے خدوخال سنوارے، مختلف مزاحمتی تنظیموں میں ایسے وفادار گروہ تلاش کئے کہ آج تک دل و جان سے مملکت پاکستان کے دست و بازو چلے آتے ہیں۔ اس نام نہادجہاد میں ایسے ایسے مجاہد پیدا ہوئے کہ دنیا ان کے نام سے کانپتی ہے۔ جنوبی ایشیا کا خطہ ہی نہیں، دنیا بھر کے دارالحکومت افراتفری ، انتشار اور تشدد کے خوف سے یک سر آزاد کاروبار دنیا میں سرگرداں ہیں اور حمید گل کی ذکاوت پر سر دھنتے ہیں۔
ملک کے جنوب میں سندھ نام کا ایک صوبہ ہے، معزول اور معتوب حکمران بھٹو اسی خطے سے تعلق رکھتا تھا ۔ لوگ یہاں کے نہایت مفسدی تھے اور امیر المومنین کی بیعت میں تامل کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی گوشمالی کے لئے لسانی بنیادوں پر کچھ گروہ منظم کئے۔ نتیجہ یہ کہ سندھ آج تک امن کا گہوارہ چلا آتا ہے۔ سرمایہ کار ، مہاجن چین کی بنسی بجاتے ہیں، بازاروں میں کٹورہ بجتا ہے ۔ عورتیں مرد سب ٹیلی فون ہاتھ میں لئے ، بٹوہ جھلاتے گلی کوچوں میں پھرتے ہیں، کوئی خوف نہیں، کوئی خطرہ نہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ کسی ساہوکار کے بیٹے کو اغوا کرے یا کسی بیوہ ، غریب کی جھونپڑی کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھے۔ اردو ، سندھی پنجابی اور پشتو بولنے والے اپنی اپنی زبان میں حمید گل کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ 1979ء میں ہمسایہ برادر ملک میں اسلامی انقلاب رونما ہو گیا۔
اس سے کچھ برادر اسلامی ممالک کو تشویش ہوئی۔ ہمارے ممدوح نے جھنگ مگھیانہ کے منطقے میں کچھ ایسے عبقری ڈھونڈ نکالے کہ ان کی مساعی سے سرزمین پاک میں رواداری کا چلن پھیل گیا۔ امن کا دور دورہ ہوا۔ تصدیق اس دعوے کی ایس ایم ظفر جیسے وفادار اور ذی وقار شہری نے کر رکھی ہے۔ تنک سا اخباری کالم جنرل حمید گل کے کارناموں کی فہرست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے دفتر اور عمر خضردرکار ہیں ۔ آئی جے آئی حمید گل نے تشکیل دی۔ جلال آباد کی مہم جنرل حمید گل نے سر کی۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کے خطوط جنرل حمید گل نے استوار کئے۔
فوج سے سبک دوشی کے بعد امریکی استعمار کو جنرل حمید گل نے للکارا ۔ القاعدہ کے مظلوم حامیوں پر دست شفقت ہمارے جنرل صاحب نے رکھا اور ایسے وقت میں جب دنیا ان کی سرکوبی کے لئے اتائولی ہو رہی تھی۔ طالبان کی دست گیری حمید گل نے کی۔ ذرائع ابلاغ میں متقی اخبار نویسوں کی پیوند کاری جنرل حمید گل کے ہاتھوں سرانجام پائی۔ نیل کے ساحل سے لے کر … بوسنیا ، برما، عراق ، گجرات تک مظلوم انسانیت کی نجات کے لئے سیاسی حکمت عملی جنرل صاحب نے مرتب کی… کوئی کہاں بیان کرتا چلا جائے مگر صاحب اپنے حالیہ بیان میں ممدوح محترم نے کچھ ایسے عمیق نکات بیان فرمائے ہیں کہ عامۃ الناس کی محدود عقل سے ماورا ہیں۔ تسلیم کہ یہ اعتراضات محض کم فہمی کا شاخسانہ ہیں مگر التماس ہے کہ جنرل صاحب رہنمائی فرمائیں۔
جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ آئین کو منسوخ کر نے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ جنرل صاحب یہاں سائنسی اصول بیان فرما رہے ہیں یا تجویز دے ہیں۔ دستور میں شق چھ کی دہائی دینا تو لاحاصل ہے کہ جنرل پورے آئین کو خاطر میں نہیں لاتا تو ایک ننھی سی شق کی کیا حیثیت ہے۔ معلوم صرف یہ کرنا ہے کہ جنرل صاحب دستور کوعارضی طور پر معطل کرنا چاہتے ہیں یا اس برائی کو مستقل طور پر مٹانے کے حق میں ہیں؟ ایک عرض یہ بھی کہ اس وفاق کے چاروں صوبے تو دستور کے دھاگے میں بندھے ہیں۔ آئین نہیں ہو گا تو وفاق کی اکائیوں کو کیسے باہم متحد رکھا جا سکے گا۔
ایک نکتہ البتہ جنرل صاحب کے اس جملے میں موجود ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم نے مرکزیت کو ختم کر دیا۔ صاحب، وفاق اور مرکزیت میں کیا تعلق ہے؟ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ اگر سیاست دانوں نے آمریت کی مزاحمت کی تو قرار داد مقاصد کی مدد سے عوام ان کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔ کیا اس سے یہ مطلب نکالا جائے کہ قرار داد مقاصد غیر جمہوری قوتوں کا ہتھیار ہے؟ جنرل صاحب نے سپاہ سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اس کو پیشہ ورانہ کردار اپنانا چاہئے۔ مگر آئین شکنی کرنا اور عوام پر آمریت مسلط کرنا تو سپاہ گری کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کے منافی ہے۔ بہتر ہو کہ جنرل صاحب سپاہ کی اخلاقیات پر ایک مختصر مقالہ رقم فرمادیں، کم فہموں کی رہنمائی ہو جائے گی۔
جنرل صاحب کو خدشہ ہے کہ اگر فوج نے حکومت پر قبضہ نہ کیا تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔ ہماری تاریخ میں ایک ہی مرتبہ خانہ جنگی کا سانحہ گزرا ہے اور تب جنرل یحییٰ خان ملک پر حکومت کر رہے تھے۔ فوج کی حکومت خانہ جنگی سے تحفظ کی ضمانت نہیں۔ جنرل صاحب نے کیا اچھی تجویز دی کہ پاکستان کی فوج کو ترکی کی روایت پر عمل کرتے ہوئے وقفے وقفے سے حکومت سنبھال کر حالات درست کرتے رہنا چاہئے۔ صاحب، اگر ترکی کا اتباع ہی کرنا ہے تو اس روایت کاایک حصہ یہ بھی ہے گزشتہ ایک دہائی میں ترکی کی فی کس آمدنی میں 43فیصد اضافہ ہوا ہے۔ چوبیس ارب ڈالر پر محیط تمام غیر ملکی قرضے ادا کر دیئےگئے ہیں اور ترکی میں تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے بڑھ گیا ہے۔
مگر صاحب یہ تو ہم ایسے فانی انسانوں کے مادی معاملات ہیں، جنرل حمید گل تو صاحب سلوک ہیں، خدا معلوم حالات کی درستی سے کیا مراد لیتے ہیں؟ ایک نہایت پسندیدہ امر یہ کہ جنرل صاحب بھارت کے دائیں بازو کی مذمت نہایت صراحت سے کرتے ہیں ۔ ہم ایسے مادہ پرست یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ بھارت کے دائیں بازو اور پاکستان کے دائیں بازو میں کن اصولوں کی بنیاد پر امتیاز کیا جائے۔ وہ کونسا امتیازی اصول ہے جو بھارت میں اقلیتوں سے نا انصافی کی مذمت کرتا ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کے لئے آواز اٹھانے کو ملک دشمنی قرار دیتا ہے ۔ جنرل حمید گل کے بیان کی پارلیمنٹ میں بھی گونج سنائی دی ہے اور درست طور پر ان کے ناقابل عمل اور مجہول خیالات کو رد کیا گیا ہے۔ قوم کے جملہ حصوں کو زیادہ دو ٹوک طور پر ایسے آزمودہ اور نقصان دہ بیانیے کی مذمت کرنی چاہئے۔ ہمیں اپنی اجتماعی فراست پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے اعلان کرنا چاہئے کہ ’تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں
Source:
http://jang.com.pk/jang/jun2015-daily/16-06-2015/col7.htm