آئی بی اے گریجویٹ سے سپاہ صحابہ کے دہشت گرد تک: سعد عزیز اور دیگر اعلی تعلیم یافتہ دیوبندی دہشت گردوں کے بارے تفصیلی رپورٹ
پاکستانی اور غیر ملکی اخبارات میں صفورہ چوک کراچی میں اسماعیلی شیعہ مسلمانوں اور اس سے قبل ڈاکٹر شکیل اوج، سبین محمود اور ہندو انجنیئر گریش کمار کو قتل کرنے والے پڑھے لکھے دیوبندی دہشت گردوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹس شائع ہوئی ہیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے
کراچی میں حالیہ بڑی دہشت گردی کے واقعات میں ‘پڑھے لکھے’ طلباء کے ملوث ہونے کے انکشاف پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ تکفیری خوارج نے دیوبندی مدارس کے علاوہ یونیورسٹی اور کالجوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا ہے – خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق تقریبا تمام کیسز میں دہشت گردوں کا تعلق دیوبندی تکفیری نظریے سے ثابت ہوا ہے اور کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ جس کا نیا نام اہلسنت والجماعت ہے – سے تانے بانے ملے ہیں –
سندھ حکومت اور پولیس کے مطابق سانحہ صفورہ، سماجی کارکن سبین محمود کے قتل اور بوہری برادری پر حملوں میں ملوث ملزمان سعد عزیز، محمد اظفر عشرت اور حافظ ناصر ملک کے بڑے تعلیمی اداروں کے طلباء ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ سانحہ صفورا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں ایک ہی گروہ ملوث ہے جس کے ماسٹر مائنڈ سمیت چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے گرفتار ملزمان کے حوالے سے میڈیا کو تفصیلات فراہم کیا اور بتایا کہ اس گروہ میں شامل ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چاروں گرفتار ملزمان میں سبین محمود کے قتل کا ماسٹر مائنڈ سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جان، محمد اظہر عشرت عرف ماجد اور حافظ ناصر اور ایک اور ملزم شامل ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعید عزیز آئی بی اے سے بی بی، محمد اظہر سرسید یونیورسٹی سے الیکٹریکٹکل انجینئرنگ جب کہ حافظ ماجد کراچی یونیورسٹی سے اسلام اسٹڈیز میں ماسٹرز کر چکا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق یہ ملزمان کراچی میں ڈیبرا لوبو پر حملے اور مختلف علاقوں میں واقع اسکولوں کے باہر بم بھینکنے میں بھی ملوث تھے۔ قائم علی شاہ نے انکشاف کیا کہ یہ افراد بوہری کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث ہیں جب کہ پولیس کو بھی نشانہ بنانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے رینجرز حکام اور نیوی کے اہلکاروں پر بھی حملے کیے۔ سید قائم علی شاہ نے بتایا کہ ملزمان کے قبضے سے 3 کلاشنکوگ، 9 نائن ایم ایم، لیپ ٹاپ، دستی بم اور دیگر اسلحہ و سامان برآمد کیا گیا
سعد عزیز دیوبندی عرف ٹن ٹن عرف جان
ملک کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کے طالبعلم کا ‘تربیت یافتہ عسکریت پسند’ ہونا اور اس کی جانب سے شہر میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے مالی معاونت کیے جانے پر یقین کرنا بہت سے لوگوں کے لیے کافی مشکل ہے۔
سعد عزیز المعروف ٹن ٹن عرف جان، سول سوسائٹی کی نمائندہ سبین محمود پر حملے کا ماسٹرمائنڈ ہے، اس نے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی سے بی بی اے کر رکھا ہے۔ وہ 2009ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ سعد عزیز ایک تربیت یافتہ عسکریت پسند ہے، جسے مختلف قسم کے لٹریچر کی تیاری میں مہارت حاصل ہے۔ وہ شہر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے فنڈز فراہم کرتا ہے۔ وہ بہت سے دیوبندی پیجز چلاتا ہے جن میں بنوری مدرسہ میڈیا، مائی بٹ فار چینج، زید حامد ایکسپوزیشن وغیرہ شامل ہیں، سوشل میڈیا پر حافظ عنیب فاروقی، محسن حجازی، افشاں مصعب، عامر خان آف ڈی آئی خان ، عامر سعید آف پشاور، دوالفقاری عرف ایچ احمد، پکھی واس، جمہور پسند وقاص، مرزا جواد مقصود بیگ، ایاز نظامی عرف معاویہ دیوبندی، منیب ساحل دیوبندی آف لشکر جھنگوی، افضل دیوبندی عرف لال بجھکڑ اور دیگر دیوبندی خوارج پر انٹیلی جنس اداروں نے نظریں رکھی ہوئی ہیں – ان میں سے بعض افراد سعد عزیز دیوبندی کے ساتھ مل کرآن لائن الراشدین میگزین بھی نکالا، جس میں سنی صوفی، بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کیا اور اس کے علاوہ سپاہ صحابہ کاالاعظم میڈیا، المعاویات، پی کے پولیٹکس اور سوہنی دھرتی بھی چلاتے ہیں – الراشدین میگزین کے پہلے شمارے میں سعد عزیز دیوبندی نے لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کے بانی دہشت گرد حقنواز جھنگوی کی تقریر کا متن شائع کیا جس میں شیعہ اور سنی بریلوی کو کافر اور مشرک کہا گیا تھا – اس کے علاوہ اس میگزین میں لکھا گیا کہ اسرائیل کو تباہ کرنے سے پہلے ایران کو تباہ کرنا ضروری ہے
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعد عزیز نامی ملزم نے ملک کے معتبر تعلیمی ادارے آئی بی اے سے بی بی اے کر رکھا ہے اور اس نے قبول کیا ہے کہ وہ سبین محمود قتل کا ماسٹرمائنڈ ہے۔ سعد عزیز کے اعتراف پر ان کے سابق ہم جماعتوں کے لیے یقین کرنا کافی مشکل ہے۔ سعید عزیز کے ایک ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ سعد عزیز ایک بہت ہی اچھا طالبعلم تھا جو کہ ٹینس اور فٹبال شوق سے کھیلتا تھا جب کہ وہ مذاق بھی کافی اچھا کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سعد عزیز نے ابتدائی تعلیم بیکن ہاؤس اسکول سسٹم سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے ایک اور مہنگے تعلیمی ادارے دی لائسیم اسکول سے اے لیولز کیا اور بعد ازاں آئی بی اے سے گریجویشن کیا۔ سعد کے ایک اور دوست بتاتے ہیں کہ وہ بہت ہی ٹھنڈے مزاج کا انسان ہے جس کا نہ صرف لڑکوں سے بلکہ لڑکیوں سے بھی میل جول تھا۔
آئی بی اے کے ایک سابق ہم جماعت بتاتے ہیں کہ سعد عزیز پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیوبندی مذہبی سوچ حاوی ہوتی گئی۔ اس نے آئی بی اے کی اقرا سوسایٹی میں شمولیت اختیار کر لی، وہ سید قطب اور مودودی کی کتابیں پڑھتا تھا ، حقنواز جھنگوی اور لدھیانوی کی تقریریں سنتا تھا، کافی مذہبی ہو گیا تھا اور اس نے داڑھی بھی رکھ لی تھی، تبلیغی جماعت میں بھی شامل رہا اور سپاہ صحابہ – اہلسنت والجماعت – کے طلبا ونگ میں بہت ایکٹو تھا – لیکن کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ اسطرح قتل عام کر سکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بہت ہی حیران کن خبر تھی’۔
ان کے دوست کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی عزیز کے اہلخانہ سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا۔ ‘وہ کافی عرصے سے یونیورسٹی کے دوستوں سے رابطے میں نہیں تھا، بس کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوران اس کی کچھ آئی بی اے کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی تھی’۔ یاد رہے کہ کراچی اور لاہور کے لٹریچر فیسٹیول میں عام طور پر شیعہ، سنی صوفی اور مسیحی براردریوں کو قتل کرنے والے دہشت گردوں کی دیوبندی شناخت کو چھپایا جاتا ہے
سعد عزیزدیوبندی کے ایک اور سابق ہم جماعت بتاتے ہیں کہ ‘عزیز شادی شدہ ہے اور ایک بچے کا باپ ہے۔ وہ سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک ہوٹل ‘دی کیکٹس’ چلاتا تھا جو میکسیکن اور دیگر غیرملکی کھانوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے’۔ ان کے دوست کے مطابق ‘سعد بالکل بھی ویسا (عسکریت پسند) نہیں ہے۔۔۔یہ ناقابل یقین ہے۔ اس کا کردار بالکل بھی ویسا نہیں ہے۔ وہ ایک خاندان رکھنے والا انسان ہے’۔
وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق سعد عزیز عرف ٹن ٹن عرف جان سبین محمود قتل کیس کا ماسٹرمائنڈ ہے اور 2009 سے دہشت گرد سرگرمیوں کا حصہ ہے۔
قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ سعد عزیز ایک تربیت یافتہ عسکریت پسند ہے جو کہ آن لائن تکفیری دیوبندی لٹریچر کی تیاری کا ماہر تھا جب کہ وہ شہر میں لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ کی دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے فنڈز بھی فراہم کرتا تھا۔ اس کا کراچی کے مفتی نعیم بنوریہ مدرسے میں آنا جانا تھا – سعد عزیز دیوبندی کے والد لیور برادرز میں ڈائریکٹر ہیں جبکہ اس کا اپنا ایک ریسٹورنٹ کیکٹس کے نام سے ہے – کراچی کی دیوبندی میمن برادری بھی اس کو چندہ دیتی ہے –
سبین محمود کو قتل کرنے سے پہلے اس نے سبین کے ادارے ٹی ٹو آیف کے کی پروگراموں میں شرکت کی اور اس کے بعد سبین کو قتل کر دیا تاکہ ایک قتل سے تین مقصد حاصل ہوں ، انسانی حقوق کی ایک آواز کو خاموش کر دیا جائے، قتل کا الزام دیوبندی تکفیری خوارج سے بر سر پیکار پاک فوج پر لگایا جائے ، بلوچوں اور دیوبندی خوارج کے درمیان تعلقات کو مستحکم کیا جائے – یاد رہے کہ سبین محمود کے قتل کے بعد طاہر اشرفی کے حمایتی جعلی لبرلز نے توپوں کا رخ پاک فوج کی طرف کر دیا اور ملک بھر میں جاری دیوبندی سپاہ صحابہ دہشت گردی پر چھپ سادھ لی
سی آئی ڈی پولیس کے انچارج راجہ عمر خطاب کے مطابق دیوبندی تکفیری خوارج کا یہ گروپ داعش اور القاعدہ سے متاثر ہے۔ عمر خطاب کے مطابق انہیں اس گروپ تک پہنچنے میں 13 ماہ کا عرصہ لگا اور یہ سب گرفتار افراد ایک ہی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیچے ان دیوبندی دہشت گردوں کی پروفائلز ہیں جو کہ سعدعزیز کے ساتھ گرفتار ہوئے۔
طاہر حسین منہاس دیوبندی المعروف سائیں نذیر عرف زاہد، عرف نوید عرف خلیل، المعروف شوکت اور المعروف موٹا
طاہر حسین منہاس المعروف سائیں نذیر عرف زاہد، عرف نوید عرف خلیل، المعروف شوکت اور المعروف موٹا میٹرکولیٹ، جو صفورا گوٹھ سانحے کا ماسٹر مائنڈ ہے، 1998ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ یہ سپاہ صحابہ کے اورنگزیب فاروقی گروہ سے تعلق رکھتا ہے – یہ ایک تربیت یافتہ دہشت گرد ہے، جو بم بنانے اور آر پی جی-7 اور کلاشنکوف جیسے اسلحے کے استعمال کا ماہر ہے۔ اس نے ذاتی طور پر القاعدہ کے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سے کئی مواقعوں پر ملاقات کی تھی۔
محمد اظفر عشرت دیوبندی عرف ماجد
محمد اظفر عشرت عرف ماجد ایک انجینئر ہے، جس نے سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ آف ٹیکنالوجی سے ڈگری حاصل کی تھی۔ اس سے پہلے اس نے ڈیفنس ڈگری کالج میں تعلیم حاصل کی وہ 2011ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ محمد اظفر عشرت کو بم بنانے اور اس طرح کے بموں میں ٹائمرز کی طرز کے الیکٹرانک سرکٹس کے استعمال میں مہارت حاصل ہے۔ وہ سیمنز اور موبی لنک میں کام کر چکا ہے او ر اس کو مولوی منظور مینگل نے سپاہ صحابہ کے لئے تیار کیا
حافظ ناصر دیوبندی
حافظ ناصر عرف یاسر جس نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا، 2013ء سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے۔ ناصر کو برین واشنگ اور ’جہادی ‘سرگرمیوں کے لیے لوگوں کو تیار کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ اس کا تعلق اسلامی جمیعت طلبہ اور سپاہ صحابہ سے ہے – یہ اس سے قبل ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل میں بھی ملوث تھا
ان دہشت گردوں نے صفورا گوٹھ قتل عام سمیت ڈیفنس میں سبین محمود کے قتل، فیروزآباد کے علاقے میں امریکی ماہر تعلیم ڈیبرا لوبو پر فائرنگ، نیوی کے افسر پر بم حملہ اور رینجرز کے بریگیڈیر باسط پر خودکش حملہ، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں اسکول پر گرینیڈ حملے اور پمفلٹس پھینکنے، آرام باغ، نارتھ ناظم آباد، بہادرآباد کراچی اور حیدرآباد میں بوہری برادری کی ٹارگٹڈ کلنگ، کراچی میں سنی تحریک کے رہنماؤں کے قتل، اور بم حملے، ایم ے جناح روڈ، آرام باغ، گلستانِ جوہر، نیپا چورنگی، نارتھ ناظم آباد اور نارتھ کراچی میں پولیس کی گاڑیوں پربم حملے اور گلستان جوہر، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی، شاہ فیصل کالونی اور لانڈھی میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹڈ کلنگ کا اعتراف کیا
سنی بریلوی ادارے صدائے اہلسنت کے مطابق ان گرفتاریوں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی کہ سبین محمود کے قتل کے پیچھے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف جو پروپیگنڈا دیوبندی خارج اور جعلی لبرلز کی جانب سے کیا گیا وہ بے بنیاد تھا اور وہ ایک خاص مقصد کے لئے کیا گیا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سبین محمود کا قتل کرنے والے یہ تکفیری دہشت گرد ازخود ہی سبین کی سرگرمیوں سے مشتعل ہوکر اس کے قتل کا منصوبہ بنابیٹھے یا انھوں نے کسی ملک دشمن ایجنسی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے یہ گھناونا کھیل کھیلا تھا – سبین کو لال مسجد کے عبد العزیز دیوبندی کی گرفتاری کے مطالبے کی وجہ سے قتل کیا گیا –
ان گرفتاریوں سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگئی کہ سبین محمود کے قتل کے پیچھے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا گیا وہ بے بنیاد تھا اور وہ ایک خاص مقصد کے لئے کیا گیا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سبین محمود کا قتل کرنے والے یہ تکفیری دہشت گرد ازخود ہی سبین کی سرگرمیوں سے مشتعل ہوکر اس کے قتل کا منصوبہ بنابیٹھے یا انھوں نے کسی ملک دشمن ایجنسی کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے یہ گھناونا کھیل کھیلا تھا
صدائے اہلسنت اس سے قبل بھی کئی مرتبہ اس شبہ کا اظہار کرچکا ہے کہ تکفیری دہشت گردوں اور ملک دشمن بی ایل اے جیسی تنظیموں کے درمیان روابط موجود ہیں اور تکفیری دہشت گردوں کے حامیوں نے سول سوسائٹی کا نقاب بھی پہن رکھا ہے اور یہ اتحاد پاکستان کی سلامتی ، اس کی معشیت کے لئے سخت خطرہ بنا ہوا ہے اور ان کے بیرونی طاقتوں سے بھی تعلقات خارج از امکان نہیں ہیں
سانحہ صفورا گوٹھ کا ماسٹر مائینڈ محمد طاہر اہلسنت والجماعت یعنی کالعدم سپاہ صحابہ سے تعلق رکھتا ہے اور ایک دیوبندی مدرسے سے منسلک ہے جبکہ سندھ حکومت کے زرایع کے مطابق ان تک رسائی بھی سیکورٹی اداروں کو گلشن معمار میں قائم مولوی منظور مینگل کے مدرسے سے گرفتار طالب علموں سے پوچھ گچھ کے بعد ملی اور اس مدرسے پر چھاپے کا سخت ترین ردعمل بھی اہلسنت والجماعت کے سربراہ اورنگ زیب فاروقی ، جامعہ نعیمیہ کے مفتی نعیم اور وفاق المدارس کے صدر مولوی سلیم اللہ خان کی طرف سے آیا تھا اور مفتی منظور مینگل سلیم اللہ خان کے مدرسہ فاروقیہ کا سابق مدرس ہے اور یہ نہایت تنگ نظر ، فرقہ پرست تکفیری مثل خوارج ہے اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم رحمہ اللہ کا گستاخ ہے اور نظریہ پاکستان کا مخالف بھی ہے اور کانگریسی ملاوں کا مداح بھی
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی کئی سو مدرسوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ ایسے تمام مدارس کا تعلق دیوبندی مکتبہ فکر سے ہوگا یہ بات خود دیوبندی مکتبہ فکر کی قیادت کے لئے تشویش کا سبب ہونی چاہئے لیکن وہ تومیں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوئے ہے
دیوبندی سیاسی قیادت کا یہ حال ہے کہ جے یوآئی کے سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین نے گلشن معمار سے شرپسندوں کی گرفتاری پر بیان دیا کہ یہ اسلام اور مدارس کے خلاف سازش ہے اور ایسی کاروائیوں کو برداشت نہیں کیس جائے گا
اسی سے ملتے جلتے بیانات وفاق المدارس کے صدر اور جنرل سیکرٹری کی جانب سے بھی پڑھنے کو ملے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دیوبندی سیاسی و مذھبی قیادت اپنی صفوں میں گھسے ہوئے تکفیریوں اور خارجیوں کے آگے کس قدر بے بس ہیں اہلسنت المعروف بریلوی مکتبہ پہلے دن سے طالبان ، لشکر جھنگوی اور دیگر دیوبندی تکفیری گروپوں کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہے اور اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جب تک ان دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے
ہم اس بات پر حیران ہیں کہ آخر ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سمیت دیگر میڈیا آوٹ لیٹس صفورہ گوٹھ سانحے میں ملوث ملزمان کے بارے میں کچھ باتیں کیوں چھپارہے ہیں
کیا میڈیا کو طاہر حسین کی پہلی مذھبی جماعت سپاہ صحابہ پاکستان عرف اہلسنت والجماعت سے وابستگی کا علم نہیں ہے ؟
کیا اسے سعد عزیز کی سپاہ صحابہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستگی کا نہیں پتہ ؟
کیا میڈیا کو حافظ ناصر کی اسلامی جمعیت طلباء سے وابستگی کا علم نہیں
اور سب سے بڑھکر ان چاروں کی دیوبندی تکفیری شناخت بھی ظاہر نہیں کی گئی
Sources:
http://www.dawnnews.tv/news/1021444
http://www.dawnnews.tv/news/1021405/
http://tribune.com.pk/…/890162/good-degrees-and-kalashnikovs
http://tribune.com.pk/…/890162/good-degrees-and-kalashnikovs
http://www.dawn.com/news/1183443/
http://tribune.com.pk/…/saad-aziz-confesses-to-sabeens-mur…/
Sub bkwas ha jis mulk ki hukmrani hijron k pass ho wahan aisy he hota ha kry koi aur bdnam kisi aur ko kia jata ha lanat ha daisy jhoton per jb tumara chota baap India kehta ha k main sub krwa rha hon to tum uska naam ku nae laity ho mirzae lantio sherm nae aati ha tumain.
Deobandi artwork: Tahir Ahsrafi and Ayaz Nizami’s campaign against a liberal blog LUBP https://lubpak.com/archives/334070
توہین دیوبندیت؟ علامہ طاہر اشرفی اورعلامہ ایاز نظامی کی لبرل بلاگ کے خلاف مہم https://lubpak.com/archives/337912
آئی بی اے گریجویٹ سے سپاہ صحابہ کے دہشت گرد تک: سعد عزیز اور دیگر اعلی تعلیم یافتہ دیوبندی دہشت گردوں کے بارے تفصیلی رپورٹ https://lubpak.com/archives/336743
Exposed: Social media network of pro-Deobandi pseudo-atheists and pseudo-liberals https://lubpak.com/archives/331681
پاکستان میں لشکر جھنگوی اور داعش کے سائبر جہادی: کالعدم تکفیری دہشت گردوں کی حمایت میں جماعت اسلامی کا سوشل میڈیا سر گرم
https://lubp.net/archives/332933