سب باغی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سید عون عباس

Houthis تیونس میں ایک ماسٹرز کئے ہوئے لڑکے نے جب اپنے حقوق نہ ملنے پر خود کو آگ لگائی تو اس آگ نے صرف اس نوجوان ہی کو نہیں جلایا بلکہ پورے تیونس میں یہ آگ پھیل گئی، اور برسوں سے حکومت پر قابض وہاں کے ڈیکٹیٹر زین العابدین بن علی کو حکومت چھوڑ کر بھاگنا پڑا ، کیا وہاں کی مظلوم عوام نے یہ غلط کام کیا ؟، جب مصر کے لوگ حسنیٰ مبارک کے ظلم و جبر سے تنگ آ گئے تو حکومت کے باغی ہو گئے ، کیا یہ غلط تھا ؟ جب لیبیا کی عوام معمر قضافی کی بد ترین بادشاہت سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئے تو کیا یہ گنا ہِ کبیرہ تھا ؟؟؟؟ اپنے ملک میں اپنے حقوق نہ ملنے پر یہ اقوام جو باغی ہوئیں !!! کیا یہ ان کی درندگی تھی ؟ اس کا نتیجہ آخر میں خود آپکے سامنے آجائے گا۔

امریکہ کی جانب سے اعلان ہوا کہ ہم بہت جلد افغانستان اور پھر عراق سے اپنی فوجیں واپس بلانے والے ہیں ، کیونکہ امریکہ کی عوام کی جانب سے امریکی حکومت کو جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں سے تو اختلاف تھا ، لیکن کیونکہ اوبامہ نے بھی وہی تمام کام جاری رکھے جو بش کرتے تھے تو عوام میں مزید غصہ بڑھ گیا ۔۔ اسی غصے کو کم کرنے کے لئے اس طرح کے اعلانات امریکی حکومت ماضی میں کرتی رہی ہے ،،، خیر یہ تو آپ سب کو پتا ہی ہو گا کہ امریکہ کیلے، کینو، سیب، انار، آلو ، پیاز سپلائی کرنے والے ممالک کی صف میں توشامل ہے نہیںہے ہاں البتہ راکٹ لانچر، اسلحہ ، گولہ بارود بیچنا شروع ہی سے ان کا کاروبار رہا ہے،تو امریکہ نے سوچا کہ اپنا کاروبار تو جاری رکھنا ہے اور اس وقت دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کے اندر آپس میں اتنے اختلافات ، فرقے، گروہ بندایا ہوں کہ جتنی مسلمانوں میں ہیں ، لہذا پالیسی میکرز سر جوڑ کے بیٹھے اور تلاش کی گئی ایک ایسے شخص کی جو یہ تمام کام باخوبی طریقے سے انجام دے سکے تو ان کو پھر ذیادہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑی اور خود امریکہ کی قید میں رہنے والا ایسا شخص جو بدنام زمانہ انسان ہے یعنی ابو بکر البغدادی کا انتخاب کیا گیا کہ موصوف بہت اچھے طریقے سے یہ کام انجام دے سکتے ہیں جس کے بعد انھیں تیار کیا گیا اور ان کی اچھی سی ڈاڑھی رکھوائی گئی اور پھر اعلان ہوا کہ یہ ہیں مسلمانوں کے خلیفہ وقت!!! یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ یہ باتیں کوئی ہوائی نہیں ہیں بلکہ وکی لیکس کی جانب سے امریکی محکمہ داخلہ اور دیگر اداروں سے لیک ہونے والے شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سب امریکی حکومت کا پری پلان گیم تھا ، خیر یہاں میں مشہور امریکی صحافی نوم چومسکی کا بھی تزکرہ کروں گا کہ جنہوں نے یہ تمام باتیں کھل کر بیان کی ہیں ، اور بتایا ہے کہ امریکہ اپنے ملک میں رہنے والی عوام کے دباو میں آکر فوج بلانے کے لئے تو راضی ہو گیا لیکن اس ذیل میں اس نے ابو بکر البغدادی کو تیار کیا تاکہ وہ مسلمانوں کے روپ میں عراق اور شام میں مغرب کے لئے کام کرے، اور پھر ایسا ہی ہوا اچانک شام میں باغیوں کا ایک ایسا گروہ سامنے آیا جس کے جھنڈے پر تو اللہ رسول اور محمد ۖ لکھا تھا ، لیکن ان کا کوئی بھی کام دین اسلام کے مطابق نہیں تھا، اور وہ سب دنیا نے بھی دیکھا ، کیونکہ ان باغیوں نے جن کے سربراہ ابو بکر البغدادی ہیں انہوں نے شام میں انبیاء کرام کے مزارات کو مسمار کرنا شروع کیا ، اس کے بعد جس کسی نے بھی داعش کے حکم کو ماننے سے انکار کیا اس کو ذبح کرنا شروع کر دیا ، بات یہیں پر نہیں رکی ، داعش کے ان باغیوں نے ملک شام میں قائم مساجد، گرجہ گھروں ، عیسائیوں کے قبرستان سمیت تمام تر میوزیمز اور دیگر جگہوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔

یہاں ایک اور بات واضح کر دوں یہ دنیا کے واحد ایسے باغی ہیں کہ جو ملکِ شام اور عراق میں تباہیاں تو مچا ہی رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں، وہ کیسے ؟ تو آئیں آپ کو ایک اس سوال کا جواب بھی دے دوں جو شاید آپ لوگوں کے ذہن میں اٹھتا ہو گا اور وہ یہ کہ امریکہ، لندن، کینیڈا، آسٹریلیا، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے فراد خصوصاً نوجوان بہت کثیر تعداد میں داعش میں کیوں کر شامل ہو رہے ہیں؟ اور اکثریت تو اپنا ملک چھوڑ کر شام اور عراق بھی پہنچ چکی ہے،،،، تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ وہ تین چیزوں کو مانگتا ہے جس میں سب سے پہلے: ١۔غذا ٢۔تحفظ ٣۔جنسی ضروریات کو پورا کرنا اور داعش نے انہی تین چیزوں کو بنیاد بنا کر اپنا کام شروع کیا، داعش کے زیر اثر وہ ٹیم جو انٹرنیٹ پر اپنا کام کر رہی تھی انہوں نے دنیا بھر میں خصوصاً مغرب میں ایسے نوجوانوں کو اپنی جانب متاثر کرنا شروع کیا جو کسی نہ کسی حوالے سے تنہائی کا شکار تھےاس عالمی دہشتگرد تنظیم نے بہت چالاکی سے یہ کام کیا اور ان نوجوانوں کو اس بات کو یقین دلایا کہ ان کے والدین نے آج تک ان کی کوئی تربیت نہیں کی، ان کا کوئی خیال نہیں رکھا، ان کے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ اگر وہ جہاد کرنے شام یا عراق آجائیں تو ہم ان کو ہر طرح کا تحفظ، بہترین غذا اور ہر طرح کی جنسی ضروریات کو پورا کریں گے،،، وہ مغربی معاشرہ جہاں ہر کوئی مصروف ترین زندگی گزار رہا ہے وہاں اس ایک پیغام نے ایسا گہرا اثر ڈالا کہ نوجوان چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں وہ اس تنظیم میں شامل ہونا شروع ہو گئے ۔ المختصر یہ کہ داعش نے اسلام کے نام چینی،چاپانی، امریکی، جرمن، عراقی ، شامی اور دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو گلے کاٹنے شروع کئے اور اس کی ویڈیوز نیٹ پر آتی گئیں ، ان ویڈیوز نے دنیا بھر میں کہرام برپا کر دیا،،،، اس کی کیا وجہ تھی ؟وہ یہ تھی کہ یہ داعش کی شکل میں سامنے آنے والے کوئی ایسے باغی نہیں ہیں جو اپنے حقوق کی جنگ لڑ کے خاموش ہو جائیں بلکہ اس کے پیچھے پورا ایک پری پلان گیم ہے،جس کا مقصد پوری دنیا میں انتشار پھیلانا اور مسلمانوں کو بدنام کرنا ہے۔

یہ آپ کے سامنے ان باغیوں کی بات تھی جو داعش کے نام سے جانے جاتے ہیں، اب ذرا بات کرتے ہیں ہم یمن میں وہاں کی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والے قبائیلیوں کی کہ ا ن کی اس بغاوت کے پیچھے کیاداستان ہے ؟ در اصل یمنی لوگ اپنی فطرت میں ایک آزادی پسند کثیر نسلی جنگجو قبائلی ہیں۔یہاں جس نے بھی جس نظریے سے حکومت کی اس نے قبائلی جوڑ توڑ کے بل پر ہی حکومت کی سعودی عرب کے برعکس یمنی قبائل وہابیت کی چھتری تلے مجتمع نہ ہوسکے۔ یہاں کی ایک تہائی آبادی زیدی شیعہ ہے اور اس آبادی کی اکثریت بھی شمالی یمن کے سعودی عرب سے ملنے والے دو صوبوں سدہ اور امران میں بستی ہے۔جب تک ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت تھی تب تک سعودیوں کو زیدیوں سے زیادہ شکایت نہیں تھی۔لیکن ایران میں خمینی انقلاب کے بعد سعودیوں کو خدشہ ہوا کہ کسی دن ایرانی ان زیدیوں کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں لہذا دل میں ایسا نفسیاتی کھٹکا پیدا ہوگیا کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔جب کہ زیدیوں کو کئی برس سے یہ شکایت پیدا ہوچلی ہے کہ سعودی اسٹیبلشمنٹ ان قبائل کو اپنے مذہبی نظریے پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 1994میں ہی یمن میں کے اندرچار ارب بیرل کے تیل کے ذخائر سے دو لاکھ بیرل روزانہ کی پیداوار بھی شروع ہوگئی تھی جو اب کافی بڑھ گئی ہے، یمن کے تیل کی پیداوار ان صوبوں سے آتی ہے جن کی حد سعودی عرب سے لگتی ہے، ملک میں اپنے حقوق نہ ملنے کے سبب گذشتہ برس ستمبر میں زیدی قبائل نے وفاقی اقتدارمیں حصے داری کے وعدے پورے نہ ہونے کے پر ماضی ی طرز پر چلتے ہوئے پھر بغاوت کردی اور دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور اب ملک کے بیشتر علاقوں پر ان کا کنٹرول بتایا جاتا ہے۔صدر منصور ہادی بھی اپنے ایک پیشرو امام بدر کی طرح بھاگ کے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں اور سعودی قیادت میں ان کی حکومت کی بحالی کے لئِے مشترکہ عرب فوجی کارروائی جاری ہے جو سعودی عرب کے بقول زیدیوں نے ایرانیوں کی حمایت سے چھین لی ہے۔ حالانکہ زیدیوں کے ساتھ سابق سنی صدر علی عبداللہ صالح کے فوجی حامی بھی مل گئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ یمن کی یہ جنگ کوئی فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہے کیونہ اگر ایسا ہوتا تو صرف کوئی ایک فرقہ ہی اس میں شامل ہوتا جبکہ اگر دیکھا جائے تو یمنی باغیوں میں زیدی شیعہ اور سنی ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ اور یہ جدوجہد دراصل ایک اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یمن میں اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے یہ زیدی شیعہ (قبائلی) اپنے حقوق نہ ملنے پر ایک مورچے پر لڑتے تو دوسری جانب انہیں القائدہ اور داعش کی بھی مخالفت کا سامنا ہے اورتیسری طرف سوائے اومان کے خلیج ریاست کے 5 ارکان جن میں پاکستان بھی شامل ہے ان یمنی (اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے) قبائلیوں کے خلاف ہے۔

یہ صرف اور صرف ایک ریسرچ پر منحصر تمام تر حالات و واقعات ہیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کر دئے ہیں، اور یہ بھی بتا دوں کہ صرف ابھی نہیں اس سے قبل بھی یمن کے یہ قبائلی کئی بار اپنے حقوق جو ان سے چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے حصول کے لئے کھڑے ہو چکے ہیں۔۔۔۔ تو کیا اپنے حقوق نہ ملنے پر آواز اٹھانا غلط ہے ، اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے، آیا شام و عراق میں دہشت پھیلانے والے باغی (داعش) درست ہیں یا پھر اپنے حقوق نہ ملنے پر حکومت کے خلاف ہونے والے باغی(یمنی قبائل) ٹھیک ہیں۔ فیصلہ آپ پر چھوڑا

Comments

comments