شہباز بھٹی ہم شرمندہ ہیں – تیرے قاتل زندہ ہیں – عامر حسینی

ta1489098_10206222383626896_9075755603399609329_n

دو مارچ 2009ء جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک سال ہونے والا تھا اور اس کے ایک جیالے گورنر کو اپنے ہی ایک جنونی گارڑ کے ھاتھوں مارے جانے پر دوسرا مہینہ ہوا تھا تو اسلام آباد کے ایک علاقے میں علی الصبح شہباز بھٹی کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا ، ان کے قتل کی زمہ داری دیوبندی تکفیری تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی اور یہ زمہ داری قبول کرتے ہوئے شہباز بھٹی پر فرد جرم یہ لگائی گئی کہ شہباز بھٹی بلاسفیمر تھا جس شہباز بھٹی سے میں واقف تھا ، وہ شہباز بھٹی سر سے پیر تک سیاسی اعتبار سے قائد عوام شہید زوالفقار علی بھٹو اور ان کی شہید بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی فلسفہ و فکر کا پیرو تھا ، وہ اول وآخر ایک جیالا تھا اور سیاست ہی اس کا اورڑھنا بچھونا تھی

مذھبی اعتبار سے وہ کیتھولک کرسچن تھا لیکن وہ مذھبی پیشوائیت سے باغی تھا اور کرسچن ملائیت کے بارے میں اس جیالے کے خیالات وہی تھے جو ایک مسلم جیالے کے اپنی ملائیت کے بارے میں ہوسکتے تھے ، لیکن وہ ملحد نہیں تھا ، اسے ہم ایک سیکولر ، لبرل کتھولک کرسچن کہہ سکتے ہیں تو ایسے لبرل ، سیکولر مذھبی شخصیت پر بھلا بلاسفیمی کا الزام کیا معنی رکھتا تھا

شہباز بھٹی کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو سلمان تاثیر کے ساتھ ہوا تھا ، شہباز بھٹی نے پنجاب کے علاقے گوجرہ تحصیل میں کرسچن کالونی جلائے جانے ، وہاں کے مکینوں پر منظم حملوں کے پیچھے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان سمیت کئی منظم دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے ھاتھ کا سراغ لگالیا تھا اور اس نے اسے محض ایک بلوائی ، غیر منظم اور وقتی اشتعال کے تحت کیا جانے والا واقعہ ماننے سے انکار کیا تھا اور اس نے پوری دنیا کے سامنے ان زمہ داران کے اصل چہرے بے نقاب کرنے کے لئے مہم چلائی تھی اور وہ بھی سلمان تاثیر کی طرح پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے اندر اور اس کے اتحادیوں کے اندر موجود تکفیری دہشت گردوں کی نشاندھی کررہا تھا اور سلمان تاثیر کی طرح شہباز بھٹی بھی پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص مذھبی جنونیت کے پیچھے موجود منظم نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کی سعی کررہا تھا

میں سمجھتا ہوں کہ آصف علی زرداری نے ایک سال کے اندر اقتدار میں پی پی پی کے آنے کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور اس کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ روابط کے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے اور مذھبی جنونیت کا مقابلہ کرنے کے لئے سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی کو میدان میں اتارا اور ادھر وزرات حج و مذھبی امور حامد سعید کاظمی کے حوالے کی اور یہ اقدام ایسے تھے جنھوں نے ایک طرف سعودی لابی کو متحرک کیا تو دوسری طرف دیوبندی تکفیری لابی متحرک ہوئی اور ان کے میڈیا میں حامیوں نے شور مچایا

شہباز بھٹی کی جانب سانحہ گوجرہ کے بعد بلاسفیمی لاز میں خامیوں کو دور کرنے کے لئے حکومت سے بلاسفمی لاز ریفارم کمیٹی کی منظوری لینا اور شہباز بھٹی کا اس کمیٹی کی صدارت کرنا پاکستان میں مذھبی جنونیت کے علمبرداروں کے لئے ناقابل برداشے تھا اور وہ سلمان تاثیر سے بھی اسی لئے ناراض ہوئے تھے کہ اس نے بھی آصف زرداری کو کہا تھا کہ بلاسفیمی لاء میں ترمیم کی جائے

لیکن جنوری میں سلمان تاثیر کے قتل اور پھر مارچ میں شہباز بھٹی کا قتل ایسے واقعات تھے کہ آصف علی زرداری نے نہ صرف وہ بلاسفیمی لاز ریفارم کمیٹی ختم کردی بلکہ اس موضوع پر کسی قسم کی بات بھی اس کے بعد پی پی پی حکومت کی جانب سے سننے کو نہیں ملی بلکہ پی پی پی نے سرکاری طور پر ان دو شہیدوں کا تذکرہ بھی بند کردیا ، سلمان تاثیر کی برسی پر جیسے پی پی پی نے کوئی بڑا پروگرام ارینج نہیں کیا تھا ، ایسے ہی اس مرتبہ شہباز بھٹی کی برسی پر بھی کوئی مرکزی ، صوبائی یا ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پر تقریب منعقد نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان کی برسیوں پر حکومت وقت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان کے قاتلوں کو کیفردار تک پہنچائے

بے نظیر بھٹو شہید کے قتل کے حوالے سے تفشیشی آفیسر کی رپورٹ آگئی ہے کہ وہ قتل دیوبندی مدرسہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طالب علموں نے کیا اور اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پی پی پی کو دیوبندی تکفیری دہشت گردوں کے ھاتھوں کس قدر بڑے نقصان اٹھانے پڑیں ہیں لیکن اس کی مداہنت و مصلحت سمجھ سے باہر ہے

شہباز بھٹی کی شہادت پر اس وقت کی قومی اسمبلی و سینٹ کے اجلاس میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور اپنی نشستوں سے کھڑے ہونے کو کہا تو پورے ھال میں یہ جمعیت العلمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے اراکین اسمبلی تھے جو اپنی سیٹوں پر بیٹھے رہے تھے اور شہباز بھٹی کے احترام میں انھوں نے اپنی سیٹوں سے کھڑے ہونے کا تکلف بھی نہ کیا ، میں نے آج آصف علی زرداری کی تصویر جب مولوی فضل الرحمان کے ساتھ دیکھی تو مجھے تکلیف کا احساس ہوا کہ کم از کم شہباز بھٹی کی برسی والے دن تو زرداری اس ٹولے کے ساتھ نہ بیٹھتے جس نے شہباز بھٹی کے لئے اپنی سیٹ سے اٹھنا پسند نہ کیا اور جس کے دہشت گردوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا ، مانا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن اس طرح کے معاملے میں دل اگر سنگ ہو تو اسے کم از کم اپنے محبوب کے قاتلوں بارے سنگ ہی رہنا چاہئیے

شہباز بھٹی ، سلمان تاثیر ، شہید بے نظیر بھٹو اور سانحہ کارساز اور سانحہ راولپنڈی 27 دسمبر کے شہداء کے قتل کی زمہ دار دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیمیں ہیں جن کے نظریہ ساز اہل سنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کی قیادت ، ان کے ہمدرد ہیں ، مولوی فضل الرحمان سے لیکر سمیع الحق تک اورمفتی رفیع عثمانی سے لیکر مفتی نعیم تک سب کے سب دیوبندی تکفیری آئیڈیالوجی کی فصل کو توانا بنانے کے جرم وار ہیں ، کسی نے ھل چلایا ، کسی نے بیج ڈالا ، کسی نے گوڈی کی ، کسی نے سپرے کیا اور کسی نے چنائی کی اور کسی نے اس فصل کو بازار میں لاکر بیچنے میں سہولت کاری کی خدمت فراہم کی اور کدی نے فصل کٹنے کے دوران فصل کاٹنے والوں کی شناخت کو چھپانے کا کام کیا ، شہباز بھٹی کے قتل پر اکسانے والا اور طالبان و جنداللہ ولشکر جھنگوی کے لیے عذر تلاش کرنے والا مولوی طاہر اشرفی جیسے دیوبندی ملا اعتدال اور امن کے گھنٹہ گھر بنکر سامنے آگئے اور ہمارا میڈیا ان کو “میں اور مولانا ” جیسے ٹاک شو میں نابغہ و جینئس بناکر دکھاتا پھرتا ہے

سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مذھبی جنونیت کے خلاف چمپئن اور سورما بھی اس کی آبیاری کرنے والے کہلارہے ہیں اور ہمارا میڈیا کا ایک سیکشن ان کی اس دھوکہ دہی کو سب سے بڑا سچ بناکر پیش کرنے میں مصروف ہے اور شہباز بھٹی ، سلمان تاثیر ، راشد رحمان جیسوں کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ایک خواب نظر آتا ہے اور ہماری سیکولر ، لبرل جماعتیں اس پر مصلحت ، موقعہ پرستی اور خود غرضی کا شکار نظر آتی ہیں

Comments

comments