نواز لیگ، جیو ٹیلی ویژن اور کالعدم تکفیری تنظیم کی مثلث پاکستانی عوام سے کیا چاہتی ہے – عمار کاظمی

lud11ns

پچھلی بار توہین اہلبیت، حامد میر اور آئی ایس آئی والے معاملات پر جب جیو کے خلاف پابندی کی آوازیں اُٹھیں تو بہت سے معتدل مذہبی لوگوں نے توہین اہلبیت کے معاملے پر دل آزاری کے باوجود پابندی کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ وجہ بہت مناسب تھی کہ یہ معتدل لوگ مذہب، مسلک و مکتب فکر جیسے زاتی معاملات یا کسی جھوٹے سچے نیشنل انٹرسٹ کو بنیاد بنا کر معاشرے کی تنگ نظری میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

چند روز پہلے طلعت حسین نے مولانا احمد لدھیانوی کا انٹریو کیا جو جیو ٹی وی نیٹورک پر نشر کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر لبرل سیکولر سمیت متعدل مذہبی حلقوں نے بھی اس نشریات کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور ایل یو بی پی جیسی بڑی لبرل ویب سائٹ نے اس پر کڑی تنقید کی۔ اور اب اُس پر تنقید کے جواب میں سوشل میڈیا کی ایک بنیاد پرست ویب سائٹ “ملت نیوز” جو اصل میں شاید ملٹنٹ نیوز ہے اس وڈیو کو شئیر کرتے ہوئے اس کی مزید تشہیر کچھ اس طرح کے الفاظ سے کر رہی ہے کہ “مولانا احمد لدھیانوی کے اس انٹرویو کو نشر کرنے پر جیو اک بار پھر پابندی کے خطرے سے دوچار ہے۔ آخر اس انڑویو میں ایسی کیا بات کہی گئی، سنیئے اس ویڈیو میں”۔

تو ان کی اس فضول دلیل کے جواب میںسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۔۔۔ کیا ایک کالعدم جماعت کے سربراہ کا موقف جیو جیسے بڑے اور “امن کی آشا” کے خود ساختہ داعی چینل پر انٹرویو کی شکل میں پیش کرنا ہی قابل اعتراض نہیں ہے؟ مولانا احمد لدھیانوی دیوبند ہیں۔ جب اسی متکب فکر کے حافظ طاہر اشرفی، مفتی نعیمی، مولانا طارق جمیل، مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق جیسے کم و بیش کوئی دو درجن لوگ پہلے ہی مین سٹریم میڈیا پر ہر وقت کسی نہ کسی مذہبی یا سیاسی حیثیت میں بیٹھے مکتب دیوبند کی نمائندگی یا اس سے جُڑی دہشت گردی کی حمایت اور وکالت کرتے نظر آتے ہیں تو ایسے میں ایک کالعدم جماعت کی متنازعہ شخصیت کا ہی انٹر ویو نشر کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟ واضع رہے کہ بریلوی پاکستان کی اکثریت اور دیوبند اور شیعہ کم و بیش ایک برابر ہیں۔

مگر بریلوی، شیعہ اور خاص طور پر بریلوی مکتب فکر کے اتنے ترجمان جیو یا دیگر میڈیا چینلز پر کبھی نظر نہیں آئے۔ پہلے فوج نے اپنی تمام مساجد میں سو فیصد دیوبند پیش امام بھرتی کر کے معاشرے کو عدم توازن کا شکار کیا اور اب جیو جیسا بڑا چینل اور طلعت حسین جیسا معروف صحافی بھی وہی کام کرنے لگا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ایک فرقہ پرست مُلا جو اپنے علاوہ دوسروں کو کافر خیال کرتا ہے اس کے موقف کو یوں یکطرفہ طور پر پیش کرنے سے کیا پہلے لگی فرقہ واریت کی آگ میں شدت آئے گی یا کمی ہوگی؟ یقینا اس انٹرویو کا نشر ہو جانا ہی ملک میں لگی فرقہ واریت کی آگ کو بڑھا وا دینے کے لیے کافی سے زیادہ ثابت ہوگا۔

دوسری طرف اگر طالبان سمیت تمام فرقہ پرست کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی دشمنی کا رجحان دیکھا جائے تو اس بات کے واضع اشارے موجود ہیں کہ اس وقت ان سے نہ کسی ن لیگی وزیر کو خطرہ ہے اور نہ ہی کسی بڑے میڈیا ہاوس کو۔ ان کی دھمکیوں زد میں اس وقت سر فہرست جنرل راحیل شریف، فوجی تنصیبات، ملک کے تمام اے پی ایس، معروف نجی سکول، بریلوی شیعہ قیادت اور چند گنتی کے ایسے صحافی ہیں جو متکب دیو سے جُڑی دہشت گردی کی “دیوبند” شناخت پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تو کیا جیو، دیگر میڈیا چینلز اور صحافی اسی وجہ سے مولانا احمد لدھیانوی اور مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کا انٹریو نشر کرتے رہے ہیں کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں ان سے خوش رہیں؟

یقیننا اس کی پیچھے خوف، خود غرضی اور پاکستان دشمنی کے سوائے کوئی دوسری تیسری وجہ سمجھ نہیں آتی۔ یہ بھی عجب تماشہ ہے کہ مقتولین کے نمائندگان کا تو کوئی سولو انٹرویو نہیں کیا جاتا مگر مارنے والوں کو ہر جگہ بولنے کا موقعہ فراہم کیا جاتا ہے۔ میڈیا والے شاید یہ دلیل دیتے ہونگے کہ یہ لوگ فرقہ واریت میں فریق کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے انھیں مدعو کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر یہ لوگ فرقہ واریت میں براہ راست فریق ہیں تو پھر علماء دیوبند کا جم غفیر میڈیا پر کس کی نمائندگی کرنے آتا ہے؟ صاحبزادہ حامد رضا، امین شہیدی یا راجہ ناصر عباس کا موازنہ آپ مفتی نعیمی، طاہر اشرفی، مولانا طارق جمیل وغیرہ سے تو کر سکتے ہیں مگر ان کا مقابلہ و موازنہ احمد لدھیانوی یا مولانا عبدالعزیز کیساتھ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ان دونوں حضرات کا مقابلہ صرف اور صرف ماضی میں دفن سپاہ محمد کی قیادت سے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان کے ساتھ بھی ان کا موازنہ معاشرے میں ان حضرات کی طرف سے دیے گئے خود کُش بمباروں کے تحفے سے پہلے کے وقت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

نواز لیگ کے وزرا کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ فوٹو سیشن اور جیو کی طرف سے نواز لیگ کے دفاع اور کالعدم تنظیموں کے موقف کو کوریج دینے سے کیا مطلب لیا جائے؟ سمجھ نہیں آتی کہ یہ جیو، ن لیگ اور کالعدم جماعتوں کی مثلث ریاست پاکستان کے شہریوں اور افواج پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے۔ چوہدری نثار اپنے حالیہ امریکی دورے میں ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی کہتے نظر آئے کہ جنگ مسلہ کا حل نہیں ہے۔ یعنی اے پی ایس کے بچے اور ستر ہزار سے زائد پاکستانی مروانے کے بعد بھی مزاکرات ہی کی ضرورت ہے۔

شاید وہ امریکہ سے تازہ اور سخت فوجی موقف کے خلاف حمایت وصول کرنے ہی گئے تھے۔ ان کی اس بات میں یہ واضع اشارہ موجود ہے کہ مسلم لیگ نواز اور فوجی قیادت ایک پیج پر نہیں ہے اور وہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں یا طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کے سخت اور حقیقی آپریشن کے حق میں نہیں ہے۔ اسی طرح سے جیو والے کبھی کالعدم جماعتوں کے مظاہرے دکھا رہے ہوتے ہیں اور کبھی یہ دہشت گردی کے اہم واقعات پرمٹی ڈالنے کا کام کر تے ہیں۔

ان حالات میں اگر بریلوی یا شیعہ کمیونٹی کی طرف سے جیو پر پابندی کا مطالبہ پھر سے دھرایا جاتا ہے تو ہمارے لیے آزادی ء اظہار کے داعی ہونے کے باوجود اُس کا دفاع مشکل ہوگا۔

Comments

comments