اویا بیدر کا گمشدہ لفظ اور پاکستانی ادیبوں کی بلوچ اور شیعہ نسل کشی پر بے اعتنائی – از عامر حسینی
اویا بیدر ترکی کی بہت معروف ادیبہ اور سوشل ڈیموکریٹ ہیں انہوں نے ترکی کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کے عتاب سے بچنے کے لئے 12 سال جلاوطنی کاٹی – ان کے ناول دی لوسٹ ورڈ کا ہما انور کا کیا ہوا اردو ترجمہ ابهی پڑھ کر فارغ ہوا ہوں- ترجمے اور اشاعت کی قباحتوں سے قطع نظر اس پوسٹ میں مجهے “گمشدہ لفظ ” کے بارے میں یہاں اپنے پڑهنے والوں کو کچه بتانا ہے کہ اس ناول کا بنیادی تهیم وہ مخصوص وجودی صورت حال ہے جو ترک نیشنلزم کے اس بیانئے سے جنم لیتی ہے جس میں ترک ،آرمینی ، عرب ، پرشین اپنی شناخت ، حقوق اور اپنے وجود سے ہی محروم کردئے جاتے ہیں اور اس تناظر میں جب کرد قومی تحریک کا ظہور یوتا ہے تو کیسے ایک طرف کرد کس تجربے سے گزرتے ہیں اور خود وہ ترک جو اس تنازعے میں کہیں بهی براہ راست زمہ دار نہیں یوتے وہ کیسے اس تنازعےسے اٹهنے والی جنگ کا نشانہ بنتے ہیں اس کی عکاسی اویا بیدر نے کی ہے
اویا بیدر کا ایک کردار ترک ادیب ہے ،دوسرا کردار اس کی سائنس دان بیوی ،تیسرا کردار مینڈیز ہے جو ان کا بیٹا ہے اور پهر بہت سے کردار ان کی توسط سے ناول کی کہانی میں داخل ہوتے ہیں -اویا بیدر اس ناول میں سب سے زیادہ عام آدمیوں کی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور المیوں کو اجاگر کرتی ہے جو کسی بالادست قوم اور محکوم قوم کے درمیان ابهرنے والے تنازعے سے رونما ہوتی ہیں اور اکثر تو یوں ہوتا ہے کہ هر دو اطراف سے وہ لوگ مارے جاتے ہیں جو اس لڑائی کے کسی بهی لحاظ سے شریک نہیں ہوتے اور یہاں عمرارین کو ایک بوڑهی عورت ٹکراتی ہے جس کا بیٹا هنگری میں عوامی بغاوت کو کچلنے والی فوج کے هاتهوں مارا جاتا ہے اور پهر خود اس کے اپنے بیٹے کی نارویجین بیوی جس سے مینڈیز اس وقت شادی کرتا ہے جب وہ عراق میں جنگی رپورٹر بن کر گیا ہوتا ہے اور مسلسل خون ،قتل و غارت گری دیکهکر وہ فیڈاپ ہوجاتا ہے اور پهر جب وہ امریکی فوجوں کے ساته ملکربغداد کے گردنواح نکلتا تو وہاں ایک عام عراقی دیہاتی اپنے بچے کے ساته ایک کپ چینی لینے نکلتا ہے اور وہاں اسے امریکیوں سے واسطہ پڑتا ہے وہ اس پر چیختے چلاتے ،گالیاں بکتے اور اور اس ہر گنیں تانتے ہیں اور اس کے لئے امریکیوں کی بهاشا سمجه سے باہر ہوتی ہے وہ خوفزدہ ہوکر زمین اپنے بچے کو بانہوں میں چهپا کر بیٹه جاتا ہے امریکی اسے تیز دندانے دار باڑ پر پهینک دیتے ہیں اور وہ ایک زخمی هاته کے ساته اپنے بیٹے کو سینے سے چپکائے بیٹها ہوتا ہے اس نے ہڈ پہنا ہوا ہوتا ہے ایسے میں وہ اپنے جدید کیمرے سے اس عراقی کی اس کے بیٹے کے ساته تصویریں بناتا ہے
موجودہ زمانے کے ایک متاثرہ شخص کی گوشت پوست والی تصویر نےاسے پیٹا مجسموں کا کیری کیچر بناکر بے معنی بنادیا ،جو مغربی ثقافت کے انتہائی قابل قدر ورثے میں سے ہے ،نجات دہندہ ،صلیب سے اتارے جانے کے بعد ماں کی بانہوں میں پڑا ہوا قربان شدہ بیٹا :موت کی سزا سنائے جانے والے زخمی باپ کا مجسمہ ،قیدی جو اپنے بچے کی حفاظت نہ کرسکا
ڈینز کہتا ہے کہ میں نے انسانیت کی ساری تکلیفوں کو ساکت تصویروں میں بدل دیا تها – اس کا خیال تها کہ ظلم و بربریت کی تصاویر اتارنا ،ظالم و آمر کے ساته تعاون یا شراکت داری کی ایک قسم ہے ،اس نے محسوس کیا کہ سامنے ہونے والے قتل کو روکنے کی کوشش کرنے کی بجائے ان کی تصویریں کهینچنے اسے شریک جرم کردیا بنادیا تها – اس کا ماننا تها کہ انسانی غم واندوہ کی تصویروں کی صورت منجمد کرکے دوام بخشنے اسے ہمیشہ کے لئے فرسودہ اور معمول کی بات بنادیا تها اسے ان ٹی وی انٹرویوز ،خبروں اور تصاویر سے اہانت اور خوف محسوس ہونے لگا جو اس قدر شہرت اور روپیہ کماتے تهے جس قدر خون ریزی ،موت اور تباہی دکهاتے تهے ،وہ جس قدر سفاکی ،تباهی ،تشدد ،بے بسی ،مایوسی اور نسل انسانی کی زلت کو عریاں کرتے ،اسی قدر اچها – بس یہ احساس ہوتے ہی ڈینز اپنا جدید کیمرہ بیچکر چند روپے جیب میں ڈال کر نروے کے ایک دور دراز جزیرے میں آکر گمنامی اور لاتعلقی کی زندگی گزارنے لگتا ہے اور یہاں پر وہ ایک لڑکی اولا سے شادی کرلیتا ہے
عمرارین کے زریعے سے ہم ایک ایسے کرد نوجوان سے ملتے ہیں جس کے ماں باپ کی خواہش تهی کہ ان کا بیٹا جدید تعلیم حاصل کرے اور کسی طرح سے ترک قوم کی پیٹی بورژوازی کی طرح سیٹل ہوجائے اور اسے کرد قوم پر مسلط جنگ اور کرد قوم کے خلاف ترک سامراجیت کی کاروائیوں سے کوئی گزند نہ پہنچے اور ایک نارمل لائف گزارے لیکن وہ نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم ادهوری چهوڑ کرد علاقے میں چلا جاتا ہے اقر کرد گوریلہ بن جاتا ہے یہ وہی علاقہ ہوتا ہے جب وی چهوٹا سا تها تو اس کے ماں باپ کے ساته اسے وہاں سے نکلنا پڑا تها اور اس نے دیکها تها کہ کس طرح ترک فوج نے ان کے کهیتوں کهیلیانوں ،گهروں کو جلاکر راکه کردیا تها اور ترک جیٹ طیارے وہاں بمباری کرتے تهے پهر وہ اس تنازعے سے اکتا جاتا ہے اور نارمل زندگی گزارنے کی خواہش لئے پہاڑوں سے فرار ہوکر ترک علاقے کی طرف آتا ہے تو اس کی بیوی جوکہ حاملہ ہوتی ہے ایک ان دیکهی گولی سے شدید زخمی ہوجاتی ہے اور ان کا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی رخصت یوجاتا ہے اور ایک نارمل زندگی گزارنے کا خواب کرچی کرچی ہوجاتا ہے – ایسا ہی حادثہ ڈینز کے ساته ہوتا کہ وہ گمنام جزیرے سے جب استنبول اپنی بیوی کو اپنے ماں باپ سے ملانے پہنچتا ہے تو اس کی بیوی ایک اسکوائر میں خود کش بمبار کے هاتهوں نشانہ بن جاتی ہے
اصل میں عالمی سامراجی سرمایہ دار دنیا جس میں سرمایہ داری کی حرکیات کے بطن سے اور پوسٹ کالونیل دور میں جس طرح سے ایک مکک کی سرحدوں کے اندر بالادست اور غالب قوم کی حکمران کلاس کے نیشنلزم کے بطن سے چهوٹی اور مغلوب اقوام کے لئے جو جبر،استحصال ،محرومی جنم لیتی ہے اس سے جو قومی آزادی کی تحریک جنم لیتی ہے تو اس وقت بالادست قوم اپنی باکادست کو برقرار رکهنے کے لئے جنگجو ،جارحانہ اور وحشیانہ نیشنلزم کو سامنے لیکر آتی ہے اوربالادست قوم کی بورژوازی کے ساته ساته پیٹی بورژوازی بهی اس تشدد پسند، نیشنلزم کا ساته دیتی ہے اور مظلوم قوم کو اپنی شناخت ،آزادی ،خودمختاری اور حقوق پر اصرار کی سزا یہ دی جاتی ہے کہ ان کی نسل کشی کی جاتی ہے ،ان کی زبان پر پابندی عائد ہوتی ہے ،ان کو گنوار ،بے تہزیب ،دهشت گرد،درندے ،وحشی ،تاریک خیال قرار دے دیا جاتا ہے ،ان کو مینسٹریم میڈیا پر بین کردیا جاتا ہے
اویابیدر کے اس ناول میں کرد نوجوان کو یاد کرتے دکهایا گیا کہ کیسے اسکول ،کالج کی کتابوں مین تاریخ کے سارےهیرو ترک تهے، کلچر ترکوں کا تها ، زبان ترکوں کی تهی تو لامحالہ ان کے زهن میں سوال اٹها کہ کیا کردوں کا کوئی هیرو نہ تها،ان کا کوئی کلچر بهی تها ،کوئی شناخت بهی تهی یا نہیں
میں جب اویا بیدر کےاس کردار کی جانب سے اٹهائے جانے والے ان سوالات پر غور کررہا تها تو مجهے پنجابیوں اور ایرانی فارسی خوانوں کے مقابلے میں بلوچ نوجوان نسل کے اٹهائے جانے والے سوالات یاد رہے تهے جو آج کہتے ہیں کہ کیا بلوچ قوم کی اپنی کوئی زبان ،کوئی کلچر ،کوئی هیرو نہیں ہے جو پنجابی یا فارسی خوانوں کے کلچر کی برابری کرسکے اور وہ صاف کہتے ہیں کہ پاکستانی نیشنلزم ایک خارجیت پسند نیشنلزم ہے جس سے بلوچ ، سندهی ، سرائیکی ، پشتون خارج کردئے گئے
ویسے اویا بیدر پیٹیٹ بورژوا سوشل ڈیموکریٹ ہیں اس لئے ان کے اپنے طبقاتی پس منظر سے ابهرنے والے خیالات جس میں یوٹوپیائی ،مثالیت پسند عناصر بہت غالب ہیں بار بار سرایت کرتے ہیں اور ان کے ناول کے کردار پیٹی بورثوازی کے وہ ریڈیکل انقلابی ہیں جو بہت جلد مایوسی اور ریڈیکل پاته ترک کرنے کا باعث بن جاتے ہیں اور مثالی حل تلاش کرتے ہیں تضاد کا چاہے وہ طبقاتی ہو یا قومیتی ہو
اس ناول کے کردار بهی ترک -کرد قومیتی تضاد کو بهی مثالیت پسندی سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوران کے ہاں کہیں بهی یہ نظر نہیں آتا کہ وہ اس ایشو پر ترک بالادست ،ظالم ،غالب حکمران بورژوازی اور مظلوم قوم کی موقعہ پرست پیٹی بورژوازی اور بورژوازی کو شکست دئے بغیر مظلوموں کی جیت کا یقین رکهتی ہے – یہی وجہ ہے کہ اس ناول کا هیرو آخر میں پیٹی بوژوازی یوٹوپیائی امن پسندی کا فارمولا دریافت کرتا ہے اور یہی وہ گمشدہ لفظ ہے جو آخر میں پالیتا ہے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بهی قوم کی آزادی اور خودمختاری کو مثالی امن پسندی سے کبهی کہیں حاصل نہیں کیا جاسکا -اور پهر اس ناول کی تہہ میں یہ یقین بهی غالب نظر آتا ہے کہ گلوبل سامراجی سرمایہ داری اوراس کی چیرہ دستیوں سے دوردراز کٹے ہوئے جزیرے میں آباد ہوکربچا جاسکتا ہے لیکن این خیال است و محال است
میں سوچتا ہوں کہ اب تک میں کرد، فلسطین ، کشمیر ،افریقی ملکوں پر یہاں تک کہ جنوبی هندوستان مین چل رہی قومی تحریکوں پر بہت ہی شاندار ناول اور وجودی احساس سے لبریز ادبی وفور کے حامل مضامین پڑه چکا ہوں لیکن پاکستان میں شیعہ نسل کشی ،احمدی، بلوچ، سندهی، سرائیکی، پشتون نسل کشی پر اور پاکستانی نیشنلزم کے خارجیت پسند، بے رحمانہ کردار اور مظلوم قوموں اور مزهبی کمیونٹیز کی وجودی حالت زار پر کوئی ناول ،کوئی غیر معمولی کہانی نہیں پڑهی
بلکہ میں نے اس کے برعکس طالبان، القاعدہ، جیش محمد کے کرداروں کی تحسین کرنے اور پاکستانی نیشنلزم سے جڑے تصورات کو پهیلانے سے متعلق پاکستان کے ادیبوں کی تحریریں اور ناول پڑهے جیسے محسن حامد کا ناول رلکٹینٹ فنڈا منٹلسٹ ہے،فلمیں دیکهیں اور مضامین پڑهے، حال ہی میں پاکستانی سرخوں اور مارکسیوں کے سرخیل ڈاکٹر لال خان نے عراق میں سلفی و دیوبندی دہشت گردوں کے غلبے کو امریکی استعمار کے خلاف انقلاب سے تشبیہ دی ہے
لے دے کر ایک محمد حنیف ہیں جنهوں نے بلوچ قومی سوال پرذرا کهلے انداز میں لکهے لیکن اردو میڈیم کے باقی ادیبوں اور شاعروں نے تو اس پر چپ سادھ رکهی ہےاور اکثر نثر نگار اویا بیدر جیسا کام بلوچ کے حوالے سے کرنا نہیں چاہتے – لیکن محمد حنیف بهی پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو ہزارہ نسلیت اور ثقافت کے آئینے سے باہر آکر دیکهنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ بهی کافی مرتبہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو ایران سعودی پراکسی لائن میں دیکهتے ہیں، سنی بریلوی اور شیعہ نسل کشی میں ملوث گروہوں کی کامن دیوبندی شناخت پر بات ہی نہیں کرتے، اور ایران سعودی یا شیعہ سنی فالس بائنری تخلیق کر کے ایک طرح سے مظلوم ،مقتول ،مجبور گروہ کو حارب اور جارح قرار دے دیتے ہیں گویا یہ شیعہ اور سنی ہیں جو ایک دوسرے کے مدقابل ہیں جب کہ اس ساری کہانی میں فسطائی جارحیت اور جنگ اور کهلا حملہ آور دیوبندی وہابی فاشسٹ ہیں جن کی پشت پناہی کہیں سعودیہ ،قطر ،کویت اور کہیں آئی ایس آئی ، کہیں امریکی سی ائی اے اور موساد کرتی ہیں اور کہیں ترک حاکم ان کی حمائت میں آگے آتا ہے اور ان پس پردہ ڈونرز سے بھی آگے گلوبل سلفی وہابی دهشت گردی جس کی پارٹنر دیوبندی تکفیری جماعتیں ہیں خود بهی ایک مکمل خود مختار آئڈیالوجی اور وجود رکهتی ہیں اور ان کا اپنا ایجنڈا بهی سامنے ہوتا ہے اور اس تشخیص مرض کو فرقہ واریت سے تعبیر کرنا اور جس پر نسل کشی مسلط کی گئی ہو ،جس کو یک طرفہ طور پر قتل کیا جارہا ہو اور اس کے وسائل کی لوٹ کهسوٹ ہورہی ہو اور ایسے میں اگر وہ دفاع کے طور پت هتہیار اٹهائے اور وہ بهی محض ظالموں،غاصبوں کے خلاف استعمال کرے تو ان کو دہشت گرد کہنا اور یہ کہنا کہ وہ بهی جنگ کے برابر کے فریق ہیں اور ایک لا یعنی غیر جانبداری اختیار کرلی جائے تو یہ ظالم اور درندوں کی حمایت کے مترادف ہے میرے خیال میں بلوچ سوال اور دیوبندی دہشت گردوں کے ہاتھوں سنی بریلوی اور شیعہ نسل کشی کے سوال پر بہت سے نام نہاد سیکولر، لبرل دانشور، سیاسی کارکن اسی طرح سے ظالموں کے ساته کهڑے ہیں
Comments
Tags: Commercial Liberals & Fake Liberals, Misrepresentation of Shia Genocide, Mohammed Hanif, Turkey
Latest Comments
شاندار مضمون ہے عامر صاحب کا قلم آج کل خوب جولانی پر لگتا ہے ،کیا نقشہ کهینچا ہے اور کہاں سے بات شروع کی اور کہاں پر ختم کی ،اس قدر وسیع کنیوس کے حامل ایشو کو ایک مضمون میں بیان کردیا گویا کوزے میں دریا بند کرڈالا ،ویل ڈن
بس زرا پروف کی غلطیاں ہیں وہ ٹهیک کرلی جائیں