برطانوی صحافی کارلوٹا گیل کا دیوبندی دہشت گردی پر غیر مبہم موقف

image-1024x576-300x168

حال ہی میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ” دی رانگ انیمی ”میں کتاب کی مصنفہ محترمہ کارلوٹا گیل نے تکفیری نظریات میں کراۓ کے قاتل تکفیری دیوبندیوں کے بارے میں کافی وضاحت کے ساتھ لکھا جو کہ ایک نہایت بہادرانہ اقدام تھا اور اس قسم کے ٹھوس موقف کی کمی پاکستانی میڈیا میں صاف دیکھی جا سکتی ہے –

اپنی کتاب میں وہ رقم طراز ہیں :

ایک آنکھ والا ملا عمر جو کہ ایک جنگجو ہے کسی بھی صورت میں کسی مقابلے سے پیچھے نہیں ہٹے گا – ایک غریب گھر میں پلا ایک یتیم لڑکا جس کو اس کے چچا نے پالا جو کہ خود بھی ایک گاؤں کا ملا تھا –  اپنی نو عمری سے لڑنے والا پاکستانی دیوبندی مدرسوں میں اسلام کی سخت ترین تشریح پڑھنے والا اور افغانستان میں پھیلتے ہوے دیوبندی اثر رسوخ کی صورت حال میں اس کی پہچان ایک جنگجو کی سی ہے –

کالی اور سفید پٹیوں والا جمعیت علما اسلام فضل الرحمان کا جھنڈا جو تقریباً ہر گاؤں میں ہر دوسرے گھر کی
چھت پر لہرا تھا تھا – سیمنٹ کی اینٹوں سے بنے ، خلیجی ممالک سے آنے والی فنڈنگ سے تعمیر شدہ دیوبندی مدرسے – کچھ پہاڑوں میں مولانا فضل الرحمن زندہ باد کے نعرے درج تھے –

فضل الرحمان ڈیرہ اسمٰعیل خان  کا ایک دیوبندی پشتون ملا ہے جو طالبان پر کافی حد تک اثر رکھتا ہے اور جمعیت علما اسلام کا رہنما ہے بلکل اسی طرح جیسے اس سے پہلے اس کا باپ مفتی محمود تھا – اور یہ فضل الرحمان کے دیوبندی مدرسے ہی تھے جن میں سے زیادہ تر طالب علم طالبان میں شامل ہوے تھے اور انیس سو چرانوے میں اقتدار پر قابض ہوے –

حقانیہ مدرسہ ، اسٹیبلشمنٹ کے کافی قریب تصور کیا جاتا ہے – ملا سمیح الحق جو کہ ضیاء الحق کے بہت قریب تھا اس کے زیر انتظام چلنے والا یہ دیوبندی مدرسہ سفید رنگ کی عمارت پر مشتمل ہے جس میں پاکستان اور افغانستان کے تین ہزار کے لگ بھگ پشتون طلبا زیر تعلیم ہیں – افغانستان میں لڑنے والے پچانوے فیصد طالبان اس مدرسے کے طالب علم رہ چکے ہیں – ملا یوسف شاہ نے یہ بات نہایت فخریہ انداز میں بیان کی

دو ہزار نو میں جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا تو آرمی نے اپنے پسندیدہ دیوبندی ملا حافظ طاہر اشرفی کو بطور ثالث بلایا – جو کہ ایک سابقہ جہادی تھا اور تب سے ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت بن چکا ہے جو اپنا شو کرتا ہے وہ ایک بار مجھے انٹرویو دینے کے لئے تیار ہوا جو کہ لاہور کے ایک جم میں کیا گیا تھا جہاں گلابی رنگ کے صوفے میں دھنسا ، سامنے شیشے کے میز پر رکھے تین آئی فون کا مالک کالی داڑھی اور سفید کپڑوں میں ٹی وی پر ظاہر ہونے والے اشرفی نے مجھ سے بات کی –

اشرفی نے فرقہ وارانہ حملوں کی مذمت کر کے اور توہین رسالت کے مقدمات میں غلط الزام میں گرفتار لوگوں کی حمایت میں سامنے آ کر ایک سخت گیر مولوی ہونے کا تصور جھٹلایا لیکن پھر بھی جہادی اور جہادی گروہوں کی حمایت کرنے میں طاہر اشرفی کا کوئی ثانی نہیں ہے – اس نے مجھے بتایا کہ اس نے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں قید سات سو پاکستانیوں کی آزادی یقینی بنایی جن میں کیی خطرناک طالبان کمانڈر بھی شامل تھے – دو ہزار سات میں لال مسجد کے دیوبندی ملاؤں سے مذاکرات کے لئے طاہر اشرفی کو بلایا گیا –

اشرفی نے آرمی کی طرف سے جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے ڈاکٹر عثمان سے بھی طویل مذاکرات میں حصہ لیا جس میں انہوں نے تقریباً تمام کالعدم تنظیموں کے سربراہوں کو بلایا تھا تا کہ یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے یہ سوچتے ہوے کہ ان حملہ اوروں کا تعلق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ سے ہے آرمی نے بد نام زمانہ دہشت گرد تکفیری دیوبندی لشکر جھنگوی کے سربراہ لدھیانوی کو آرمی کے جہاز میں ثالث کا کردار نبھانے کے لئے بلایا

جب ڈاکٹر عثمان نے کہا کہ اسے لشکر جھنگوی کے ایک اور گروہ کے چند افراد کی آزادی مطلوب ہے ہے تو جرنیل کیانی نے اپنے ہیلی کاپٹر میں لشکر جھنگوی دیوبندی کے تکفیری دیوبندی دہشت گرد رہنما ملک اسحاق کو لاہور کی جیل سے آزاد کروا کے بلایا جہاں وہ انیس سو ستانوے سے چوالیس دہشت گردی کے مقدمات میں قید تھا جس میں شیعہ مسلمانوں پر حملے کے گیے تھے – کیانی نے ملک اسحاق دیوبندی کو ایک نہایت اہم مہمان کی حثیت سے خوش آمدید کیا کہ وہ یرغمالیوں کو چھڑانےمیں اس کی مدد کر سکے لیکن اسی دوران ایس ایس جی کمانڈوز کے فجر کے وقت حملہ کر کے پانچ میں سے چار حملہ اوروں کو ہلاک کر کے یرغمالیوں کو چھڑا لیا –

ہم نے مذاکرات کے لئے وقت مانگا تھا – اشرفی نے مجھے بتایا – ہم نے بیالیس لوگوں کی جانیں بچا لیں – عثمان بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن فوجیوں نے اسے اس وقت گرفتار کیا جب انھیں احساس ہوا کہ پانچ خود کش جیکٹس کی موجودگی میں صرف چار دہشت گردوں کی لاشیں موجود ہیں اور پھر انہوں نے اسے چھت کے ایک حصے سے فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیا – دہشت گردوں نے ایک بات تو ثابت کر دی تھی کہ وہ کسی کو بھی جب چاہیں قتل کر سکتے ہیں یا یرغمال بنا سکتے ہیں اور مذاکرات کی میز پر مطالبات بھی منوا سکتے ہیں – مذاکرات کے دوران جب جرنیل کیانی نے ملک اسحاق سے درخواست کی کہ وہ فرقہ وارانہ حملوں میں شیعہ مسلمانوں کو قتل کرنا چھوڑ دے تو ملک اسحاق نے جواب میں کہا کہ ہم اپ کے بیٹے ہیں مگر ہم آپ کی یہ بات نہیں مانیں گے جس کے جواب میں جرنیل کیانی نے چپ سادھ لی

 ملک اسحاق کو انہی مقدمات میں عدم ثبوت کی بنا پر ضمانت پر رہا کر دیا جو کہ دو ہزار نو میں ہونے والی اسی ڈیل کا حصہ تھا مگر مارچ دو ہزار تیرہ میں کویٹہ میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف حملوں میں سینکڑوں جانوں کے زیا کے بعد اسے پھر سے گرفتار کر لیا گیا

لیٹ اس بلڈ پاکستان کے ایڈیٹر علی عباس تاج کے ساتھ کارلوٹا گیل کے انٹرویو سے اقتباس

Comments

comments