اداریہ :حامد میر پر قاتلانہ حملہ اسٹیبلشمنٹ اور لشکر جھنگوی کا مشترکہ منصوبہ تھا یا۔۔۔؟
جیو و جنگ گروپ کے اینکر پرسن اور صحافی حامدمیر پر کراچی ائرپورٹ سے جیو نیوز کے دفتر کی طرف جاتے ہوئے ناتھا پل کے قریب ایک موڑ پر کھڑے نامعلوم شخص نے گولیوں کا نشانہ بنایا اور پھر کارساز تک ان کی گاڑی کا تعاقب موٹر سائیکل اور ایک گاڑی میں سوار لوگوں نے کیا اور ان کی گاڑی پر فائرنگ کرتے رہے
حامد میر اس ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں شدید زخمی ہوئے ،ان کے نیچے دھڑ میں گولیاں لگیں جو بعدازاں آپریشن سے نکال دی گئیں
اس حملے کے فوری بعد حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر جوخود بھی جنگ و جیو گروپ سے وابستہ ہیں جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس حملے کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی )کا ہاتھ ہوسکتا ہے کیونکہ بقول عامر میر کہ ایک ہفتہ پہلے حامد میر نے ان سے ملاقات میں انکشاف کیا تھا کہ اگر ان کی زات کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی زمہ داری ڈی جی آئی ایس آئی اور اس ادارے کے چند اور کرنل رینک کے افسران پر ہوگی
عامر میر کا کہنا تھا کہ حامد میر کی زندگی کو دھشت گردوں سے زیادہ آئی ایس آئی سے خطرہ لاحق تھا اور یہ خطرہ ان کو سابق ڈی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا کے دور سے لاحق تھا
عامر میر نے یہ بھی کہا کہ آئی ایس آئی حامد میر کے بلوچستان ایشو،مشرف ٹرائل،پاک فوج کے بعض جرنیلوں کی سیاست میں ملوث ہونے پر رائے اور پاک فوج کے بعض افسران کی کرپشن کی مذمت کرنے پر سخت اختلاف تھا اور آئی ایس آئی کو حامد میر کا موقف قابل قبول نہیں تھا
آئی ایس آئی اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ حامد میر کے اختلافات کے پیدا ہونے اور ان کو ملنے والی دھمکیوں کی تصدیق معروف صحافی افتخار احمد سمیت ان کے کئی ساتھیوں نے کی ہے
حامد میر نے اپنی جان کو آئی ایس آئی سے لاحق خطرات کے بارے میں ایک ویڈیو بیان ریکارڑ صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی فار جرنلسٹس پروٹیکشن کو بھی بھیجا تھا اور اس واقعہ کے بعد اس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری نے اپنے ایک بیان میں لکھا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اپنے وعدے کے باوجود صحافیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں
پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کا بازوئے شمشیر زن آئی ایس آئی کے بارے میں میں یہ اب کوئی راز نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی نیشنل سیکورٹی اور خارجہ پالیسی اور داخلی پالیسیوں پر فیصلہ کن اختیار کی حامل ہے اور اس حوالے سے رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا کو مینیج کرنے کے لیے پوری کوشش کرتی ہے اور مین سٹریم میڈیا کو کنٹرول کرنے میں اس کا تجربہ بہت پرانا ہے لیکن جب سے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا پاکستان میں بوم ہوا ہے اس وقت سے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور خفیہ ایجنسیوں کو میڈیا مینیج کرنے میں کہیں کہیں بہت مشکلات کا سامنا ہے
ملٹری اسٹبلشمنٹ نے اپنے افسران پر ہونے والی تنقید اور اور اس کی پالیسیوں پر اختلاف کے منظر عام پر آنے کو کبھی بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا ہے اور ایسے صحافی جو ملٹری اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے ناخواشگوار خبروں کو سامنے لیکر آتے ہیں اور اپنے تنقیدی تبصروں و تجزیوں میں اس حوالے سے ناقدانہ اسلوب اپناتے ہیں ان کو اکثر وبیشتر کردار کشی،ہراساں کئے جانے اور یہاں تک کہ انتہائی حالتوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے جیسے حالات سے بھی گزرنا پڑتا ہے
پاکستان کا مین سٹریم میڈیا جس میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے میڈیا کو کنٹرول کرنے اور خبروں کی اشاعت یا ان کو نشر کرنے کے ان کے وضع کئے ہوئے پیرامیٹر سےباہر جانے کی ہمت ہوتی ہے اور اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کا کوئی پرانا مہرہ جو پہلے ان کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر صحافت کررہا ہوتا ہے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ان سے منحرف ہوجاتا ہے یا وہ زیادہ بالغ ،قدآور ہوکر ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ چل نہیں پاتا تو ملٹری اسٹبلشمنٹ جو خود کو اس کے بڑے قدکاٹھ کا سبب خیال کرتی ہے وہ اس جسارت کو ناقابل معافی خیال کرتی ہے تو وہ اپنے سابقہ منحرف مہرے کو سبق سکھانے کا ارادہ کرلیتی ہے اور پھر ہم ایسے المیے رونماء ہوتے دیکھتے ہیں
حامد میر کے صحافتی کیرئیر کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کے تبصرے سامنے آرہے ہیں،ایک تبصرہ نگار نے 90ء کے عشرے میں حامد میر کی افغان طالبان ،فاٹا اور دیگر علاقوں میں ابھرنے اور القائدہ کے ساتھ روابط کے دوران ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگی ہونے کا زکر کرتے ہوئے حامد میر کو آئی ایس آئی کا برین چائلڈ قرار دیتے ہوئے اس کے آج کے موقف کو رد کرنے کی کوشش کی ہے اور اس دوران حامد میر اور جس میڈیا گروپ کے ساتھ وہ کام کرتے ہیں اسے انڈین ایجنٹ قرار دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے
ملٹری اسٹبلشمنٹ اور ایجنسیوں کا یہ پرانا حربہ ہے کہ یہ جس شخص ،گروہ یا جماعت سے نالاں ہوتے ہیں تو اس کے بارے میں ملک دشمن ،غدار،ملک دشمن ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والے قرار دیا جاتا ہے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کو میڈیا کو اس حوالے سے اپنے مطابق ڈھالنے میں بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی جیسا کہ حامد میر پر حملے کے بعد ایکسپریس اور اے آر وائی کی اس واقعے کی رپورٹنگ ،تبصرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے
آج روزنامہ ایکسپریس نے حامد میر پر قاتلانہ حملے کی خبر فرنٹ پیج یا بیک پیج پر نہیں لگائی اور اس کی بجائے فرنٹ پیج پر شہ سرخی یہ جمائی کہ
ملٹری گزٹ ایک بہت پرانا اخبار تھا جس نے کشمیر کے حوالے سے ایک خبر شایع کی جو اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کو بہت گراں گزری تو اس نے ملٹری گزٹ کو بند کردیا اور اس وقت تقریبا سارے ہی اخبارات و رسائل ملٹری گزٹ کے خلاف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ہوگئے تھے اور اس معاملے میں فیض و مظہر علی جیسے صحافی بھی ملٹری گزٹ کے خلاف جاری ہونے والے بیان پر دستخط کئے تھے،اسی طرح جب ایوب خان نے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کمپنی کے اخبارات کو سرکاری تحویل میں لیا تو پاکستانی پریس کے دیگر گروپوں نے اس پر خاموشی اختیار کی اور اکثر نے اس کو صائب اقدام قرار دیا
آج بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ ریاست کے اندر ریاست چلارہی ہے اور یہ اپنے افسران اور عہدے داروں کو مقدس گائے خیال کرتی ہے اور ان کے کسی عمل پر تنقید کو اپنے ادارے پر تنقید خیال کرتی ہے اور کسی بھی ادارے کو تنقید کا حق دینے پر تیار نہیں ہے
مشرف کے ٹرائل کے شروع ہوتے ہی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی طرف سے غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ شروع ہوگیا اور مشرف اور ان کے ساتھیوں کے غیر آئینی اقدامات پر تنقید کرنے والوں کو سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا
ملٹری اسٹبلشمنٹ ایک طرف تو اپنی نام نہاد تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے ناقدوں کو کڑے ہاتھوں لیتی ہے تو دوسری طرف یہ اپنے افسران کی جانب سے پاکستانی اداروں میں بڑے پیمانے پر کرپشن کرنے جیسے این ایل سی ،ریلوے کی اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کیس میں جرنیلوں کا نام آیا کی بھی طرف داری کرتی ہے اور ان کو قانون کے ہاتھوں سے بچاتی ہے اور یہ بلوچستان،سندھ،خیبر پختون خوا سے لوگوں کو ماورائے آئین جو اغواء کرتی ہے اور بلوچ قوم کی نسل کشی اس کے اہلکاروں کے زریعے جو جاری ہے اس پر ہونے والی رپورٹنگ،فیچرز،کالم،تجزیوں اور ٹاک شوز سے بہت تنگ ہے اور بلوچستان کے ایشو پر انسانی ہمدردی کے ساتھ رپورٹنگ کرنا اور اس حالے سے سچ بولنا ملٹری اسٹبلشمنٹ کو فوری طور پر مشتعل کرڈالتا ہے اور بلوچستان کے حوالے سے یہ چیزوں کو ویسے ہی مینیج کرتی ہے جس طرح سے یہ اپنی پراکسیز ،ایٹمی پروگرام،سعودی عرب سے تعلقات اور دیوبندی تکفیری کلنگ مشین کے بعض سیکشنز سے اپنے تعلقات کو چھپانے کے لیے خبروں کو مینیج کرتی ہے
ہمیں اس بات میں کوئی ک نہیں ہے کہ حامد میر نے بلوچستان کے ایشو،مشرف ٹرائل ،آرمی افسروں کی کرپشن پر جو موقف اختیار کیا اس سے وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تنازعے میں آئے اور وائس فار مسنگ بلوچ کے لانگ مارچ کی اسلام آباد آمد کے بعد انھوں نے ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ کے ساتھ جس طرح سے کیپٹل ٹاک شو کیا اور اس میں بلوچستان میں بلوچ نسل کشی اور افراد کے لاپتہ ہونے کا زمہ دار ایف سی،ایم آئی،آئی ایس آئی کو ٹھہرایا اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے جرائم پیشہ لوگوں کے زریعے سے بلوچ قوم کے مزاحمت کاروں سے نمٹنے کی پالیسی کی مذمت کی اس سے شاید ملٹری اسٹبلشمنٹ کی نگاہ میں وہ ریڈ لآئن کراس کرگئے تھے
حامد میر نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کی خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق کی مشرف کے معاملے میں چلنے والی ٹسل میں بھی اپنا پلڑا خواجہ آصف اور خواجہ رفیق کی جانب جھکایا اور فوج کے اندر سیاسی جراثیم کے تاحال موجود ہونے کی مذمت کی جس سے ان کے ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے
حامد میر جوکہ سنٹر رآئٹ دیوبندی انتہا پسندوں اور دیوبندی دھشت گرد جماعت اہل سنت والجماعت کے حوالے سے جرات و ہمت کا وہ مظاہرہ نہ کرسکے جو انھوں نے کم از کم ملٹری اسٹبلشمنٹ کی بلوچ ایشو پر مخالفت کرکے کیا اور مجموعی طور پر شیعہ نسل کشی ،بریلوی،عیسائی،ہندؤ ،احمدی پراسیکیوشن اور اس حوالے سے دیوبندی تکفیری دھشت گرد مشین کے کردار بارے ان کا ڈسکورس مبہم ،گول مول رہا بلکہ گذشتہ محرم میں جب دیوبندی تکفیری احمد لدھیانوی اور دیگر محرم الحرام اور عید میلاد النبی کے جلوسوں کو محدود کرنے اور کئی شہروں میں روٹ بدلوانے کے حق میں مہم چلارہے تھے تو اس وقت بھی حامد میر نے جو کالم لکھے اور ٹاک شو کئے اس میں انھوں نے محمد احمد لدھیانوی کو نہ صرف پروجیکشن دی بلکہ ان کے نکتہ نظر کی حمائت بھی کی اور ایک اور کمی جو ان کی ہمت و بے باکی میں شدت سے محسوس ہوتی رہی یہ تھی کہ انھوں نے بلوچستان میں ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے لشکر جھنگوی کے ساتھ رشتے ناطوں پر کوئی کالم،کوئی تجزیہ اور کوئی ٹاک شو کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی
حامد میر پی پی پی کے دور میں امریکی سفارت خانے کی توسیع اور بلیک واٹر جیسی تھیوریز بھی شیعہ نسل کشی ،غیر مسلم اقلیتوں کی پراسیکوشن اور اہل سنت بریلوی کے مزارات پر حملے اور علماء کے قتل کے حوالے سے شد ومد سے پیش کرتے رہے ہیں جس سے ان کے اس معاملے پر گول مول ڈسکورس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو اس حوالے سے اپنے نکتہ نظر اور روش پر غور کرنا چاہئیے
اس کمی اور کوتاہی کے باوجود ادارہ تعمیر پاکستان اور اس کی ٹیم حامد میر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہے اور پاکستان کے اندر ملٹری اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کے بڑھتے چلے جانے اور آئی ایس آئی کے مبینہ ماورائے آئین و قانون سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں
پاکستان صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ کی متوازی حکومت کا شکار نہیں ہے بلکہ یہ دیوبندی تکفیری دھشت گردوں ،ان کے حامیوں کی متوازی حکومت اور ریاست اندر ریاست کا بھی شکار ہے اور حامد میر سمیت ہمیں صحافیوں ،دانشوروں،سیاسی رہنماؤں کے ایک بہت بڑے سیکشن سے یہی شکائت ہے کہ وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ،ایجنسیوں کی متوازی حکومت کے خلاف تو بہت کھل کر لکھتے ہیں لیکن جیسے ہی دیوبندی دھشت گرد مشین کی متوازی حکومت کا سوال آتا ہے تو اس پر چپ سادھ لیتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور ایجنسیوں ،سیاسی جماعتوں کے اندر اس کلنگ مشین کے حامیوں کے باہمی تعلق و رشتوں کی بھی پردہ پوشی کرتے ہیں اور اس باب پر آکر ان کا موقف بھی وہی ہوجاتا ہے جو مبشر لقمان ،جاوید چودہری ،اوریا جان مقبول ،انصار عباسی جیسوں کا ہے
حامد میر پر قاتلانہ حملے کی زمہ داری کے تعین کے حوالے سے حامد میر کے خاندان اور ان کے قریبی ساتھیوں کے بیانات اور موقف سے ہٹ کر ایک نکتہ نگاہ یہ بھی ہے کہ حامد میر پر یہ قاتلانہ حملہ تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے لدھیانوی مخالف گروپ کی کارستانی ہے اور اس حوالے سے اردو پوائنٹ ویب سائٹ،سماء ٹی وی نے تحریک طالبان پاکستان کی ایک ویب سائٹ کا حوالہ دیا ہے جس میں تحریک طالبان پاکستان کے پنجاب چیپٹر کے نے کہا کہ انہوں نے حامد میر پر یہ حملہ لشکر جھنگوی کراچی کے ساتھیوں کی مدد سے کیا ہے اور حملہ کرنے کی وجہ حامد میر کا ملالہ یوسف زئی کو پروجیکشن دینا،
طالبان کو بدنام کرنا وغیرہ ہے
ہم اس حوالے سے پوری قطعیت کے ساتھ تو کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں لیکن ایک بات ضرور کرتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے ہاں یہ پیٹرن موجود ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کو لشکر جھنگوی یا طالبان کے ان کرائے کے قاتلوں سے سزا دلوانے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتی ہے جو اس کی پراکسی میں اہم کردار کے مالک ہوتے ہیں تو یہ بات خارج ازامکان نہیں ہے کہ حملہ آور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھتے ہوں
حامد میر جیسے صحافی اور میڈیا کے گروپس کو اس طرح کے حملوں سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئیے کہ وہ دیوبندی تکفیری مولویوں اور دھشت گردوں کو جس طرح سے اپنے ٹاک شوز میں بلاتے ہیں اور ان کو کوریج دیتے ہیں اور ان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی یہ پالیسی صحافیوں پر حملوں کو خود میڈیا گروپوں پر حملوں کو روک نہیں پائی ہے بلکہ اس پالیسی نے تو ان کو اور نڈر بنا ڈالا ہے
Related posts: Taliban claim responsibility for attack on Hamid Mir https://lubpak.com/archives/312015
Jang Group’s campaign against ISI but appeasement of Khariji Deobandi terrorists https://lubpak.com/archives/312071
Comments
Tags: Al-Qaeda, Hamid Mir, ISI, Jang Group Jang & The News & Geo, Military Establishment, Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP) & Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) & Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ), Takfiri Deobandis & Wahhabi Salafis & Khawarij
Latest Comments
اب دیر هو گئ بھائی.
ابLJ کی طاقت اور اختیار حکومت سے بھی زیادہ ہیں.
خاص طور پر جب سے ڈیڑھ بلین ڈالر کی سوپاری سعودیہ سے ملی ھے.
After 6 months investigation, Saleem Shehzad Commision admitted failure “to identify the culprits”. http://www.pid.gov.pk/REPORT.pdf